• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جنہیں شیطان کہتے ہو ضرورت پڑنے پر انہیں اپنا باپ بھی بنا لیتے ہو۔
ہائے بے چاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقلدین نے کوفہ کے یتیم ومسکین فی الحدیث امام کو اپنی باپ بنایا ہوا ہو تو الگ بات ہے، لیکن ہمیں مقلدین حنفیہ پر قیاس باطل ہے!
یہ کہ اس کا باپ حنفی تھا۔۔۔۔ غصہ میں تین طلاق دے بیٹھا۔۔۔۔۔ لا مذہبوں کے وارے نیارے ہو گئے۔۔۔۔۔ طلاقِ مغلظہ (تین طلاق) کے باوجود رجوع کرا دیا ۔۔۔۔ کچھ عرصہ کے بعد ابن داود کی پیدائش ہوئی ۔۔۔۔۔ صاف ظاہر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے والد کے ساتھ تو یہ واقعہ پیش نہیں آیا!
اور الحمدللہ میرے والدنے اپنی وفات سے کئی سالوں قبل مسلک الحدیث اختیار کرتے ہوئے فقہ حنفیہ کو تین طلاق دیتے ہوئے لعنت کردی تھی!
ہاں علمائے احناف کے متعلق یہ بات درست ہے کہ کئی علمائے احناف کا حلالے کی حرامی اولاد ہونا بعید نہیں!
اور کئی علمائے احناف کی اولادیں بھی اسی قبیل سے ہیں!
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
الحمدللہ میرے والدنے اپنی وفات سے کئی سالوں قبل مسلک الحدیث اختیار کرتے ہوئے فقہ حنفیہ کو تین طلاق دیتے ہوئے لعنت کردی تھی!
طلاق کا معاملہ حیات ہی میں پیش آتا ہے مرنے کے بعد نہیں۔ ابتسامہ
کئی سال پہلے کی بات اس کو تقویت دیتی ہے کہ تمہاری پیدائش اس واقعہ کے بعد ہوئی۔ ابتسامہ
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
حلالے کی حرامی اولاد ہونا بعید نہیں!
حلالہ میں باقاعدہ نکاح ہوتا ہے (گو یہ طریقہ صحیح نہیں) پھر طلاق دی جاتی ہے تب پہلے سے نکاح ہوتا ہے۔
دونوں نکاح صحیح ہوتے ہیں اور نکاح سے اولاد حرامی نہیں ہوتی۔
لامذہب چونکہ تقیہ کیئے ہوئے رافضی ہیں ان کے ہاں متعہ جائز تو لامذہبوں کے اصلی والد کی تصدیق لاینحل مسئلہ ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حنفی حنیف صاحب نے تو ایک ہوائی بات کی ہے، اور تہمت دھری ہے!
مگر ہم اپنے طرہ امتیاز کو قائم رکھتے ہوئے، بحوالہ اور بمع ثبوت بیان کرتے ہیں کہ حیلہ سازی کرکے متعہ کا راستہ فقہ حنفی نے نکالاہے؛ ملاحظہ فرمائیں:
نکاح متعہ کا باطل تو لکھا ہے مگر اس کے جواز کے چند حیلہ بھی گڑھ لئے کہ کوئی اتنی طویل مدت کے لئے نکاح کرے کہ اسے یقین ہو کہ اس مدت تک زندہ نہ رہےگا، اس میں مزید ایک حیلہ یہ کہ خروج دجال یا نزول عیسی ﷤ تک کی مدت کا تعین کرے۔ کی کوئی یہ بالعقین کہہ سکتا ہے کہ خروج دجال یا نزول عیسی ﷤ اس کی زندگی میں نہ ہو گا۔

نِكَاحُ الْمُتْعَةِ بَاطِلٌ لَا يُفِيدُ الْحِلَّ وَلَا يَقَعُ عَلَيْهَا طَلَاقٌ وَلَا إيلَاءٌ وَلَا ظِهَارٌ وَلَا يَرِثُ أَحَدُهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ، هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ فِي أَلْفَاظِ النِّكَاحِ. وَهُوَ أَنْ يَقُولَ لِامْرَأَةٍ خَالِيَةٍ مِنْ الْمَوَانِعِ: أَتَمَتَّعُ بِكِ، كَذَا مُدَّةَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ مَثَلًا أَوْ يَقُولَ أَيَّامًا أَوْ مَتِّعِينِي نَفْسَكِ أَيَّامًا أَوْ عَشَرَةَ أَيَّامٍ أَوْ لَمْ يَذْكُرْ أَيَّامًا بِكَذَا مِنْ الْمَالِ، كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ.
وَالنِّكَاحُ الْمُؤَقَّتُ بَاطِلٌ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ. وَلَا فَرْقَ بَيْنَ طُولِ الْمُدَّةِ وَقِصَرِهَا عَلَى الْأَصَحِّ وَلَا بَيْنَ الْمُدَّةِ الْمَعْلُومَةِ وَالْمَجْهُولَةِ، كَذَا فِي النَّهْرِ الْفَائِقِ. قَالَ الشَّيْخُ الْإِمَامُ الْأَجَلُّ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ: وَكَثِيرٌ مِنْ مَشَايِخِنَا قَالُوا: إذَا سَمَّيَا مَا يُعْلَمُ يَقِينًا أَنَّهُمَا لَا يَعِيشَانِ إلَيْهِ كَأَلْفِ سَنَةٍ يَنْعَقِدُ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ كَمَا لَوْ تَزَوَّجَهَا إلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أَوْ خُرُوجِ الدَّجَّالِ أَوْ نُزُولِ عِيسَى - عَلَيْهِ السَّلَامُ - وَهَكَذَا رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -، كَذَا فِي الْمُحِيطِ.

