مفصل طریقہ نماز
تکبیر تحریمہ
رسول اللہﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف رخ کرتے رفع الیدین کرتے اور فرماتے : اﷲ أکبر
دلیل: عن أبی حمید الساعدی قال: کان رسول اﷲ إذا قام إلی الصلاۃ استقبل القبلۃ،ورفع یدیہ وقال: )اﷲ أکبر) (ابن ماجہ:۸۰۳)
اور آپ(ﷺ) نے فرمایا: جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ۔
دلیل: قال رسول اﷲ! )إذا قمت إلی الصلاۃ فکبر)(صحیح بخاری:۷۵۷، صحیح مسلم: ۳۹۷)
ہاتھوں کے اٹھانے کی کیفیت
آپ اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔
دلیل:عن عبد اﷲ أنہ قال: رأیت رسول اﷲ إذا قام فی الصلاۃ رفع یدیہ حتی تکونا حذو منکبیہ (صحیح بخاری:۷۳۶، صحیح مسلم:۳۹۰)
یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے۔
دلیل: عن مالک بن الحویرث: أن رسول اﷲ! کان إذا کبر رفع یدیہ حتی یحاذی بھما أذنیہ (صحیح مسلم:۳۹۱)
لہٰذا دونوں طرح جائز ہے، لیکن زیادہ حدیثوں میں کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں کے ساتھ کانوں کا پکڑنا یا چھونا کسی دلیل سے ثابت نہیں۔مردوں کا ہمیشہ کانوں تک اورعورتوں کا کندھوں تک رفع یدین کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
آپ(انگلیاں) پھیلا کر رفع یدین کرتے تھے۔
دلیل:عن أبی ہریرۃ قال:کان رسول اﷲ إذا دخل فی الصلاۃ رفع یدیہ مدًا (ابوداود:۷۵۳)
تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنا
آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھتے تھے۔
دلیل:
(عن الھلب) قال:رأیت النبی! ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ قال:یضع ھذہ علی صدرہ وصف یحیی الیمنی علی الیسری فوق المفصل (مسند احمد:۵؍۲۲۶)
لوگوں کو (رسول اللہﷺ کی طرف سے)یہ حکم دیا جاتاتھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں۔
عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلاۃ (صحیح بخاری:۷۴۰)
پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کلائی اور ساعد پر رکھا۔
دلیل:
عن وائل بن حجر:ثم وضع یدہ الیمنی علی ظھرکفہ الیسری والرسغ والساعد (ابوداود:۷۲۷)
اگر ہاتھ پوری ذراع (ہتھیلی، کلائی اور ہتھیلی سے کہنی تک) پر رکھا جائے تو خود بخود ناف سے اوپر اور سینہ پر آجاتا ہے۔
مردوں کا ناف سے نیچے اور صرف عورتوں کا سینہ پر ہاتھ باندھنا (یہ تخصیص) کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
استفتاح
رسول اللہ(ﷺ) تکبیر (تحریمہ) اور قرأت کے درمیان درج ذیل دعا (سراً یعنی بغیر جہر کے) پڑھتے تھے۔
) اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ،اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ) (صحیح بخاری:۷۴۴،صحیح مسلم:۵۹۸)
’’اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری بنا دے جیسی کہ مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح (پاک) صاف کردے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے (پاک) صا ف ہوجاتا ہے، اے اللہ! میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو ڈال (اور صاف کردے)‘‘
درج ذیل دعا بھی آپ سے ثابت ہے۔
)سبحانک اللھم وبحمدک،وتبارک اسمک،وتعالیٰ جدک،ولا إلہ غیرک) (ابوداود:۷۷۵)
’’اے اللہ ! تو پاک ہے اور تیری تعریف کے ساتھ تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان بلند ہے تیرے سوا دوسرا کوئی الٰہ (معبود برحق) نہیں ہے۔‘‘
ان ثابت شدہ دعاؤں میں سے جو دعا بھی پڑھ لی جائے بہتر ہے۔
تعوذ
قراء ت سے پہلے آپ أعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم پڑھتے تھے۔
’’میں شیطان مردود (کے شر) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
دلیل: عن سعید الخدری أن رسول اﷲ! کان یقول قبل القرأۃ: )أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم) (مصنف عبدالرزاق :۲؍۸۵)
آپ سے درج ذیل دعا بھی ثابت ہے۔
أعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ (ابوداود:۷۷۵)
