• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی ﷺ با دلائل

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
سفر میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کرکے پڑھنا

ابوذرغفاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کے ساتھ سفر پر تھے مؤذن نے ظہر کی اذان کہنا چاہی:
فقال النبي! (أبرد)ثم أراد أن یوذن فقال لہ (أبرد) حتی رأینا فئ التلول فقال النبی! (إن شدۃ الحر من فیح جھنم فإذا اشتد الحرفأبردوا بالصلاۃ) (صحیح بخاری:۵۳۹)
’’آپ نے فرمایا ٹھنڈا کرو۔ پھر موذن نے ارادہ کیا کہ اذان کہے تو آپ نے اسے پھر فرمایا کہ ٹھنڈا کرو یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا پھر آپ نے فرمایا: بے شک گرمی کی شدت جہنم کے سانس میں سے ہے، پس جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عشاء کی نماز میں تاخیر

عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ آپ نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ(ﷺ) نے فرمایا:
(لولا أن اشق علی أمتی لأمرتھم أن یؤخروا العشاء إلی ثلث اللیل أو نصفہ) (صحیح ترمذی:۱۴۱)
’’اگر مجھے اپنی اُمت پر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انہیں عشاء کی نماز ایک تہائی یا آدھی رات تک مؤخر کرنے کا حکم کرتا۔‘‘
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے:
مکثنا ذات لیلۃ ننتظر رسول اﷲ لصلاۃ العشاء فخرج إلینا حین ذھب ثلث اللیل أو بعدہ فلا ندري أشئ شغلہ أم غیر ذلک فقال حین خرج : (أتنتظرون ھذہ الصلاۃ؟ لولا أن تثقل علی أمتي لصلیت بھم ھذہ الساعۃ) ثم أمر المؤذن فأقام الصلاۃ (صحیح ابوداود:۴۰۵)
’’ایک رات ہم نبی کے پاس تھے اور آپ عشاء کی نماز کے لئے انتظار کررہے تھے پس وہ ہماری طرف اس وقت آئے جب رات آدھی یا اس سے کچھ زیادہ ہوچکی تھی نامعلوم آپ کس چیزمیں مصروف تھے یا کچھ اور کررہے تھے جب آپ نکلے تو فرمایا: کیا تم اس نماز کا انتظار کررہے ہو اگر یہ نہ ہو تاکہ یہ میری امت پربھاری ہوجائے گا تو میں ان کو اس وقت نماز پڑھاتا پھر آپ نے اذان کا حکم دیا اور نماز کھڑی کی۔‘‘
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے جبکہ باقی نمازوں کا اپنے اول وقت میں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے نبی سے افضل عمل کے متعلق پوچھا تو فرمایا:
(الصلاۃ في أول وقتھا) ’’اول وقت میں نماز پڑھنا‘‘ (صحیح ابن خزیمہ:۳۲۷)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عصرکا وقت معلوم کرنے کا طریقہ

پہلا طریقہ
ایک لکڑی لے کرزوال سے تھوڑی دیر پہلے سپاٹ زمین پر گاڑ دیں سایہ گھٹ رہا ہوگا،گھٹتے گھٹتے جب ایک جگہ رک جائے یہی زوال کا وقت ہے جو چند ثانیے تک رہتا ہے رکے ہوئے سایہ کی پیمائش کرلیں سایہ جب لکڑی کے برابر ہوجائے پیمائش کئے ہوئے فاصلے کو لکڑی کے برابر کے آئے ہوئے سایہ سے ملا کر نشان لگا لیں اب جب سایہ اس نشان پر پہنچے گا تو یہ ظہر کا آخری اور عصر کا اول وقت ہوگا اور ایک مثل ہوگا۔
دوسرا طریقہ
لکڑی کو گاڑ دیا جائے اور زوال کا سایہ جب رُک جائے تو اس لکڑی کو نکال کر سایہ کی انتہا پر گاڑ دیا جائے جب سایہ بڑھنا شروع ہو اور لکڑی کے مثل ہوجائے بس یہی عصر کا اول وقت ہے۔
سایہ پیمائش کرتے ہوئے کسی بھی صورت میں زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہوگا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نماز کے مکروہ اوقات اورمقامات

