محترم، اول تو یہ نوٹ کیجئے کہ محدث فورم پر تصویری مضامین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، لہٰذا جو بھی کہنا ہو تحریر میں کہئے۔ اس کا آپ کو بھی فائدہ ہے کہ یہ تحریر گوگل سرچ میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ اور دیگر یوزرز کو بھی یہ فائدہ ہوگا کہ وہ آپ کی پوسٹ کے اقتباسات لے سکیں گے۔
دوسری بات یہ کہ خصوصا اختلافی مسائل اور مکالمہ میں تصاویر سے جواب نہ دیجئے۔
اب جو دلائل آپ نے پیش کئے ہیں، ایک سے تیرہ تک۔ غور کیجئے ان پر ہم بھی آپ کی زبان میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ :
اس میں آپ کی دلیل کہا ں ہے یا کہ صرف خانہ پری اور احادیث کی تعداد بڑھا کر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہو؟؟؟؟؟؟
یہ بھی اسی قبیل سے ہے کہ خانہ پری اور تعدد احادیث سے لوگوں کو دھوکہ دے سکو!!!
لیکن ظاہر ہے ایسا کہنا درست نہیں۔ کیونکہ یہاں ہاتھ باندھنے کا مقام زیر بحث ہی نہیں۔
بہرحال، آپ کے پیش کردہ دلائل میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کی وہی ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب حدیث ہے جس کی مکمل تردید اسی مضمون میں
یہاں پر موجود ہے۔ ہاں اس میں یہ بات البتہ نئی ہے:
"یاد رہے کہ عبدالرحمٰن بن اسحاق نے یہ روایت سیار ابی الحکم سے لی ہے جو کہ ثقہ ہے اور سیار ابی الحکم کی وفات 122 ہجری میں ہوئی ہے۔ سیار ابی الحکم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ہم عصر ہے اور عبدالرحمن بن اسحاق بعد کا راوی ہے۔ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے سیار ابی الحکم سے مسئلہ اخذ کیا نہ کہ عبدالرحمن بن اسحاق سے۔ لہٰذا عبدالرحمن بن اسحاق کے ضعیف ہونے کا اثر ان پر نہیں پڑتا"۔
عرض ہے کہ اول تو سیار ابی الحکم سے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات ثابت کیجئے۔ دوئم، یہ بھی ثابت کیجئے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ان سے خاص یہ روایت لی ہے۔ آخر امام ابو حنیفہ کتمان علم کرنے والے تو ہرگز نہ تھے۔ انہوں نے ایک حدیث سنی ہے تو آگے شاگردوں کو روایت بھی کی ہوگی۔ ذرا ان کے شاگردوں سے امام ابو حنیفہ کی سند کے ساتھ یہ روایت کہیں ملتی ہو تو بیان کیجئے۔ فقط یہ کہہ دینا کہ فلاں راوی ان کا ہم عصر ہے، لہٰذا بعد کے راوی کا ضعف اس پر اثر انداز نہیں ہوتا، قابل التفات نہیں۔
اور آگے چلئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کا ایک بڑا حصہ آج ضائع ہو گیا۔ کہ کسی خاص زمانے میں کچھ احادیث صحیح تھیں اور بعد میں ان میں ضعف آ گیا تو ظاہر ہے کہ اس صحیح حدیث میں بیان کردہ دین ضائع ہوا۔
اس سے امام ابو حنیفہ پر بھی طعن آتا ہے کہ ان تک ایک صحیح حدیث پہنچی لیکن انہوں نے کتمان علم کا ارتکاب کیا اور اس حدیث کو آگے نہ پہنچایا، حتیٰ کہ دنیا سے اس صحیح حدیث کا وجود ہی ختم ہو گیا۔
درج بالا سب باتیں تو برسبیل تسلیم کی قبیل سے تھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بات کی دلیل آخر ہے کیا کہ ائمہ کے دور میں یہ حدیث صحیح تھی؟ اور حدیث ضعیف سے مراد فقط متن کا ضعف کب سے ہو گیا؟ متن کے ساتھ ساتھ سند بھی تو ضعیف ہو گئی نا۔ ضعف بعد کے دور میں آیا، کا مطلب ہی یہ ہے کہ بعد کا راوی یا تو جھوٹ کہہ رہا ہے کہ میں نے فلاں فلاں سے یہ حدیث سنی، کیونکہ وہ مہتم بالکذب راوی ہے، ہے ہی جھوٹا۔ اور یا اگر جھوٹ نہیں کہہ رہا تو اس نے ٹھیک سے یاد ہی نہیں رکھا، دونوں صورتوں میں بعد کے دور کے راوی کے ضعف سے ہی اوپر کی پوری سند بھی غیر ثابت اور متن بھی مردود۔
مزید یہ کہ ایسے تو کوئی بھی ضعیف حدیث ، ضعیف نہیں ثابت کی جا سکتی۔ ہر حدیث کسی نہ کسی صحابی سے مروی ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ضعف بعد کے رواۃ میں آیا، صحابہ کے دور میں تو یہ حدیث بالکل صحیح تھی، وغیرہ۔
خاص یہ حدیث بھی تمام محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف و مردود ہے، ان محدثین کو اس حدیث کی صحت کی ایسی دلیل بہرحال نہ سوجھی۔ یہ فقاہت دور حاضر میں احناف ہی کے حصہ میں آئی ہے ۔