• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
حدثنا يحيى بن سعيد عن سفيان حدثني سماك عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال: يضع هذه على صدره وصف يحيى : اليمنى على اليسرى فوق المفصل.
ترجمہ: ھلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو دائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور بائیں جانب سے بھی اور میں نے نبی علیہ السلام کو اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے کے اوپر رکھے ہوئے دیکھا ہے جبکہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے جوڑ پر تھا۔ مسند امام احمد بن حنبل : ج۱۰ ص۳۲۶، ح۲۲۳۱۳، مترجم : مولانا محمد ظفر اقبال، ناشر: مکتبہ رحمانیہ


{أخرجه: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد بن إدريس بن عبد الله بن حيان بن عبد الله بن أنس بن عوف بن قاسط بن مازن بن شيبان بن ذهل بن ثعلبة بن عكابة بن صعب بن علي بن بكر وائل الذهلي الشيباني المروزي ثم البغدادي (م٢٤١ھ) في الكتاب: مسند، ج٥ ص٢٢٦.
ونسخة الثاني: ص١٦٢١، ح٢٢٣١٣، الطبعة بيت الأفكار الدولية.
ونسخة الثالث: ج٧ ص٣٣٧، ح٢٢٣١٣، الطباعة عالم الكتب بيروت لبنان.
ونسخة الرابع: ج١٠ ص٥١٥١-٥١٥٢، ح٢٢٣٨٦، الطبعة دار المنهاج، تحت إشراف الدكتور أحمد معبد عبد الكريم.
ونسخة الخامس: ج٩ ص١١٢، ح٢٢٥٩٨، بتحقيق محمد عبد القدر عطا.
ونسخة السادس: ج١٦ ص١٥٢، ح٢١٨٦٤، بتحقيق حمزة أحمد الزين، الطبعة دار الحديث القاهرة، وقال المحقق: "إسناده صحيح".
ونسخة السابع: ج٣٦ ص٢٩٩، ح٢١٩٦٧، بتحقيق شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وجمال عبد اللطيف، وعبد اللطيف حرز الله، وقال المحقق: "صحيح لغيره"، الطبعة مؤسسة الرسالة}.

{وأخرجه:
جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد بن علي بن عبيد الله بن عبد الله بن حمادى بن أحمد بن محمد بن جعفر بن عبد الله بن القاسم بن النضر بن القاسم بن محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن أبي بكر الصديق عبد الله بن أبي قحافة، القرشي التيمي البكري البغدادي المعروف بابن الجوزي (م٥٩٧ھ) في الكتاب: التحقيق في أحاديث الخلاف: كتاب الصلاة: مسائل صفة الصلاة [مسألة: يسن وضع اليمين على الشمال خلافا لرواية عن مالك] ج١ ص٣٣٨، ح٤٣٤، بتحقيق مسعد عبد الحميد محمد السعدني، ومحمد فارس، وقال المحقق: "حسن".
ونسخة الثاني: ج٢ ص١٨٩-١٩٠، مسألة:١٢٩، ح٤٧٧، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي، وقال المحقق: "وإسناده صحيح"}.