مکروہ اَوقات
عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ
ثلاث ساعات کان رسول اﷲ! ینھانا أن نصلي فیھن،أو أن نقبر فیھن موتانا،حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع،وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب (صحیح نسائی :۵۴۶)
’’نبی نے ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا، جب سورج طلوع ہورہا ہو یہاں تک کہ بلندہوجائے۔جب سورج نصف آسمان پر ہویہاں تک کہ وہ ڈھل جائے (یعنی زوال کا وقت) اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہوجائے۔‘‘
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ
نہی رسول اﷲ! عن صلاتین: بعد الفجر حتی تطلع الشمس،وبعد العصر حتی تغرب الشمس (صحیح بخاری:۵۸۸)
’’رسول اللہ(ﷺ) نے دو (وقتوں میں) نمازوں سے منع فرمایا فجر (کی نماز) کے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور عصر (کی نماز کے) بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔‘‘
لہٰذا مکروہ اوقات یہ ہوئے :
• نماز فجر کے بعد سے جب تک سورج اچھی طرح نکل نہ آئے
• زوال کے وقت
• عصر کی نماز کے بعد سے سورج جب تک غروب نہ ہوجائے
اگر کسی کی صبح کی سنتیں رہ گئی ہوں صرف اس کے لئے اجازت ہے کہ وہ پڑھ لے جیساکہ قیس کہتے ہیں کہ نبی نے مجھے فجر کی نماز کے بعد نما زپڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا (مھلا یا قیس أصلاتان معا) اے ابو قیس ٹھہر جا! کیا تو دو نمازیں پڑھ رہا ہے۔ میں نے کہا یارسول اللہ صبح کی دو سنتیں مجھ سے رہ گئی تھیں آپ نے فرمایا: (فلا إذن) (تب اجازت ہے)(صحیح ترمذی:۳۴۶)
اسی طرح اگر نماز پڑھتے پڑھتے فجر اور عصر کے وقت سورج طلوع اور غروب ہوگیا اس کی باقی نمازدرست ہوگی۔ ابوہریرہ سے روایت ہے آپ (ﷺ)نے فرمایا:
من أدرک من العصر رکعۃ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک ومن أدرک من الفجر رکعۃ قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک (صحیح مسلم:۶۰۹)
’’جس نے عصر کی نماز میں سے سورج غروب ہونے سے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی اور جس نے فجر کی نما زمیں سے سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی۔‘‘
اسی طرح مسجد حرام ان ممنوعہ اوقات سے مستثنیٰ ہے اس میں دن رات کی کسی بھی گھڑی میں نمازاور کوئی دوسری عبادت کی جاسکتی ہے۔ جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ نبی(ﷺ) نے فرمایا:
(یابني عبد مناف،لا تمنعوا أحدا طاف بہذا البیت وصلی اَیّۃ شاء من لیل أو نہار) (صحیح ترمذی:۶۸۸)
’’اے بنی عبدمناف! کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو خواہ وہ رات دن کی کسی گھڑی میں بھی (یہ عبادت) کررہا ہو۔‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مکروہ مقامات

قبرستان اور حمام
قبرستان اور حمام میں نبی نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
(الأرض کلھا مسجد إلا الحمام والمقبرۃ) (صحیح ابوداود:۴۶۳)
’’حمام اور قبرستان کے علاوہ ساری زمین پرسجدہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اونٹوں کے باڑے میں
اونٹوں کے باڑ ا میں نماز پڑھنا منع ہے۔
براء بن عازب کہتے ہیں کہ نبی سے اونٹوں کے باڑا میں نما زپڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ (ﷺ)نے فرمایا:
(لا تصلوا في مَبَارک الإبل) (صحیح ابوداود:۴۶۴)
’’اونٹوں کے باڑوں میں نماز نہ پڑھو۔‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
پانچ نمازوں میں فرض و نفل رکعات کی تعداد

