• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
دلیل نمبر ۱:
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھیں
اس میں آپ کی دلیل کہا ں ہے یا کہ صرف خانہ پری اور احادیث کی تعداد بڑھا کر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہو؟؟؟؟؟؟

دلیل نمبر۲:
نمازمیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیث متعددصحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں،
یہ بھی اسی قبیل سے ہے کہ خانہ پری اور تعدد احادیث سے لوگوں کو دھوکہ دے سکو!!!

جواب: یہ روایت ضعیف ہے ، اس کا راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی الواسطی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، نیموی حنفی نے کہا: "وفیہ عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وھو ضعیف"(آثار السنن ، حاشیہ : ح ۳۳۰)
محترم! کبھی کبھار غور و خوض سے بھی کام لے لیا کریں۔
راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی الواسطی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ محدث اس کی حدیث اپنی کتاب میں لکھ بھی رہا ہے۔ اگر راوی نے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا ہے تو اس کی روایت کتاب میں لکھنا روا نہیں۔
کوئی ثقہ راوی اس ضعف راوی سے حدیث لے رہا ہے تو وہ کیوں کر ”ثقہ“ رہ گیا؟؟؟؟؟

جس محدث نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں لکھا اس محدث کی کتاب کیوں کر قابلِ احتجاج رہی؟؟؟
ان تمام باتوں کا جواب آخرت کے مواخذہ کا ڈر رکھتے ہوئے دیجئے گا۔

تقریباً سینے پر لیکن تھوڑا سا نیچے۔
کھانا کھائیں ناک سے لیکن تھوڑا سا نیچے سے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اس میں آپ کی دلیل کہا ں ہے یا کہ صرف خانہ پری اور احادیث کی تعداد بڑھا کر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہو؟؟؟؟؟؟


یہ بھی اسی قبیل سے ہے کہ خانہ پری اور تعدد احادیث سے لوگوں کو دھوکہ دے سکو!!!
محترم بھائی،
شاید آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ یہ ایک مکمل کتاب ہے، کوئی آرٹیکل نہیں ہے۔ اور عنوان ہے، نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام۔ آپ نے جو دو احادیث ذکر کی ہیں، وہ ہاتھ باندھنے کے حکم سے متعلق ہیں، نہ کہ مقام سے متعلق۔ اور ان احادیث کے ذریعہ ان احباب کی تردید مقصود ہے ، یعنی مالکی وغیرہ، جو نماز میں ارسال کو سنت سمجھتے ہیں۔ اسی لئے دلیل 1 اور 2 سے قبل یہ الفاظ ہیں:
ایک گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
اور درج بالا دونوں دلائل کے تذکرہ کے بعد یہ ہے:
دوسرا گروہ کہتا ہے نما ز میں ارسال کرنا چاہیے (ہاتھ نہ باندھے جائیں)
لہٰذا ان دلائل سے ارسال کرنے والوں کی تردید مقصود ہے، نہ کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والوں کی۔

راوی عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی الواسطی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ محدث اس کی حدیث اپنی کتاب میں لکھ بھی رہا ہے۔ اگر راوی نے رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا ہے تو اس کی روایت کتاب میں لکھنا روا نہیں۔
کوئی ثقہ راوی اس ضعف راوی سے حدیث لے رہا ہے تو وہ کیوں کر ”ثقہ“ رہ گیا؟؟؟؟؟

