• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
نسیم بھائی دیکھیں مسئلہ یہ ہے کہ جو صریح مرفوع حدیث ہے اس میں دائیں ذراع کو بائیں ذراع پر رکھنا آیا ہے ۔ ذراع بازو کو کہتے ہیں ۔ اب دائیں ذرع کو بائیں ذرع پر رکھیں تو ہاتھ کہاں آئیں گے ۔
رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) بھی استعمال ہوا ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم اس کا مجھے علم نہیں ہے ۔ ان دونوں مسالک کے کسی شخص سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی نہ ان کی کوئی مسجد نظر میں آئی۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اگرچہ چار مسالک کو دیکہیں تو آپ بیشمار معاملات میں احناف کو تنہا پائینگے ۔ آپ صرف معمولی مطالعہ بهی مستند کتب کا کریں تو آپ کے علم میں کئی نئی نئی باتیں آئینگی ان شاء اللہ۔
جب باتیں نماز کی ادائیگی پر هو تو شرط انصاف هے ساری احادیث کا ذکر کردیں ۔ جب بهی آپ ایسا کرینگے آپ کو مزید سمجهانے کی حاجت باقی نہیں رہ جائیگی ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم اس کا مجھے علم نہیں ہے ۔ ان دونوں مسالک کے کسی شخص سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی نہ ان کی کوئی مسجد نظر میں آئی۔
بالکل سچ کہا آپ نے ۔ لیکن ان کی مستند کتب ہیں کوشش کریں پڑهنے کی ۔ نماز کی ادائیگی کے طریقوں کو "معلوم اسلامی دنیا" تک محدود نہیں کا جاسکتا ۔
اہل حدیث کیا کہتے ہیں وہ نا بهی پڑهیں تب بهی احناف کو بیشتر معاملات میں بالکل علیحدہ پائینگے ۔ ضرورت صرف خلوص سے مستند کتب کو پڑهنا هے اور جب علم هوجائے تو عمل بهی کرنا هے ۔ اس سے بڑی بدنصیبی کیا کہ ہم سنت طریقے سے نماز جیسا عمل بهی ادا نا کر سکیں!
اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
نسیم بھائی دیکھیں مسئلہ یہ ہے کہ جو صریح مرفوع حدیث ہے اس میں دائیں ذراع کو بائیں ذراع پر رکھنا آیا ہے ۔ ذراع بازو کو کہتے ہیں ۔ اب دائیں ذرع کو بائیں ذرع پر رکھیں تو ہاتھ کہاں آئیں گے ۔
رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) بھی استعمال ہوا ہے ۔
مظاہر بھائی یہ اقتباس صراط الہدی ویب سائٹ سے لیا ہے ۔ اور اس میں کہا گیا ہے کہ ذراع سے مراد انگلیوں سے لیکر کہنی تک کا حصہ ہے۔ بازو کا کہیں ذکر نہیں۔
جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ’’ذراع‘‘ پر رکھے (صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۰۲ ح ۷۴۰) ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ اگر آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنی ذراع پر رکھیں گے تو خود بخود سینہ پر آ جائیں گے۔

ذراع ، ہاتھ کی انگلیوں سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ : آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا۔ (سنن نسائی مع حاشیہ السندھی ج ۱ ص ۱۴۱، ابوداوٗد ج ۱ ص ۱۱۲، ح ۷۲۷، اسے ابن خزیمہ ج ۱ ص۲۴۳ ح ۴۸۰ اورابن حبان موارد ح ۴۸۵ نے صحیح کہا ہے)
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
آپ کو ہم کو محدود دائرے میں مقید رکها جاتا رها هے ، رفع الیدین نا کریں ، سورہ الفاتحہ کے اختتام پر آمین نا پڑهیں ۔ هر سنت ثابتہ سے انکار شدید ، آخر کیوں؟
ان عقلمندوں سے کوئی پوچهے کہ آمین اور رفع الیدین پر هندوستان میں کتنے قتل هوئے ؟ اب ستم دیکهئے کہ ان کا دعوی هے کہ اهل حدیث کی پیدائش انگریزوں کے دور میں هوئی تب پهر انگریزوں کے پہلے جو مسالک پر قتل و خوں هوئے وہ کیئے کس نے اور کس کی شان بڑهانے میں ؟
ابهی تقسیم هند کو اتنا عرصہ هوا نہیں کہ تاریخ هند ہی فراموش کردی جائے !
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
جب رسع الگ ، اور ساعد الگ آگیا تو ذراع کا مطلب اب انگلیاں تو نہیں ہوگا یہاں ؟ ذراع کا مطلب آپ نے درست فرمایا صرف بازو نہیں ہے ۔ اب حدیث دیکھ لیتے ہیں :
صحیح بخاری حدیث نمبر 274
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَيْمُونَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَت:‏‏‏‏ "وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا لِجَنَابَةٍ فَأَكْفَأَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ضَرَبَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ أَوِ الْحَائِطِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُهُ بِخِرْقَةٍ فَلَمْ يُرِدْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ يَنْفُضُ بِيَدِهِ".
ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضل بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا انہوں نے سالم کے واسطہ سے، انہوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، انہوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے۔ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں ایک کپڑا لائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم
پھر اس سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ کلائی سے لیکر بازو تک کا کوئی بھی حصہ پکڑا جا سکتا ہے ۔
 
Top