{وأخرجه: عماد الدين أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير بن ضو بن درع القرشي البصروي ثم الدمشقي (م٧٧٤
ھ) في الكتاب:
جامع المسانيد والسنن الهادي لأقوم سنن: ج٨ ص٣٦٦، ح١٠٥٦٨، الطبعة الثانية دار خضر، والطبعة الثالثة، ج٦ ص٢٢٠، ح١٠٥٥٤، بتحقيق الدكتور عبد الملك بن عبد الله بن دهيش.
ونسخة الثاني: ج١٢ ص٢٩٦-٢٩٧، ح٩٦٩٣، بتحقيق الدكتور عبد المعطي أمين قلعجي}.
قال: محمد بن علي النيموي (م١٣٢٢ھ) "رواه أحمد وإسناده حسن لكن قوله علي صدر غير محفوظ" في الكتاب: آثار السنن مع التعليق الحسن: كتاب الصلوة [باب في وضع اليدين علي الصدر] ص١٠٨، ح٣٢٦، بتحقيق ذوالفقار علي.
ونسخة الثاني: ص٧٤، ح٣٢٦، بتحقيق فيض أحمد الملتاني}.
[/QUOTE]
السلام علیکم
بیگ صاحب بحث سینے پر ہاتھ باندھنے کے ساتھ لفظ ذراع پر ہورہی ہے جس کا ترجمہ بازو ہے۔اور آپ کی پیش کردہ حدیث میں ہاتھ کے جوڑ کا ذکر ہے۔
آپ کی پیش کر دہ حدیث صحیح ہے تو پھر ذراع والی حدیث کے ساتھ اس کی تطبیق کیسے ہوگی۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
یہ یقین تو پہلے بھی تھا کہ غیر مقلد بد تمیز ہوتے ہیں جہاں ان سے جواب نہ بن پڑے تو گالی گلوچ سے بھی نہیں چوکتے مگر محدث فورم کے ذمہ داران کی انصاف پسندی دیکھیں کہ احناف کو بغیر کسی وجہ کے ’’موڈریشن‘‘ یا ’’بین‘‘ کر دیتے ہیں اور جو اپنے ہم مسلک ہیں ان کی پزیرائی جاری رہتی ہے۔
ثبوت
جرح مفسر پیش کی گئی ہے اور یہ حال ہے ابھی تک اور توثیق کے نام پر بولتی بند ہے ان کی
@محمد طارق عبداللہ صاحب اپنے بھائی کی تمیز ملاحظہ فرما لیں۔
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
عدیل بھائی
یہ کتاب پی ڈی ایف پر تو نہیں ہے۔ جیسے ہی آتی ہے اس کا مطالعہ کرتا ہوں۔
محترم میں نے آپ کی پیش کردہ جرح کا تحریری جواب دے دیا ہے پیچھے آپ اسی کا مطاعلہ کرلے ایک بار
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
یہاںاعتراض اس بات پر ہے کہ زبیر علی زئی مرحوم نے ایک صحیح حدیث سے اپنی من مرضی کا مطلب لینے کی کوشش کی ہے۔
حدیث ملاحظہ فرمائیں
َنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَاَ نْظُرَنَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّیْ؟ قَالَ فَنَظَرْتُ اِلَیْہِ قَامَ فَکَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی حَاذَتَا اُذُنَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی ظَھْرِکَفِّہِ الْیُسْریٰ وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ ۔)صحیح ابن حبان:ص577رقم الحدیث1860،سنن النسائی:ج1ص141،سنن ابی داؤد ج 1ص112 باب تفریع استفتاح الصلوٰۃ)
حدیث میں تین اعضاء کا ذکر ایک ساتھ ہے؛
1۔ عَلٰی ظَھْرِکَفِّہِ الْیُسْریٰ ۔۔۔۔۔۔ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر
2۔ وَالرُّسْغِ ۔۔۔۔۔ گٹ
وَالسَّاعِدِ ۔۔۔۔۔ کلائی
اس میں دایاں ہاتھ باندھنے کی جو کیفیت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ سیدھا ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر گٹ کے قریب کلائی پر ہو۔
دیگر احادیث سے واضح ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنا بھی ہے جیسا کہ پہلی پوسٹ میں مذکور ہے۔
ساری احادیث کو سامنے رکھیں تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پوری ذراع پر رکھنے کا عندیہ کہیں نہیں ملتا۔ یہ صرف اپنے مفاد کے لئے گھڑی گئی بات ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اعتراض نمبر 1: غیرمقلدین کی مشہور کتاب القول المقبول اس کے ص341 پر لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر شواہر میں یہ قابل ذکر ہے۔
مسند احمد (4:318) نسائی (2:126) صحیح ابن خزیمہ (480) اور صحیح ابن حبان (485) وغیرہ میں حضرت وائل بن حجر میں ہے ۔۔۔۔
ثُمَّ وضع یده اليمنیٰ علی ظهر كفه اليُسریٰ والرّسغ والساعد۔''
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے جس طریقہ وکیفیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا وہ طریقہ وکیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر کھا۔
شیخ البانی فرماتے ہیں کہ اس کیفیت پر عمل کرنے سے لازماً ہاتھ سینے پر آئیں گے۔ تجربہ کیجئے'' تحقیق المشکاة '' (1:249)
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 341 القول المقبول فی شرح وتعلیق صلوۃ الرسول ﷺ - دارالاشاعت اشرفیہ سندھوبلوکی، قصور
لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس حوالہ کو بیان کرتے مقلدین نے فراڈ سے کام لیا ہے!
''اگرچہ'' کے الفاظ اور پھر مزید موافقت میں حوالاجات بیان کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں مصنف نے اس روایت کو موافقت میں مقبول قرار دیا ہے!
مزید اس فورم پر ہی غازی بھائی کی جانب سے بھی اس کا جواب دیا گیا ہے؛ ملاحطہ فرمائیں:
آپ نے جن اہل علم کے حوالے دئے ہیں یہ لوگ اس کی سند کو ضعیف ماننے کے باوجود بھی شواہد کی روشنی میں اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ:
اس سند کو ضعیف کہنا بھی درست نہیں کیونکہ مؤمل بن اسماعیل کم ازکم حسن الحدیث ہے جیساکہ شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب میں ثابت کیاہے۔
اعتراض نمبر 2: اس روایت میں سماک بن حرب ہے جو کہ استاد ہے سفیان کا ، سفیان فرماتے ہیں سماک بن حرب ضعیف ہے ۔ (میزا ن الااعتدال ج 2 ص 232)
اعتراض نمبر 4: امام نسائی فرماتے ہیں سماک بن حرب جب منفرد ہو تو حجت نہیں۔(میزان ج2 ص232)
سماک بن حرب کے لئے ہم نےآپ کو پہلے ہی پیش کیا تھا، شاید آپ نے اس کا مطالعہ نہیں کیا، اور وہی اشکال دوبارہ دہرادیا؛ ایک بار بھیر پیش کے:
مزید فراز بھائی اور عدیل سلفی بھائی بھی اس کی وضاحت کر چکے ہیں:
اعتراض نمبر 5: کتاب الثق ہم سنی مسلمان غیر مقلدوں( اہلحدیث، وہابیوں) کی طرح نماز میں سےنے پر ہاتھ کیوں نہیں باندھتے؟
مجھے حوالہ سمجھ نہیں آیا! کہ یہ کس کتاب الثق کی بات ہے؟ کسی کی یہ کتاب ہے؟ صفحہ کون سا ہے؟
بہر حال اس کا جواب یہ ہے کہ اہل حدیث اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے موافق عمل کرتے ہیں، اور مقلدین امام کے قول پر!
دراصل سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مقلدین کی عورتیں مقلدین مردوں کی طرح ناف کے نیچے ہاتھ کیوں نہیں باندھتیں؟
وہ مقلدین احناف انہیں کس پر عمل کرواتے ہیں؟ اگر سینے پر ہاتھ باندھنا حدیث سے ثابت نہیں تو!
اعتراض نمبر 6: سماک بن حرب کے تمام شاگرد ھذہ علی ھذہ کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ سےنہ پر ہاتھ باندھنے کو بیان نہیں کرتے ان کے حوالے (سنن ابن ماجہ ج 1 ص 58، مسند احمد ج5 ص 226)
اعتراض نمبر 8: مسند احمد کی روایت میں لفظ ھذہ ہے جس سے دو ہاتھ کا ترجمہ کرنا جہالت ہے اسی وجہ سے غیر مقلدوں کے بہت بڑے مناظر مبشر ربانی اپنی کتاب ” آپ کے سوال قرآن وسنت کی روشنی میں “ کے ص 125جلد اول پر اس رویت کے لفظ ھذہ کو ھذا میں بدل دیا نئے چھاپے میں بھی درست نہیں کیا اور نظر ثانی کرنےوالے زیبر علی زئی کی بھی اس لفظ پر آکر آنکھیں بند ہوگئی اﷲ تعالیٰ غیر مقلدوں کی عقل و آنکھوں کو درست فرمائے۔ آمین
یہ اعتراض جہالت پر مبنی ہے! لیکن مقلدین کو کلام اور کلام کا اشارہ و مقتضی سمجھ نہ آئے تو ہمارا قصور نہین!
ویسے بھی علم الکلام میں جھک مار مار کر مقلدین حنفیہ کی کلام سمجھنے کی مت ماری جاتی ہے!
اب ''هذه علی هذه'' سے ہاتھ پر ہاتھ باندھنا مقصود نہيں تو کیا مقلدین احناف نماز اس سے ''پنڈے سے پنڈا گھسنا'' مراد لیتے ہیں!
اعتراض نمبر 7: یہ روایت کوفہ کی ہے اور کوفہ سے غیر مقلدوں کوپہلے ہی بہت بغض وکینہ ہے اور کوفہ کا عملی تواتر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے۔
یہ بھی مقلدین کی ہفوات ہیں!
ہمیں کوفہ سے نہیں کوفہ کے اہل الرائے اور بدعتیوں سے عداوت ہے!
کوفہ کا عملی تواتر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلہ میں مردود ہے!

