ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فکل ما ورد أنہ قرئ بہ جاز الاحتجاج بہ في العربیہ، سواء أکان متواترا، أم آحادا، أم شاذا‘‘ (الاقتراح، ص۴۸)
’’قراء ت میں جو کچھ بھی بیان کیاگیا، عربی زبان میں اس سے دلیل پکڑنا جائز ہے، چاہے وہ متواتر ہو، احاد ہو یا شاذ ہو۔‘‘
عصر حاضرمیں بھی اس نظریہ کے حامی بہت سے علماء کرام ہیں۔ ہم اختصار کے لیے صرف ایک کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ شیخ رشید رضا بعض آیات کے اعراب میں تفصیل بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’والقرآن فوق النحو والفقہ والمذاھب کلِّھا فھو أصل الأصول، ما وافقہ فھو مقبول وما خالفہ فھو مردود مرذول وإنما یھمنا ما یقولہ علماء الصحابۃ والتابعین فیہ فھو العون الأکبر لنا علی فھمہ‘‘ (تفسیر المنار عند قولہ تعالیٰ: ’’یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ‘‘(المائدۃ:۱۰۶)
’’قرآن مجید، نحو، فقہ اور مذاہب تمام سے برتر ہے۔ یہ اصل الاصول ہے۔ جو اس کے موافق ہے وہ مقبول اور جو اس کے مخالف ہے وہ مردود اور ضائع ہے۔ ہمارے لیے علماء، صحابہ اورتابعین کے اقوال اہم ہیں اور قرآن مجید کے سمجھنے میں سب سے بڑے مددگار ہیں۔‘‘
صدیوں پرمحیط تاریخ کے اوراق میں سے یہ چند ایک نصوص ہیں جو آپ کے سامنے پیش کی ہیں وگرنہ اس بارے میں علماء کے بہت زیادہ اَقوال موجود ہیں۔ میں نے تو مطبوع کتابوں کا بھی احاطہ نہیں کیا جب کہ ہزاروں مخطوطوں میں بہت سا علم موجود ہے۔بہرحال علماء کے ان اَقوال سے ان کا موقف، احساس اور تصور واضح ہوتا ہے۔ لیکن اس نظریہ کی حقیقت، استنباط کے عناصر اور خصائص کی تفصیل نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان باتوں کو کھول کر بیان کیا جائے گا لیکن وہاں علماء کی باتوں میں ایک حرف کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔
’’فکل ما ورد أنہ قرئ بہ جاز الاحتجاج بہ في العربیہ، سواء أکان متواترا، أم آحادا، أم شاذا‘‘ (الاقتراح، ص۴۸)
’’قراء ت میں جو کچھ بھی بیان کیاگیا، عربی زبان میں اس سے دلیل پکڑنا جائز ہے، چاہے وہ متواتر ہو، احاد ہو یا شاذ ہو۔‘‘
عصر حاضرمیں بھی اس نظریہ کے حامی بہت سے علماء کرام ہیں۔ ہم اختصار کے لیے صرف ایک کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ شیخ رشید رضا بعض آیات کے اعراب میں تفصیل بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’والقرآن فوق النحو والفقہ والمذاھب کلِّھا فھو أصل الأصول، ما وافقہ فھو مقبول وما خالفہ فھو مردود مرذول وإنما یھمنا ما یقولہ علماء الصحابۃ والتابعین فیہ فھو العون الأکبر لنا علی فھمہ‘‘ (تفسیر المنار عند قولہ تعالیٰ: ’’یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ‘‘(المائدۃ:۱۰۶)
’’قرآن مجید، نحو، فقہ اور مذاہب تمام سے برتر ہے۔ یہ اصل الاصول ہے۔ جو اس کے موافق ہے وہ مقبول اور جو اس کے مخالف ہے وہ مردود اور ضائع ہے۔ ہمارے لیے علماء، صحابہ اورتابعین کے اقوال اہم ہیں اور قرآن مجید کے سمجھنے میں سب سے بڑے مددگار ہیں۔‘‘
صدیوں پرمحیط تاریخ کے اوراق میں سے یہ چند ایک نصوص ہیں جو آپ کے سامنے پیش کی ہیں وگرنہ اس بارے میں علماء کے بہت زیادہ اَقوال موجود ہیں۔ میں نے تو مطبوع کتابوں کا بھی احاطہ نہیں کیا جب کہ ہزاروں مخطوطوں میں بہت سا علم موجود ہے۔بہرحال علماء کے ان اَقوال سے ان کا موقف، احساس اور تصور واضح ہوتا ہے۔ لیکن اس نظریہ کی حقیقت، استنباط کے عناصر اور خصائص کی تفصیل نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان باتوں کو کھول کر بیان کیا جائے گا لیکن وہاں علماء کی باتوں میں ایک حرف کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