- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
وسیلہ کی تشریح:
وسیلہ کے متعلق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’تحقیق وسیلہ بہشت میں ایک درجہ ہے جو صرف ایک بندے کے لائق ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے (اذان کی دعا پڑھ کر) ﷲ سے میرے لیے وسیلہ مانگا اس کے لیے (میری) شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول الموذن ۴۸۳.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ وسیلہ بہشت میں ایک بلند و بالا درجے کانام ہے۔
دعائے اذان میں اضافہ:
مسنون دعائے اذان میں بعض لوگوں نے چند الفاظ بڑھا رکھے ہیں اور وہ الفاظ مروجہ کتب نماز میں بھی موجود ہیں۔ دعائے مسنون کے جملہ (وَالْفَضِیْلَۃَ) کے بعد (وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ) کی زیادتی کرتے ہیں اور آگے (وَعَدْتَّہُ) کے خالص دودھ میں (وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ) کا پانی ملا رکھا ہے اور پھر اخیر میں مسنون دعا کے اندر (یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ) کی آمیزش ہے افسوس! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ دعا میں یہ خامی رہ گئی تھی جو بعد کے لوگوں نے اپنے اضافے سے پوری کی ہے؟ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پاک میں کمی یا بیشی کرنے کے تصور سے کانپ اٹھنا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو باوضو ہو کر سونے سے پہلے پڑھنے کے لیے ایک دعا بتائی۔ سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنائی تو بِنَبِیِّکَ کی جگہ بِرَسُوْلِکَ یعنی نبی کی جگہ رسول کہا۔ تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میرے بتائے ہوئے لفظ نبی کو رسول سے مت بدلو بلکہ) بِنَبِیِّکَ ہی کہو۔
(بخاری، الوضوء، باب فضل من بات علی الوضوء ۷۴۲، ومسلم، الذکر والدعاء، باب ما یقول عند النوم۰۱۷۲.)
اس سے معلوم ہوا کہ مسنون دعائیں اور ورد توقیفی (ﷲ کی طرف سے ) ہیں اور ان کی حیثیت عبادت کی ہے لہٰذا ان میں کمی بیشی جائز نہیں لہٰذا (کسی قرینہ یا دلیل کے بغیر) متکلم کے صیغے کو جمع کے صیغے سے بدلنا درست نہیں ہے اس کی بجائے بہتر یہ ہے کہ متکلم کا صیغہ ہی بولا جائے البتہ نیت میں یہ رکھا جائے کہ میں یہی دعا فلاں فلاں کے حق میں بھی کر رہا ہوں۔ نیز مسنون دعاؤں اور اوراد کے ہوتے ہوئے خود ساختہ عربی دعاؤں، وظیفوں اور درودوں کا التزام کرنا درست نہیں ہے اور اگر ان کے کچھ الفاظ شرک، کفر یا بدعت پر مشتمل ہوں تو اس صورت میں ان کا پڑھنا قطعی طور پر حرام ہو جاتا ہے لیکن افسوس کہ جاہل لوگ روزانہ علی الصبح پابندی کے ساتھ درود تاج، درود لکھی اور درود ہزاری وغیرہ کی ’’تلاوت‘‘ کرتے ہیں۔ اﷲ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین (ع،ر)
وسیلہ کے متعلق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’تحقیق وسیلہ بہشت میں ایک درجہ ہے جو صرف ایک بندے کے لائق ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے (اذان کی دعا پڑھ کر) ﷲ سے میرے لیے وسیلہ مانگا اس کے لیے (میری) شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول الموذن ۴۸۳.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ وسیلہ بہشت میں ایک بلند و بالا درجے کانام ہے۔
دعائے اذان میں اضافہ:
مسنون دعائے اذان میں بعض لوگوں نے چند الفاظ بڑھا رکھے ہیں اور وہ الفاظ مروجہ کتب نماز میں بھی موجود ہیں۔ دعائے مسنون کے جملہ (وَالْفَضِیْلَۃَ) کے بعد (وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ) کی زیادتی کرتے ہیں اور آگے (وَعَدْتَّہُ) کے خالص دودھ میں (وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ) کا پانی ملا رکھا ہے اور پھر اخیر میں مسنون دعا کے اندر (یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ) کی آمیزش ہے افسوس! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ دعا میں یہ خامی رہ گئی تھی جو بعد کے لوگوں نے اپنے اضافے سے پوری کی ہے؟ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پاک میں کمی یا بیشی کرنے کے تصور سے کانپ اٹھنا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو باوضو ہو کر سونے سے پہلے پڑھنے کے لیے ایک دعا بتائی۔ سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنائی تو بِنَبِیِّکَ کی جگہ بِرَسُوْلِکَ یعنی نبی کی جگہ رسول کہا۔ تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میرے بتائے ہوئے لفظ نبی کو رسول سے مت بدلو بلکہ) بِنَبِیِّکَ ہی کہو۔
(بخاری، الوضوء، باب فضل من بات علی الوضوء ۷۴۲، ومسلم، الذکر والدعاء، باب ما یقول عند النوم۰۱۷۲.)
اس سے معلوم ہوا کہ مسنون دعائیں اور ورد توقیفی (ﷲ کی طرف سے ) ہیں اور ان کی حیثیت عبادت کی ہے لہٰذا ان میں کمی بیشی جائز نہیں لہٰذا (کسی قرینہ یا دلیل کے بغیر) متکلم کے صیغے کو جمع کے صیغے سے بدلنا درست نہیں ہے اس کی بجائے بہتر یہ ہے کہ متکلم کا صیغہ ہی بولا جائے البتہ نیت میں یہ رکھا جائے کہ میں یہی دعا فلاں فلاں کے حق میں بھی کر رہا ہوں۔ نیز مسنون دعاؤں اور اوراد کے ہوتے ہوئے خود ساختہ عربی دعاؤں، وظیفوں اور درودوں کا التزام کرنا درست نہیں ہے اور اگر ان کے کچھ الفاظ شرک، کفر یا بدعت پر مشتمل ہوں تو اس صورت میں ان کا پڑھنا قطعی طور پر حرام ہو جاتا ہے لیکن افسوس کہ جاہل لوگ روزانہ علی الصبح پابندی کے ساتھ درود تاج، درود لکھی اور درود ہزاری وغیرہ کی ’’تلاوت‘‘ کرتے ہیں۔ اﷲ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین (ع،ر)