- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
پانچواں باب
ولایحسبن الذین یبخلون بما اتھم اللہ من فضلہٖ ھوخیراً الھم بل ھوشرلھم سیطوفون مابخلوبہ یوم القیمۃ وللہ میراث السمٰوت والارض واللہ بماتعملون خبیر(ال عمران۳:۱۸۰سے ۱۸۲)
ترجمہ :جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہترخیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بدترہے ، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے ، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سناجنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گے اور ان کا انبیا کو بے درجہ قتل کرنابھی، اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلنے والا عذاب چکھو!
توضیح :اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بخیل کا بیان کیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتاحتیٰ کہ اس میں سے فرض زکوٰۃ بھی نہیں نکالتا حدیث میں ہے کہ قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت خوفناک سانپ بنا کرطوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرامال ہوں ، میں تیراخزانہ ہوں (صحیح بخاری)
جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا: من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا(البقرۃ:۲۴۵)’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ‘‘ تو یہود نے کہا اے محمد(ﷺ)!تیرارب فقیر ہو گیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے ؟ جس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(ابن کثیر)
واعبدواللہ ولاتشرکوابہ شیاوبالوالدین احسانا الذین یبخلون ویامرون الناس بالبخل ویکتمون ما اتھم للہ من فضلہٖ واعتدنا للکفرین عذابامھینا (النسآء۴:۳۶۳۷)
ترجمہ :اور اللہ کی عبادت کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو ے کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسندنہیں فرماتاجو لوگ خودبخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیارکر رکھی ہے
توضیح :اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں حقوق العباد کو بیان فرمایا ہے اس کے بعد بخل کرنے والوں اور بخل پر ابھارنے والوں کی مذمت اور پھر فرمایا کہ ہمارے دیئے ہوئے کو چھپاتے ہیں یعنی کتھڑی اوڑھ کرگھی کھانے والے بخیلوں وکنجوسوں کو کافر ین کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے فرمایا ہم نے کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے العیاذباللہ
ومنھم من عھداللہ لئن اتانا من فضلہٖ لنصدقن ولنکونن من الصلحین فلما اتھم من بخلوابہ وتولواوھم معرضون(التوبہ۹:۷۵۷۶۷۷)
ترجمہ :ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگروہ ہمیں اپنے فضل سے مال دے گاتوہم ضرور صدقہ وخیرات کریں گے اور پکی طرح نیکوکاروں میں ہو جائیں گے لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیاتو ہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑلیا پس اس کی سزامیں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک کیونکہ انھوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کا خلاف کیا اور کیوں کہ جھوٹ بولتے رہے
توضیح : مدینہ کے کچھ منافقین کچھ ایسی ہی تمنالئے ہوئے تھے جب ان کی یہ تمنا پوری ہو گئی تو پھر اس سے مکر گئے اور بخل کا رویہ اختیارکرلئے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ روش ناگوار گزری ان کی یہ حرکت کے مذمت میں یہ آیات نازل ہوئیں معلوم ہواکہ بخل کنجوسی کتھڑی اوڑھ کر گھی کھانے والے منافق ہیں یہ امیرلوگ حاجی، نمازی، صوفی تو نظر آئیں گے مگرجب کس ضرورت مندوں کو ان کے پاس بھیجیں تو پھر دیکھوکیسے یہ اپنا بخیلی کا پینترا بدلتے ہیں ایسے لوگوں کو آیات مذکورہ سے نصیحت پکڑناچاہئے
بخل
ولایحسبن الذین یبخلون بما اتھم اللہ من فضلہٖ ھوخیراً الھم بل ھوشرلھم سیطوفون مابخلوبہ یوم القیمۃ وللہ میراث السمٰوت والارض واللہ بماتعملون خبیر(ال عمران۳:۱۸۰سے ۱۸۲)
ترجمہ :جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہترخیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بدترہے ، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے ، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سناجنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گے اور ان کا انبیا کو بے درجہ قتل کرنابھی، اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلنے والا عذاب چکھو!
توضیح :اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بخیل کا بیان کیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتاحتیٰ کہ اس میں سے فرض زکوٰۃ بھی نہیں نکالتا حدیث میں ہے کہ قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت خوفناک سانپ بنا کرطوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرامال ہوں ، میں تیراخزانہ ہوں (صحیح بخاری)
جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا: من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا(البقرۃ:۲۴۵)’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ‘‘ تو یہود نے کہا اے محمد(ﷺ)!تیرارب فقیر ہو گیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے ؟ جس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(ابن کثیر)
واعبدواللہ ولاتشرکوابہ شیاوبالوالدین احسانا الذین یبخلون ویامرون الناس بالبخل ویکتمون ما اتھم للہ من فضلہٖ واعتدنا للکفرین عذابامھینا (النسآء۴:۳۶۳۷)
ترجمہ :اور اللہ کی عبادت کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو ے کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسندنہیں فرماتاجو لوگ خودبخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیارکر رکھی ہے
توضیح :اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں حقوق العباد کو بیان فرمایا ہے اس کے بعد بخل کرنے والوں اور بخل پر ابھارنے والوں کی مذمت اور پھر فرمایا کہ ہمارے دیئے ہوئے کو چھپاتے ہیں یعنی کتھڑی اوڑھ کرگھی کھانے والے بخیلوں وکنجوسوں کو کافر ین کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے فرمایا ہم نے کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے العیاذباللہ
ومنھم من عھداللہ لئن اتانا من فضلہٖ لنصدقن ولنکونن من الصلحین فلما اتھم من بخلوابہ وتولواوھم معرضون(التوبہ۹:۷۵۷۶۷۷)
ترجمہ :ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگروہ ہمیں اپنے فضل سے مال دے گاتوہم ضرور صدقہ وخیرات کریں گے اور پکی طرح نیکوکاروں میں ہو جائیں گے لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیاتو ہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑلیا پس اس کی سزامیں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک کیونکہ انھوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کا خلاف کیا اور کیوں کہ جھوٹ بولتے رہے
توضیح : مدینہ کے کچھ منافقین کچھ ایسی ہی تمنالئے ہوئے تھے جب ان کی یہ تمنا پوری ہو گئی تو پھر اس سے مکر گئے اور بخل کا رویہ اختیارکرلئے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ روش ناگوار گزری ان کی یہ حرکت کے مذمت میں یہ آیات نازل ہوئیں معلوم ہواکہ بخل کنجوسی کتھڑی اوڑھ کر گھی کھانے والے منافق ہیں یہ امیرلوگ حاجی، نمازی، صوفی تو نظر آئیں گے مگرجب کس ضرورت مندوں کو ان کے پاس بھیجیں تو پھر دیکھوکیسے یہ اپنا بخیلی کا پینترا بدلتے ہیں ایسے لوگوں کو آیات مذکورہ سے نصیحت پکڑناچاہئے