’’میں شیطان مردود (کے شر) سے اس کے خطرے، اس کی پھونکوں اور اس کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں جو خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔‘‘
تسمیہ
آپ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔
دلیل: عن نعیم المجمر قال: صلیت وراء أبی ھریرۃ فقرأ )بسم اﷲ الرحمن الرحیم) ثم قرأ بأم القرآن۔۔۔قال (أبوھریرۃ) والذی نفسي بیدہ إنی لأ شبھکم صلاۃ برسول اﷲ (نسائی:۹۰۶)
’’نعیم المجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرۃ کے پیچھے نماز پڑی تو انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی۔ پھر سورہ فاتحہ پڑھی۔سلام پھیرنے کے بعد ابوہریرہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کےقبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہﷺ کی نماز سے مشابہت رکھتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھنا بھی صحیح ہے، جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔
ابوہریرہ نے اونچی آواز میں پڑھیi اور سراً بھی درست ہے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ اورابن حبان کی روایات سے ظاہر ہے۔
کثرت دلائل کی رو سے عام طور پر سراً پڑھنا بہتر ہے اس مسئلے میں سختی کرنا بہتر نہیں۔
سورۂ فاتحہ پڑھنا
تعوذ و تسمیہ کے بعد آپ سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (دیکھئے سنن نسائی:۹۰۶)
سورۃ الفاتحہ کے الفاظ یہ ہیں:
{اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ٭ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ٭ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ٭ إیَّاکَ نَعْبُدُ وَإیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ٭ إھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ٭ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ}
’’سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان ،بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے،ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ،ہمیں سیدھی (اور سچی) راہ دکھا ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔‘‘
سورہ فاتحہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہئے آپ سورہ فاتحہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے اور ہر آیت پر وقف کرتے تھے۔
ام سلمہ نبی کی قراء ت کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ
قراء ۃ رسول اﷲ )بسم اﷲ الرحمن الرحیم،الحمد ﷲ رب العالمین٭ الرحمن الرحیم٭ ملک یوم الدین٭) یقطع قراء تہ آیۃ آیۃ
’’ آپ کی قراء ت بسم اللہ الرحمن الرحیم ، الحمد للہ رب العالمین۔۔۔ الخ کو ایک ایک آیت کا ٹکڑا بناتے۔‘‘(ابوداود:۴۰۰۱)
تنبیہ:سورہ فاتحہ نماز میں ضروری ہے آپ فرماتے ہیں:
)لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب) (صحیح بخاری:۷۵۶)
’’جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
اور فرماتے ہیں کہ
)کل صلوٰۃ لا یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب فھی خداج فھی خداج)
’’ہر نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے،ناقص ہے۔‘‘(ابن ماجہ:۸۴۱)
آمین
سورہ فاتحہ کے بعد آپ ’آمین‘ اونچی آواز سے کہتے تھے۔
دلیل:
عن وائل بن حجر أنہ صلی مع رسول اﷲ قال: فوضع الید الیمنی علی الید الیسری، فلما قال:) ولا الضالین )قال:) آمین)
’’وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر جب آپ نے ولاالضالین (جہراً) کہی تو آمین (جہراً) کہی۔‘‘ (صحیح ابن حبان:۱۸۰۲)
وائل بن حجر ہی سے دوسری روایت میں ہے۔
وخفض بھا صوتہ (مسند احمد:۴؍۳۱۶، رقم:۹۰۴۸)
’’اور آپ نے اس (آمین ) کے ساتھ اپنی آواز پست رکھی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سری نماز میں آمین سراً کہنی چاہئے ۔سری نمازوں میں آمین سراً کہنے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
قرأت سے پہلے کیا پڑھے!
