• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نماز عیدین
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدنیہ منورہ تشریف لائے تو سال میں دو دن مقرر تھے جن میں لوگ کھیلتے اور خوشیاں مناتے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت سے ہم ان میں کھیلتے چلے آ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں وہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ہیں۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: صلاۃ العیدین: ۴۳۱۱م.)
سیدنا نبیشہ الہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایام تشریق (یعنی: ۱۱، ۲۱، اور ۳۱ ) ذو الحجہ کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔‘‘
(مسلم: الصیام، باب: تحریم صوم أیام التشریق: ۱۴۱۱.)
معلوم ہوا کہ عیدا الأضحی اور ایام تشریق کے دنوں میں کھانے پینے میں وسعت کرنا اور مباح کھیل کود میں کوئی حرج نہیں۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بچیاں دف بجا کر جنگ بعاث کا قصہ جو انصار نے اشعار میں لکھا تھا گا رہی تھیں۔ (جنگ بعاث اوس اور خزرج کے درمیان حالت کفر میں ہوئی تھی) سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کیا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابوبکر! انہیں کچھ نہ کہو بے شک آج عید کا دن ہے۔ بلاشبہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔‘‘
(بخاری، العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام، ۲۵۹، مسلم، صلاۃ العیدین ۲۹۸.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر پڑھنے والی چھوٹی بچیاں ہوں، آلات موسیقی میں سے صرف دف (یا اس سے کم تر کوئی آلہ) ہو نیز اشعار خلاف شریعت نہ ہوں اور عید کا موقع ہو تو ایسے اشعار پڑھنے یا سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مفاد پرست گویوں نے اس حدیث شریف سے اپنا الو سیدھا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی چنانچہ انہوں نے بچیوں سے ہر عمر کی پیشہ ور گلوکارہ ثابت کر دی، دف سے جملہ آلات موسیقی جائز قرار دیئے، اچھے اشعار سے گانوں کا جواز کشید کیا اور عید کے دن سے ’’روح کی غذائیت‘‘ ڈھونڈ نکالی اور یہ نہ سوچا کہ اللہ خالق و مالک ہے اس نے اپنے بندوں کے لیے جواز کی جو حد چاہی مقرر کر دی اور اس سے تجاوز کو حرام کر دیا۔ (ع، ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
مسائل و احکام
غسل کرنا:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جمعہ، عرفہ، قربانی اور عید الفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، صلاۃ العیدین، باب غسل العیدین: ۳/۸۷۲،.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید کے دن عید گاہ کی طرف نکلنے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔
(موطا امام مالک، العیدین، باب العمل فی غسل العیدین والنداء فیھما والاقامۃ۔ (۱/۷۷۱))
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عید کے دن غسل کے مسئلہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر سے استدلال اور جمعہ کے غسل پر قیاس کیا گیا ہے۔

صدقہ فطر ادا کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عید الفطر کی نماز کے لیے گھر سے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
(بخاری: الزکاۃ، باب: فرض صدقۃ الفطر: ۳۰۵۱ ومسلم: الزکاۃ، باب: الأمر بإخراج زکاۃ الفطر قبل الصلاۃ: ۶۸۹.)
عید گاہ میں پہنچ کر صدقۃ الفطر ادا کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ اسے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔

عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ آبادی سے باہر عید گاہ میں نماز ادا کرتے۔
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحٰی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔‘‘
(بخاری، العیدین، الخروج الی المصلی بغیر منبر،۶۵۹، مسلم، الصلاۃ العیدین،۹۸۸.)
آپ کی عید گاہ مسجد نبوی سے ہزار ذراع کے فاصلہ پر تھی۔ یہ عید گاہ البقیع کی طرف تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
بغیر اذان اور تکبیر کے نماز پڑھنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز پڑھی آپ نے بغیر اذان اور تکبیر کے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی۔" (مسلم: ۵۸۸.)
سیدنا جابر بن عبد اللہ الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
"نماز عید کے لیے اذان ہے نہ تکبیر، پکارنا ہے نہ کوئی اور آواز۔"
(بخاری: ۰۶۹، مسلم: صلاۃ العیدین: ۶۸۸.)

