• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
پھر اس سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ کلائی سے لیکر بازو تک کا کوئی بھی حصہ پکڑا جا سکتا ہے ۔
اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ارسال بھی صحیح سند سے ثابت ہے ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
ترجیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو ہوگی ۔
جو کہ صحیح ابن خزیمہ کی حدیث 479 میں ہے :
نا أَبُو مُوسَى، نا مُؤَمَّلٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ»
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
شیخ ملاداد بن عبداللہ حنفی ( المتوفی : 933) نے زیرِ ناف ہاتھ باندھنے والی روایت کے ضعیف ہونے کے سبب صحیح ابن خزیمہ کی اس حدیث پر عمل کو واجب قرار دیا ہے ، لکھتے ہیں :
ونقل عن ملا الله داد الهندى أنه قال في شرح الهداية: (إذا كان حديث وضع اليدين تحت السرة ضعيفا ومعارضا بأثر على بأنه فسر قوله تعالى: (فَصَلّ لِرَبّكَ وَأنحَر) على الصدر، يجب أن يعمل بحديث وائل الذى ذكره النووى.
” جب زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے اس اثر کے معارض ہے ، جس میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے فرمان:
فَصَلّ لِرَبّكَ وَأنحَر
کی تفسیر سینے پر ہاتھ باندھنے سے کی ہے تو ایسی صورت میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث پر عمل واجب ہوجاتا ہے ، جسے نووی نے ذکر کیا ہے ۔ “
شرح علي الھداية بحواله فتح الغفور (ص: 40) بتحقيق محمد ضياء الرحمٰن اعظمي
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
نسیم بھائی دیکھیں مسئلہ یہ ہے کہ جو صریح مرفوع حدیث ہے اس میں دائیں ذراع کو بائیں ذراع پر رکھنا آیا ہے ۔ ذراع بازو کو کہتے ہیں ۔ اب دائیں ذرع کو بائیں ذرع پر رکھیں تو ہاتھ کہاں آئیں گے ۔
رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) بھی استعمال ہوا ہے ۔
جی محترم وہ حدیث بمع عربی متن و حوالہ لکھ دیں؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
ترجیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو ہوگی ۔
جو کہ صحیح ابن خزیمہ کی حدیث 479 میں ہے :
نا أَبُو مُوسَى، نا مُؤَمَّلٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ»
جی محترم اس حدیث کو غیر مجروح ثابت کردیں جیسا کہ آپ ہم سے مطالبہ رکھتے ہیں۔ اس کے تمام راوی کیا ثقہ ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس حدیث کو غیر مجروح ثابت کردیں جیسا کہ آپ ہم سے مطالبہ رکھتے ہیں۔
جرح پیش کی جائے گی تو اس جرح کو رفع کیا جائے گا! یا توضیح کی جائے گی!
سوال یہ ہونا چاہیئے کہ توثیق ثابت کریں!
آپ راوی کا نام بتائیں ،کسی کی توثیق درکار ہے، ہم اس کی توثیق ثابت کردیں گے!
اس کے تمام راوی کیا ثقہ ہیں۔
بالفرض کہ ایک راوی اگر مختلف فیہ ہو بھی تو احناف کا یہ ایک اصول پیش خدمت ہے:
إذا كان الحديثُ مختلَفاً فيه: صحَّحه أَو حسَّنه بعضُهم، وضعَّفه آخرون، فهو حسن، وكذا كان الراوي مختلَفاً فيه: وثَّقه بعضُهم، وضعَّفه بعضهم، فهو: حسَنُ الحديث.
جب ایک حدیث مختلف فیہ ہو، بعض نے اسے صحیح یا حسن اور بعض نے اسے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن ہوگی۔ اور اسی طرح جب راوی مختلف فیہ، بعض نے اسے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن الحدیث ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 72 مقدمة اعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي


اور مومل یعنی مومل بن اسماعیل کا ذکر کر کے ان کی سند کو حسن قرار دیا ہے!