فرائض
ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد ۱۷ ہے جو صحیح روایات اور اُمت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں۔
سنت مؤکدہ
اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپ کی عادت اور معمول تھا کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۱۲ ہے جس کی تاکید و ترغیب بھی آپ سے منقول ہے۔ اُمّ حبیبہ فرماتی ہیں:
سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: (من صلی اثنی عشرۃ رکعۃ فی یوم ولیلۃ بني لہ بیت فی الجنۃ) (صحیح مسلم:۷۲۸)
’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا جو شخص دن اور رات میں ۱۲ رکعات پڑھ لے، ان کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے‘‘
فجر
تعداد رکعات : ۴ ( ۲ نفل+ ۲ فرض)
نوافل
اُمّ المومنین حفصہ فرماتی ہیں کہ
’’کان إذا سکت المؤذن من الأذان لصلاۃ الصبح وبدأ الصبح رکع رکعتین خفیفتین قبل أن تقام الصلاۃ‘‘ (صحیح مسلم:۷۲۳)
’’جب مؤذن اذان کہہ لیتااور صبح صادق شرو ع ہوجاتی تو آپ (ﷺ) جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے۔‘‘
فرائض
ابو برزہ اسلمی سے روایت ہے کہ آپ صبح کی نماز پڑھاتے:
وکان یقرأ فی الرکعتین أو أحدھما ما بین الستین إلی المائۃ
’’ اورآپ دو رکعتوں میں یا کسی ایک میں ساٹھ سے سو تک آیات تلاوت فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۱)
آپ ﷺ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پرمداومت ثابت ہے جیساکہ عائشہ فرماتی ہیں:
أن النبي ﷺ لم یکن علی شيء من النوافل أشد معاہدۃ منہ علی رکعتین قبل الصبح (صحیح مسلم:۷۲۴)
’’بے شک نبی نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام صبح کی سنتوں کا کرتے تھے۔‘‘
ظہر
زیادہ سے زیادہ رکعات :۱۲ (۲یا ۴ نفل+۴ فرض+۲ یا ۴ نفل)
نوافل
عائشہ فرماتی ہیں کہ
کان یصلي فی بیتي قبل الظہر أربعا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین (صحیح مسلم:۷۳۰)
’’آپ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آکر دو رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
ابن عمر فرماتے ہیں:
صلیت مع النبيﷺ سجدتین قبل الظہر السجدتین بعد الظہر(صحیح بخاری:۷۲)
’’میں نے نبی ﷺکے ساتھ دو رکعات ظہر سے پہلے اور دو ظہر کی نماز کے بعد پڑھے۔‘‘
اُمّ حبیبہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (من حافظ علی أربع رکعات قبل الظہر وأربع بعدھا حرم علی النار) (صحیح ابوداود:۱۱۳۰)
’’جس شخص نے ظہر سے قبل اور بعد چار چار رکعات نوافل کا اہتمام کیا، اس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ہے۔‘‘
مذکورہ بالا روایات سے ظہرکی سنتوں کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ۱۶ ہیں اور ان میں کم از کم ۴ رکعات نوافل موکدہ ہیں جیسا کہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
أن النبی کان لا یدع أربعا قبل الظہر رکعتین قبل الغداۃ (صحیح بخاری:۱۱۸۲)
’’نبی ظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات کبھی نہ چھوڑتے۔‘‘
فرائض
ابوقتادہ سے روایت ہے کہ
’’أن النبي کان یقرأ في الظہر في الأولیین بأم الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۶)
’’بے شک نبی(ﷺ) ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے…الخ‘‘
عصر
تعداد رکعات: ۸ (۴ نفل +۴ فرض)
نوافل
علی(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ
کان النبي ﷺ یصلي قبل العصر أربع رکعات( صحیح ترمذی:۳۵۳)
’’نبی عصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
ابوسعیدخدری سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
کنا نحرز قیام رسول اﷲ فی الظہر والعصر۔۔۔فحزرنا قیامہ في رکعتین الاولیین من العصر علی قدر قیامہ فی الاخریین من الظہر وفي الاخریین من العصر علی النصف من ذلک( مسلم:۴۵۲)
’’ ہم رسول اللہ کے ظہر اور عصر کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے… عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس طرح کرتے کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعتوں کا قیام عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف ہوتاتھاـ۔‘‘
عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات نوافل غیر موکدہ ہیں،کیونکہ اس پر آپ کا دوام ثابت نہیں۔البتہ آپ نے ان نوافل کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا:
رحم اﷲ امرأ صلی قبل العصر أربعا (صحیح ابوداود:۱۱۳۲)
’’جس شخص نے عصر سے قبل چار رکعات نوافل ادا کئے اللہ اس پر رحم فرمائے۔‘‘
ظہر اور عصر کے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعات کرکے پڑھنا بھی نبی سے ثابت ہے جیسا کہ علی فرماتے ہیں:
یصلي قبل الظہر أربعا وبعدھا رکعتین وقبل العصر أربعا یفصل بین کل رکعتین بالتسلیم (صحیح ترمذی:۴۸۹)
’’اور نبی کریم(ﷺ) نے ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کئے اور دو بعد میں اسی طرح چار رکعات نوافل عصر کی نماز سے پہلے ادا کئے اور آپ نے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا۔‘‘
مغرب
تعداد رکعات: ۵ (۳ فرض+ ۲ نفل)
فرائض
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرنے (سفر میں) مغرب اور عشاء اکٹھی کیں: فصلی المغرب ثلاثا ثم صلی العشاء رکعتین ثم قال ھکذا رسول اﷲیصنع فی ھذا المکان (صحیح نسائی :۴۷۰)
’’ اور انہو ں نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات پڑھائیں اور فرمایا کہ اس جگہ رسول اللہنے اسی طرح کیا تھا۔‘‘
نوافل: عائشہ نبی کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:
وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین(صحیح مسلم:۷۳۰)
’’اور وہ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے۔‘‘
ملحوظہ: مغرب کی نما زسے پہلے دو رکعت نفل بھی آپ سے ثابت ہیں۔ عبداللہ المزنی سے روایت ہے کہ
أن رسول اﷲصلی قبل المغرب رکعتین (ابن حبان:۱۵۸۶)
’’رسول اللہﷺ نے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل ادا کیے۔‘‘
لیکن یہ دو رکعت موکدہ نہیں ہیں۔ عبداللہ بن المزنی سے ہی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (صلوا قبل صلاۃ المغرب)قال فی الثالثۃ (لمن شائ) کراھیۃ أیتخذھا الناس سنۃ (صحیح بخاری:۱۱۸۳)
’’مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھو تین دفعہ فرمایا اور تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے۔ تاکہ کہیں لوگ اسے موکدہ نہ سمجھ لیں۔‘‘
عشاء
تعداد رکعات + کم از کم ایک وتر: ۷ (۴فرض +۲؍۴نفل+۱ وتر)
فرائض
عمر نے سعد سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپ نے جواب دیا:
أما أنا واﷲ فإنی کنت أصلی بہم صلاۃ رسول اللہ ما أخرم عنہا أصلی صلاۃ العشاء فأرکد فی الأولیین،وأخف فی الأخریین قال:ذاک الظن بک یا أبا إسحٰق (صحیح بخاری:۷۵۵)
’’اللہ کی قسم میں انہیں نبی کی نماز کی طرح کی نماز پڑھاتا تھا اور اس سے بالکل روگردانی نہ کرتا تھا۔میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکا۔ عمر فرمانے لگے: اے ابو اسحاق تمہارے بارے میرا یہی گمان تھا۔‘‘
عشاء کے فرضوں کے بعد نبی سے ۲ اور ۴ نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
نوافل: عبداللہ بن عمر کہتے ہیں
: صلیت مع النبی… وسجدتین بعد العشائ… الخ (صحیح بخاری؛۱۱۷۲)
’’میں نے نبی کے ساتھ ۔ ۔ ۔ عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی۔‘‘
ابن عباس فرماتے ہیں:ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ کے گھر میں گزاری:
فصلی رسول اﷲ العشاء ثم جاء فصلی أربع رکعات ثم نام
’’آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی پھر گھر آئے اور چار رکعات نوافل ادا کئے اور سوگئے۔‘‘ (صحیح بخاری:۶۹۷)
نبی کے عام حکم کہ
(بین کل اذانین صلاۃ بین کل اذانین صلاۃ) ثم قال في الثالثۃ (لمن شائ)(صحیح بخاری:۶۲۷)
’’آپ نے فرمایا ہر دو آذانوں (اذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے ہر دو آذانوں کے درمیان نماز ہے تیسری دفعہ آپ نے فرمایا جو چاہے۔‘‘
ثابت ہوتا ہے کہ ہر نماز کی امامت سے پہلے دو رکعت نماز کی ترغیب ہے۔ لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے بھی دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔
وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپ سے ثابت ہے جیسا کہ اُم سلمہ سے روایت ہے کہ: أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (صحیح ترمذی:۳۹۲)
’’آپ وتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
وتر:آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔
ایوب انصاری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل (صحیح ابوداود:۱۲۶۰)
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
ام سلمہ فرماتی ہیں:
’’کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ (صحیح ابن ماجہ:۹۸۰)
وتر پڑھنے کا طریقہ
تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ عائشہ سے روایت ہے : کان یوتر برکعۃ وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعۃ ’’آپ ایک رکعت کے ساتھ وتر بناتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔ مزید ابن عمر کے متعلق ہے کہ: ’’صلی رکعتین ثم سلم ثم قال أدخلو إلیّ ناقتي فلانۃ ثم قام فأوتر برکعۃ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۹۱،۹۲)
’’انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیاپھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر بنایا۔‘‘

پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ فرماتی ہیں: کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرہا(صحیح مسلم:۷۳۷)
سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔ عائشہ سے ہی روایت ہے۔ اُم سلمہ فرماتی ہیں کہ: کان رسول اﷲ! یوتر بسبع أو بخمس لا یفصل بینہن بتسلیم ولا کلام (صحیح ابن ماجہ :۹۸۰)
’’نبی سات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘
نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ نبی کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں: ویصلي تسع رکعات لایجلس فیھا الا في الثامنۃ … ثم یقوم فیصلي التاسعۃ
’’آپ نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۴۶)
قنوتِ وتر
(آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔
دلیل:ابی بن کعب سے روایت ہے:
’’أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع‘‘(صحیح ابن ماجہ:۹۷۰)
’’بے شک رسول اللہ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ إنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ)(صحیح ترمذی:۳۸۳،بیہقی :۲؍۲۰۹)
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے ہدایت دی، مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نماز کے چند ضروری مسائل

کپڑوں کا پاک ہونا
نماز پڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ نمازی کے کپڑے پاک ہوں۔
معاویہ نے اُم حبیبہ سے پوچھا: ھل کان رسول اﷲ! یصلی في الثوب الذی یجامعھا فیہ؟ فقالت نعم! إذا لم یرفیہ أذی (صحیح ابوداود:۳۵۲)
’’کیا رسول اللہ1 جن کپڑوں میں مجامعت کرتے انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں جب اس پر گندگی نہ دیکھتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ} (المدثر:۴،۵)
’’اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کرو اور ناپاکی کو چھوڑ دو۔‘‘
استقبالِ قبلہ
نمازی کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ جب نماز کا ارادہ کرے تو قبلہ رخ ہوکر کھڑا ہو۔
آپ نے ایک آدمی کو نماز درست کرواتے ہوئے فرمایا: (إذا قمت إلی الصلاۃ فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلۃ فکبر) (صحیح بخاری:۶۲۵۱)
’’جب تم نماز کا قصد کرو تو اچھی طرح وضو کرلو پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہو۔‘‘
جس وقت اس عمل کو کرنا دشوار ہو وہاں عذر کے باعث اجازت ہے کہ کسی طرف بھی منہ کیا جاسکتا ہے مثلاً جنگل ، صحرا یا ایسی جگہ جہاں قبلہ کی سمت معلوم نہ ہوسکے اسی طرح جنگ کے دوران اور جب قبلہ رخ ہونا ممکن ہی نہ ہو۔
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: {فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُکْبَانًا}
’’اور تم کو خوف ہو تو پیادہ یا سوار (ہرصورت میں نماز ادا کرو)‘‘(البقرہ:۲۳۹)
اس سے معلوم ہوا کہ بھاگتے ہوئے یا لڑتے ہوئے انسان کا رخ کسی طرف بھی ہوسکتا لہٰذا وہ کسی سمت میں نماز ادا کرسکتا ہے اور اسی طرح عام حالات میں سواری پر نفل نماز ادا کرنی ہو تو سواری کا رخ ایک دفعہ قبلہ رخ کرلینا چاہئے اب نماز کے دوران سواری کا رخ بدل بھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ انس بن مالک سے روایت ہے : أن رسول اﷲ کان إذا سافر فأراد أن یتطوع استقبل بناقتہ القبلۃ فکبرثم صلی حیث وجہہ رکابہ (صحیح ابوداو:۱۰۸۴)
’’آپ جب سفر میں ہوتے اور نفل نماز کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی کا رخ قبلہ کی طرف کرلیتے اور تکبیر کہتے اورپھر نماز پڑھتے اور سواری کا رخ جدھر ہوتا سو ہوتا۔‘‘
لیکن یہ یاد رہے کہ سواری پر صرف نفل نماز ہوسکتی ہے آپ سے سواری پر فرض نماز ثابت نہیں۔
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ : أن النبی کان یصلي علی راحلتہ نحو المشرق فإذا أراد أن یصلي المکتوبۃ نزل فاستقبل القبلۃ (صحیح بخاری:۱۰۹۹)
’’نبیمشرق کی طرف سواری پر نماز پڑھتے اور جب فرض نماز کا ارادہ کرتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے۔‘‘