عید گاہ میں نفل:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں سوائے عید کی دو رکعتوں کے نہ پہلے نفل پڑھے نہ بعد میں۔
(بخاری: العیدین، باب: الخطبۃ بعد العید: ۴۶۹، ومسلم: صلاۃ العیدین، باب: ترک الصلاۃ قبل العید وبعدھا فی المصلی: ۴۸۸.)
البتہ عید کی نماز سے فارغ ہو کر گھر جا کر دو رکعتیں پڑھی جا سکتیں ہیں۔
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے البتہ جب عید پڑھ کر اپنے گھر کی طر ف لوٹتے تو دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما جاء فی الصلاۃ قبل الصلاۃ العید و بعدھا،۳۹۲۱.)

نماز عید سے پہلے کھانا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر میں کچھ کھا کر نماز کو نکلتے۔ اور عید الاضحی میں نماز پڑھ کر کھاتے۔
(ترمذی: العیدین، باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج ۲۴۵۔ ابن ماجہ، الصیام، باب فی الاکل یوم الفطر قبل ان یخرج ۶۵۷۱۔ ابن حبان، ابن خزیمۃ ، حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز طاق کھجوریں کھا کر عید گاہ جایا کرتے تھے۔
(بخاری، العیدین، باب الاکل یوم الفطر قبل الخروج: ۳۵۹.)

دیہات میں نماز عید:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب شہر جا کر عید کی نماز باجماعت ادا نہ کر سکتے تو اپنے غلاموں اور بچوں کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبد اللہ بن ابی عتبہ کو شہر والوں کی نماز کی طرح نماز پڑھانے کا حکم دیتے۔
(بخاری، العیدین، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین (تعلیقاً) السنن الکبری للبیہقی، ۳/۵۰۳.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
عید کی نماز اگلے دن ادا کرنا:
ایک قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ انہوں نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ روزہ افطار کر دیں اور کل جب صبح ہو تو وہ عید گاہ کی طرف نکل آئیں۔
(ابو داود: الصلاۃ، باب: إذا لم یخرج الإمام للعید من یومہ یخرج من العید: ۷۵۱۱۔ابن حزم اور بیہقی نے اسے صحیح کہا۔)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی عذر کی بنا پر نماز عید کا وقت فوت ہو جائے تو وہ اگلے دن عید کی نماز کے لیے نکلیں۔

عید کے دن جنگی کھیلوں کا مظاہرہ:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ
’’عید کے دن حبشی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اسے دیکھنا چاہتی ہو میں نے کہا ہاں! مجھے آپ نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میں ان حبشیوں کا تماشا دیکھ رہی تھی جو عید کے دن مسجد میں جنگی کھیلوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔‘‘
(بخاری: الصلاۃ، باب: أصحاب الحراب فی المسجد: ۴۵۴۔ مسلم: العیدین، باب: الرخصۃ فی اللعب: ۲۹۸.)

نماز عید کا وقت:
سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے روز نماز کے لیے گئے۔ امام نے نماز میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے، راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب: وقت الخروج الی العید: ۵۳۱۱، اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)

عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل کرنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(بخاری: العیدین، باب: من خالف الطریق إذا رجع یوم العید: ۶۸۹.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن کسی راستے سے نکلتے تو واپسی پر کسی دوسرے راستے سے لوٹتے۔‘‘
(ابو داؤد، الخروج الی العید فی طریق، ویرجع فی طریق ۶۵۱۱، ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما جاء فی الخروج یوم العید من طریق،۱۰۳۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
عید گاہ میں عورتیں:
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہمیں حکم دیا گیا کہ
ہم (سب عورتوں کو حتیٰ کہ) حیض والیوں اور پردہ والیوں کو (بھی) دونوں عیدوں میں (گھروں سے نکالیں) تاکہ وہ (سب) مسلمانوں کی جماعت (نماز) اور ان کی دعا میں حاضر ہوں۔ اور فرمایا
حیض والیاں جائے نماز سے الگ رہیں۔ (یعنی وہ نماز نہ پڑھیں) لیکن مسلمانوں کی دعاؤں اور تکبیروں میں شامل رہیں۔ تاکہ اللہ کی رحمت اور بخشش سے حصہ پائیں۔
ایک عورت نے عرض کیا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو (تو پھر وہ کیسے عید گاہ میں جائے؟) فرمایا:
’’اس کو اس کی ساتھ والی عورت چادر اڑھا دے۔ (یعنی کسی دوسری عورت سے چادر عاریتاً لے کر چلے)۔ ‘‘
(بخاری: صلاۃ، باب: وجوب الصلاۃ فی الثیاب: ۱۵۳۔ مسلم: صلاۃ العیدین، باب: ذکر إباحۃ خروج النساء فی العیدین إلی المصلی: ۰۹۸.)
سیّدنا عبد اللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ہر بالغ لڑکی کا نماز عیدین کے لیے نکلنا واجب ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۰۴۲.)

تکبیرات عید :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تکبیرات کے پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو صحیح ترین روایت مروی ہے، وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔‘‘
۱۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کے دن (۹ ذوالحجہ) کی فجر سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات کہتے۔
(السنن الکبری للبیہقی (۳/۴۱۳ ح :۵۷۶۲) امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
۲۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن گھر سے عید گاہ تک تکبیرات کہتے۔
(السنن الکبری للبیہقی (۳/۹۷۲) ۹۲۱۶ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما موقوفاً محفوظ ہے.)
۳۔ امام زہری کہتے ہیں کہ لوگ عید کے دن اپنے گھروں سے عید گاہ تک تکبیرات کہتے، پھر امام کے ساتھ تکبیرات کہتے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ۱/۸۸۴.۸۲۶۵)
۴۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۹ ذوالحجہ کو نماز فجر سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ نماز عصر تک ان الفاظ میں تکبیرات کہتے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ وَأَجَلُّ اللّٰہُ أَکْبَرُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ.‘‘
’’اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ صاحب جلال ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ ہی کے لیے ساری تعریف ہے۔‘‘
(ابن أبی شیبۃ: ۱/۹۸۴،۔ اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
۵۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ یوں تکبیرات کہتے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا.‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ۳/۶۱۳،۲۸۲۶.)
’’حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس بارے میں صحیح ترین قول سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کا ہے۔‘‘
۶۔ مشہور تابعی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ عرفات کے دن نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر ’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ.‘‘ پڑھتے تھے۔
(مصنف ابی شیبہ:۲/۷۶۱، حدیث۹۴۶۵.)
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ان الفاظ سے تکبیر کہا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۳/۸۶۱ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا۔ (ارواء الغلیل ۳/۵۳۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نماز عید کا طریقہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحٰی کے دن عید گاہ جاتے، سب سے پہلے نماز پڑھتے، پھر خطبہ دیتے جبکہ لوگ صفوں میں بیٹھے رہتے۔ خطبہ میں لوگوں کو نصیحت اور وصیت کرتے اور حکم دیتے پھر واپس لوٹتے۔
(بخاری، العیدین، باب الخروج الی المصلی بغیر منبر، ۶۵۹۔ مسلم، صلاۃ العیدین، ۹۸۸.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الا ضحی کی نماز کی اول رکعت میں سات تکبیرات کہتے اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کہتے۔
(أبو داود، الصلاۃ، باب فی التکبیر فی العیدین: ۹۴۱۱، ترمذی: ۶۳۵، اسے امام احمد اور علی بن مدینی نے صحیح کہا۔)
ہر تکبیر پر رفع الیدین کریں اور ہر تکبیر کے بعد ہاتھ باندھیں۔ امام اونچی آواز سے اور مقتدی آہستہ الحمد شریف پڑھیں، پھر امام اونچی آواز سے قرأت پڑھے، اور مقتدی چپ چاپ سنیں۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے نماز عیدین کی زائد تکبیرات میں رفع الیدین کرنے پر جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس میں سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے جو رکوع میں جانے سے پہلے کہتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز مکمل ہو جاتی۔
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب رفع الیدین فی الصلاۃ، ۲۲۷۔ ابن الجارود نے اسے صحیح کہا۔)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عید الاضحی کے دن (عید گاہ میں) بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں کو سلام کیا اور فرمایا کہ یقیناً آج کا پہلا کام نماز ہے۔ پھر آپ آگے بڑھے اور لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی۔ سلام پھیر کر آپ نے اپنا رخ لوگوں کی طرف کیا۔ آپ کو ایک کمان یا لکڑی دی گئی۔ آپ نے اس کا سہارا لیا۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ نیکی کا حکم دیا اور برائی سے منع کیا۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۸۷۶۱.)
عیدین کا خطبہ منبر پر نہیں پڑھنا چاہیے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عید گاہ میں منبر کا اہتمام مروان بن حکم کے عہد میں کیا گیا۔
(بخاری: العیدین: ۶۵۹، مسلم: صلاۃ العیدین: ۹۸۸.)
ایک شخص نے مروان کے اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا :
’’تم نے عید کے روز منبر لا کر سنت کی مخالفت کی کیونکہ اس روز اسے نہیں لایا جاتا تھا، اور تم نے خطبہ کو نماز سے پہلے پڑھ کر (سنت کی مخالفت کی)
(ابوداود، الصلاۃ، باب: الخطبۃ یوم العید: (۰۴۱۱) ابن ماجۃ، اقامۃ الصلوٰۃ، باب ماجاء فی صلوۃ العیدین، (۵۷۲۱).)

