• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
اور بات یہ ہورہی کہ اگر سیدھ ہاتھ سے الٹے ہاتھ کی بازو جو آپ کا ترجمہ ہے پکڑیں تو ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔ اب اگر آپ سینے کی تعریف پوچھیں گے تو میرا جواب یہ ہوگا کہ آخری پسلی تو سینہ شمار ہوتا ہے اس کے پیٹ شروع ہوجاتا ہے ۔ اور یہ اس کی لمبائی اور چوڑائی اسٹینڈر نہیں ہے ۔ ہر آدمی کا کے سینے ، پیٹ اور بازوں کا حجم مختلف ہے تو اوپر والا کلیہ کیسے لاگو ہوگا۔ واضح رہے کہ آپ کا ذکر کردہ ترجمہ کے تحت یہ ساری بات کی ہے۔

ہاں اگر صرف سیدھےہاتھ سے الٹے ہاتھ کی کلائی کو پکڑا جائے تو پھر سینے پر ہاتھ رکھنے کا اسٹینڈر ہوسکتا ہے ۔
اس کو مختلف جسامت والے لوگوں پر تجربہ کر کے دیکھا جاسکتا ہے ۔ جب دونوں چیزوں کی روایت مل رہی ہے تو احسن تو یہی ہے کہ کسی ایک مشروط نہ کیا جائے بلکہ دونوں کو عمل میں لے آیا جائے ۔
واللہ اعلم
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
میرے محدود علم کے مطابق موجودہ دور میں امت مسلمہ کی اکثریت کا سینے سے نیچے ہاتھ باندھنے پر عمل ہے۔
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
فراز بھائی میں نے عرض کیا ھتا
؎؎امام نسائی فرماتے ہیں سماک بن حرب جب منفرد ہو تو حجت نہیں۔(میزان ج2 ص232) اور اس میں یہ منفرد ہے
دوسرا سفیان کا عمل اس روایت کے خلاف ہے ، میرے پاس مسلم شرح نووی نہیں ہے اس میں آپ چیک کرلیں ۔
بھائی پہلی بات فارمیٹنگ ختم کرکے لکھا کرے
دوسری بات امام نسائی رحمہ اللہ کی بات کا جواب گزچکا ہے اوپر یہ قول مکمل نہیں تھا جو آپ نے پیش کرا مکمل ملاحظہ ہوں
امام نسائی رحمہ اللہ کا مکمل قول ملاحظہ ہوں
وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن بحجة، لانه كان يلقن فيتلقن.

ميزان الاعتدال (2/ 233)
امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں جب یہ کسی متن کو نقل کرنے میں منفرد ہو‘تو یہ حجت نہیں ہوگا کیونکہ اسے تلقین کی جاتی تھی اور یہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا۔

تیسری بات امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول محترم آپ خود بھی تھوڑی محنت کرلے اور مکمل حوالہ دیں صرف کاپی پیسٹ سے کام نہیں ہوتا محنت کرنی پڑتی ہے آپ کا دیا گیا حوالہ میچ نہیں ہوا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
بھائی پہلی بات فارمیٹنگ ختم کرکے لکھا کرے
دوسری بات امام نسائی رحمہ اللہ کی بات کا جواب گزچکا ہے اوپر یہ قول مکمل نہیں تھا جو آپ نے پیش کرا مکمل ملاحظہ ہوں
امام نسائی رحمہ اللہ کا مکمل قول ملاحظہ ہوں
وقال النسائي: إذا انفرد بأصل لم يكن بحجة، لانه كان يلقن فيتلقن.


ميزان الاعتدال (2/ 233)
امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں جب یہ کسی متن کو نقل کرنے میں منفرد ہو‘تو یہ حجت نہیں ہوگا کیونکہ اسے تلقین کی جاتی تھی اور یہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا۔

تیسری بات امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول محترم آپ خود بھی تھوڑی محنت کرلے اور مکمل حوالہ دیں صرف کاپی پیسٹ سے کام نہیں ہوتا محنت کرنی پڑتی ہے آپ کا دیا گیا حوالہ میچ نہیں ہوا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک
فراز بھائی مکمل پڑھ لیں پھر کل بات کریں گے۔ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِه•
( مسند احمد ج16ص152 رقم 21864)
ترجمہ: حضرت قبیصہ بن ھلب کے والد حضرت ھلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، آپ اپنے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے تھے، میں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے اس ہاتھ کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے۔
جواب نمبر1:
اولا……… اس میں ایک راوی سماک بن حرب ہے جس پر بہت سارے ائمہ نے کلام کیا ہے۔
1: امام شعبہ بن الحجاج: یضعفہ. اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔

(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم الترجمۃ 4791)
2: امام احمد بن حنبل: سماک مضطرب الحدیث• سماک کی حدیث میں اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص279)
3: امام صالح جَزرہ: یضعف• اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(میزان الاعتدال ج2ص216)
4: محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی:

یقولون انہ کا ن یغلط ویختلفون فی حدیثہ.
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
محدثین کا فیصلہ ہے کہ یہ غلطیاں کرتا تھا ، اس لیے یہ اس کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں۔
5: امام عبد اللہ بن المبا رک: ضعیف فی الحدیث• حدیث میں ضعیف تھا۔

(تہذیب الکمال: ج8 ص131، تہذیب ج3ص67)
6: امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش :فی حدیثہ لین. اس کی حدیث میں ضعف ہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
7: امام ا بن حبان: یخطئ کثیراً. بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔
(تہذیب ج3ص67۔68، کتاب الثقات: ج4 ص339)
8: امام سفیان الثوری: یضعفہ بعض الضعف• اس کو کچھ ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ الثقات: رقم 621، تاریخ بغداد: ج9 ص216)
9: امام بزار: وکان قد تغیر قبل موتہ• وفات سے پہلے اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔
(تہذیب ج3ص68)
10: امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للبیہقی ج2ص178)
11: امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی للذہبی ج1ص448)
12: امام ابن الجوزی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص26)
13: امام نسائی: وَسِمَاكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَكَانَ يَقْبَلُ التَّلْقِينَ
• (سنن النسائی: تحت ح5693 باب ذكر الأخبار التي اعتل بها من أباح شراب السكر)
کہ سماک قوی نہیں، یہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔
ایک مقام پر فرمایا:

اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ لانہ کا ن یلقن فیتلقن•
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
کہ جب یہ کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں کیونکہ اس کو تلقین کی جاتی تو یہ اسے قبول کر لیتا تھا۔
14: امام ابو القاسم الکعبی م 319ھ نے سماک کو”با ب فیہ ذکر من رموہ بانہ من اہل البدع واصحا ب الاھواء“ [اس باب میں ان لوگوں کا ذکر ہو گا جن کو محدثین نے اہلِ بدعت اور خواہش پرست قرار دیا] کے تحت ذکرکیا ہے۔

(دیکھئے قبول الاخبار ومعرفۃ الرجا ل ج2ص381۔390 )
ان تصریحا ت سے ثا بت ہو ا کہ سماک بن حرب جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
ثانیاً……… علی زئی غیر مقلد نے ایک مقام پر لکھا:
”جو راوی کثیر الخطاء، کثیر الاوھام، کثیر الغلط اور سئی الحفظ ہو اس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“

(نور العینین: ص63)
اور سماک بن حرب بھی ضعیف، مضطرب الحدیث، خطا کار، لیس بالقوی (کما تقدم) ہونے کے ساتھ ساتھ بقول امام نسائی جب کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں۔
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
اور اس روایت میں یہ منفرد ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور تحت السرہ والی صحیح روایات کا مقا بلہ نہیں کر سکتی۔
جواب نمبر2:
حدیث ھلب طائی درج ذیل کتب میں کئی طرق سے موجود ہے:

1: مصنف ابن ابی شیبہ (ج3 ص317 باب وضع الیمین علی الشمال. رقم الحدیث3955)
2: مسند احمد بن حنبل (ج16 رقم الحدیث21865، 21866، 21868، 21871، 21872، 21873)
3: مسند احمد بن منیع (بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ: ج2 ص402 رقم الحدیث1803)
4: سنن الترمذی (ج1 ص59 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
5: مختصر الاحکام للطوسی (ص107 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
6: سنن ابن ماجہ (ج1 ص58 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
7: سنن الدار قطنی (ج1 ص288 باب فی اخذ الشمال بالیمین فی الصلاۃ)
8: السنن الکبریٰ للبیہقی (ج2 ص29 باب وضع اليد اليمنى على اليسرى فى الصلاة)
9: التمہید لابن عبد البر (ج8 ص160تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
10: الاستذکار لابن عبد البر (ج2 ص290)
11: شرح السنۃ للبغوی (ج2 ص193 رقم الحدیث571)
12: التحقیق لابن الجوزی (ج1 ص338 رقم الحدیث435)
لیکن ان میں کسی بھی طریق میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ثابت ہوا کہ مسند احمد کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ سماک بن حرب (ضعیف) کی وجہ سے زائد ہوئے ہیں جو کہ صحیح روایات کے مقابلے میں حجت نہیں۔