اقتداے امام
امام کی اقتدا فرض ہے امام کی اقتداء نہ کرنے سے نماز باطل ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اقتداء امام کی تاکیداور اس کے خلاف پر وعید کی بہت سے روایات منقول ہیں، جن میں چند ایک یہ ہیں:
١ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فإذا کبر فکبروا ولا تکبروا حتی یکبر وإذا رکع فارکعوا ولا ترکعوا حتی یرکع وإذا سجد فاسجدوا ولا تسجدوا حتی یسجد… الخ) (صحیح ابوداود:۵۶۳)
’’امام تو بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ تکبیر کہے پھرتم تکبیر کہو اور اس وقت تک تکبیر نہ کہو جب وہ تکبیر نہ کہہ لے اور جب وہ رکوع کرتے تب تم رکوع کرو اور اس وقت تک رکوع نہ کرو جب تک وہ رکوع نہ کرلے اور جب وہ سجدہ کرے تب سجدہ کرو اور اس وقت تک سجدہ نہ کرو جب وہ سجدہ نہ کرلے… الخ‘‘
٢ ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
(أما یخشی أحدکم إذا رفع رأسہ قبل الإمام أن یجعل اﷲ رأسہ رأس حمار؟ أو یجعل اﷲ صورتہ صورۃ حمار؟) (صحیح بخاری:۶۹۱)
’’تم میں سے کسی کو اس بات کا ڈر نہیں کہ جب وہ امام سے پہلے سراٹھائے تو اللہ اس کے سر کو گدھے کا سر یا اس کی صورت گدھے کی صورت بنا دے؟۔‘‘
c صحابہ کرام امام کی اقتدا کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ براء بن عازب بیان فرماتے ہیں : کان رسول اﷲ! إذا قال: (سمع اﷲ لمن حمدہ) لم یحن أحد منا ظھرہ حتی یقع النبی! ساجدًا ثم نقع سجوداً بعدہ (صحیح بخاری:۶۹۰)
’’رسول اللہ جب (سمع اﷲ لمن حمدہ) کہتے تو ہم سے ایک بھی شخص اپنی کمر تک نہ جب تک وہ سجدے میں نہ چلے جاتے پھر ہم اس کے بعد سجدہ کیلئے جھکتے۔‘‘
تعدیل ارکان
نماز کے اَرکان کو صحیح طریقے سے بجا لانانماز کی قبولیت کے لئے شرط ہے۔ آپ نے فرمایا: (صلوا کما رأیتموني أصلي)(صحیح بخاری:۶۳۱)
’’نماز ویسے پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔‘‘
ابوہریرہ سے روایت ہے: ایک شخص مسجدمیں داخل ہوا جبکہ آپ مسجد کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے نماز پڑھی اور آکر آپ پر سلام بھیجا۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: لوٹ جا اور نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی پس وہ لوٹا اور نماز پڑھ کر آیا اور آپ پر سلام بھیجا آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا لوٹ جا (دوبارہ) نماز پڑھ تمہاری نماز نہیں ہوئی اس کے بعد اس نے کہا یارسول اللہ مجھے سکھا دیں (کہ میں کیسے نماز پڑھوں) فرمایا:
(إذا قمت إلی الصلاۃ فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلۃ فکبر ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن ثم ارکع حتی تطمئن راکعا ثم ارفع حتی تستوي قائما ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا ثم افعل ذلک في صلاتک کلھا ) (صحیح بخاری:۶۲۵۱)
’’جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اچھی طرح وضو کرلو پھر قبلہ کی طرف منہ کرو اور اللہ اکبر کہو پھر قرآن سے جومیسر ہو پڑھ پھر رکوع کر یہاں تک کہ تو اچھی طرح رکوع کرے پھراٹھ حتیٰ کہ تو کھڑے ہوتے ہوئے برابر ہوجائے پھر سجدہ کر یہاں تک کہ اچھی طرح سجدہ کرے پھر سر اٹھا یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جائے پھر سجدہ کر حتیٰ کہ اچھی طرح سجدہ کرلے پھر سر اٹھا حتیٰ کہ اطمینان سے بیٹھ جائے پھر اسی طرح تمام نماز میں کرتا رہ۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبی نے مسیء الصلاۃ کو نماز میں تعدیل ارکان کی تاکید فرمائی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آدمی کی نماز میں ایک خرابی یہ بھی تھی ۔
حذیفہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ رکوع و سجود صحیح طور پر نہ کررہا تھا۔ اس کے نماز مکمل کرنے کے بعد آپ نے فرمایا:
لومت مت علی غیر سنۃ محمد ﷺ (صحیح بخاری:۳۸۹)
’’اگر تو (اسی حالت میں) مرگیا تو محمد کی سنت کے علاوہ پر مرے گا۔ ‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عورت کا ننگے سرنما زپڑھنا