عید کا خطبہ سننا سنت ہے:
سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں حاضر ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کر لی تو فرمایا
’’یقیناً اب ہم خطبہ دیں گے پس جو خطبے کے لیے بیٹھنا پسند کرے وہ بیٹھ جائے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے ۔‘‘
(ابن ماجہ، الانتظار الخطبۃ بعد الصلاۃ۰۹۲۱. )
معلوم ہوا عید کا خطبہ سننا واجب نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہم پہلے نماز پڑھتے پھر خطبہ دیتے۔
(بخاری، العیدین، باب الخطبۃ بعد العید۲۶۹، مسلم، صلاۃ العیدین، حدیث ۴۸۸.)
ان احادیث میں ایک خطبہ کا ذکر ہے البتہ بعض اہل علم خطبہ عید کو جمعہ کے خطبہ پر قیاس کر کے دو خطبوں کے قائل ہیں۔

عید الاضحی کے دن نماز عید پڑھ کر قربانی کرنا:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقہ کو اپنا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی اس کی قربانی نہیں ہو گی وہ محض گوشت کی ایک بکری ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے ذبح کی ہے۔‘‘
(بخاری، العیدین، باب الخطبۃ بعد العید ۵۶۹۔ مسلم، الاضاحی، باب وقتھا، ۱۶۹۱.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کی وہ نماز کے بعد دوسری قربانی کرے۔‘‘
(بخاری، العیدین، باب کلام الامام والناس فی خطبۃ العید، ۵۸۹ مسلم، ۰۶۹۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
نماز سفر
سفر میں ظہر، عصر اور عشاء کی چار چار فرض رکعتوں کو دو، دو پڑھنا قصر (کم کرنا) کہلاتا ہے۔ فجر اور مغرب میں قصر نہیں ہے۔ جو شخص سفر کے ارادے سے اپنے گھر سے چلے اور گاؤں یا شہر کی آبادی سے نکل جائے تو وہ از روئے شریعت مسافر ہے۔ اور اپنی فرض نماز میں قصر کر سکتا ہے۔
مسافر جب تک شہر کی حد سے باہر نہیں نکلتا وہ پوری نماز پڑھے گا۔ اسی طرح واپسی پر جب تک مسافر شہر میں داخل نہیں ہوتا قصر کرتا رہے گا۔
’’سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کوفہ سے نکل کر قصر شروع کر دیتے جبکہ وہ ابھی کوفہ کے مکانات دیکھ رہے ہوتے تھے جب وہ سفر سے واپس آتے تو قصر کرتے رہے۔ انہیں کہا گیا کہ سامنے تو کوفہ نظر آرہا ہے تو فرمانے لگے ’’نہیں جب تک ہم کوفہ میں داخل نہ ہو جائیں۔ (قصر کرتے رہیں گے)۔‘‘ (بخاری، یقصر اذا خرج من موضعہ.تعلیقاً.)
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابتداء میں (سفر و حضر میں) دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی پھر سفر کی نماز کو باقی رکھا گیا اور حضر کی نماز مکمل کر دی گئی۔ (بخاری۰۹۰۱، مسلم۵۸۶.)
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر مسافر پر دو رکعتیں، مقیم پر چار رکعتیں اور حالت خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔ (مسلم، تقصیر الصلاۃ المسافرین وقصرھا، و ۷۸۶.)