750 – عن إبراهيم أن الربيع بن حثيم لقی علقمة فقال: ''إنه بدا لي أن أزيد في التشهد'' ومغفرته '' فقال له علقمة: ننتهی إلی ما علمناه'' اھ. رواه الطحاوي (1:151) بإسناده رجاله ثقات إلا مؤملا فقد تكلم فيه، ووثقه ابن معين وغيره، كذا في التهذيب (10:380)، فالسند حسن.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 117 – 118 جلد 03 اعلاء السنن – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

طحاوی رحمہ اللہ نے روایت یوں درج کی ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا مُؤَمَّلٌ، قَالَ: ثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الرَّبِيعَ بْنَ خَيْثَمٍ، لَقِيَ عَلْقَمَةَ , فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ بَدَا لِي أَنْ أَزِيدَ فِي التَّشَهُّدِ وَمَغْفِرَتُهُ , فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ: «نَنْتَهِي إِلَى مَا عُلِّمْنَاهُ».
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 266 جلد 01 شرح معاني الآثار – أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة بن عبد الملك بن سلمة الأزدي الحجري المصري المعروف بالطحاوي (المتوفى: 321هـ) – عالم الكتب، بيروت
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
سعید بن جبیر (تابعی) فرماتےہیں کہ نماز میں “فوق السرۃ” یعنی ناف سے اوپر (سینے پر ) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق / الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ و سندہ صحیح )
علامہ نووی رحمۃ اللہ نے اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ فوق السرۃ سے مراد سینہ پر نہیں بلکہ سینہ سے نیچے۔ صحیح مسلم میں انہوں نے باب باندھا ہے؛
صحيح مسلم (1 / 301):
بَابُ وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ، وَوَضْعِهِمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
لہٰذا آپ ہی کی پیش کردہ صحیح حدیث سے ثابت ہؤا کہ نماز میں ہاتھ باندھنے کا محور ناف ہے۔
ناف ایک مختصر سی جگہ ہے اور یہ کپڑے کے نیچے چھپی ہوتی ہے لہٰذا اس کا تعین کہ ہاتھ ناف کے اوپر ہیں یا نیچے ایک مشکل کام ہے۔
ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث فعلی یعنی صحابہ کرام کا مشاہدہ ہیں۔ اس میں ناف سے اوپر نیچے کی غلطی کچھ بعید نہیں۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جرح پیش کی جائے گی تو اس جرح کو رفع کیا جائے گا! یا توضیح کی جائے گی!
سوال یہ ہونا چاہیئے کہ توثیق ثابت کریں!
آپ راوی کا نام بتائیں ،کسی کی توثیق درکار ہے، ہم اس کی توثیق ثابت کردیں گے!

بالفرض کہ ایک راوی اگر مختلف فیہ ہو بھی تو احناف کا یہ ایک اصول پیش خدمت ہے:
إذا كان الحديثُ مختلَفاً فيه: صحَّحه أَو حسَّنه بعضُهم، وضعَّفه آخرون، فهو حسن، وكذا كان الراوي مختلَفاً فيه: وثَّقه بعضُهم، وضعَّفه بعضهم، فهو: حسَنُ الحديث.
جب ایک حدیث مختلف فیہ ہو، بعض نے اسے صحیح یا حسن اور بعض نے اسے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن ہوگی۔ اور اسی طرح جب راوی مختلف فیہ، بعض نے اسے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن الحدیث ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 72 مقدمةاعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي


اور مومل یعنی مومل بن اسماعیل کا ذکر کر کے ان کی سند کو حسن قرار دیا ہے!

750 – عن إبراهيم أن الربيع بن حثيم لقی علقمة فقال: ''إنه بدا لي أن أزيد في التشهد'' ومغفرته '' فقال له علقمة: ننتهی إلی ما علمناه'' اھ. رواه الطحاوي (1:151) بإسناده رجاله ثقات إلا مؤملا فقد تكلم فيه، ووثقه ابن معين وغيره، كذا في التهذيب (10:380)، فالسند حسن.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 117 – 118 جلد 03 اعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