اس میں واضح صراحت ہے کہ صرف سماک سے علی صدرہ کے الفاظ ہیں ۔
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
فراز بھائی مکمل پڑھ لیں پھر کل بات کریں گے۔ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِه•
( مسند احمد ج16ص152 رقم 21864)
ترجمہ: حضرت قبیصہ بن ھلب کے والد حضرت ھلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، آپ اپنے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے تھے، میں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے اس ہاتھ کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے۔
جواب نمبر1:
اولا……… اس میں ایک راوی سماک بن حرب ہے جس پر بہت سارے ائمہ نے کلام کیا ہے۔
1: امام شعبہ بن الحجاج: یضعفہ. اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔

(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم الترجمۃ 4791)
2: امام احمد بن حنبل: سماک مضطرب الحدیث• سماک کی حدیث میں اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص279)
3: امام صالح جَزرہ: یضعف• اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(میزان الاعتدال ج2ص216)
4: محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی:
یقولون انہ کا ن یغلط ویختلفون فی حدیثہ.
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
محدثین کا فیصلہ ہے کہ یہ غلطیاں کرتا تھا ، اس لیے یہ اس کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں۔
5: امام عبد اللہ بن المبا رک: ضعیف فی الحدیث• حدیث میں ضعیف تھا۔

(تہذیب الکمال: ج8 ص131، تہذیب ج3ص67)
6: امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش :فی حدیثہ لین. اس کی حدیث میں ضعف ہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
7: امام ا بن حبان: یخطئ کثیراً. بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔
(تہذیب ج3ص67۔68، کتاب الثقات: ج4 ص339)
8: امام سفیان الثوری: یضعفہ بعض الضعف• اس کو کچھ ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ الثقات: رقم 621، تاریخ بغداد: ج9 ص216)
9: امام بزار: وکان قد تغیر قبل موتہ• وفات سے پہلے اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔
(تہذیب ج3ص68)
10: امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للبیہقی ج2ص178)
11: امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی للذہبی ج1ص448)
12: امام ابن الجوزی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص26)
13: امام نسائی: وَسِمَاكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَكَانَ يَقْبَلُ التَّلْقِينَ
• (سنن النسائی: تحت ح5693 باب ذكر الأخبار التي اعتل بها من أباح شراب السكر)
کہ سماک قوی نہیں، یہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔
ایک مقام پر فرمایا:

اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ لانہ کا ن یلقن فیتلقن•
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
کہ جب یہ کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں کیونکہ اس کو تلقین کی جاتی تو یہ اسے قبول کر لیتا تھا۔
14: امام ابو القاسم الکعبی م 319ھ نے سماک کو”با ب فیہ ذکر من رموہ بانہ من اہل البدع واصحا ب الاھواء“ [اس باب میں ان لوگوں کا ذکر ہو گا جن کو محدثین نے اہلِ بدعت اور خواہش پرست قرار دیا] کے تحت ذکرکیا ہے۔

(دیکھئے قبول الاخبار ومعرفۃ الرجا ل ج2ص381۔390 )
ان تصریحا ت سے ثا بت ہو ا کہ سماک بن حرب جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
ثانیاً……… علی زئی غیر مقلد نے ایک مقام پر لکھا:
”جو راوی کثیر الخطاء، کثیر الاوھام، کثیر الغلط اور سئی الحفظ ہو اس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“

(نور العینین: ص63)
اور سماک بن حرب بھی ضعیف، مضطرب الحدیث، خطا کار، لیس بالقوی (کما تقدم) ہونے کے ساتھ ساتھ بقول امام نسائی جب کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں۔
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
اور اس روایت میں یہ منفرد ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور تحت السرہ والی صحیح روایات کا مقا بلہ نہیں کر سکتی۔
جواب نمبر2:
حدیث ھلب طائی درج ذیل کتب میں کئی طرق سے موجود ہے:

1: مصنف ابن ابی شیبہ (ج3 ص317 باب وضع الیمین علی الشمال. رقم الحدیث3955)

2: مسند احمد بن حنبل (ج16 رقم الحدیث21865، 21866، 21868، 21871، 21872، 21873)
3: مسند احمد بن منیع (بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ: ج2 ص402 رقم الحدیث1803)
4: سنن الترمذی (ج1 ص59 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
5: مختصر الاحکام للطوسی (ص107 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
6: سنن ابن ماجہ (ج1 ص58 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
7: سنن الدار قطنی (ج1 ص288 باب فی اخذ الشمال بالیمین فی الصلاۃ)
8: السنن الکبریٰ للبیہقی (ج2 ص29 باب وضع اليد اليمنى على اليسرى فى الصلاة)
9: التمہید لابن عبد البر (ج8 ص160تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
10: الاستذکار لابن عبد البر (ج2 ص290)
11: شرح السنۃ للبغوی (ج2 ص193 رقم الحدیث571)
12: التحقیق لابن الجوزی (ج1 ص338 رقم الحدیث435)
لیکن ان میں کسی بھی طریق میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ثابت ہوا کہ مسند احمد کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ سماک بن حرب (ضعیف) کی وجہ سے زائد ہوئے ہیں جو کہ صحیح روایات کے مقابلے میں حجت نہیں۔

اس میں واضح صراحت ہے کہ صرف سماک سے علی صدرہ کے الفاظ ہیں ۔
بھائی میں ان سب باتوں کا جواب دیں چکا ہوں پیچے لگتا ہے آپ نے یا تو پڑھا نہیں یا پڑھنا نہیں چاہتے اور مجھے لگتا ہے آپ نے پھر وہی کاپی پیسٹ والا معاملہ کرا ہے تو بھائی ایسا چلے گا تو معزرت آپ پہلے پڑھے اور پھر پیش کیا کرے میں یہاں فضول کی بحث نہیں کرنے آتا
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
1: امام شعبہ بن الحجاج: یضعفہ. اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم الترجمۃ 4791)
امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160)
2: امام احمد بن حنبل: سماک مضطرب الحدیث• سماک کی حدیث میں اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص279)

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)
3: امام صالح جَزرہ: یضعف• اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(میزان الاعتدال ج2ص216)

امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله (المتوفى293)
4: محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی:
یقولون انہ کا ن یغلط ویختلفون فی حدیثہ.
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)

محمد بن عبد الله بن عمارالموصلى (المتوفى242)
5: امام عبد اللہ بن المبا رک: ضعیف فی الحدیث• حدیث میں ضعیف تھا۔
(تہذیب الکمال: ج8 ص131، تہذیب ج3ص67)

امام عبد الله بن المبارك رحمه الله (المتوفى181)
6: امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش :فی حدیثہ لین. اس کی حدیث میں ضعف ہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)

ابن خراش رافضی (المتوفى283)
7: امام ا بن حبان: یخطئ کثیراً. بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔
(تہذیب ج3ص67۔68، کتاب الثقات: ج4 ص339)

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)
8: امام سفیان الثوری: یضعفہ بعض الضعف• اس کو کچھ ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ الثقات: رقم 621، تاریخ بغداد: ج9 ص216)

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (المتوفى161)
10: امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للبیہقی ج2ص178)
11: امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی للذہبی ج1ص448)
12: امام ابن الجوزی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص26)

ضعفاء
13: امام نسائی: وَسِمَاكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَكَانَ يَقْبَلُ التَّلْقِينَ
• (سنن النسائی: تحت ح5693 باب ذكر الأخبار التي اعتل بها من أباح شراب السكر)
کہ سماک قوی نہیں، یہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔
ایک مقام پر فرمایا:
اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ لانہ کا ن یلقن فیتلقن•