سورہ سے پہلے آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے۔
دلیل: انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن ہم نبی کے پاس تھے کہ آپ نے سر اٹھایا تو ہنس رہے تھے ہم نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے ہنسایا
قال رسول اﷲ )أنزلت علی سورۃ آنفا)فقرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم{إنَّا أعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِّرَبِّکَ وَانْحَرْ إنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الاَبْتَرُ}(صحیح مسلم:۴۰۰)
’’ آپ نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر سورۃ نازل ہوئی ہے پھر آپ نے پڑھا بسم اللہ الرحمن الرحیم ، إنا أعطیناک الکوثر…الخ‘‘
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان نے ایک دفعہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھا تو مہاجرین و انصار سخت ناراض ہوئے تھے اس کے بعد معاویہ سورت سے پہلے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔
روایت کے الفاظ یہ ہیں:
أن أنس بن مالک قال صلی معاویۃ بالمدینۃ صلوۃ فجھر فیھا بالقرأۃ فقرا فیھا بسم اﷲ الرحمن الرحیم لام القرآن ولم یقرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم للسورۃ التی بعدھا حتی قضی تلک القرأۃ فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین والانصار من کل مکان یا معاویۃ اسرقت الصلوٰۃ أم نسیت فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم للسورۃ التی بعد أم القرآن (مستدرک حاکم:۱؍۲۳۳، الام للشافعی:۱؍۹۳)
قرأت قرآن
نبیﷺ نے فرمایا:)
اقرأ بأم القرآن وبما شاء اﷲ أن تقرأ)
’’سورہ فاتحہ پڑھو اور (قرآن میں سے) جو اللہ چاہے پڑھو۔‘‘(ابوداود:۸۵۹)
آپ ﷺپہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورۃ پڑھتے تھے۔
دلیل:
عن عبداﷲ بن أبی قتادۃ عن أبیہ قال:کان النبی یقرأ فی الرکعتین من الظھر والعصر بفاتحۃ الکتاب،وسورۃ سورۃ (صحیح بخاری:۷۶۲،صحیح مسلم ۴۵۱)
اور آخری دو رکعتوں میں (صرف) سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔
دلیل:
عن أبی قتادۃ أن النبی کان یقرأ في الظھر في الأولین بأم الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ
(صحیح بخاری:۷۷۶،صحیح مسلم ۴۵۱)
سکتہ
آپ سورہ فاتحہ سے پہلے اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے سکتہ کرتے تھے۔
دلیل:
قال سمرۃ:حفظت سکتتین فی الصلاۃ سکتہ إذا کبر الامام حتی یقرأ،وسکتۃ إذا فرغ من فاتحۃ الکتاب وسورۃ عند الرکوعt (ابوداود:۷۷۷، ۷۷۸)
’’سمرہ بن جندب کہتے ہیں مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں ایک سکتہ وہ جب امام اللہ اکبر کہتا ہے اور قراء ت سے پہلے اور دوسرا سکتہ وہ کہ جب امام سورہ فاتحہ اور سورۃ سے فارغ ہوتا ہے۔‘‘
رکوع
آپ رکوع جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے۔
دلیل:
عن أبی ہریرۃ یقول کان رسول اﷲ… ثم یکبر حین یرکع (صحیح بخاری:۷۸۹،صحیح مسلم:۳۹۲)
اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔
دلیل:
أن عبد اﷲ بن عمر قال: رأیت النبی افتتح التکبیر فی الصلوۃ فرفع یدیہ حین یکبر حتی یجعلھا حذو منکبیہ وإذا کبر للرکوع فعل مثلہ (صحیح بخاری:۷۳۸)
’’عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے نبی کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کے شروع میں تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں مونڈھوں کے برابر اٹھائے اور جب رکوع کیا تو اس طرح کیا۔‘‘
’’آپ(عند الرکوع وبعدہ)رفع یدین کرتے پھر (اس کے بعد)تکبیر کہتے۔
دلیل:
أن ابن عمر قال: کان رسول اﷲ إذا قام للصلوٰۃ رفع یدیہ حتی تکونا بحذو منکبیہ ثم کبر،فإذا أراد أن یرکع فعل مثل ذلک
’’ عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں تک اٹھاتے پھر تکبیر کہتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اسی طرح کرتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم:۳۹۰)
ملحوظہ: اگر پہلے تکبیر اور بعد میں رفع یدین کرلیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
ابوحمیدالساعدی کہتے ہیں کہ
’’
ثم یکبر فیرفع یدیہ‘‘ (ابوداود:۷۳۰)
’’پھر آپ تکبیر کہتے اور پھر رفع یدین کرتے۔‘‘
رکوع کی کیفیت
آپ جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنے مضبوطی سے پکڑتے پھر اپنی کمر جھکاتے (اور برابر کرتے)
دلیل:
وإذا رکع أمکن یدیہ من رکبتیہ ثم ہصر ظھرہ(صحیح بخاری:۸۲۸)
’’آپ کا سرنہ تو (پیٹھ سے) اونچا ہوتا اور نہ نیچا (بلکہ برابر ہوتا تھا)
