• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
((
عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ))
سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو پر رکھے۔ (بخاری: ۱۰۲/۱ ح ۷۴۰، و موطأ امام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷ باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ، وروایۃ ابن القاسم بتحقیقی: ۴۰۹)
یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
کتب ستہ میں مؤمل کی درج ذیل روایتیں موجود ہیں:
صحیح البخاری= (ح۲۷۰۰، اور بقول راجح ح ۷۰۸۳، تعلیقاً)
سنن الترمذی= (ح ۴۱۵، ۶۷۲، ۱۸۲۲، ۱۹۴۸، ۲۱۳۵، ۳۲۶۶، ۳۵۲۵، ۳۹۰۶، ۳۹۴۹)
سنن النسائی الصغریٰ= (ح ۴۰۹۷، ۴۵۸۹)
سنن ابن ماجہ = (ح ۲۰۱۳، ۲۹۱۹، ۳۰۱۷)

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
مؤمل عن سفیان الثوری: صحیح الحدیث اور عن غیر سفیان الثوری: حسن الحدیث ہے۔ والحمدللہ ظفر احمد دیوبندی صاحب نے مؤمل عن سفیان کی ایک سند نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "رجالہ ثقات" اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (اعلاء السنن ج۳ص۱۳۳تحت ح ۸۶۵)
نیز تھانوی صاحب مؤمل کی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فالسند حسن" پس سند حسن ہے۔ (اعلاء السنن ۱۱۸/۳ تحت ح ۸۵۰)
یعنی دیوبندیوں کےنزدیک بھی مؤمل ثقہ ہے۔
کل جارحین = ۷
کل معدلین = ۱۸
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
اس حدیث کی سند میں ایک راوی قبیصہ متکلم فیہ ہیں، ان کے بارے میں امام مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (مجہول ہیں، سماک کے سوا کسی نے ان سے روایت نہیں کی ، امام نسائی فرماتے ہیں: مجہول ہیں، اورسماک کے تفرد کو امام مسلم نے بھی الوحدان میں ذکر کیا ہے، اور امام عجلی نے فرمایا: ثقہ ہیں، اور ابن حبان نے انہیں اپنی کتاب ’الثقات‘ میں ذکر کیا ہے)(تہذیب الکمال للمزی،رقم:۸۴۶، تہذیب التہذیب للعسقلانی، رقم:۶۳۵) حافظ ابن حجر عسقلانی ان کے بارے خلاصہ کلام کے طور پرفرماتے ہیں: مقبول ہیں (التقریب، رقم:۵۵۱۶) اور یہ قبولیت مطلقا نہیں بلکہ اس صورت میں ہے جبکہ راوی کے حدیث کی کوئی متابع موجود ہو، ورنہ مقبول نہیں بلکہ لین الحدیث قرار دئے جائیں گے (التقریب ص ۱۴) اور موجودہ راویت میں قبیصہ روای کی (علی صدرہ) ذکر کرنے میں کوئی متابع موجود نہیں، لہذا ان کے لین الحدیث ہونے کے ساتھ ان کی روایت کردہ یہ حدیث ضعیف ہوگی۔ و اللہ اعلم۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
نیز اس حدیث کا مدار سماک پر ہے، ان سے روایت کرنے میں راویوں کا اختلاف ہے، سماک سے چار لوگوں نے روایت کی، اور ان میں سے کسی نے بھی (علی صدرہ) کا ذکر نہیں کیا، ان کے نام یہ ہیں:
(۱) شعبہ بن الحجاج (مسند الطیالسی، رقم: ۱۰۸۶، مصنف ابن ابی شیبہ، رقم:۳۱۰۹، مسند احمد، رقم: ۲۱۹۷۳، سنن ابی داؤد، رقم: ۱۰۴۱) (۲) زائدہ بن قدامہ (مسند احمد، رقم: ۲۱۹۸۲) (۳) شریک بن عبد اللہ نخعی (مسند احمد، رقم: ۲۱۹۱۷) (۴) ابو الاحوص سلام بن سلیم (سنن ابن ماجہ، رقم: ۸۰۹، ۹۲۹، سنن الترمذی، رقم: ۲۵۲، ۳۰۱) ان میں سے بعض نے حدیث کو مختصرا روایت کیا ہے۔
اور سفیان ثوری نے اس حدیث کو سماک سے روایت کی ہے، سفیان ثوری سے بھی اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف ہے، یحی بن سعید قطان نے صرف ان سے اس زیادتی کا ذکر کیا ہے، وایت کرنے والوں کے نام یہ ہیں:
(۱) یحی بن سعید قطان( مسند احمد، رقم: ۲۱۹۶۷) (۲)عبدالرزاق (المصنف، رقم: ۳۲۰۷) (۳) عبد الرحمن بن مہدی (سنن الدارقطنی، رقم:۱۱۰۰)(۴) وکیع ابن الجراح (مسند احمد، رقم:۲۱۹۶۸، مصنف ابن ابی شیبہ، رقم: ۳۹۳۴) ان تین حضرات نے زیادتی کا ذکر نہیں کیا!