(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
کہ جب یہ کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں کیونکہ اس کو تلقین کی جاتی تو یہ اسے قبول کر لیتا تھا۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)
14: امام ابو القاسم الکعبی م 319ھ نے سماک کو”با ب فیہ ذکر من رموہ بانہ من اہل البدع واصحا ب الاھواء“ [اس باب میں ان لوگوں کا ذکر ہو گا جن کو محدثین نے اہلِ بدعت اور خواہش پرست قرار دیا] کے تحت ذکرکیا ہے۔
(دیکھئے قبول الاخبار ومعرفۃ الرجا ل ج2ص381۔390 )

ابوالقاسم معتزلی کے بارے میں

انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر (تیسرا اڈیشن) مطبوعہ مکتبہ بیت السلام ، ریاض و لاھور

اس کتاب کا مطالعہ کریں صفحہ 221 سے صفحہ 305 تک




 
Last edited:

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
حدثنا يحيى بن سعيد عن سفيان حدثني سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال: يضع هذه على صدره وصف يحيى : اليمنى على اليسرى فوق المفصل.

{أخرجه: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد بن إدريس بن عبد الله بن حيان بن عبد الله بن أنس بن عوف بن قاسط بن مازن بن شيبان بن ذهل بن ثعلبة بن عكابة بن صعب بن علي بن بكر وائل الذهلي الشيباني المروزي ثم البغدادي (م٢٤١ھ) في الكتاب: مسند، ج٥ ص٢٢٦.
ونسخة الثاني: ص١٦٢١، ح٢٢٣١٣، الطبعة بيت الأفكار الدولية.
ونسخة الثالث: ج٧ ص٣٣٧، ح٢٢٣١٣، الطباعة عالم الكتب بيروت لبنان.
ونسخة الرابع: ج١٠ ص٥١٥١-٥١٥٢، ح٢٢٣٨٦، الطبعة دار المنهاج، تحت إشراف الدكتور أحمد معبد عبد الكريم.
ونسخة الخامس: ج٩ ص١١٢، ح٢٢٥٩٨، بتحقيق محمد عبد القدر عطا.
ونسخة السادس: ج١٦ ص١٥٢، ح٢١٨٦٤، بتحقيق حمزة أحمد الزين، الطبعة دار الحديث القاهرة، وقال المحقق: "إسناده صحيح".
ونسخة السابع: ج٣٦ ص٢٩٩، ح٢١٩٦٧، بتحقيق شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وجمال عبد اللطيف، وعبد اللطيف حرز الله، وقال المحقق: "صحيح لغيره"، الطبعة مؤسسة الرسالة}.

{وأخرجه:
جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد بن علي بن عبيد الله بن عبد الله بن حمادى بن أحمد بن محمد بن جعفر بن عبد الله بن القاسم بن النضر بن القاسم بن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن أبي بكر الصديق عبد الله بن أبي قحافة، القرشي التيمي البكري البغدادي المعروف بابن الجوزي (م٥٩٧ھ) في الكتاب: التحقيق في أحاديث الخلاف: كتاب الصلاة: مسائل صفة الصلاة [مسألة: يسن وضع اليمين على الشمال خلافا لرواية عن مالك] ج١ ص٣٣٨، ح٤٣٤، بتحقيق مسعد عبد الحميد محمد السعدني، ومحمد فارس، وقال المحقق: "حسن".
ونسخة الثاني: ج٢ ص١٨٩-١٩٠، مسألة:١٢٩، ح٤٧٧، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي، وقال المحقق: "وإسناده صحيح"}.

{وأخرجه: عماد الدين أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير بن ضو بن درع القرشي البصروي ثم الدمشقي (م٧٧٤
ھ) في الكتاب:
جامع المسانيد والسنن الهادي لأقوم سنن: ج٨ ص٣٦٦، ح١٠٥٦٨، الطبعة الثانية دار خضر، والطبعة الثالثة، ج٦ ص٢٢٠، ح١٠٥٥٤، بتحقيق الدكتور عبد الملك بن عبد الله بن دهيش.
ونسخة الثاني: ج١٢ ص٢٩٦-٢٩٧، ح٩٦٩٣، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي}.
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
ترجمہ: ھلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو دائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بائیں جانب سے بھی اور میں نے نبی علیہ السلام کو اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے کے اوپر رکھے ہوئے دیکھا ہے جبکہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے جوڑ پر تھا۔
مسند امام احمد بن حنبل : ج۱۰ ص۳۲۶، ح۲۲۳۱۳، مترجم : مولانا محمد ظفر اقبال، ناشر: مکتبہ رحمانیہ
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
حدثنا يحيى بن سعيد عن سفيان حدثني سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال: يضع هذه على صدره وصف يحيى : اليمنى على اليسرى فوق المفصل.
ترجمہ: ھلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو دائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بائیں جانب سے بھی اور میں نے نبی علیہ السلام کو اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے کے اوپر رکھے ہوئے دیکھا ہے جبکہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے جوڑ پر تھا۔ مسند امام احمد بن حنبل : ج۱۰ ص۳۲۶، ح۲۲۳۱۳، مترجم : مولانا محمد ظفر اقبال، ناشر: مکتبہ رحمانیہ


