شرمگاہ پر چھینٹے مارنا
وضو تو مکمل ہوچکا ۔اب مذکورہ بالا اعمال کے بعد شرم گاہ پر پانی کے چھینٹے مارنا سنت ہے۔
دلیل: حکم فرماتے ہیں کہ
’’أنہ رأی رسول اﷲ !توضأ ثم أخذ کفا من مائٍ فنضح بہ فرجہ‘‘ (صحیح ابن ماجہ:۳۷۴)
’’انہوں نے رسول اللہﷺ کودیکھا کہ آپ نے وضو کیا پھر چلو میں پانی لیا اور اپنی شرمگاہ پر چھینٹ دیا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
((علمني جبرائیل الوضوئ،وأمرنی أن أنضح تحت ثوبي))(ایضاً:۳۷۵)
’’جبرائیل نے مجھے وضو کا طریقہ سکھلایا اور مجھے حکم کیا کہ میں اپنے کپڑے کے نیچے چھینٹے ماروں۔‘‘
وضو کی تکمیل پر دعا
آپ نے فرمایا:جوشخص وضو کرنے کے بعد یہ دعا: ((
أَشْہَدُ أنْ لَّا إلہ إلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ،[اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ])) (صحیح مسلم:۲۳۴،صحیح ترمذی:۴۸)
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ا ور بے شک محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل کر جو توبہ کرتے رہتے ہیں اور جو ہر وقت پاک صاف رہتے ہیں۔‘‘
پڑھ لیتا ہے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جس میں سے چاہے وہ داخل ہو۔
وضو کے بعدمذکورہ دعا انگشت ِشہادت بلند کرکے آسمان کی طرف دیکھ کرپڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
نواقض وضو
چند ایسے اعمال ہیں جن کے صدور سے وضو ٹوٹ جاتاہے:
پیشاب و پاخانہ کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (المائدۃ:۶)
ریح وغیرہ کے خارج ہونے سے۔ (صحیح بخاری:۱۳۷)
(چت لیٹ کر) سونے سے۔ (صحیح ابوداود:۱۸۸)
شرم گاہ کو چھونے سے ۔ (صحیح ابوداود:۱۶۶)
اونٹ کا گوشت کھانے سے۔ (مسلم:۳۶۰)
اور مندرجہ ذیل اُمور جن سے وضو نہیں ٹوٹتا :
جسم سے خون نکلنے سے۔
نکسیر و قے آجانے سے۔
بغیر ٹیک لگائے سونے سے۔
تیمم
تیمم غسل جنابت یا وضو کا قائم مقام ہے اور یہ پانی نہ ملنے کی صورت میں طہارت حاصل کرنے کے لئے پاک مٹی سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تیمم شدید عذر اور ایسی بیماری کی حالت میں بھی کیا جاسکتا ہے کہ جس میں جان جانے کا خطرہ ہو۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
}وَإنْ کُنْتُمْ مَرْضٰی أوْ عَلیٰ سَفَرٍ أوْ جَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْ لـمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ {
’’اگر تم مریض یاسفر پر ہو یاتم قضائے حاجت سے فارغ ہوئے ہو یا تم عورتوں سے مل چکے ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو، پس اپنے چہروں اور ہاتھوں کامسح کرو۔‘‘ (النساء:۴۳، المائدۃ:۶(
قرآن کی مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں درج شدہ عوارض یا ان جیسے معاملات میں تیمم کیا جاسکتا ہے۔
طریقہ تیمم
اس کے دو طریقے نبی ﷺسے منقول ہیں:
روایت ہے کہ
’’وضرب النبي! بکفیہ الأرض ونفخ فیھما،ثم مسح بھما وجھہ وکفیہ‘‘ (صحیح بخاری :۳۳۸)
’’اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان دونوں پر پھونکا پھر اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں (کی پشت) پرپھیرے۔ ‘‘
دوسراطریقہ آپ سے یوں منقول ہے کہ
’’فضرب بکفہ ضربۃ علی الارض ثم نفضھا ثم مسح بھا ظھر کفہ بشمالہ، أو ظھر شمالہ بکفہ، ثم مسح بھا وجھہ‘‘ (صحیح بخاری:۳۴۷)
’’آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا پھر اس کو جھاڑ دیا پھر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرا اور دائیں کو بائیں ہاتھ پر پھیرا پھر ان سے اپنے چہرے پر مسح کیا۔‘‘
تیمم کن چیزوں اور کتنی مدت تک ہوتا ہے؟
تیمم کے لئے پاک مٹی کا ہونا ضروری ہے۔آپ(ﷺ) نے فرمایا:
الصعید الطیب وضوء المسلم ولو إلی عشر سنین
’’پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے اگرچہ دس برس پانی نہ پائے۔‘‘(صحیح ابو داود:۳۲۱)
اس کے علاوہ مٹی کے نہ ہونے کی صورت میں اس کی مختلف اقسام مثلاً کلرشدہ مٹی، پتھراور ریت وغیرہ سے بھی تیمم کیا جاسکتا ہے۔
تیمم چونکہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر کسی انتہائی عذر کی وجہ سے کیا جاتا ہے لہٰذا پانی وغیرہ کی موجودگی یا عذر دو رہوجانے کی وجہ سے تیمم ختم ہوجاتا ہے وگرنہ ایسا کوئی عارضہ لاحق نہ ہونے کی وجہ سے کہ جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہو تیمم کی مدت وضو کی طرح ہی ہے۔