بیگ صاحب بحث سینے پر ہاتھ باندھنے کے ساتھ لفظ ذراع پر ہورہی ہے جس کا ترجمہ بازو ہے۔اور آپ کی پیش کردہ حدیث میں ہاتھ کے جوڑ کا ذکر ہے۔
آپ کی پیش کر دہ حدیث صحیح ہے تو پھر ذراع والی حدیث کے ساتھ اس کی تطبیق کیسے ہوگی۔
میرے بھائی! ذراع کہتے ہیں انگلیوں سے کہنے تک کے حصہ کو!
اور بازوں انگلیوں سے کہنے تک کے حصہ کو بھی کہتے ہیں، اور کندھے تک کہ حصہ کو بھی!
لہٰذا جب یہاں بازو ں کہا جاتا ہے، تو مراد کہنیوں تک ہی ہے!
ذراع کے الفاظ سے یہ استدلال قائم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا کہنے تک پہنچنا آخری حد ہے!
اب اس آخری حد ہے! اور کہنیوں سے اوپر کے حصہ کو پکڑنا جائز نہ ہوگا!
اب جو اولی طریقہ یعنی کہ کلائی کے اور اس سے آگے ذراع کے کچھ حصہ پر ہاتھ رکھنے اور اس کی آخری حد کہ کہنی تک انگلیوں کے پہنچنے تک ہاتھ باندھنے کا مقام کیا بنے گا!
آپ خود دیکھ لیں!
عدیل بھائی
یہ کتاب پی ڈی ایف پر تو نہیں ہے۔ جیسے ہی آتی ہے اس کا مطالعہ کرتا ہوں۔
اس کا پہلا ایڈیشن آپ کو پیش کیا جا چکا ہے!
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
مرحوم زبیر ئلی زئی نے ’علی ظہر کفہ الیسری‘ پر توجہ نہیں دی اور ذراع ہی کو لے کر بیٹھ گئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس طرح ان کے سینہ پر بھی ہاتھ نہ پہنچے۔
کسی صاحب نے انسانی ڈھانچے کی تصویر یہاں لگائی ہے۔ اسے بغور دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کہنی کا جوڑ جہاں سے ذراع نے خم کھانا ہے وہ سینہ سے نیچے ہے؛
ڈھانچہ.jpg
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
مرحوم زبیر ئلی زئی نے ’علی ظہر کفہ الیسری‘ پر توجہ نہیں دی اور ذراع ہی کو لے کر بیٹھ گئے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس طرح ان کے سینہ پر بھی ہاتھ نہ پہنچے۔
کسی صاحب نے انسانی ڈھانچے کی تصویر یہاں لگائی ہے۔ اسے بغور دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کہنی کا جوڑ جہاں سے ذراع نے خم کھانا ہے وہ سینہ سے نیچے ہے؛
19297 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
قال: محمد بن علي النيموي (م١٣٢٢ھ) "رواه أحمد وإسناده حسن لكن قوله علي صدر غير محفوظ" في الكتاب: آثار السنن مع التعليق الحسن: كتاب الصلوة [باب في وضع اليدين علي الصدر] ص١٠٨، ح٣٢٦، بتحقيق ذوالفقار علي.
ونسخة الثاني: ص٧٤، ح٣٢٦، بتحقيق فيض أحمد الملتاني}.