واضح ہو کہ نکاح متعہ باطل ہے اس سے حلیت نہیں حاصل ہوتی ہے اور چونکہ نکاح متعہ باطل ہے لہٰذا اس پر طلاق و ایلا وظہار کچھ نہیں پڑتا ہے اور دونوں میں سے کوئی دوسرے کا وارث بھی نہیں ہوتا ہے یہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے اور متعہ کی صورت یہ ہے کہ ایسی عورت سے جو موانع سے خالی ہے یوں کہے کہ میں تجھ سے اتنی مدت مثلاً دس روز یا کہے کہ بعوض اس قدر مال کے تمتع حاصل کروں گا یا یوں کہے کہ مجھے اپنے نفس سے چند روز یا دس روز یا روز کا ذکر نہ کرے بعوض اس قدر مال کے نفع حاصل کرنے دے یہ فتح القدیر میں ہے ۔ اور نکاح موقت باطل ہے کذا فی الہدایہ خواہ مدت دراز ہو یا کم ہو کچھ فرق نہیں ہے یہی اصح ہے اور خواہ مدت معلومہ ہو یا مجہولہ ہو نہر الفائق ميں ہے شیخ امام شمس الائمہ حلوائی نے فرمایا کہ ہمارے بہت سے مشائخ نے فرمایا کہ اگر دونوں ایسی کثیر مدت بیان کریں کہ یہ یقین یہ بات معلوم ہو کہ یہ دونوں اتنی مدت زندہ نہ رہیں گے جیسے ہزار برس مثلاً تو نکاح منعقد ہو گا اور شروط باطل ہوگی چنانچہ تا قیامت یا خروج دجال یا نزول عیسیٰ علیہ السلام کی مدت لگانے میں بھی یہی حکم ہے اور ایسا ہی حسن ؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ سے روایت کی ہے یہ محیط میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 211 – 212 جلد 01 الفتاوى الهندية - لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 147 جلد 02 فتاوی عالمگیری مترجم اردو - مترجم سید امیر علی – مکتبہ رحمانیہ، لاہور

لہٰذا آپ کی منطق کے مطابق آپ کے ہی علماء و فقہائے احناف کے اصلی والد کی تصدیق لا ینحل مسئلہ ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس روایت کا راوی ضعیف ہے اس کو کثرت سے وہم ہوتا ہے۔ ابتسامہ
طلاق کا معاملہ حیات ہی میں پیش آتا ہے مرنے کے بعد نہیں۔ ابتسامہ
کئی سال پہلے کی بات اس کو تقویت دیتی ہے کہ تمہاری پیدائش اس واقعہ کے بعد ہوئی۔ ابتسامہ
معلوم ہوتا ہے کہ حنفی حنیف صاحب حلالہ کی حرامی اولاد ہیں، کہ دوسروں کو بھی خود پر قیاس کرتے ہیں!
آپ کو دوسروں کو خود پر قیاس نہ کیا کریں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لامذہب چونکہ تقیہ کیئے ہوئے رافضی ہیں ان کے ہاں متعہ جائز تو لامذہبوں کے اصلی والد کی تصدیق لاینحل مسئلہ ہے۔
علمائے احناف و فقہائے احناف کا اور ان کی اولاد کا نسب اس طرح بھی ثابت ہوتا ہے:

صاحب ھدایہ نے
امام اعظم ؒ کی جو دلیل عقلی بیان فرمائی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ نکاح کی کل دو قسمیں ہیں، نکاح صحیح اور نکاح باطل، نکاح صحیح وہ نکاح ہے جس میں نکاح کے تمام ارکان پائے جائیں، اور نکاح باطل وہ نکاح ہے جس میں نکاح کا کوئی رکن موجود نہ ہو ۔۔۔۔ اب محرمات ابدیہ کے ساتھ نکاح میں غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں تمام ارکان موجود ہیں، علتِ فاعلی ۔۔۔۔۔ یعنی مرد میں جماع کی قدرت کا ہونا ۔۔۔۔ موجود ہے اسی طرح علّتِ قابلہ ۔۔۔۔ یعنی عورت میں توالد و تناسل کی صلاحیت کا ہونا ۔۔۔۔۔ بھی موجود ہے اور باہمی رضامندی بھی محقق ہے۔
الغرض مرد نکاح کا اھل ہے، عورت نکاح کا محل ہے، اور طرفین کی رضامندی سے گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول ہوئے ہیں، تو یہ نکاح، نکاح صحیح کے قبیل سے ہوگا اس کو نکاح باطل یعنی معدوم محض نہیں کہا جاسکتا، اور جب نکاح کا تحقق ہوا، تو آثار نکاح اس پر ضرور متفرع ہوں گے، اور نکاح کے آثار میں سے ہے زِنا اور حدِّ زنا کا منتفی ہونا، اور
نسب کا ثابت ہونا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 188 – 189 ادلۂ کاملہ - محمود الحسن دیوبندی – قدیمی کتب خانہ، کراچی
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
آپ شری آدمی ہو ، شر پھیلا رہے ہو اس لئے اب مزید شر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
یہ تھریڈ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توضیح کے لئے بنایا گیا۔ اس کو اگر کوئی شر سمجھتا ہے تو اسے اپنے ایمان کی فکر ہونی چاہیئے۔ اس تھریڈ میں کس نے شر پھیلایا؟ لا مذہبوں نے۔
قارئین کرام اس تھریڈ کو شروع سے بغور پڑھ لیں کہ کس نے پہلی شیطانی پوسٹ کی؟ آپ دیکھیں گے کہ ایک لامذہب اپنی جھوٹی فقہ جو کہ ملکہ وکٹوریہ کے ایما پر برصغیر پاک و ہند میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے شروع کی اسے بچانے کے لئے سنت اور اہل سنت کا مذاق اڑاتا اور تضحیک کرتا ہے۔
نام نہاد اہلحدیث کا لبادہ اوڑھ کر احادیث ہی کو مخدوش بنانے کا جو طریقہ انہوں نے اپنایا یہ طریقہ منکرین حدیث تو کیا شیطان کو بھی نہ سوجھا ہوگا۔
روات کے ضعف کے بہانے سنت عمل کو غلط اور جو کہیں مسلم دنیا میں رائج ہی نہ تھا اسے سنت ثابت کرنے کے درپے ہیں۔ یا اللہ امت مسلمہ کو ایسے شریروں سے محفوظ فرما۔ آمین
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي (صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں ہاتھ باندھے صحابہ کرام نے دیکھا صحابہ کرام کو تابعین اور تابعین کو تبع تابعین نے۔ صحابہ کرام میں آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتا دیا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے (مسند احمد)۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ کو اپنا دار الخلافہ بنایا۔ علم کا سمدر یہاں سایہ فگن ہؤا۔ صحابہ کرام سے لاکھوں تابعین مستفید ہوئے۔
کوفہ کے فقہا نے بتایا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے (مؤطا امام محمد)۔ محدثین کرام نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے مقام کو متعین کر دیا (سنن الترمذی، صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل)۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی حدیث عملاً متواتر ہے۔
کسی نے بھی ناف کے علوہ کسی اور جگہ ہاتھ باندھنے کی بات نہیں لکھی۔
علامہ نووی رحمۃ اللہ نے وضاحت فرما دی کہ ہاتھ باندھنے کا مقام سینہ نہیں بلکہ ناف ہے (صحیح مسلم) تاکہ کل کلاں کوئی دھوکہ باز دھوکہ نہ دے سکے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
لگتا هے یہ آئی ڈی بند هونیکا خدشہ هوچکا هے ، اس لیئے تمہید میں ہی صفائی بغیر طلب پیش کی جا رہی هے !
آپکی مسلم دنیا میں صرف آپ ہی ہیں ، بالکل تنہا ، شافعیہ و حنابلہ کسی دوسرے کرہ پر بستے ہیں !
آپ کو تو یہ بهی علم نہیں هے کہ احناف صحیح العقیدہ بهی اسی کرہ زمین پر بستے ہیں جو نا عقائد سے اشعریہ ہیں نا ہی ماتریدیہ !
رہ گئی قارئین کی بات ، تو وہ آپ کو خوب جانتے ہیں ۔
مسلم دنیا کہنے سے بہتر تها آپ یہ کہتے کہ آپ کی "معلوم مسلم دنیا" کیونکہ آپ کی اسلامی معلومات کی وسعت بهی اتنی سی ہی هے ۔
صفات آپکی خود آپکی تحریروں میں واضح هے ۔ آپ خود ذرا کشف کر کے بتائیں کہ آپ خود یہاں موجود کیوں ہیں ؟
 
Top