پانچ نمازوں میں فرض و نفل رکعات کی تعداد
فرائض
ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد ۱۷ ہے جو صحیح روایات اور اُمت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں۔
سنت مؤکدہ
اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپ کی عادت اور معمول تھا کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۱۲ ہے جس کی تاکید و ترغیب بھی آپ سے منقول ہے۔ اُمّ حبیبہ فرماتی ہیں:
سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: (من صلی اثنی عشرۃ رکعۃ فی یوم ولیلۃ بني لہ بیت فی الجنۃ) (صحیح مسلم:۷۲۸)
’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا جو شخص دن اور رات میں ۱۲ رکعات پڑھ لے، ان کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے‘‘
فجر
تعداد رکعات : ۴ ( ۲ نفل+ ۲ فرض)
نوافل
اُمّ المومنین حفصہ فرماتی ہیں کہ
’’کان إذا سکت المؤذن من الأذان لصلاۃ الصبح وبدأ الصبح رکع رکعتین خفیفتین قبل أن تقام الصلاۃ‘‘ (صحیح مسلم:۷۲۳)
’’جب مؤذن اذان کہہ لیتااور صبح صادق شرو ع ہوجاتی تو آپ (ﷺ) جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے۔‘‘
فرائض
ابو برزہ اسلمی سے روایت ہے کہ آپ صبح کی نماز پڑھاتے:
وکان یقرأ فی الرکعتین أو أحدھما ما بین الستین إلی المائۃ
’’ اورآپ دو رکعتوں میں یا کسی ایک میں ساٹھ سے سو تک آیات تلاوت فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۱)
آپ ﷺ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پرمداومت ثابت ہے جیساکہ عائشہ فرماتی ہیں:
أن النبي ﷺ لم یکن علی شيء من النوافل أشد معاہدۃ منہ علی رکعتین قبل الصبح (صحیح مسلم:۷۲۴)
’’بے شک نبی نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام صبح کی سنتوں کا کرتے تھے۔‘‘
ظہر
زیادہ سے زیادہ رکعات :۱۲ (۲یا ۴ نفل+۴ فرض+۲ یا ۴ نفل)
نوافل
عائشہ فرماتی ہیں کہ
کان یصلي فی بیتي قبل الظہر أربعا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین (صحیح مسلم:۷۳۰)
’’آپ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آکر دو رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
ابن عمر فرماتے ہیں:
صلیت مع النبيﷺ سجدتین قبل الظہر السجدتین بعد الظہر(صحیح بخاری:۷۲)
’’میں نے نبی ﷺکے ساتھ دو رکعات ظہر سے پہلے اور دو ظہر کی نماز کے بعد پڑھے۔‘‘
اُمّ حبیبہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (من حافظ علی أربع رکعات قبل الظہر وأربع بعدھا حرم علی النار) (صحیح ابوداود:۱۱۳۰)
’’جس شخص نے ظہر سے قبل اور بعد چار چار رکعات نوافل کا اہتمام کیا، اس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ہے۔‘‘
مذکورہ بالا روایات سے ظہرکی سنتوں کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ۱۶ ہیں اور ان میں کم از کم ۴ رکعات نوافل موکدہ ہیں جیسا کہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
أن النبی کان لا یدع أربعا قبل الظہر رکعتین قبل الغداۃ (صحیح بخاری:۱۱۸۲)
’’نبی ظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات کبھی نہ چھوڑتے۔‘‘
فرائض
ابوقتادہ سے روایت ہے کہ
’’أن النبي کان یقرأ في الظہر في الأولیین بأم الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۶)
’’بے شک نبی(ﷺ) ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے…الخ‘‘
عصر
تعداد رکعات: ۸ (۴ نفل +۴ فرض)
نوافل
علی(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ
کان النبي ﷺ یصلي قبل العصر أربع رکعات( صحیح ترمذی:۳۵۳)
’’نبی عصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
ابوسعیدخدری سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
کنا نحرز قیام رسول اﷲ فی الظہر والعصر۔۔۔فحزرنا قیامہ في رکعتین الاولیین من العصر علی قدر قیامہ فی الاخریین من الظہر وفي الاخریین من العصر علی النصف من ذلک( مسلم:۴۵۲)
’’ ہم رسول اللہ کے ظہر اور عصر کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے… عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس طرح کرتے کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعتوں کا قیام عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف ہوتاتھاـ۔‘‘
عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات نوافل غیر موکدہ ہیں،کیونکہ اس پر آپ کا دوام ثابت نہیں۔البتہ آپ نے ان نوافل کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا:
رحم اﷲ امرأ صلی قبل العصر أربعا (صحیح ابوداود:۱۱۳۲)
’’جس شخص نے عصر سے قبل چار رکعات نوافل ادا کئے اللہ اس پر رحم فرمائے۔‘‘
ظہر اور عصر کے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعات کرکے پڑھنا بھی نبی سے ثابت ہے جیسا کہ علی فرماتے ہیں:
یصلي قبل الظہر أربعا وبعدھا رکعتین وقبل العصر أربعا یفصل بین کل رکعتین بالتسلیم (صحیح ترمذی:۴۸۹)
’’اور نبی کریم(ﷺ) نے ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کئے اور دو بعد میں اسی طرح چار رکعات نوافل عصر کی نماز سے پہلے ادا کئے اور آپ نے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا۔‘‘
مغرب
تعداد رکعات: ۵ (۳ فرض+ ۲ نفل)
فرائض
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرنے (سفر میں) مغرب اور عشاء اکٹھی کیں: فصلی المغرب ثلاثا ثم صلی العشاء رکعتین ثم قال ھکذا رسول اﷲیصنع فی ھذا المکان (صحیح نسائی :۴۷۰)