السلام علیکم
بیگ صاحب بحث سینے پر ہاتھ باندھنے کے ساتھ لفظ ذراع پر ہورہی ہے جس کا ترجمہ بازو ہے۔اور آپ کی پیش کردہ حدیث میں ہاتھ کے جوڑ کا ذکر ہے۔
آپ کی پیش کر دہ حدیث صحیح ہے تو پھر ذراع والی حدیث کے ساتھ اس کی تطبیق کیسے ہوگی۔
بسم الله الرحمن الرحيم
نبی ﷺ کی حدیث کا دفاع
سمعت أبا يعقوب(١) يقول: سمعت الخليل بن أحمد(٢) يقول: سمعت أبا الحسين الطبسي(٣) يقول: سمعت أبا سعيد الإصطخري(٤) يقول: وجاءه رجل وقال له: أيجوز الاستنجاء بالعظم؟ قال: لا، قال: لم؟ قال: لأن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: "هو زاد إخوانكم من الجن" قال: فقال له: الإنس أفضل أم الجن؟ قال: بل الإنس، قال: فلم يجوز الاستنجاء بالماء وهو زاد الإنس؟ قال: فنزا عليه وأخذ بحلقه، وهو يقول: يا زنديق! تعارض رسول الله صلي الله عليه وسلم؟! وجعل يخنقه، فلو لا أني أدركته لقتله، أو كما قال.
ابو سعید الحسن بن احمد بن یزید الاصطخری رحمہ اللہ (متوفی۳۲۸ھ) کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا: کیا ہڈی سے استنجا جائز ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں، اس نے پوچھا: کیوں؟ انھوں نے فرمایا: کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: یہ تمھارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔اس نے پوچھا: انسان افضل ہیں یا جن؟ انھوں نے فرمایا: انسان، اس نے کہا: پانی کے ساتھ استنجا کیوں جائز ہے جبکہ وہ انسانوں کی خوراک ہے، راوی (ابو الحسین الطبسی) کہتے ہیں کہ ابو سعید الاصطخری نے حملہ کرکے اس آدمی کی گردن دبوچ لی اور اس کا گلہ گھونٹتے ہوئے فرمانے لگے: ‘‘زندیق (بے دین، گمراہ)! تو رسول اللہ ﷺ کا رد کرتا ہے’’ اگر میں اس آدمی کو نہ چھڑا تا تو وہ اسے قتل کریتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