یوں تو عورت کا سارا جسم ہی ستر ہے ،کیونکہ اکثر طور پر سر کا حصہ ننگا رکھنے میں سستی ہوجاتی ہے اس لئے اس کے بارے میں تاکید آئی ہے۔ عائشہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
)لا یقبل اﷲ صلاۃ حائض إلا بخمار( (صحیح ابوداود:۵۹۶)
’’اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔‘‘
کپڑا یا بال سمیٹنا

نمازمیں کپڑا یا بالوں کو سمیٹنا منع ہے۔ عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ) أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم ولا أکف ثوبا ولا شعرا(
(صحیح مسلم:۴۹)
’’میں پابند کیا گیا ہوں کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور (نماز میں) کپڑا اور بالوں کو نہ لپیٹوں ۔‘‘
اسی طرح عبداللہ بن عباس نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا اور وہ جوڑا کئے ہوئے تھا۔ آپ نے وہ کھول دیا جب نماز کے بعد وہ آیا اور عبداللہ بن عباس سے پوچھنے لگا کہ آپ نے کیوں ایسا کیا ۔ جس پر آپ نے کہا :
إنی سمعت رسول اﷲ یقول إنما سئل ھذا مثل الذي یصلی وھو مکتوف (صحیح مسلم :۴۹۲)
’’میں نے نبی سے سنا ہے کہ اس شخص کی مثال ایسے ہی ہے جیسے وہ ستر کھولے ہوئے ہے۔‘‘
اشتمال الصمائ،سدل اور منہ ڈھانپنا

چادر کی اس طرح بکل مارنا کہ ہاتھوں کو حرکت دینا محال ہوجائے اس سے نبی نے منع فرمایا ہے۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ
نہی رسول اﷲ! عن اشتمال الصماء (صحیح بخاری:۳۶۷)
’’ نبی ﷺ نے سختی سے چادر کی بکل مارنے سے منع فرمایا۔‘‘
اسی طرح نما زمیں سدل اور منہ پر کپڑا ڈالنے کی ممانعت ہے۔ کپڑے کے دونوں سروں کو اپنے سامنے لٹکا لینے کو سدل کہتے ہیں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے : أن رسول اﷲ نہی عن السدل فی الصلاۃ وأن یغطی الرجل فاہ (صحیح ابوداود:۵۹۷)
’’نبی نے نما زمیں سدل سے منع فرمایا ہے اور یہ کہ آدمی اپنا منہ ڈھانپے۔‘‘
جوتوں سمیت نماز

جوتے پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ عمل آپ سے ثابت ہے۔جس کے دلائل یہ ہیں:
شداد بن اوس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: )خالفوا الیہود فإنھم لایصلون فی نعالھم ولا خفافھم( (صحیح ابوداود:۶۰۷)
’’یہود کی مخالفت کرو پس بے شک وہ جوتوں اور موزوں میں نما زنہیں پڑھتے۔‘‘
ابوسلمہ نے انس سے دریافت کیا کہ
أکان النبی یصلي فی نعلیہ قال: نعم (صحیح بخاری:۳۸۶)
’’کیا نبی اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ، کہنے لگے ہاں۔‘‘
لیکن یاد رہے کہ جوتا اگر بالکل صاف ہو یعنی اس پر گندگی نہ لگی ہو تب ہی اس میں نماز ادا ہوسکتی وگرنہ جوتے پہن کر نمازدرست نہیں۔
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ نے اپنے جوتے اتار دیئے جب لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے نماز کے بعد آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے مجبور کیا کہ تم اپنے جوتے اتارو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ جوتے اتار رہے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے آپ نے فرمایا: مجھے تو جبریل نے خبر دی کہ تمہارے جوتوں کے نیچے گندگی ہے اور آپ نے فرمایا:
)إذا جاء أحدکم إلی المسجد فلینظر فإن رأی فی نعلیہ قذرا أو أذی فلیمسحہ ولیصل فیھما( (صحیح ابوداود:۶۰۵)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو پہلے اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان پرگندگی وغیرہ لگی ہو تو اس کو (زمین پر) رگڑے اور ان میں نماز ادا کرے۔‘‘
لہٰذا جوتا اگر گندگی سے پاک ہو تو ان میں نماز پڑھنادرست ہے۔ تاہم آج کل مسجدوں میں قالین اور صفوں کی صفائی کے پیش نظر جوتے اتارکر نماز پڑھ لینی چاہئے آپ سے جوتے اتار کر نماز پڑھنا بھی ثابت ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ
رأیت رسول اﷲ یصلي حافیا منتعلاً (ایضاً:۶۰۸)
’’ میں نے رسول اللہ کو ننگے پاؤں اور جوتے سمیت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
نماز میں آگے سے گزرنے والے کو نمازی روکے

نمازی کے آگے سے اگر کوئی گزر رہا ہو تو نمازی کوحکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اسے روکے بلکہ اگر زبردستی کرنی پڑے تب بھی کوئی حرج نہیں ۔
ابو سعید سے روایت ہے کہ میں نے نبی سے سناکہ انہوں نے فرمایا: (إذا صلی أحدکم إلی شیئ یسترہ من الناس فأراد أحد أن یجتاز بین یدیہ،فلیدفعہ فإن أبی فلیقاتلہ فإنما ھو شیطان ) (صحیح بخاری:۵۰۹)
’’اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تو نمازی کو چاہئے کہ وہ اسے روکے اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نماز میں سلام کا جواب