طحاوی رحمہ اللہ نے روایت یوں درج کی ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا مُؤَمَّلٌ، قَالَ: ثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الرَّبِيعَ بْنَ خَيْثَمٍ، لَقِيَ عَلْقَمَةَ , فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ بَدَا لِي أَنْ أَزِيدَ فِي التَّشَهُّدِ وَمَغْفِرَتُهُ , فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ: «نَنْتَهِي إِلَى مَا عُلِّمْنَاهُ».
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 266 جلد 01 شرح معاني الآثار – أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة بن عبد الملك بن سلمة الأزدي الحجري المصري المعروف بالطحاوي (المتوفى: 321هـ) – عالم الكتب، بيروت
محترم ابن داؤد بھائی
السلام علیکم
جہاں تک میرے علم میں ہے اہل حدیث منہج صرف صحیح اور مرفوع حدیث سے حجت کرتے ہیں۔باقی اس حدیث پر جو بذریعہ سرچ جرح ملی ہے اس کا اقتباس ذیل میں درج کر رہا ہوں۔
(۱) حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ:
ابن خزیمہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: نا موسی، نا مؤمل، نا سفیان، عن عاصم بن کلیب، عن أبیہ عن وائل بن حجررضی اللّٰہ عنہ قال:(صلیت مع رسول اللّٰہ ﷺ وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ)
ترجمہ: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی، آپ فرماتے ہیں: ((میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا، آپ ﷺنے اپنے داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا))
سند پر کلام:
اس حدیث کی سند میں ایک راوی مؤمل بن اسماعیل ہیں، میرے علم کے اعتبار سے یہی وہ ایک روای ہیں جو سفیان ثوری سے لفظ (علی صدرہ) کے ذکر کرنے میں منفرد ہیں، باقی دوسرے راویوں نے سفیان ثوری سے روایت کرنے میں اس لفظ یعنی (علی صدرہ) کو ذکر نہیں کیا ہے ، قارئین ان حضرات کے اسما ملاحظہ فرمائیں:
(۱)عبد اللہ بن الولید (مسند احمد، رقم:۱۸۸۷۱) (۲)عبد الرزاق صنعانی (مصنف عبد الرزاق، رقم: ۲۵۲۲) اور عبد الرزاق سے امام احمد بن حنبل نے روایت کی ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۸) (۳)ابو نعیم فضل بن دکین (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۷) (۴)محمد بن یزید مخزومی (صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۶۹۱) (۵)محمد بن یوسف (سنن النسائی، رقم:۱۲۶۴) (۶)وکیع بن الجراح (مسند احمد، رقم:۱۸۸۴۵) (۷)یحی بن آدم (مسند احمد، رقم: ۱۸۸۶۷) (۸)محمد بن عبد اللہ بن یزید مقریء (سنن النسائی، رقم: ۱۱۵۹)
یہ آٹھ حضرات جنہوں نے اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کی ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی اس لفظ یعنی (علی صدرہ) کو ذکر نہیں کیا جس کو روایت کرنے میں مؤمل بن اسماعیل منفرد ہیں۔
نیز اس حدیث کی روایت کرنے میں ایک جماعت نے سفیان ثوری کی متابعت بھی کی ہے مگر ان میں سے کسی نے بھی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کے اسما یہ ہیں:
(۱)سفیان بن عیینہ (مسند الحمیدی، رقم: ۹۰۹، سنن النسائی، رقم: ۱۲۶۳) (۲)محمد بن الفضیل (صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۷۸، ۷۱۳) (۳)عبد الواحد بن زیاد (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۰) (۴)زہیر بن معاویہ (مسند احمد، رقم: ۱۸۸۷۶) (۵)شعبہ بن الحجاج (مسند احمد، رقم:۱۸۸۵۵ ، قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری، رقم:۲۶، صحیح ابن خزیمہ، رقم:۶۹۷، ۶۹۸) (۶)عبد العزیز بن مسلم (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۵) (۷)زائدہ بن قدامہ (سنن الدارمی، رقم: ۱۳۹۷، مسند احمد، رقم: ۱۸۸۷۰، قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری،رقم:۳۰، سنن ابی داؤد، رقم: ۷۲۷،صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۸۰، ۷۱۴، المنتقی لابن الجارود،رقم: ۲۰۸) (۸)عبد اللہ بن ادریس( قرۃ العینین برفع الدین فی الصلاۃ للبخاری،رقم:۳۱، سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۱۰، ۹۱۲، سنن الترمذی، رقم: ۲۹۲، سنن النسائی، رقم:۱۱۰۲، صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۴۷۷، ۶۴۱، ۶۹۰، ۷۱۳) (۹) بشر بن المفضل (سنن ابی داؤد، رقم: ۷۲۶، ۹۵۷، سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۱۰، ۸۶۷، سنن النسائی، رقم: ۱۲۶۵) (۱۰)سلام بن سلیم (مسند الطیالسی، رقم: ۱۰۲۰) (۱۱)خالد بن عبد اللہ (السنن الکبری للبیھقی، رقم: ۲۷۸۴)
ان سب نے اس حدیث کو ’’عن عاصم بن کلیب، عن کلیب، عن وائل‘‘ روایت کیا مگر کسی نے بھی اس زیادتی یعنی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیاہے۔
نیز اس حدیث کو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے کلیب کے علاوہ (۱)علقمہ بن وائل (۲) و مولی لھم نے روایت کیا ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۶۶ ، صحیح مسلم، رقم:۴۰۱، مستخرج ابی عوانہ، رقم:۱۵۹۶، صحیح ابن خزیمہ، رقم: ۹۰۵، السنن الکبری للبیھقی، رقم:۲۵۱۵)اور (۳) عبد الجبار بن وائل نے بھی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (مسند احمد، رقم:۱۸۸۷۳، سنن الدارمی، رقم:۱۲۷۷)اور ان لوگوں نے بھی لفظ (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا۔
اس زیادتی یعنی (علی صدرہ)کا سفیان ثوری ، عاصم بن کلیب، اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کی روایت میں وارد نہ ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسماعیل بن مؤمل کو اس زیادتی کی روایت کرنے میں وہم ہوا ہے، لہذا یہ زیادتی صحیح اور قابل قبول نہیں۔
مناسبت کے پیش نظر ضروری سمجھتا ہوں کہ راوی مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں محدثین و ناقدین کے اقوال ذکر کردئے جائیں تاکہ ان کی زیادتی والی روایت کا حکم صحیح طور پر بیان کیا جاسکے، قارئین کرام آپ ان کے بارے میں محدثین و ناقدین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مؤل بن اسماعیل صدوق، سنت کے معاملہ میں شدید کثرت سے سے خطا کرنے والے ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی کتابیں دفن کردیں، اور حافظہ پر اعتماد کرکے حدیث بیان کئے جس کی وجہ سے آپ سے غلطی واقع ہوئی) (الکاشف، رقم: ۵۷۴۷) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (ابن معین سے مروی ہے کہ وہ ثقہ ہیں، امام بخاری فرماتے ہیں: (منکر الحدیث ہیں) اور امام بخاری جس کے بارے میں ’منکر الحدیث‘ فرمادیں ان سے روایت کرنا حلال نہیں، یعقوب بن سفیان فرماتے ہیں: (سلیمان بن حرب ان کی تعریف کرتے تھے اور ہمارے شیوخ ان سے قریب رہنے کی وصیت کرتے تھے، مگر ان کی حدیث ان کے اصحاب کے مشابہ نہیں، اہل علم پر واجب ہے کہ ان کی حدیث سے احتراز کریں کیونکہ وہ اپنے ثقات شیوخ سے مناکیر روایت کرتے ہیں، اگر وہ یہ مناکیر ضعفا سے روایت کرتے تو اسے ان کے عذر کے منزل میں رکھ دیا جاتا) اور ابن سعد فرماتے ہیں: (ثقۃ، کثیر الغلط) یعنی ثقہ ہونے کے ساتھ غلطی بہت کرتے ہیں، اور ابن قانع فرماتے ہیں: (صالح یخطی) یعنی صالح ہیں مگر خطا کرتے ہیں، اور امام دارقطنی فرماتے ہیں:( ثقۃ، کثیر الخطا) یعنی ثقہ ہونے کے ساتھ خطا بہت کرتے ہیں، اور اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: (ہم سے ثقہ مؤمل بن اسماعیل نے حدیث بیان کی) اور محمد بن نصر مروزی نے فرمایا: (مؤمل بن اسماعلی اگر کسی حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہوں تو توقف ضروری ہے، کیونکہ ان کا حافظہ خراب ہے، اور غلطی بھی بہت کرتے ہیں)(تھذیب التھذیب، رقم: ۶۸۲) اور اما ذہبی رلکھتے ہیں:( ابو زرعہ فرماتے ہیں: فی حدیثہ خطأ کثیر) (میزان الاعتدال، رقم: ۸۹۴۹) یعنی ان کی حدیث میں کثرت سے خطا پائی جاتی ہے، ابن حجر عسقلانی ان کے بارے میں خلاصہ کلام کے طور پر فرماتے ہیں: (صدوق سیء الحفظ)(تقریب التھذیب، رقم: ۷۰۲۹) یعنی فی نفسہ سچے ہیں مگر ان کا حافظہ خراب ہے۔
حکم:
ان کے بارے میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے خلاصہ کلام کے طور پر فرمایا: صدوق سیء الحفظ، اور ایسے وصف سے متصف راوی کی حدیث ضعیف ہوتی ہے، اور جب ضعیف راوی ثقہ یا ثقات کی مخالفت کرے تو وہ روایت منکر کہلاتی ہے، اور اس کے بالمقابل جو حدیث ہوتی ہے اسے معروف کہا جاتا ہے، لہذا یہاں پر مؤمل بن اسماعیل کی روایت جس میں (علی صدرہ) کا ذکر ہے ضعیف و منکر ہوگی، اور جنہوں نے (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا ہے وہ معروف ہوگی، اور محدثین کے نزدیک عمل معروف حدیث پر ہوتا ہے منکر پر نہیں، اور اگر ہم متشددین اور غیر مقلدین کا طریقہ اختیار کریں اور صرف امام بخاری کے قول ’منکر الحدیث‘ کولے لیںتو ہمیں یہ کہنے میں جھجھک محسوس نہیں ہوگی کہ مؤمل بن اسماعلی سے حدیث ہی روایت کرنا جائز نہیں، چہ جائے کہ ان کی حدیث پر عمل کیا جائے! کیونکہ جن کے بارے میں امام بخاری ’منکر الحدیث‘ فرمادیں ان سے روایت کرنا جائز ہی نہیں! نیز اس حدیث کی سند میں سفیان ثوری ہیں جن کا مذہب و عمل خود اس روایت کے خلاف ہے، اور جب راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو تو راوی کے عمل کو لیا جاتا ہے، اور یہی اکثر حفاظ کرام، محققین و ناقدین امام یحی بن معین، یحی بن سعید اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کا ہے(الاشفاق علی احکام الطلاق للکوثری،ص۴۴)امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اس قائدہ کے پیش نظر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اکثر حفاظ نے بہت ساری احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے) (شرح علل الترمذی، ص ۴۰۹) ان تمام احوال کے باجود صاحب عون المعبود اور صاحب تحفۃ الاحوذی کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا عجیب و غریب بلکہ حد درجہ تعجب خیز ہے!! بہر حال یہ حدیث ضعیف اور قابل عمل نہیں، و اللہ اعلم۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
مؤمل بن اسماعیل