{أخرجه: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد بن إدريس بن عبد الله بن حيان بن عبد الله بن أنس بن عوف بن قاسط بن مازن بن شيبان بن ذهل بن ثعلبة بن عكابة بن صعب بن علي بن بكر وائل الذهلي الشيباني المروزي ثم البغدادي (م٢٤١ھ) في الكتاب: مسند، ج٥ ص٢٢٦.
ونسخة الثاني: ص١٦٢١، ح٢٢٣١٣، الطبعة بيت الأفكار الدولية.
ونسخة الثالث: ج٧ ص٣٣٧، ح٢٢٣١٣، الطباعة عالم الكتب بيروت لبنان.
ونسخة الرابع: ج١٠ ص٥١٥١-٥١٥٢، ح٢٢٣٨٦، الطبعة دار المنهاج، تحت إشراف الدكتور أحمد معبد عبد الكريم.
ونسخة الخامس: ج٩ ص١١٢، ح٢٢٥٩٨، بتحقيق محمد عبد القدر عطا.
ونسخة السادس: ج١٦ ص١٥٢، ح٢١٨٦٤، بتحقيق حمزة أحمد الزين، الطبعة دار الحديث القاهرة، وقال المحقق: "إسناده صحيح".
ونسخة السابع: ج٣٦ ص٢٩٩، ح٢١٩٦٧، بتحقيق شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وجمال عبد اللطيف، وعبد اللطيف حرز الله، وقال المحقق: "صحيح لغيره"، الطبعة مؤسسة الرسالة}.

{وأخرجه:
جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد بن علي بن عبيد الله بن عبد الله بن حمادى بن أحمد بن محمد بن جعفر بن عبد الله بن القاسم بن النضر بن القاسم بن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن أبي بكر الصديق عبد الله بن أبي قحافة، القرشي التيمي البكري البغدادي المعروف بابن الجوزي (م٥٩٧ھ) في الكتاب: التحقيق في أحاديث الخلاف: كتاب الصلاة: مسائل صفة الصلاة [مسألة: يسن وضع اليمين على الشمال خلافا لرواية عن مالك] ج١ ص٣٣٨، ح٤٣٤، بتحقيق مسعد عبد الحميد محمد السعدني، ومحمد فارس، وقال المحقق: "حسن".
ونسخة الثاني: ج٢ ص١٨٩-١٩٠، مسألة:١٢٩، ح٤٧٧، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي، وقال المحقق: "وإسناده صحيح"}.

{وأخرجه: عماد الدين أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير بن ضو بن درع القرشي البصروي ثم الدمشقي (م٧٧٤
ھ) في الكتاب:
جامع المسانيد والسنن الهادي لأقوم سنن: ج٨ ص٣٦٦، ح١٠٥٦٨، الطبعة الثانية دار خضر، والطبعة الثالثة، ج٦ ص٢٢٠، ح١٠٥٥٤، بتحقيق الدكتور عبد الملك بن عبد الله بن دهيش.
ونسخة الثاني: ج١٢ ص٢٩٦-٢٩٧، ح٩٦٩٣، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي}.
[/QUOTE]

قال: محمد بن علي النيموي (م١٣٢٢ھ) "رواه أحمد وإسناده حسن لكن قوله علي صدر غير محفوظ" في الكتاب: آثار السنن مع التعليق الحسن: كتاب الصلوة [باب في وضع اليدين علي الصدر] ص١٠٨، ح٣٢٦، بتحقيق ذوالفقار علي.
ونسخة الثاني: ص٧٤، ح٣٢٦، بتحقيق فيض أحمد الملتاني}.
 
Top