{أخرجه: أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي بن محمد بن أحمد بن علي بن جعفر بن منصور بن مت الأنصاري الهروي (م٤٨١ھ) في الكتاب: ذم الكلام وأهله: [الطبقة السابعة وفيهم نجمت الكلابية] ج٤ ص٣٨٤-٣٨٥، ح١٢٥٨، بتحقيق أبو جابر عبد الله بن محمد بن عثمان الأنصاري. ونسخة الثاني: ج٦ ص١٧٩-١٨٠، ح١٢٤٩، بتحقيق عبد الرحمن بن عبد العزيز الشبل}.

{ ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) نے اس روایت کی سند کو"وسندہ حسن" کہا ہے، دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۲ ص۵۶۷-۵۶۸}۔

{(١)أبو يعقوب إسحاق بن أبي إسحاق إبراهيم بن محمد بن عبد الرحمن القراب السرخسي ثم الهروي (م٤٢٩ھ) قال: شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (م٧٤٨ھ) "الإمام الجليل محدث هراة" في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٤٥٨، ت٢٩٧، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف، ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٢٥٦، ت٢٩٥، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

{(٢)أبو سعيد الخليل بن أحمد بن محمد بن الخليل بن موسى بن عبد الله بن عاصم بن جنك السجزي الحنفي (م٣٧٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة مصنف فقيه جليل القدر" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٤٨٦-٤٩٠، ت٣٥٤}.

{(٣)أبو الحسين أحمد بن محمد بن سهل الطبسي (م٣٥٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة فقيه بارع" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٢٩٥، ت١٦٩}.