’’ اور انہو ں نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات پڑھائیں اور فرمایا کہ اس جگہ رسول اللہنے اسی طرح کیا تھا۔‘‘
نوافل: عائشہ نبی کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:
وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین(صحیح مسلم:۷۳۰)
’’اور وہ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے۔‘‘
ملحوظہ: مغرب کی نما زسے پہلے دو رکعت نفل بھی آپ سے ثابت ہیں۔ عبداللہ المزنی سے روایت ہے کہ
أن رسول اﷲصلی قبل المغرب رکعتین (ابن حبان:۱۵۸۶)
’’رسول اللہﷺ نے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل ادا کیے۔‘‘
لیکن یہ دو رکعت موکدہ نہیں ہیں۔ عبداللہ بن المزنی سے ہی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
(صلوا قبل صلاۃ المغرب)قال فی الثالثۃ (لمن شائ) کراھیۃ أیتخذھا الناس سنۃ (صحیح بخاری:۱۱۸۳)
’’مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھو تین دفعہ فرمایا اور تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے۔ تاکہ کہیں لوگ اسے موکدہ نہ سمجھ لیں۔‘‘
عشاء
تعداد رکعات + کم از کم ایک وتر: ۷ (۴فرض +۲؍۴نفل+۱ وتر)
فرائض
عمر نے سعد سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپ نے جواب دیا:
أما أنا واﷲ فإنی کنت أصلی بہم صلاۃ رسول اللہ ما أخرم عنہا أصلی صلاۃ العشاء فأرکد فی الأولیین،وأخف فی الأخریین قال:ذاک الظن بک یا أبا إسحٰق (صحیح بخاری:۷۵۵)
’’اللہ کی قسم میں انہیں نبی کی نماز کی طرح کی نماز پڑھاتا تھا اور اس سے بالکل روگردانی نہ کرتا تھا۔میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکا۔ عمر فرمانے لگے: اے ابو اسحاق تمہارے بارے میرا یہی گمان تھا۔‘‘
عشاء کے فرضوں کے بعد نبی سے ۲ اور ۴ نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
نوافل: عبداللہ بن عمر کہتے ہیں
: صلیت مع النبی… وسجدتین بعد العشائ… الخ (صحیح بخاری؛۱۱۷۲)
’’میں نے نبی کے ساتھ ۔ ۔ ۔ عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی۔‘‘
ابن عباس فرماتے ہیں:ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ کے گھر میں گزاری:
فصلی رسول اﷲ العشاء ثم جاء فصلی أربع رکعات ثم نام
’’آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی پھر گھر آئے اور چار رکعات نوافل ادا کئے اور سوگئے۔‘‘ (صحیح بخاری:۶۹۷)
نبی کے عام حکم کہ
(بین کل اذانین صلاۃ بین کل اذانین صلاۃ) ثم قال في الثالثۃ (لمن شائ)(صحیح بخاری:۶۲۷)
’’آپ نے فرمایا ہر دو آذانوں (اذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے ہر دو آذانوں کے درمیان نماز ہے تیسری دفعہ آپ نے فرمایا جو چاہے۔‘‘
ثابت ہوتا ہے کہ ہر نماز کی امامت سے پہلے دو رکعت نماز کی ترغیب ہے۔ لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے بھی دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔
وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپ سے ثابت ہے جیسا کہ اُم سلمہ سے روایت ہے کہ: أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (صحیح ترمذی:۳۹۲)
’’آپ وتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
وتر:آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔
ایوب انصاری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل (صحیح ابوداود:۱۲۶۰)
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
ام سلمہ فرماتی ہیں:
’’کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ (صحیح ابن ماجہ:۹۸۰)
وتر پڑھنے کا طریقہ
تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ عائشہ سے روایت ہے :
کان یوتر برکعۃ وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعۃ ’’آپ ایک رکعت کے ساتھ وتر بناتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔ مزید ابن عمر کے متعلق ہے کہ: ’’
صلی رکعتین ثم سلم ثم قال أدخلو إلیّ ناقتي فلانۃ ثم قام فأوتر برکعۃ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۹۱،۹۲)
’’انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیاپھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر بنایا۔‘‘
پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ فرماتی ہیں:
کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرہا(صحیح مسلم:۷۳۷)
سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔ عائشہ سے ہی روایت ہے۔ اُم سلمہ فرماتی ہیں کہ:
کان رسول اﷲ! یوتر بسبع أو بخمس لا یفصل بینہن بتسلیم ولا کلام (صحیح ابن ماجہ :۹۸۰)
’’نبی سات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘
نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ نبی کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:
ویصلي تسع رکعات لایجلس فیھا الا في الثامنۃ … ثم یقوم فیصلي التاسعۃ
’’آپ نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۴۶)
قنوتِ وتر
(آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔
دلیل:ابی بن کعب سے روایت ہے:
’’أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع‘‘(صحیح ابن ماجہ:۹۷۰)
’’بے شک رسول اللہ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ إنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ)(صحیح ترمذی:۳۸۳،بیہقی :۲؍۲۰۹)
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے ہدایت دی، مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