دلیل:
وکان إذا رکع لم یشخص رأسہ ولم یصوبہ (صحیح مسلم:۴۹۸)
آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوںپر رکھتے تھے پھراعتدال (سے رکوع) کرتے نہ تو سر (بہت) جھکاتے اور نہ اسے (بہت) بلند کرتے یعنی آپ کا سر مبارک آپ کی پیٹھ کی سیدھ میں بالکل برابر ہوتا تھا۔
دلیل:
ثم یرکع ویضع راحتیہ علی رکبتیہ ثم یعتدل فلا یصب رأسہ ولا یقنعv(ابوداود:۷۳۰)
آپ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے گویا کہ آپ نے انہیں پکڑ رکھا ہو اور دونوں ہاتھ کمان کی ڈوری کی طرح تان کر اپنے پہلوؤں سے دور رکھے۔
دلیل:
ثم رکع فوضع یدیہ علی رکبتیہ کأنہ قابض علیھما،ووتر یدیہ فتجافی عن جنبیہ (ابوداود:۷۳۴)
رکوع کی دعا
آپ رکوع میں سبحان ربي العظیم کہتے (رہتے ) تھے۔
دلیل: اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ثم رکع فجعل یقول )سبحان ربي العظیم) (صحیح مسلم:۷۷۲)
آپ مذکورہ بالا دعا کا نماز میں پڑھنے کاحکم بھی کرتے۔
دلیل:
عن عقبۃ بن عامر قال:لما نزلت{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْم} قال رسول اﷲ )إجعلوھا فی رکوعکم) x (ابوداود:۸۶۹)
اس کی تسبیح کی تعداد میں امام ذہبی نے اختلاف کیا ہے۔ میمون بن مہران (تابعی) اور زہری (تابعی) فرماتے ہیں کہ رکوع وسجود میں تین تسبیحات سے کم نہیں پڑھنا چاہئے (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۲۵۰، رقم ۲۵۷۱)
اس کے علاوہ آپ سے درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔
)سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ)
’’اے اللہ! جو ہمارا رب ہے، تو پاک ہے، ہم تیری تعریف کرتے ہیں الٰہی مجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴ ۸ ۴ )
یہ دعا آپ کثرت سے پڑھتے تھے۔
)سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ،رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ) (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’وہ ہر عیب سے پاک ہے وہ فرشتوں اور جبریل کا رب ہے۔‘‘
)سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا إلہَ إلَّا أَنْتَ) (صحیح مسلم:۴۸۵)
’’اے اللہ تو پاک ہے اور تیری ہی تعریف ہے۔ نہیں ہے کوئی معبود(برحق) مگر تو ہی۔‘‘
)اَللّٰھُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ،خَشَعَ لَکَ سَمْعِيْ وَبَصَرِيْ وَمُخِّيْ وَعَظْمِيْ وَعَصَبِيْ) (صحیح مسلم:۷۷۱)
’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے رکوع کیا تیرے لئے ہی ایمان لایا اور تیرے لئے ہی فرمانبردار ہوا میری سماعت،بصارت، ہڈی اور اس کی مخ اور پٹھے (سب کے سب) تجھ سے ڈر گئے۔‘‘
ان دعاؤں میں سے کوئی دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے، ان دعاؤں کا ایک ہی رکوع یا سجدے میں جمع کرنا اور اکٹھا پڑھنا کسی صریح دلیل سے ثابت نہیں تاہم حالت تشہد میں)
ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو)(صحیح بخاری:۸۳۵)کی عام دلیل سے ان دعاؤں کا جمع کرنا بھی جائز ہے۔ واﷲ أعلم
رفع الیدین بعد الرکوع
جب آپ رکوع سے سراٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور)سمع اﷲ لمن حمدہ،ربنا ولک الحمد)کہتے تھے۔
دلیل:
وإذا کبر للرکوع،وإذا رفع رأسہ من الرکوع رفعھما کذلک أیضا،وقال:)سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) (صحیح بخاری:۷۳۵، ۷۳۶)
امام،مقتدی اور منفرد سب کو سمع اﷲ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہنا چاہئے۔ربنا لک الحمد کہنا بھی صحیح اور ثابت ہے۔
جیسا کہ دوسری روایت میں وارد ہے:
ثم یکبر حین یرکع،ثم یقول )سمع اﷲ لمن حمدہ)حین یرفع صلبہ من الرکوع،ثم یقول وھو قائم:)ربنا لک الحمد)(صحیح بخاری:۷۸۹)
*بعض اوقات ربنا ولک الحمد جہراً کہنا بھی جائز ہے۔
دلیل: عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ سمعت أبا ھریرۃ یرفع صوتہ باللھم ربنا ولک الحمدz(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۲۴۸، رقم:۲۵۵۶)
’’میں نے ابوہریرہ کو اونچی آواز کے ساتھ اللھم ربنا ولک الحمد پڑھتے سنا۔‘‘
*اس کے علاوہ رکوع کے بعد درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔
)é رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمٰوَاتِ وَمِلْئَ الاَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ أَھْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ،أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) (صحیح مسلم:۴۷۷)