{(٤)أبو سعيد الحسن بن أحمد بن يزيد بن عيسى بن الفضل بن بشار بن عبد الحميد بن عبد الله بن هانئ بن قبيصة بن عمرو بن عامر الإصطخري (م٣٢٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة زاهد وفقيه مقدم" في الكتاب: الدليل المغني لشيوخ الإمام أبي الحسن الدارقطني: ص١٧٣-١٧٤، ت١٥٥}.
 

baig

رکن
شمولیت
فروری 06، 2017
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
70
ایک بات یاد رکھیں ضد عناد خلط مبحث اور فضولیات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم حاصل کرنے کی صحیح شاہراہ پر لے آئے۔ آمین
بسم الله الرحمن الرحيم

کتاب اللہ اور نبیﷺ کی سنت
حدثنا أبو بكر أحمد بن إسحاق الفقيه، أنبأ العباس بن الفضل الأسفاطي، ثنا إسماعيل بن أبي أويس، وأخبرني إسماعيل بن محمد بن الفضل الشعراني، ثنا جدي، ثنا ابن أبي أويس، حدثني أبي، عن ثور بن زيد الديلي، عن عكرمة، عن ابن عباس، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ: «قَدْ يَئِسَ الشَّيْطَانُ بِأَنْ يُعْبَدَ بِأَرْضِكُمْ وَلَكِنَّهُ رَضِيَ أَنْ يُطَاعَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِمَّا تُحَاقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَاحْذَرُوا يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ كُلَّ مُسْلِمٍ أَخٌ مُسْلِمٌ، الْمُسْلِمُونَ إِخْوَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ إِلَّا مَا أَعْطَاهُ عَنْ طِيبِ نَفْسٍ، وَلَا تَظْلِمُوا، وَلَا تَرْجِعُوا مِنْ بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ»(١).
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیا تو فرمایا : شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ تمھاری زمین میں اس کی عبادت کی جائے لیکن وہ اس پر راضی ہے کہ اس کے علاوہ اُن اعمال میں اُس کی اطاعت کی جائے جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو، پس اے لوگو! ڈرجاؤ میں تمھارے درمیان وہ چھوڑ کر جارہا ہوں جسے اگر تم مضبوطی سے پکڑو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے: کتاب اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی سنت، ہر مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور کسی آدمی کا مال اس کی خوشی اور مرضی کے بغیر حلال نہیں ہے، ظلم نہ کرو اور میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھرو۔(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) {أخرجه: الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نعيم بن الحكم النيسابوري (م٤٠٥ھ) في الكتاب: المستدرك على الصحيحين: كتاب العلم [باب خطبة صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع] ج١ ص٩٣، واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج١ ص١٧١، ح٣١٨، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١ ص١٦٠-١٦١، ح٣١٨، بتحقيق أبو عبد الرحمن مقبل بن هادي الوادعي، ونسخة الرابع: ج١ ص٢٨٤، ح٣٢٣، بتحقيق أبي عبد الله عبد السلام بن محمد بن عمر علوش}.
{قال: أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين بن نوح بن نجاتي بن آدم الأشقودري الألباني (م١٤٢٠
ھ) "حديث ابن عباس بسند حسن أخرجه الحاكم" في الكتاب: مشكاة المصابيح للتبريزي، بتحقيق ج١ ص٦٦ ح١٨٦}.
{ اور ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) نے بھی اس روایت کی سند کو"وسندہ حسن" کہا ہے، دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۳ ص۵۷۰}۔

{وأخرجه: أبو عبد الله محمد بن نصر بن الحجاج المروزي (م٢٩٤
ھ) في الكتاب: السنة: ص٢٥-٢٦ ح٦٨، بتحقيق أبو محمد سالم بن أحمد السلفي، وقال المحقق: "حسن"، ونسخة الثاني: ص٨٦-٨٧، ح٦٩، بتحقيق الدكتور عبد الله بن محمد البصيري، وقال المحقق: "حسن"}