جس محدث نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں لکھا اس محدث کی کتاب کیوں کر قابلِ احتجاج رہی؟؟؟
ان تمام باتوں کا جواب آخرت کے مواخذہ کا ڈر رکھتے ہوئے دیجئے گا۔
آپ مطالعہ کر لیجئے۔ صحیح بخاری و مسلم کے سوا تمام کتب احادیث میں ضعیف و منکر اور روایات گھڑنے والے رواۃ موجود ہیں۔ کیا یہ سب کتب احادیث قابل احتجاج نہ رہیں؟
محدثین نے ضعیف روایات اپنی کتب میں لکھی ہیں، اور اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی محدث نے کوئی بھی روایت اپنی کتاب میں درج کر دی تو بس اب وہ فقط لکھ لینے کی بنا پر قابل احتجاج ہو گئی۔ ایسی رائے میرے خیال سے کسی حنفی عالم کی بھی نہیں۔
اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ :
کوئی ثقہ راوی اس ضعف راوی سے حدیث لے رہا ہے تو وہ کیوں کر ”ثقہ“ رہ گیا؟؟؟؟؟
یعنی کسی بھی سند میں اگر کوئی ضعیف راوی آ جائے تو بس اب سارے ثقہ راوی بھی ضعیف ہو جائیں گے؟؟؟

آپ کو حق ہے کہ آپ اہل حدیث کے سینے پر ہاتھ باندھنے کے دلائل کی تردید کریں اور زیر ناف ہاتھ باندھنے کے دلائل کتب حدیث سے پیش کریں۔ لیکن ایسی باتیں نہ کریں جس کا کوئی سر پیر نہ ہو۔

کھانا کھائیں ناک سے لیکن تھوڑا سا نیچے سے
اس قسم کی پھبتیاں اگر "زیرناف" پر کسی جائیں تو بات بہت دور تک نکل جائے گی۔ بہتر ہے موضوع پر اگر کچھ ہے بات کرنے کو تو کیجئے۔ اور تحمل سے بات کیجئے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم، اول تو یہ نوٹ کیجئے کہ محدث فورم پر تصویری مضامین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، لہٰذا جو بھی کہنا ہو تحریر میں کہئے۔ اس کا آپ کو بھی فائدہ ہے کہ یہ تحریر گوگل سرچ میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اور دیگر یوزرز کو بھی یہ فائدہ ہوگا کہ وہ آپ کی پوسٹ کے اقتباسات لے سکیں گے۔
دوسری بات یہ کہ خصوصا اختلافی مسائل اور مکالمہ میں تصاویر سے جواب نہ دیجئے۔

اب جو دلائل آپ نے پیش کئے ہیں، ایک سے تیرہ تک۔ غور کیجئے ان پر ہم بھی آپ کی زبان میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ :
اس میں آپ کی دلیل کہا ں ہے یا کہ صرف خانہ پری اور احادیث کی تعداد بڑھا کر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہو؟؟؟؟؟؟

یہ بھی اسی قبیل سے ہے کہ خانہ پری اور تعدد احادیث سے لوگوں کو دھوکہ دے سکو!!!
لیکن ظاہر ہے ایسا کہنا درست نہیں۔ کیونکہ یہاں ہاتھ باندھنے کا مقام زیر بحث ہی نہیں۔

بہرحال، آپ کے پیش کردہ دلائل میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کی وہی ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب حدیث ہے جس کی مکمل تردید اسی مضمون میں یہاں پر موجود ہے۔ ہاں اس میں یہ بات البتہ نئی ہے:
"یاد رہے کہ عبدالرحمٰن بن اسحاق نے یہ روایت سیار ابی الحکم سے لی ہے جو کہ ثقہ ہے اور سیار ابی الحکم کی وفات 122 ہجری میں ہوئی ہے۔ سیار ابی الحکم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ہم عصر ہے اور عبدالرحمن بن اسحاق بعد کا راوی ہے۔ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے سیار ابی الحکم سے مسئلہ اخذ کیا نہ کہ عبدالرحمن بن اسحاق سے۔ لہٰذا عبدالرحمن بن اسحاق کے ضعیف ہونے کا اثر ان پر نہیں پڑتا"۔