تعدیل کرنے والے: تعدیل
۱: یحیٰ بن معین: ثقۃ (تاریخ ابن معین: ۲۳۵)
۲: الضیاء المقدسی: اورد حدیثہ فی المختارۃ (۳۴۵/۱ ح ۲۳۷)
۳: ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال : ربما اخطا (۱۸۷/۹)
۴: احمد: روی عنہ (دیکھئے مجمع الزوائد ۸۰/۱)
۵: ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۴۱۶)
۶: الدارقطنی: صحح لہ فی سننہ (۱۸۶/۲ح ۲۲۶۱)
۷: سلیمان بن حرب: یحسن الثناء علیہ (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
۸: الحاکم: صحح لہ فی المستدرک (۳۸۴/۱)
۹: الذہبی: کان من ثقات البصریین (العبر ۳۵۰/۱)
۱۰: الترمذی: صحح لہ فی سننہ (۶۷۲)
۱۱: ابن کثیر : قواہ فی تفسیرہ (۴۳۲/۴)
۱۲: الہیثمی: ثقۃ وفیہ ضعف ، المجمع (۱۸۳/۸)
۱۳: ابن خزیمہ: اخرج عنہ ، فی صحیحہ (۲۴۳/۱ ح ۴۷۹)
۱۴: البخاری: اخرج عنہ تعلیقاً فی صحیحہ (دیکھئے ح ۲۷۰۰)
وغیرہم