{وأخرجه: أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجري البغدادى (م٣٦٠ھ) في الكتاب: الشريعة: كتاب جامع فضائل أهل البيت رضي الله عنهم [باب ذكر أمر النبي صلى الله عليه وسلم أمته بالتمسك بكتاب الله عز وجل وبسنة رسوله صلى الله عليه وسلم وبمحبة أهل بيته والتمسك على ما هم عليه من الحق والنهي عن التخلف عن طريقتهم الجميلة الحسنة] ج٣ ص٣٥٠-٣٥١، ح١٧٦٤، بتحقيق الوليد بن محمد بن نبيه بن سيف النصر، وقال المحقق: "صحيح - إسناده حسن"، ونسخة الثاني: ج٥ ص٢٢٢٠-٢٢٢١، ح١٧٠٥، بتحقيق الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، وقال المحقق: "إسناده حسن"}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن عبد الله بن موسى الخسروجردي النيسابوري البيهقي (م٤٥٨
ھ) في الكتاب: الإعتقاد على مذهب السلف أهل السنة والجماعة المسمي بالإعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد[باب الاعتصام بالسنة واجتناب البدعة] ص١١١، نسخة الثاني: ص٢٩٦-٢٠٧، بتحقيق أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم أبو العينين}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن عبد الله بن موسى الخسروجردي النيسابوري البيهقي (م٤٥٨
ھ) وفي الكتاب: دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة [باب ما جاء في نعي النبي صلى الله عليه وسلم نفسه إلى الناس في حجة الوداع] ج٥ ص٤٤٩، بتحقيق الدكتور عبد المعطي قلعجي}.

{وأخرجه: أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن محمد بن حماد المكي العقيلي (م٣٢٢
ھ) في الكتاب: الضعفاء الكبير: ج٢ ص٣٣٢، ح٧٧٠، بتحقيق مركز البحوث وتقنية المعلومات دار التأصيل، ونسخة الثاني: ج٢ ص٦٤٥-٦٤٦، بتحقيق حمدي بن عبد المجيد بن إسماعيل السلفي، ونسخة الثالث: ج٣ ص٢١٦-٢١٧، ح٢٨٤٢-٢٨٤٣، بتحقيق الدكتور مازن بن محمد السرساوي}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن عبد الله بن موسى الخسروجردي النيسابوري البيهقي (م٤٥٨
ھ) وفي الكتاب: السنن الكبير المعروف بالسنن الكبرى، كتاب آداب القاضي [باب ما يقضي به القاضي ويفتي به المفتي , فإنه غيرجائز له أن يقلد أحدا من أهل دهره , ولا أن يحكم أو يفتي بالاستحسان] ج١٠ ص١١٤، ونسخة الثاني: ج١٠ ص١٩٤-١٩٥، ح٢٠٣٣٦، بتحقيق محمد عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٢٠ ص٣٣٣، ح٢٠٣٦٢، بتحقيق الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن عمرو بن أبي عاصم الضحاك بن مخلد بن مسلم الشيباني (م٢٨٧
ھ) في الكتاب: السنة: [باب في فضائل أهل البيت] ج٢ ص٦٤٤، ح١٥٥٧، بتحقيق أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين بن نوح بن نجاتي بن آدم الأشقودري الألباني (م١٤٢٠ھ)، ونسخة الثاني: ج٢ ص١٠٢٦، ح١٦٠١، بتحقيق الدكتور باسم بن فيصل الجوابرة، وقال المحقق: "إسناده صحيح"}.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر شواہر میں یہ قابل ذکر ہے۔
مسند احمد (4:318) نسائی (2:126) صحیح ابن خزیمہ (480) اور صحیح ابن حبان (485) وغیرہ میں حضرت وائل بن حجر میں ہے ۔۔۔۔
ثُمَّ وضع یده اليمنیٰ علی ظهر كفه اليُسریٰ والرّسغ والساعد۔''
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے جس طریقہ وکیفیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا وہ طریقہ وکیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر کھا۔
شیخ البانی فرماتے ہیں کہ اس کیفیت پر عمل کرنے سے لازماً ہاتھ سینے پر آئیں گے۔ تجربہ کیجئے'' تحقیق المشکاة '' (1:249)
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 341 القول المقبول فی شرح وتعلیق صلوۃ الرسول ﷺ - دارالاشاعت اشرفیہ سندھوبلوکی، قصور
لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس حوالہ کو بیان کرتے مقلدین نے فراڈ سے کام لیا ہے!
''اگرچہ'' کے الفاظ اور پھر مزید موافقت میں حوالاجات بیان کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں مصنف نے اس روایت کو موافقت میں مقبول قرار دیا ہے!
مزید اس فورم پر ہی غازی بھائی کی جانب سے بھی اس کا جواب دیا گیا ہے؛ ملاحطہ فرمائیں:



سماک بن حرب کے لئے ہم نےآپ کو پہلے ہی پیش کیا تھا، شاید آپ نے اس کا مطالعہ نہیں کیا، اور وہی اشکال دوبارہ دہرادیا؛ ایک بار بھیر پیش کے:
مزید فراز بھائی اور عدیل سلفی بھائی بھی اس کی وضاحت کر چکے ہیں:

مجھے حوالہ سمجھ نہیں آیا! کہ یہ کس کتاب الثق کی بات ہے؟ کسی کی یہ کتاب ہے؟ صفحہ کون سا ہے؟
بہر حال اس کا جواب یہ ہے کہ اہل حدیث اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے موافق عمل کرتے ہیں، اور مقلدین امام کے قول پر!
دراصل سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مقلدین کی عورتیں مقلدین مردوں کی طرح ناف کے نیچے ہاتھ کیوں نہیں باندھتیں؟
وہ مقلدین احناف انہیں کس پر عمل کرواتے ہیں؟ اگر سینے پر ہاتھ باندھنا حدیث سے ثابت نہیں تو!


یہ اعتراض جہالت پر مبنی ہے! لیکن مقلدین کو کلام اور کلام کا اشارہ و مقتضی سمجھ نہ آئے تو ہمارا قصور نہین!
ویسے بھی علم الکلام میں جھک مار مار کر مقلدین حنفیہ کی کلام سمجھنے کی مت ماری جاتی ہے!
اب ''هذه علی هذه'' سے ہاتھ پر ہاتھ باندھنا مقصود نہيں تو کیا مقلدین احناف نماز اس سے ''پنڈے سے پنڈا گھسنا'' مراد لیتے ہیں!

یہ بھی مقلدین کی ہفوات ہیں!
ہمیں کوفہ سے نہیں کوفہ کے اہل الرائے اور بدعتیوں سے عداوت ہے!
کوفہ کا عملی تواتر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلہ میں مردود ہے!


میرے بھائی! ذراع کہتے ہیں انگلیوں سے کہنے تک کے حصہ کو!
اور بازوں انگلیوں سے کہنے تک کے حصہ کو بھی کہتے ہیں، اور کندھے تک کہ حصہ کو بھی!
لہٰذا جب یہاں بازو ں کہا جاتا ہے، تو مراد کہنیوں تک ہی ہے!
ذراع کے الفاظ سے یہ استدلال قائم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا کہنے تک پہنچنا آخری حد ہے!
اب اس آخری حد ہے! اور کہنیوں سے اوپر کے حصہ کو پکڑنا جائز نہ ہوگا!
اب جو اولی طریقہ یعنی کہ کلائی کے اور اس سے آگے ذراع کے کچھ حصہ پر ہاتھ رکھنے اور اس کی آخری حد کہ کہنی تک انگلیوں کے پہنچنے تک ہاتھ باندھنے کا مقام کیا بنے گا!
آپ خود دیکھ لیں!

اس کا پہلا ایڈیشن آپ کو پیش کیا جا چکا ہے!
وعلیکم السلام

بہت شکریہ آپ نے قیمتی وقت نکال کر جواب تحریر کیا۔
جناب مظاہر امیر بھائی نے جو حدیث ذراع کی وضاحت کیلئے پیش کی اس میں ذراع کا ترجمہ بازو کیا گیا ہے۔آپ کہہ رہے کہیں کہ کہنی سے اوپر جائز نہ ہوگا ۔ پھر کون سی بات صحیح ہے۔
@مظاہر امیر
 
Top