عرض ہے کہ اول تو سیار ابی الحکم سے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ثابت کیجئے۔ دوئم، یہ بھی ثابت کیجئے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ان سے خاص یہ روایت لی ہے۔ آخر امام ابو حنیفہ کتمان علم کرنے والے تو ہرگز نہ تھے۔ انہوں نے ایک حدیث سنی ہے تو آگے شاگردوں کو روایت بھی کی ہوگی۔ ذرا ان کے شاگردوں سے امام ابو حنیفہ کی سند کے ساتھ یہ روایت کہیں ملتی ہو تو بیان کیجئے۔ فقط یہ کہہ دینا کہ فلاں راوی ان کا ہم عصر ہے، لہٰذا بعد کے راوی کا ضعف اس پر اثر انداز نہیں ہوتا، قابل التفات نہیں۔

اور آگے چلئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کا ایک بڑا حصہ آج ضائع ہو گیا۔ کہ کسی خاص زمانے میں کچھ احادیث صحیح تھیں اور بعد میں ان میں ضعف آ گیا تو ظاہر ہے کہ اس صحیح حدیث میں بیان کردہ دین ضائع ہوا۔
اس سے امام ابو حنیفہ پر بھی طعن آتا ہے کہ ان تک ایک صحیح حدیث پہنچی لیکن انہوں نے کتمان علم کا ارتکاب کیا اور اس حدیث کو آگے نہ پہنچایا، حتیٰ کہ دنیا سے اس صحیح حدیث کا وجود ہی ختم ہو گیا۔
درج بالا سب باتیں تو برسبیل تسلیم کی قبیل سے تھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بات کی دلیل آخر ہے کیا کہ ائمہ کے دور میں یہ حدیث صحیح تھی؟ اور حدیث ضعیف سے مراد فقط متن کا ضعف کب سے ہو گیا؟ متن کے ساتھ ساتھ سند بھی تو ضعیف ہو گئی نا۔ ضعف بعد کے دور میں آیا، کا مطلب ہی یہ ہے کہ بعد کا راوی یا تو جھوٹ کہہ رہا ہے کہ میں نے فلاں فلاں سے یہ حدیث سنی، کیونکہ وہ مہتم بالکذب راوی ہے، ہے ہی جھوٹا۔ اور یا اگر جھوٹ نہیں کہہ رہا تو اس نے ٹھیک سے یاد ہی نہیں رکھا، دونوں صورتوں میں بعد کے دور کے راوی کے ضعف سے ہی اوپر کی پوری سند بھی غیر ثابت اور متن بھی مردود۔
مزید یہ کہ ایسے تو کوئی بھی ضعیف حدیث ، ضعیف نہیں ثابت کی جا سکتی۔ ہر حدیث کسی نہ کسی صحابی سے مروی ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ضعف بعد کے رواۃ میں آیا، صحابہ کے دور میں تو یہ حدیث بالکل صحیح تھی، وغیرہ۔
خاص یہ حدیث بھی تمام محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف و مردود ہے، ان محدثین کو اس حدیث کی صحت کی ایسی دلیل بہرحال نہ سوجھی۔ یہ فقاہت دور حاضر میں احناف ہی کے حصہ میں آئی ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
عرض ہے کہ اول تو سیار ابی الحکم سے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ثابت کیجئے۔ دوئم، یہ بھی ثابت کیجئے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ان سے خاص یہ روایت لی ہے۔ آخر امام ابو حنیفہ کتمان علم کرنے والے تو ہرگز نہ تھے۔ انہوں نے ایک حدیث سنی ہے تو آگے شاگردوں کو روایت بھی کی ہوگی۔ ذرا ان کے شاگردوں سے امام ابو حنیفہ کی سند کے ساتھ یہ روایت کہیں ملتی ہو تو بیان کیجئے۔ فقط یہ کہہ دینا کہ فلاں راوی ان کا ہم عصر ہے، لہٰذا بعد کے راوی کا ضعف اس پر اثر انداز نہیں ہوتا، قابل التفات نہیں۔
محترم! ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ”محدث“ نہ تھے ”فقیہ“ تھے۔
محترم! کیا حدیث کا علم صرف انہی لوگوں کو ہوتا ہے جو روات ہیں بقیہ ننانوے فی صد سے بھی زیادہ اس زمانہ میں موجود مسلمانوں کو اس کا علم نہیں ہوتا؟
آپ اس بات کا ثبوت فراہم کر دیں کہ اس حدیث کا علم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں ہو سکا تھا۔