’’اے ہمارے پروردگار! تیرے ہی لئے ہر طرح کی تعریف ہے۔آسمانوں اور زمین اور ہر اس چیز کے بھراؤ برابر (تیری تعریف ہے) جو تو چاہے بندے نے تیری حمد و ثنا بیان کی تو انہی کا حقدار ہے اور ہم سب تیرے بندے ہیں تو جو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور سعادت مند کو اس کی سعادت مندی تیرے عذاب سے بچا نہیں سکی۔‘‘
* )رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًَا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ) (صحیح بخاری:۷۹۹)
’’اے ہمارے پروردگار!آپ کے لئے ہی ساری تعریف ہے، بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریف۔‘‘
رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنا
رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں یا نہیں اس مسئلے میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ نہ باندھے جائیں۔امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں یا چھوڑ دینے چاہئیں تو انہوں نے فرمایا: أرجو أن لا یضیق ذلک إن شاء اﷲ (مسائل احمد روایۃ صالح بن احمد بن حنبل:۶۱۵)
’’مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔‘‘
سجدہ
پھر آپ تکبیر(اللہ اکبر) کہہ کر (یا کہتے ہوئے) سجدے کے لئے جھکتے۔
دلیل:ثم یقول )اﷲ أکبر) حین یہوی ساجدًا( بخاری:۸۰۳،مسلم:۳۲۹)
آپ نے فرمایا: )
إذا سجد أحدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ) (ابوداود:۸۴۰)
’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے (بلکہ) اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے‘‘ اور آپ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔‘‘
عبداللہ بن عمر اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ(زمین پر)رکھتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ä
جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریمﷺ سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھتے تھے۔ (ابوداود:۸۳۸) شریک بن عبداللہ القاضی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ہیں۔
*سجدہ سات اعضاء یعنی دونوں گھٹنوں دونوں ہاتھوں اور چہرے کے اعتماد سے کرنا چاہئے۔
دلیل:
آپ نے فرمایا:)أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم علی الجبھۃ) وأشار بیدہ علی أنفہ،)والیدین والرکبتین وأطراف القدمین )(صحیح بخاری:۸۱۲،صحیح مسلم:۴۹۰)
’’مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے (ان سب کی طرف) اشارہ کیا کہ پیشانی،ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجے۔‘‘
* آپ فرماتے تھے: )
إذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ أطراف: وجھہ وکفاہ ورکبتاہ وقدماہ) (صحیح مسلم:۴۹۱)
’’جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو سات اطراف (اعضائ) اس کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں چہرہ ، ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں۔‘‘
معلوم ہوا کہ سجدہ میں ناک پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کا زمین پر لگانا ضروری (فرض ) ہے۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں:
)لا صلوۃ لمن لم یضع أنفہ علی الأرض) å(دارقطنی:۱؍۳۷۸، رقم:۱۳۰۳)
’’جو شخص (نماز میں) اپنی ناک، زمین پر نہ رکھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
* آپ سجدے میں ناک اور پیشانی زمین پر (خوب) جما کر رکھتے، اپنے بازؤں کو اپنے پہلوؤں (بغلوں سے دور کرتے اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر زمین) پر رکھتے تھے۔‚ثم سجد فأمکن أنفہ وجبہتہ ونحی یدیہ عن جنبیہ (ابوداود:۷۳۴)
وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ :فلما سجد وضع رأسہ بذلک المنزل من بین یدیہ (ابو داود:۷۲۶)
’’آپ نے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اپنے سر کو رکھا۔‘‘
* سجدے میں آپ اپنے دونوں بازؤں کو اپنی بغلوں سے ہٹا کر رکھتے تھے۔
دلیل:
’’ثم یھوی إلی الارض فیجافی یدیہ عن جنبیہ‘‘„ (ابوداود:۷۳۰)
* آپ سجدے میں اپنے ہاتھ (زمین پر)رکھتے نہ تو انہیں بچھا دیتے اور نہ (بہت) سمیٹ لیتے اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے۔
دلیل:
’’فإذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما واستقبل باطراف أصابع رجلیہ القبلۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۸)
*سجدہ میں آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی تھی۔
دلیل:
’’عن عبد اﷲ بن مالک أن النبی کان إذا صلی فرج بین یدیہ حتی یبدو بیاض إبطیہ‘‘ (صحیح بخاری:۳۹۰،صحیح مسلم۴۹۵)
*سجدہ کرتے ہوئے بازؤں کو زمین پربچھانا نہیں چاہئے۔