جرح کرنے والے: جرح
۱: ابوحاتم: صدوق شدید فی السنۃ کثیر الخطا یکتب حدیثہ (کتاب الجرح والتعدیل ۳۷۴/۸)
* ابوزرعہ الرازی: فی حدیثہ خطا کثیر ( یہ قول ابوزرعہ سے ثابت نہیں ہے)
۲: یعقوب بن سفیان: یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا۔۔۔۔(المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
* الساجی: صدوق کثیر الخطا ولہ اوھام (یہ قول ثابت نہیں ہے)
۳: ابن سعد: ثقۃ کثیر الغلط (طبقات ابن سعد ۵۰۱/۵)
* ابن قانع: صالح یخطئ (یہ قول ثابت نہیں ہے)
۴: الدارقطنی: صدوق کثیر الخطا (سوالات الحاکم للدارقطنی : ۴۹۲)
*محمدبن نصر المروزی: سیئ الحفظ کثیر الغلط (یہ قول ثابث نہیں ہے)
۵: ابن حجر : صدوق سیئ الحفظ (تقریب التہذیب : ۷۰۲۹)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ائمہ محدثین کی اکثریت کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ یا حسن الحدیث اور ثقہ دعدد کثیر کی بات عدد قلیل پر حجت ہے۔​
 
Top