اور آگے چلئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کا ایک بڑا حصہ آج ضائع ہو گیا۔ کہ کسی خاص زمانے میں کچھ احادیث صحیح تھیں اور بعد میں ان میں ضعف آ گیا تو ظاہر ہے کہ اس صحیح حدیث میں بیان کردہ دین ضائع ہوا۔
محترم ! اس کو ضائع کرنے کی کوشش یہی ”لا مذہب“ والے کر رہے ہیں۔ فقہا نے تو احادیث کے مدون ہونے سے پہلے ہی منشاءِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فقہ میں محفوظ کر دیا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آپ اس بات کا ثبوت فراہم کر دیں کہ اس حدیث کا علم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں ہو سکا تھا۔
چہ خوب۔

ایسے ہی کچھ علمی نکات درج ذیل پر بھی پیش کر دیجئے تاکہ فورم کے صفحات پر یہ علمی گلدستے سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔ ابتسامہ۔

اس سے امام ابو حنیفہ پر بھی طعن آتا ہے کہ ان تک ایک صحیح حدیث پہنچی لیکن انہوں نے کتمان علم کا ارتکاب کیا اور اس حدیث کو آگے نہ پہنچایا، حتیٰ کہ دنیا سے اس صحیح حدیث کا وجود ہی ختم ہو گیا۔
درج بالا سب باتیں تو برسبیل تسلیم کی قبیل سے تھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بات کی دلیل آخر ہے کیا کہ ائمہ کے دور میں یہ حدیث صحیح تھی؟ اور حدیث ضعیف سے مراد فقط متن کا ضعف کب سے ہو گیا؟ متن کے ساتھ ساتھ سند بھی تو ضعیف ہو گئی نا۔ ضعف بعد کے دور میں آیا، کا مطلب ہی یہ ہے کہ بعد کا راوی یا تو جھوٹ کہہ رہا ہے کہ میں نے فلاں فلاں سے یہ حدیث سنی، کیونکہ وہ مہتم بالکذب راوی ہے، ہے ہی جھوٹا۔ اور یا اگر جھوٹ نہیں کہہ رہا تو اس نے ٹھیک سے یاد ہی نہیں رکھا، دونوں صورتوں میں بعد کے دور کے راوی کے ضعف سے ہی اوپر کی پوری سند بھی غیر ثابت اور متن بھی مردود۔
مزید یہ کہ ایسے تو کوئی بھی ضعیف حدیث ، ضعیف نہیں ثابت کی جا سکتی۔ ہر حدیث کسی نہ کسی صحابی سے مروی ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ضعف بعد کے رواۃ میں آیا، صحابہ کے دور میں تو یہ حدیث بالکل صحیح تھی، وغیرہ۔
خاص یہ حدیث بھی تمام محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف و مردود ہے، ان محدثین کو اس حدیث کی صحت کی ایسی دلیل بہرحال نہ سوجھی۔ یہ فقاہت دور حاضر میں احناف ہی کے حصہ میں آئی ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ
قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ وَاسْمُ هُلْبٍ يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ


جامع ترمذی:جلد اول: حدیث مرفوع :
قتیبہ، ابوالاحوص، سماک بن حرب، قبیصہ بن ہلب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری امامت کرتے اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑتے تھے اس باب میں وائل بن حجر غطیف بن حارث ابن عباس ابن مسعود اور سہل بن سہل سے بھی روایت ہے امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہ
لب کی مروی حدیث حسن ہے اس پر عمل ہے صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا
کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہاتھ کو ناف کے اوپر باندھے اور بعض کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے باندھے
اور یہ سب جائز ہے ان کے نزدیک اور ہلب کا نام یزید بن قنافہ طائی ہے۔
دیکھیں محدث نے ہاتھ باندھنے کی جو کیفیات ذکر کی ہیں ان میں ”سینہ“ کا کہیں ذکر نہیں۔
یہ بات محال ہے کہ محدث نماز پڑھنے والے مختلف طبقوں کو دیکھے ،گر ان میں سے ”سینہ“ پر ہاتھ باندھنے والوں کا ذکر نہ کرے۔