دلیل:
آپ فرماتے تھے کہ)اعتدلوا فی السجود،ولا ینبسط أحدکم ذراعیہ انبساط الکلب )(صحیح بخاری:۸۲۲، صحیح مسلم:۴۹۳)
’’سجدے میں اعتدال کرو، کتے کی طرح بازو نہ بچھا دو۔‘‘
اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا عورتوں کوبھی چاہئے کہ سجدے میں اپنے بازو نہ پھیلائیں۔
*آپ جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کابچہ آپ کے بازؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔
دلیل: ’’عن میمونہ قالت: کان النبی إذا سجد لو شاء ت بھمۃ أن تمر بین یدیہ لمرت‘‘ (صحیح مسلم:۴۹۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے سینے اور پیٹ کو زمین سے بلند رکھتے تھے )صلوا کما رأیتمونی أصلی)کے عام حکم کے تحت عورتوں کیلئے بھی یہی حکم ہے۔
سجدے کی دعائیں
سجدے میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے لہٰذا سجدے میں خوب دعا کرنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا: )
أقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فأکثروا الدعائ) (صحیح مسلم:۴۸۲)
’’بندہ اپنے رب کے قریب ترین ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو پس دعا زیادہ سے زیادہ کیا کرو۔‘‘
سجدے میں درج ذیل دعائیں پڑھنا ثابت ہے۔
)aسُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلیٰ) (صحیح مسلم:۷۷۲)
’’میرا بلند پروردگار(ہر عیب سے) پاک ہے۔‘‘
)bسُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي) (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴۸۴)
’’اے ہمارے پروردگار! تو (ہرعیب سے) پاک ہے ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘
)cسُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا اِلَہَ إلَّا أَنْتَ) (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’اے اللہ! تو (ہرعیب سے) پاک ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں تیرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے۔‘‘
)dسُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ) (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’(الٰہی تو) نہایت پاک اور قدوس ہے، فرشتوں اور روح الامین (جبریل) کا پروردگار ہے۔‘‘
)اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِيْ کُلَّہٗ،دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ،وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ،وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ )(صحیح مسلم:۴۸۳)
’’اے اللہ میرے تمام گناہوں کو بخش دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، ماضی کے ہوں اور آئندہ کے ہوں، علانیہ اور خفیہ ہوں۔‘‘
)اَللّٰھُمّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ،وَلَکَ أَسْلَمْتُ،سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ،وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ،تَبَارَکَ اﷲُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) (صحیح مسلم :۷۷۱)
’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے سجدہ کیا میں تجھ پر ایمان لایا،تیرا فرمانبردار ہوا، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے تخلیق کیا، اسے اچھی صورت دی، اس کے کان اور آنکھ کو کھولا بہترین تخلیق کرنے والا اللہ، بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘
یہ دعا بھی نبی سے ثابت ہے:
)اَللّٰھُمّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وِبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عَقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ،أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلـٰی نَفْسِکَ) (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ الٰہی میں غصے سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری بخشش کی تیرے عذاب سے اور تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔مجھ میں طاقت نہیں کہ تعریف کر سکوں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔‘‘
جو دعا باسند صحیح ثابت ہوجائے سجدے میں اس کا پڑھنا افضل ہے، رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے۔
*آپ سجدے کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کی ایڑھیاں ملادیتے تھے اور ان کی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہوتا تھا۔
دلیل:
’’قالت عائشۃ زوج النبی فقدت رسول اﷲ وکان معی علی فراش فوجدتہ ساجداً راصا عقبیہ مستقبلا باطراف أصابعہ القبلۃ‘‘… (معانی الآثار:۱؍۲۳۴، بیہقی :۲؍۱۱۶)