سفر کی مسافت:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسنگ کی مسافت پر نکلتے تو نماز دو رکعتیں پڑھتے۔ (مسلم: صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا، ۱۹۶.)
اس حدیث میں راوی حدیث نے پوری ایمانداری سے کام لیتے ہوئے تین میل یا تین فرسنگ کہا ہے۔ یعنی راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین میل کی مسافت پر قصر کرتے تھے یا تین فرسنگ (نو میل) پر۔
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعتیں پڑھیں اور ذو الحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعتیں پڑھیں۔
(بخاری، الحج، باب من بات بذی الحلیفۃ حتی اصبح ۷۴۵۱، ومسلم،۰۹۶ واللفظ لمسلم.)
ذوالحلیفہ ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے چھ میل کے فاصلے پر ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو ذوالحلیفہ پہنچ کر نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ پس آپ نے وہاں عصر میں قصر کر لی۔ دارلافتاء اللجنۃ الدائمہ سعودی عرب کا فتویٰ ہے کہ: زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ ہر وہ مسافت جسے عرف میں سفر کہا جا سکتا ہو اس میں نماز قصر کی جا سکتی ہے کیونکہ معین مسافت کی حد بندی مقرر نہیں۔ (فتاویٰ اسلامیہ، جلد اول، ص،۴۲۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
مسافر بغیر خوف کے قصر کرے:
سیدنا یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ میں نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:
(وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلاَۃِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (النساء: ۱۰۱)
’’اور جب تم سفر میں ہو اور اگر تمہیں کفار سے خوف ہو تو نماز قصر کر لو تم پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘
آج ہم امن میں ہیں نماز قصر کیوں کریں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا جیسے تمہیں تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ
’’(امن کی حالت میں قصر کی اجازت دینا) اللہ کا احسان ہے اسے قبول کرو۔‘‘
(مسلم، صلوٰۃ المسافرین، باب صلوٰۃ المسافرین وقصرھا: ۶۸۶.)
سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منیٰ میں قصر نماز پڑھائی حالانکہ ہم تعداد میں زیادہ اور حالت امن میں تھے۔ (بخاری: الحج، باب: الصلاۃ بمنیٰ: ۶۵۶۱۔ مسلم: صلاۃ المسافرین، باب: قصر الصلاۃ بمنیٰ: ۶۹۶.)