نماز میں سلام کا جواب صرف ہاتھ کے اشارہ سے دیا جاسکتا ہے چونکہ نماز میں کلام نماز کو باطل کردیتا ہے اس لئے نمازی کا ہاتھ کے اشارہ سے جواب دے دینا ہی کافی ہے یا پھر نماز سے فارغ ہوکر جواب دے دیا جائے۔
عبداللہ کہتے ہیں کہ
کنا نسلم علی النبی! وھو في الصلاۃ فیرد علینا من عند النجاشی سلمنا علیہ فلم یرد علینا وقال )إن فی الصلاۃ شغلا((صحیح بخاری:۱۱۹۹)
’’آپ نماز میں ہوتے اور ہم آپ پر سلام بھیجتے تو آپ پر سلام بھیجتا تو آپ جواب دے دیتے جب ہم نجاشی(حبشہ )سے واپس آئے تو آپ کو سلام کیا آپ نے ہمیںجواب نہ دیا (بعد میں) آپ نے فرمایا کہ میں نماز میں مشغول تھا۔‘‘
صہیب سے روایت ہے کہ میں نبی کے پاس سے گزرا آپ نماز اداکررہے تھے میں نے سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب انگلی کے اشارے سے دیا۔ (صحیح ابوادود:۸۱۸)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
غسل ِواجب میں وضو شامل ہے

غسل ِواجب کے بعد دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں کیونکہ وضو اسی غسل میں شامل ہے یا اگر نواقض وضو میں سے کوئی عارضہ لاحق ہوجائے ، مثلاً شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانا وغیرہ تو غسل کے بعد نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہوگا۔
میمونہ آپ کے غسل جنابت کا طریقہ یوں بیان کرتی ہیں:
’’فغسل کفیہ مرتین أو ثلاثا ثم أدخل یدہ فی الإناء ثم أفرغ بہ علی فرجہ وغسلہ بشمالہ ثم ضرب بشمالہ الأرض فدلکھا دلکا شدیدا ثم توضأ وضوء ہ للصلوۃ ثم أفرغ علی رأسہ ثلاث حفنات مل ء کفہ ثم غسل سائر جسدہ ثم تنحی عن مقامہ ذلک فغسل رجلیہ‘‘ (صحیح مسلم:۳۱۷)
’’پس آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھوئے پھر اپنا (دایاں) ہاتھ برتن میں ڈالا اور اس کے ساتھ اپنی شرمگاہ پر پانی انڈیلہ اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا پھر بایاں ہاتھ زمین پرمارا اور اسے اچھی طرح رگڑا پھر (سر کے مسح تک) نماز کے وضو کی طرح وضو کیا پھر تین چلو پانی بھر کر سر پر ڈالے پھرسارے بدن کو (پانی ڈال کر) دھویا پھر اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔‘‘
عائشہ فرماتی ہیں:’’کان رسول اﷲ یغتسل ویصلي الرکعتین وصلاۃ الغداۃ ولا أراہ یحدث وضوء ا بعد الغسل‘‘(صحیح ابوداود:۲۲۵)
’’آپ غسل کرتے اور دورکعتیں فجر کی دو رکعتیں اور فرض پڑھتے اور غسل کے بعد نیا وضو نہ کرتے تھے۔‘‘
غسل کرتے ہوئے سر کو پہلے دائیں اور پھر بائیں سے دھونا مسنون ہے۔ عائشہ فرماتی ہیں: فبدأ بشق رأسہ الأیمن ثم الأیسر(صحیح بخاری:۲۵۸)
’’پس آپ سر کے دائیں حصے سے (پانی ڈالنا) شروع کرتے پھر بائیں طرف۔‘‘
عورت کے لئے ضروری نہیںکہ وہ اپنی مینڈھیاں کھولے بلکہ اگر وہ گندھے ہوئے بالوں پرہی پانی انڈیل لیتی ہے تو اس کی اجازت ہے۔ اُمّ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی سے پوچھا کہ میں سر پر سختی سے مینڈھیاں باندھنے والی عورت ہوں توکیا غسل جنابت کے لئے میں اس کو کھول لیا کروں۔ آپ نے فرمایا:
)لا إنما یکفیک أن تحثی علی رأسک ثلاث حثیات ثم تفیضین علیک الماء فتطھرین( (صحیح مسلم:۳۳۰)
’’نہیں نہیں یہی کافی ہے کہ تو تین لپ پانی کے اپنے سر پر ڈال لے پھراپنے اوپر پانی بہالے پس تو پاک ہوجائے گی۔‘‘
 
Top