اگر برسبیل تنزل مان لیا جائے کہ راوی قبیصہ مقبول ہیں -اگرچہ صحیح یہی ہے کہ ان کی روایت کے متابع نہ ہونے کی وجہ سے وہ لین الحدیث اور ان کی حدیث ضعیف ہے-تو کیا ثقہ کی زیادتی مقبول ہوگی؟ آنے والی سطور میں ملاحظہ فرمائیں:
کیا ثقہ کی زیادتی مطلقا مقبول ہے ؟:
اس روایت میں سفیان ثوری کے شاگردوں میں سے یحی بن سعید ثقہ (علی صدرہ) کی زیادتی کے ساتھ روایت کرنے میں منفرد ہیں، اور ثقہ کی زیادتی مقول ہوگی یا نہیں، اس باب میں مختلف قیود و شروط کے ساتھ مختلف مذاہب ہیں، میں یہاں دو مشہور مذہب ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
پہلا مذہب:
(معظم فقہا و محدثین کی رائے یہ ہے کہ ثقہ کی زیادی مطلقا مقبول ہے) مگر ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مطلق قول کو مقید کیا، اور فرمایا: (ثقہ کی زیادتی اس صورت میں مقبول ہے جبکہ اس کی اس زیادتی کی وجہ سے مد مقابل کی روایت کا انکار لازم نہ آئے)(فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص۱۷۵، ۱۷۷)
اس مذہب کے اعتبار سے اس روایت میں مذکور (علی صدرہ) کی زیادتی مقبول ہونی چاہئے، کیونکہ زیادتی کی روایت کرنے والے یحی بن سعید ثقہ ہیں، نیز ان کی اس روایت سے مدمقابل راویوں کی روایت کا رد بھی لازم نہیں آتا، اس لئے یہاں پر یہ زادتی مقبول ہونی چاہئے۔ واللہ اعلم۔
دوسرا مذہب:
اور بہت سے دیگر فقہا و محدثین مثلا ابن خزیمہ اور ابن عبد البر وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ زیادتی کا ذکر کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ ثقاہت میں، نہ ذکرکرنے والے راوی کے مساوی، یا اس سے اوثق، یا ذکر کرنے والے متعددثقات ہوں، اور نہ ذکرکرنے والا ایک ہی ثقہ ہو، تو ایسی صورت میں زیادتی مقبول ہوگی، اوراگر اس کا برعکس یعنی زیادتی کا ذکر کرنے والا، نہ ذکر کرنے والے سے ثقاہت میں مساوی نہیں بلکہ کم ہو، یا ذکر کرنے والے ثقات کی تعداد کم ہو، تو ایسی صورت میں یہ زادتی مقبول نہیں ہوگی (فتح المغیث للسخاوی، ج۱؍ص ۱۷۶)
اس مذہب کے اعتبار سے لازم آئے گا کہ یہاں پر زیادتی والی روایت مقبول نہ ہو، کیونکہ یحی بن سعید اگرچہ سفیان ثوری سے روایت کرنے والوں میں اثبت ہیں، مگر وہ زیادتی کی روایت کرنے میں تنہا ہیں، اور روایت نہ کرنے والے وکیع بن الجراح اور عبد الرحمن بن مہدی سفیان ثوری کے شاگردوں میں اثبت ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ بھی ہیں،امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(یحی بن معین رحمہ اللہ سے اصحاب ثوری کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان میں کون اثبت ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ پانچ ہیں: یحی بن سعید، وکیع بن الجراح، عبد اللہ بن المبارک، عبد الرحمن بن مہدی، اور ابو نعیم فضل بن دکین) (شرح علل الترمذی لابن رجب، ص۲۹۸)
اس مذہب کے اعتبار سے یہ زیادتی والی روایت قابل احتجاج نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔
حکم:
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوگیا کہ اس حدیث کی سند میں ایک روای قبیصہ متکلم فیہ ہونے کے ساتھ لین الحدیث ہیں، اور اس حدیث کی روایت کرنے میں ان کی کسی نے متابعت نہیں کی ہے ، اس لئے ان کہ یہ روایت مقبول نہیں بلکہ ضعیف ہوگی،اور اگر برسبیل تنزل مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے قابل قبول ہے،تو بھی یہ حدیث قابل احتجاج نہیں،کیونکہ سفیان ثوری جو اس حدیث کے راوی ہیں ان کا مذہب خود اس حدیث کے خلاف ہے، امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اس قائدہ کے پیش نظر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اکثر حفاظ نے بہت ساری احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے) (شرح علل الترمذی، ص ۴۰۹) نیز یہ کہ سفیان ثوری کے تلامذہ میں سے یحی بن سعید کے علاوہ دیگر تلامذہ اور سماک کے تلامذہ کی روایت میں یہ لفظ یعنی (علی صدرہ) ثابت و محفوظ نہیں، نیز اس حدیث کو اپنی کتاب ’مسند‘ میں ذکر کرنے والے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عمل خود اس حدیث کے برخلاف ہے، آپ کا اس حدیث کے خلاف عمل کرنا اگرچہ حدیث کے ضعف پر دلالت نہیں کرتا ہے مگر اس بات پر ضرور دال ہے کہ یہ حدیث قابل عمل و احتجاج نہیں، کیونکہ اگر قابل احتجاج ہوتی تو امام احمد بن حنبل -جو اگر کسی باب میں صحیح حدیث کے بجائے ضعیف ہو تو وہ اس ضعیف پر بھی عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں- ضرور اس حدیث پر عمل کرتے، نیز اس باب میں ابھی ابھی محدثین و محققین کے موقف کا بیان گزراکہ اگر راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو تو راوی کے عمل کو لیا جائے گا ،بہر حال یہ روایت بھی ضعیف اور زیر بحث مسئلہ میں قابل احتجاج نہیں۔ واللہ اعلم۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
اسمائے رجال کے ماہرین @ابن داود بھائی ، @رضا میاں بھائی توجہ فرمائیں ۔
جس حدیث کا یہ تذکرہ کررہے ہیں وہ یہ ہے :
21967 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ» وَصَفَّ يَحْيَى: الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ
مسند أحمد مخرجا (ت شیخ شعیب ارناؤط رحمہ اللہ) صفحہ 299 جلد 36
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
مظاہر بھائی اس میں میری اپنی تحقیق نہیں ہے۔ کیونکہ میں علم الرجال کے الف ب سے بھی واقف نہیں ہوں ۔ اس لئے دوسروں کی تحقیقات پیش کر رہا ہوں۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
اسی لئے رضا میاں بھائی اور ابن داود بھائی کو مدعو کیا ہے تاکہ اس پر مفصل بات ہوجائے اور شکوک رفع ہوجائیں ۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مذکورہ بالا مسند احمد کی حدیث کو علمائے دیوبند نے بھی حسن صحیح ہی کہا ہے ۔ تفصیل دونوں شیوخ میں سے کوئی پیش کردیگا ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم مظاہر بھائی
اگر سابقہ محدثین اس کو ضعیف کہ چکے ہیں تو علماء دیو بند کا قول کیسے حجت ہوگا۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
اوپر جو آپ نے تحریر پیش کی ہے اسکا مخرج بھی علمائے دیوبند ہی ہیں اس لئے حوالہ دے دیا
 
Top