صحيح مسلم فی الباب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ

امام مسلم نے صحیح مسلم میں باب باندھا ہے؛
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر رکھے
یہ جلیل القدر محدث ہیں مگر یہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ نماز میں ہاتھ ”سینہ“ پر نہیں بلکہ ”سینہ سے نیچے“ باندھنے ہیں۔

ایک بات سے کچھ خلش پیدا ہوسکتی ہے کہ ترمذی رحمۃ اللہ ”ناف کے اوپر“ یا ”ناف کے نیچے“ کی بات کر رہے ہیں اس مطلب کہ ہاتھ باندھنے کے دو طریقے ہوئے۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا۔
تفہیم: ناف ایک چھوٹی سی جگہ کو کہتے ہیں جس کا قطر تقریباً ایک یا ڈیڑھ انچ کا ہوگا۔ پھر یہ مستور بھی ہوتی ہے کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر (بشمول ناف) گھٹنے تک (بشمول گھٹنا) ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے کو یقینی علم ہونا مشکل تھا کہ ہاتھ ناف کے اوپر ہیں یا نیچے۔ اسی لئے اس میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے۔ اس اختلاف کو آخری خلیفہ راشد کا بیا ختم کر دیتا ہے کہ وہ بالجزم فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ”سنت“ ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
مزید یہ کہ ایسے تو کوئی بھی ضعیف حدیث ، ضعیف نہیں ثابت کی جا سکتی۔ ہر حدیث کسی نہ کسی صحابی سے مروی ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ضعف بعد کے رواۃ میں آیا، صحابہ کے دور میں تو یہ حدیث بالکل صحیح تھی، وغیرہ۔
خاص یہ حدیث بھی تمام محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف و مردود ہے، ان محدثین کو اس حدیث کی صحت کی ایسی دلیل بہرحال نہ سوجھی۔ یہ فقاہت دور حاضر میں احناف ہی کے حصہ میں آئی ہے ۔
محترم! کبھی کبھی تنہائی میں ”غور و خوض“ بھی فرمایا کریں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سنن الترمذي: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ
قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ وَاسْمُ هُلْبٍ يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ


جامع ترمذی:جلد اول: حدیث مرفوع :
قتیبہ، ابوالاحوص، سماک بن حرب، قبیصہ بن ہلب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری امامت کرتے اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑتے تھے اس باب میں وائل بن حجر غطیف بن حارث ابن عباس ابن مسعود اور سہل بن سہل سے بھی روایت ہے امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہ
لب کی مروی حدیث حسن ہے اس پر عمل ہے صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا
کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہاتھ کو ناف کے اوپر باندھے اور بعض کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے باندھے
اور یہ سب جائز ہے ان کے نزدیک اور ہلب کا نام یزید بن قنافہ طائی ہے۔
دیکھیں محدث نے ہاتھ باندھنے کی جو کیفیات ذکر کی ہیں ان میں ”سینہ“ کا کہیں ذکر نہیں۔
یہ بات محال ہے کہ محدث نماز پڑھنے والے مختلف طبقوں کو دیکھے ،گر ان میں سے ”سینہ“ پر ہاتھ باندھنے والوں کا ذکر نہ کرے۔


صحيح مسلم فی الباب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ

امام مسلم نے صحیح مسلم میں باب باندھا ہے؛
تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر رکھے
یہ جلیل القدر محدث ہیں مگر یہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ نماز میں ہاتھ ”سینہ“ پر نہیں بلکہ ”سینہ سے نیچے“ باندھنے ہیں۔