قصر کی حد:
اگر کوئی مسافر کسی علاقے میں متردد ٹھہرے کہ آج جاؤں گا یا کل تو نماز قصر کرتا رہے گا خواہ کئی مہینے لگ جائیں۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ عبدالملک بن مروان کے ہمراہ دو ماہ (بحیثیت متردد مسافر) شام میں رہے اور نماز دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ (بیہقی ۳/۲۵۱.)
ابو جمرہ نصر بن عمران سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ ہم غزوہ کی غرض سے خراسان میں طویل قیام کرتے ہیں۔ کیا ہم پوری نماز پڑھیں؟ آپ نے فرمایا: دو رکعتیں ہی پڑھا کرو خواہ تمہیں (کسی جگہ متردد مسافر کی حیثیت سے) دس سال قیام کرنا پڑے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ.)
اور اگر انیس دن تک ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو نماز میں قصر کرے۔ اور اگر انیس روز سے زائد ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پھر نماز پوری پڑھنی چاہیے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر کیا۔ پھر آپ انیس دن ٹھہرے اور دو دو رکعتیں نماز پڑھتے رہے۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر ہم کسی منزل میں انیس دن ٹھہرتے ہیں تو دو دو رکعتیں پڑھتے ہیں۔ اور جب اس (انیس دن) سے زیادہ ٹھہرتے ہیں تو چار رکعات پڑھتے ہیں۔
(بخاری، تقصیر الصلاۃ، باب ماجاء فی التقصیر: ۰۸۰۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
سفر میں اذان اور جماعت:
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر پر جا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جب تم سفر پر جاؤ اور نماز کا وقت ہو جائے تو اذان اور اقامت کہو پھر تم میں جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب الاذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ: ۰۳۶.)

مقیم امام کے پیچھے مسافر کی نماز:
مسافر جب مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے گا تو پوری پڑھے گا۔
امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب امام کے پیچھے نماز پڑھتے تو چار رکعت پڑھتے اور جب اکیلے پڑھتے تو دو رکعت پڑھتے۔ (مؤطا امام مالک، قصر الصلوۃفی السفر،۷۱.)
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے یعنی مسافر جب مقیم کے پیچھے نماز پڑھے تو پوری نماز پڑھے ورنہ قصر کر ے۔ (سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۶۷۶۲.)

سفر میں سنتوں کا بیان:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:
’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں رہا۔ مگر آپ نے دو رکعتوں سے زیادہ نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرما لی۔ اور میں سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر فاروق اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے ہمراہ، سفر میں رہا۔ ان سب نے سفر میں دو رکعتوں سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔ اور اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
(بخاری، تقصیر الصلاۃ، باب من لم یتطوع فی السفر دبر الصلاۃ: ۱۰۱۱، ۲۰۱۱، مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا: ۹۸۶.)
امام عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح سفر میں مکمل نماز ادا کرتی تھیں۔
(بخاری، تقصیر الصلاۃ، یقصر اذا خرج من موضعہ،۰۹۰۱۔مسلم،۳(۵۸۶)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما دو رکعتیں (یعنی نماز قصر) پڑھ کر اپنے بستر پر چلے جاتے تھے۔ حفص کہتے ہیں میں نے کہا چچا جان! اگر اس کے بعد آپ دو رکعتیں (سنت) پڑھ لیا کریں تو کیا حرج ہے؟؟ فرمایا: اگر مجھے یہ کرنا ہوتا تو (فرض) نماز ہی پوری پڑھ لیتا۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۶۱۸۲.)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرض سے پہلے یا بعد میں نفل نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب قصر الصلاۃ بمنی:۸۱( ۴۹۶)

مسافر کی امامت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص مہمان جائے وہ امامت نہ کروائے بلکہ ان کا آدمی ان کی جماعت کروائے۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ، مامۃ الزائر،۶۹۵.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
دو نمازوں کا جمع کرنا

سفر میں دو نمازیں جمع کرنا :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران سفر ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھتے اور مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تھے۔ (بخاری: تقصیر الصلاۃ، باب: الجمع فی السفر بین المغرب والعشاء: ۷۰۱۱.)

