- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
نماز عیدین
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدنیہ منورہ تشریف لائے تو سال میں دو دن مقرر تھے جن میں لوگ کھیلتے اور خوشیاں مناتے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت سے ہم ان میں کھیلتے چلے آ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں وہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ہیں۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: صلاۃ العیدین: ۴۳۱۱م.)
سیدنا نبیشہ الہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایام تشریق (یعنی: ۱۱، ۲۱، اور ۳۱ ) ذو الحجہ کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔‘‘
(مسلم: الصیام، باب: تحریم صوم أیام التشریق: ۱۴۱۱.)
معلوم ہوا کہ عیدا الأضحی اور ایام تشریق کے دنوں میں کھانے پینے میں وسعت کرنا اور مباح کھیل کود میں کوئی حرج نہیں۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بچیاں دف بجا کر جنگ بعاث کا قصہ جو انصار نے اشعار میں لکھا تھا گا رہی تھیں۔ (جنگ بعاث اوس اور خزرج کے درمیان حالت کفر میں ہوئی تھی) سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کیا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابوبکر! انہیں کچھ نہ کہو بے شک آج عید کا دن ہے۔ بلاشبہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔‘‘
(بخاری، العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام، ۲۵۹، مسلم، صلاۃ العیدین ۲۹۸.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر پڑھنے والی چھوٹی بچیاں ہوں، آلات موسیقی میں سے صرف دف (یا اس سے کم تر کوئی آلہ) ہو نیز اشعار خلاف شریعت نہ ہوں اور عید کا موقع ہو تو ایسے اشعار پڑھنے یا سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مفاد پرست گویوں نے اس حدیث شریف سے اپنا الو سیدھا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی چنانچہ انہوں نے بچیوں سے ہر عمر کی پیشہ ور گلوکارہ ثابت کر دی، دف سے جملہ آلات موسیقی جائز قرار دیئے، اچھے اشعار سے گانوں کا جواز کشید کیا اور عید کے دن سے ’’روح کی غذائیت‘‘ ڈھونڈ نکالی اور یہ نہ سوچا کہ اللہ خالق و مالک ہے اس نے اپنے بندوں کے لیے جواز کی جو حد چاہی مقرر کر دی اور اس سے تجاوز کو حرام کر دیا۔ (ع، ر)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدنیہ منورہ تشریف لائے تو سال میں دو دن مقرر تھے جن میں لوگ کھیلتے اور خوشیاں مناتے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت سے ہم ان میں کھیلتے چلے آ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں وہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ہیں۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: صلاۃ العیدین: ۴۳۱۱م.)
سیدنا نبیشہ الہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایام تشریق (یعنی: ۱۱، ۲۱، اور ۳۱ ) ذو الحجہ کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔‘‘
(مسلم: الصیام، باب: تحریم صوم أیام التشریق: ۱۴۱۱.)
معلوم ہوا کہ عیدا الأضحی اور ایام تشریق کے دنوں میں کھانے پینے میں وسعت کرنا اور مباح کھیل کود میں کوئی حرج نہیں۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بچیاں دف بجا کر جنگ بعاث کا قصہ جو انصار نے اشعار میں لکھا تھا گا رہی تھیں۔ (جنگ بعاث اوس اور خزرج کے درمیان حالت کفر میں ہوئی تھی) سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کیا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابوبکر! انہیں کچھ نہ کہو بے شک آج عید کا دن ہے۔ بلاشبہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔‘‘
(بخاری، العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام، ۲۵۹، مسلم، صلاۃ العیدین ۲۹۸.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر پڑھنے والی چھوٹی بچیاں ہوں، آلات موسیقی میں سے صرف دف (یا اس سے کم تر کوئی آلہ) ہو نیز اشعار خلاف شریعت نہ ہوں اور عید کا موقع ہو تو ایسے اشعار پڑھنے یا سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مفاد پرست گویوں نے اس حدیث شریف سے اپنا الو سیدھا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی چنانچہ انہوں نے بچیوں سے ہر عمر کی پیشہ ور گلوکارہ ثابت کر دی، دف سے جملہ آلات موسیقی جائز قرار دیئے، اچھے اشعار سے گانوں کا جواز کشید کیا اور عید کے دن سے ’’روح کی غذائیت‘‘ ڈھونڈ نکالی اور یہ نہ سوچا کہ اللہ خالق و مالک ہے اس نے اپنے بندوں کے لیے جواز کی جو حد چاہی مقرر کر دی اور اس سے تجاوز کو حرام کر دیا۔ (ع، ر)