ایک بات سے کچھ خلش پیدا ہوسکتی ہے کہ ترمذی رحمۃ اللہ ”ناف کے اوپر“ یا ”ناف کے نیچے“ کی بات کر رہے ہیں اس مطلب کہ ہاتھ باندھنے کے دو طریقے ہوئے۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا۔
تفہیم: ناف ایک چھوٹی سی جگہ کو کہتے ہیں جس کا قطر تقریباً ایک یا ڈیڑھ انچ کا ہوگا۔ پھر یہ مستور بھی ہوتی ہے کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر (بشمول ناف) گھٹنے تک (بشمول گھٹنا) ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے کو یقینی علم ہونا مشکل تھا کہ ہاتھ ناف کے اوپر ہیں یا نیچے۔ اسی لئے اس میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے۔ اس اختلاف کو آخری خلیفہ راشد کا بیا ختم کر دیتا ہے کہ وہ بالجزم فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ”سنت“ ہے۔
جی اس پر بھی بات کر لیتے ہیں۔
پہلے جو گفتگو جاری تھی، اس کو ختم کر لیجئے۔ کیا آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب زیر ناف والی روایت محدثین کے نزدیک متفقہ طور پر ضعیف ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

میرا سوال نماز کے دواران ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں ہے۔ میں کسی مسلک (حنفی، شافعی، وہابی وغیرہ) سے تعلق نہیں رکھتاہوں۔ میں صرف صداقت کی اتباع کرنا چاہتا ہوں، اگر کسی امام کا قول ہو تو میں ان کااحترام کرتاہوں۔ میں نے بہت سے لوگوں کو سینہ پر ہاتھ باندھتے ہوئے دیکھاہے، لیکن امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ کے مطابق ( جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد سب سے زیادہ علم تھا) سینہ پر ہاتھ باندھنے کو بھی رفع یدین کی طرح منع کردیاگیا، مستند با ت یہ ہے کہ ناف پر ہاتھ باندھاجائے۔ میں نے ہمیشہ سچائی کی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے۔ براہ کرم، سینہ پر ہاتھ نہ باندھنے اور ناف پر ہاتھ باندھنے کی اجازت کے تعلق سے باحوالہ جواب دیں۔

Jan 13,2008
Answer: 2443
فتوی: 1087/ ج= 1087/ ج



نماز میں ہاتھ سینے پر بھی باندھنا جائز ہے اور ناف کے نیچے بھی۔ آپ کو یہ یقین کرنا چاہیے کہ چاروں امام برحق ہیں، اور ان میں سے کسی ایک کی اتباع صداقت ہی کی اتباع ہے، آپ تمام مسائل میں کسی بھی ایک امام کی اتباع کرلیجیے جس پر آپ کا دل مطمئن ہو۔ بیک وقت چاروں امام کی اتباع نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اس صورت میں مذہب ایک کھیل بن جائے گا کہ جس امام کے یہاں آسانی پائی اس کی اتباع کرلی۔ البتہ میں وہ احادیث نقل کیے دیتا ہوں جس میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی وضاحت آئی ہے: عن علقمة عن أبیہ قال: رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاة تحت السُّرَّة․ (أخرجہ ابن أبي شیبة ورجالہ ثقات) یعنی حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کے والد کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسی طرح حدیث ہے: عن أبي جحیفة أن علیًّا رضي اللہ عنہ قال: السنة وضع الکف علی الکف في الصلاة تحت السرة (رواہ أبوداوٴد) یعنی نماز کے اندر سنت ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری احادیث تفصیل کے لیے اعلاء السنن: ج۲، ص۱۸۹ پر دیکھیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=2443



کیا کہے گے @عبدالرحمن بھٹی صاحب اس فتویٰ کے بارے میں
 
Top