جمع کی دو صورتیں ہیں :
جمع تقدیم: یعنی ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھنا۔
جمع تاخیر: یعنی عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنا۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اس وقت جمع فرما لیتے اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو موخر کر کے عصر کے ساتھ ادا فرماتے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب اور عشاء اسی وقت پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو موخر کر کے عشاء کے ساتھ پڑھتے۔
(أبو داود: صلاۃ السفر، باب: الجمع بین الصلاتین: ۰۲۲۱، ترمذی: الجمعۃ، باب:ما جاء فی الجمع بین الصلاتین: ۳۵۵، اسے امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز میں تاخیر کرتے یہاں تک کہ عشا کا وقت داخل ہو جاتا پھر آپ مغرب اور عشا کو اکٹھا پڑھتے۔‘‘
(بخاری: تقصیر الصلوٰۃ، باب: یصلی المغرب ثلاثا فی السفر: ۱۹۰۱، ومسلم: صلوٰۃ المسافرین، باب: جواز الجمع بین الصلوٰتین فی السفر: ۳۰۷.)
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر میں ظہر اور عصر اکٹھے پڑھنے کی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں
’’پھر صحابی رسول نے اذان اور اقامت کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر صحابی نے اقامت کہی تو آپ نے عصر کی نماز پڑھائی۔‘‘ (مسلم، الحج، باب حجۃ النبی ۸۱۲۱.)
گویا نمازیں جمع کرتے وقت ایک اذان اور دو اقامتیں کہی جائیں گی۔

حج کے دوران میدان عرفات میں:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
’’عرفہ کے دن ظہر اور عصر کی نماز کو جمع کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘
(بخاری: الحج، باب: الجمع بین الصلاتین بعرفۃ: ۲۶۶۱.)

مزدلفہ میں:
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کیا۔‘‘
(مسلم، الحج، باب حجۃ النبی V: ۸۱۲۱.)

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامتوں سے نماز مغرب اور عشاء جمع کیں اور درمیان میں سنتیں نہیں پڑھیں۔
(بخاری: الحج، باب: من جمع بینہما ولم یتطوع: ۴۷۶۱، مسلم: ۷۸۲۱.)

بیماری کی شدت میں:
اگر مریض کو نمازوں کی وقت پر ادائیگی میں تکلیف ہوتی ہو یا جان، مال یا عزت کا خوف ہو تو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ اس کا ایک طریقہ ابو شعثاء جابر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے ظہر کو اس کے آخری وقت میں پڑھا اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھ کر دونوں نمازوں کو جمع کیا، اسی طرح مغرب کو آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں پڑھ کر دونوں نمازوں کو جمع کیا۔ (بخاری: ۴۷۱۱.)

بارش یا خوف کے علاوہ کسی ضرورت کے تحت:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر اور عصر کو جمع کر کے پڑھا۔ حالانکہ وہاں (دشمن کا) خوف تھا اور نہ ہی سفر کی حالت تھی۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو دشواری میں نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ (مسلم: صلاۃ المسافرین، باب: الجمع بین الصلاتین فی الحضر:(۰۵)۔ ۵۰۷.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بارش اور خوف کے بغیر نمازیں جمع کیں۔ (مسلم (۴۵)۵۰۷.)
عبد اللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں عصر کے بعد ہمیں خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور ستارے چمکنے لگے۔ کسی نے کہا کہ نماز (مغرب) کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا، مجھے سنت نہ سکھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کر پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ مجھے شبہ پیدا ہوا میں نے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے ان کی تصدیق کی۔ (مسلم:۷۵( ۵۰۷).)
فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’تاجروں کا اس لیے نمازوں کو جمع کرنا کہ ان کے تجارتی مراکز ہمیشہ کھلے رہیں جائز نہیں بلکہ بوقت نماز تجارتی مراکز بند کرنا واجب ہے ۔‘‘(فتاویٰ اسلامیہ اول ص۴۹۳.)
یعنی کہ ناگزیر قسم کے حالات میں حالت اقامت میں بھی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جاسکتی ہیں۔ تاہم شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ جیسے کاروباری لوگوں کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کر لیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی پڑھنا ضروری ہے، سوائے ناگزیر حالات کے۔ (ص، ی)
 
Top