فراز بھائی مکمل پڑھ لیں پھر کل بات کریں گے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِه•
( مسند احمد ج16ص152 رقم 21864)
ترجمہ: حضرت قبیصہ بن ھلب کے والد حضرت ھلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا، آپ اپنے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے تھے، میں نے آپ علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے اس ہاتھ کو اپنے سینہ پر رکھتے تھے۔
جواب نمبر1:
اولا……… اس میں ایک راوی سماک بن حرب ہے جس پر بہت سارے ائمہ نے کلام کیا ہے۔
1: امام شعبہ بن الحجاج: یضعفہ. اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم الترجمۃ 4791)
2: امام احمد بن حنبل: سماک مضطرب الحدیث• سماک کی حدیث میں اضطراب ہے۔
(الجرح و التعدیل: ج4 ص279)
3: امام صالح جَزرہ: یضعف• اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔
(میزان الاعتدال ج2ص216)
4: محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی:
یقولون انہ کا ن یغلط ویختلفون فی حدیثہ.
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
محدثین کا فیصلہ ہے کہ یہ غلطیاں کرتا تھا ، اس لیے یہ اس کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں۔
5: امام عبد اللہ بن المبا رک: ضعیف فی الحدیث• حدیث میں ضعیف تھا۔
(تہذیب الکمال: ج8 ص131، تہذیب ج3ص67)
6: امام عبد الرحمٰن بن یوسف بن خراش :فی حدیثہ لین. اس کی حدیث میں ضعف ہے۔
(تاریخ بغداد: ج7 ص272 رقم 4791)
7: امام ا بن حبان: یخطئ کثیراً. بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔
(تہذیب ج3ص67۔68، کتاب الثقات: ج4 ص339)
8: امام سفیان الثوری: یضعفہ بعض الضعف• اس کو کچھ ضعیف قرار دیتے تھے۔
(تاریخ الثقات: رقم 621، تاریخ بغداد: ج9 ص216)
9: امام بزار: وکان قد تغیر قبل موتہ• وفات سے پہلے اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔
(تہذیب ج3ص68)
10: امام عقیلی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء الکبیر للبیہقی ج2ص178)
11: امام ذہبی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(المغنی للذہبی ج1ص448)
12: امام ابن الجوزی: اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص26)
13: امام نسائی: وَسِمَاكٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَكَانَ يَقْبَلُ التَّلْقِينَ
• (سنن النسائی: تحت ح5693 باب ذكر الأخبار التي اعتل بها من أباح شراب السكر)
کہ سماک قوی نہیں، یہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔
ایک مقام پر فرمایا:
اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ لانہ کا ن یلقن فیتلقن•
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
کہ جب یہ کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں کیونکہ اس کو تلقین کی جاتی تو یہ اسے قبول کر لیتا تھا۔
14: امام ابو القاسم الکعبی م 319ھ نے سماک کو”با ب فیہ ذکر من رموہ بانہ من اہل البدع واصحا ب الاھواء“ [اس باب میں ان لوگوں کا ذکر ہو گا جن کو محدثین نے اہلِ بدعت اور خواہش پرست قرار دیا] کے تحت ذکرکیا ہے۔
(دیکھئے قبول الاخبار ومعرفۃ الرجا ل ج2ص381۔390 )
ان تصریحا ت سے ثا بت ہو ا کہ سماک بن حرب جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
ثانیاً……… علی زئی غیر مقلد نے ایک مقام پر لکھا:
”جو راوی کثیر الخطاء، کثیر الاوھام، کثیر الغلط اور سئی الحفظ ہو اس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے۔“
(نور العینین: ص63)
اور سماک بن حرب بھی ضعیف، مضطرب الحدیث، خطا کار، لیس بالقوی (کما تقدم) ہونے کے ساتھ ساتھ بقول امام نسائی جب کسی روایت میں منفرد ہو تو حجت نہیں۔
(میزان الاعتدال ج2ص216، تحفۃ الاشراف للمزی: ج5 ص137، 138)
اور اس روایت میں یہ منفرد ہے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے اور تحت السرہ والی صحیح روایات کا مقا بلہ نہیں کر سکتی۔
جواب نمبر2:
حدیث ھلب طائی درج ذیل کتب میں کئی طرق سے موجود ہے:
1: مصنف ابن ابی شیبہ (ج3 ص317 باب وضع الیمین علی الشمال. رقم الحدیث3955)
2: مسند احمد بن حنبل (ج16 رقم الحدیث21865، 21866، 21868، 21871، 21872، 21873)
3: مسند احمد بن منیع (بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ: ج2 ص402 رقم الحدیث1803)
4: سنن الترمذی (ج1 ص59 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
5: مختصر الاحکام للطوسی (ص107 باب ما جاء فی وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
6: سنن ابن ماجہ (ج1 ص58 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ)
7: سنن الدار قطنی (ج1 ص288 باب فی اخذ الشمال بالیمین فی الصلاۃ)
8: السنن الکبریٰ للبیہقی (ج2 ص29 باب وضع اليد اليمنى على اليسرى فى الصلاة)
9: التمہید لابن عبد البر (ج8 ص160تحت العنوان: عبد الکریم بن ابی المخارق)
10: الاستذکار لابن عبد البر (ج2 ص290)
11: شرح السنۃ للبغوی (ج2 ص193 رقم الحدیث571)
12: التحقیق لابن الجوزی (ج1 ص338 رقم الحدیث435)
لیکن ان میں کسی بھی طریق میں ”علی صدرہ“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ثابت ہوا کہ مسند احمد کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ سماک بن حرب (ضعیف) کی وجہ سے زائد ہوئے ہیں جو کہ صحیح روایات کے مقابلے میں حجت نہیں۔
اس میں واضح صراحت ہے کہ صرف سماک سے علی صدرہ کے الفاظ ہیں ۔