’’ آپ کی زوجہ محترمہ عائشہ فرماتی ہیں: میں نے ایک دن آپ کو گم پایا جب کہ آپ میرے بستر پر تھے ،پس میں نے آپ کو اس حالت میں پایا کہ آپسجدہ میں دونوں ایڑیوں کو اوپر اٹھائے ہوئے اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف کیے ہوئے تھے۔‘‘
*سجدے میں آپ اپنے دونوں قدم کھڑے رکھتے تھے۔
دلیل:
عن عائشۃ قالت فقدت رسول اﷲ ﷺ لیلۃ من الفراش فالتمستہ فوقعت یدی علی بطن قدمہ،وہو فی المسجد وہما منصوبتان (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ عائشہ سے روایت ہے کہتی ہیں میں نے ایک رات آپ کو بستے سے غائب پایا تو ٹٹولنے پر میرا ہاتھ آپ کے دونوں قدموں کے تلووں کو لگا آپ اس وقت سجدہ میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں گڑے ہوئے تھے۔‘‘
* آپ تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر سجدے سے اٹھتے۔
دلیل: ’’
ثم یکبر حین یرفع رأسہ‘‘ (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم :۳۹۲)
*آپ اللہ اکبر کہہ کر سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اس پربیٹھ جاتے۔
دلیل: ’’
ثم یسجد ثم یقول )اﷲ أکبر) ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا‘‘ †(ابوداود:۷۳۰)
* عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ’’
إنما سنۃ الصلاۃ أن تنصب رجلک الیمنی وتثنی الیسری‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۷)
’’نماز میں (نبی) کی سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کرکے بایاں پاؤں بچھا دے۔‘‘
*آپ سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
دلیل:
افتتح التکبیر فی الصلاۃ فرفع یدیہ… وإذا کبر للرکو ع فعل مثلہ وإذا قال )سمع اللہ لمن حمدہ) ولا یفعل ذلک حین یسجد ولا حین یرفع رأسہ من السجود (صحیح بخاری:۷۳۸)
’’ نماز کے شروع میں تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے… اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو ایسا ہی کرتے اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تو اسی طرح کرتے اور سجدے اور سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ایسا نہ کرتے۔‘‘
جلسہ
آپ سجدے سے اٹھ کر (جلسے میں) تھوڑی دیر بیٹھتے۔
دلیل: ’’
ثم رفع راسہ ھنیۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۱۸)
* آپ اتنی دیر تک بیٹھتے کہ کوئی سمجھتا کہ آپ بھول گئے ہیں۔
دلیل:
إذا رفع رأسہ من الرکوع قام حتی یقول القائل: قد نسي وبین السجدتین حتی یقول القائل قد نسي (صحیح بخاری:۸۲۱، صحیح مسلم:۴۷۲)
* آپ جلسہ میں یہ دعا پڑھتے تھے:
(رَبِّ اغْفِرْلِيْ،رَبِّ اغْفِرْلِي) ‡(ابوداود:۸۷۴)
جلسہ میں تشہد کی طرح اشارہ کرنا ثابت نہیں۔ˆ
* آپ تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (دوسرا) سجدہ کرتے ۔
دلیل:
(ثم یکبر حین یسجد ) (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم:۳۹۲)
* آپ جب طاق (پہلی یا تیسری) رکعت میں دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے تھے۔
دلیل:
فإذا کان فی وتر من صلاتہ لم ینھض حتی یستوي قاعدًا‘‘
’’پس جب آپ نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تواچھی طرح بیٹھے بغیر نہ اٹھتے تھے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۲۳)
* دوسرے سجدے سے آپ جب اٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجاتی۔
دلیل:
ثم یسجد ثم یقول: (اﷲ أکبر) ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا حتی یرجع کل عظم إلی موضعہ‰ (ابوداود:۷۳۰)
*اور اس کے علاوہ نبی کا حکم بھی اسی عمل ہی کا ہے۔
آپ ایک آدمی کو نماز سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں: (
ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا )(صحیح بخاری:۶۲۵۳)
’’ پھر تو سجدہ کر حتی کہ اچھی طرح سجدہ کر لے پھر سر اٹھا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جائے۔‘‘
ملحوظہ: سجدہ کرتے وقت، سجدے سے سراٹھاتے وقت اور سجدوں کے درمیان رفع یدین کرنا ثابت نہیں۔
ایک رکعت مکمل ہوگئی اب آپ وتر پڑھ رہے ہیں تو پھر تشہد درود اور دعائیں (جن کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر سلام پھیر لیں۔
دوسری رکعت
* آپ زمین پر (دونوں ہاتھ رکھ کر) اعتماد کرتے ہوئے (دوسری رکعت کے لئے) اٹھ کھڑے ہوتے۔
دلیل:
عن أیوب عن أبی قلابۃ قال: جاء نا مالک بن الحویرث فصلی بنا فی مسجدنا ہذا فقال:إنی لأصلی بکم وما أرید الصلاۃ التی أرید أن أریکم کیف رأیت رسول اﷲ یصلی قال أیوب فقلت لأبی قلابۃ:وکیف کانت صلاتہ؟ قال:مثل صلاۃ شیخنا ھذا یعنی: عمرو بن سلمۃ قال أیوب: وکان ذلک الشیخ یتم التکبیر وإذا رفع رأسہ عن السجدۃ الثانیۃ جلس واعتمد علی الارض ثم قام
’’ ایوب سے روایت ہے کہ ابی قلابہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس مالک بن حویرث تشریف لائے۔انہوں نے اس مسجد میں ہمیںنماز پڑھائی اور فرمانے لگے کہ میرا ارادہ نماز پڑھنے کا نہیں تھا،لیکن صرف اس خاطر کہ تمہیں دکھاؤں کہ میں نے کس طرح نبی کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ایوب کہتے ہیں میں نے ابوقلابہ سے کہا ان(مالک بن حویرث)کی نماز کی کیا حالت تھی۔ ابوقلابہ کہنے لگے ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح ایوب سنتے ہیں وہ شیخ تکبیر مکمل کرتے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر(ہاتھوں کی) ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۲۴)
* ابن عمر کا عمل بھی اسی پر تھا۔
ازرق بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے (عبداللہ) بن عمر کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں پراعتماد کرکے کھڑے ہوئے۔‹(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۳۹۵، رقم:۳۹۹۶)
* آپ جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو الحمدللہ رب العالمین سے قرأت شروع کرتے اور سکتہ نہ کرتے تھے۔
دلیل:
إذا نھض من الرکعۃ الثانیۃ استفتح القراء ۃ بـ {الحمد ﷲ رب العالمین}ولم یسکت(صحیح مسلم:۵۹۹)
سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ذکر گزر چکا۔
{
فَإذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاْسَتِعْذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ} (النحل:۹۸) کی رو سے بسم اللہ سے پہلے أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم پڑھنا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔ باقی تفصیل پہلی رکعت کے بیان میں گزر چکی ہے۔
آخری تشہد میں ہاتھوں کی حالت
* دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد (تشہد کے لئے) بیٹھ جانے کے بعد آپ اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے تھے۔
دلیل:
إذا قعد فی الصلاۃ …وضع یدہ الیسریٰ علی رکبتہ الیسریٰ ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی (صحیح مسلم:۵۷۹)
* آپ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ترپن کا عدد (یعنی حلقہ) بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ (یعنی اشارہ کرتے ہوئے دعا کرتے)
دلیل:
وعقد ثلاثۃ وخمسین وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰)
ïیہ بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملاتے (یعنی حلقہ بناتے) اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
دلیل: وأشار بإصبعہ السبابۃ ووضع إبھامہ علی أصبعہ الوسطی(صحیح مسلم:۵۷۹) لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے۔
*آپ اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھتے تھے۔
دلیل:
وحد مرفقہ الأیمن علی فخذہ الیمنی(ابوداود:۷۲۶)
* آپ اپنی دونوں ذراعیںñاپنی رانوں پر رکھتے تھے۔
دلیل:
وضع ذراعیہ علی فخذیہò(نسائی :۱۲۶۵)
* آپ جب تشہد کے لئے بیٹھتے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
دلیل:
کان إذا قعد فی التشہد … وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰)
* آپ انگلی اٹھا دیتے اس کے ساتھ تشہد میںدعا کرتے تھے۔
دلیل:
قد حلق الابھام والوسطی،ورفع التي تلیھما یدعو بھا في التشھد(ابن ماجہ:۹۱۲)
* آپ شہادت والی انگلی کو تھوڑا ساجھکا دیتے۔
دلیل:
عن نمیر الخزاعي قال:رأیت النبی واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعا اصبعہ السبابۃ قد حناھا شیئا(ابوداود:۹۹۱)
’’ نمیز خزاعی کہتے ہیں میں نے نبی کو (ـتشہد میں) دیکھا کہ آپ اپنی دائیں بازو کو دائیں ران پر رکھا ہوا تھا او راس ہاتھ کی شہادت والی انگلی کو تھوڑا سا خمیدہ کر کے اٹھایا ہوا تھا۔‘‘
* آپ اپنی شہادت والی انگلی کو حرکت(دیتے) رہتے تھے۔
دلیل:
ثم رفعہ اصبعہ فرأیتہ یحرکھا یدعوبھا‘(نسائی:۱۲۶۹)
٭ آپ اپنی شہادت کی انگلی کو قبلہ رخ کرتے اور اسی کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔
دلیل:
وأشار بأصبعہ التي تلي الإبھام فی القبلۃ ورمی ببصرہ إلیھا أونحوھا ثم قال:ہکذا رأیت رسول اﷲ ! ’ (نسائی:۱۱۶۱)
*آپ دو رکعتوں کے بعد والے (یعنی پہلے) تشہد اور چار رکعتوں کے بعد والے (یعنی آخری) تشہد دونوں تشہدوں میں یہ اشارہ کرتے تھے۔
دلیل: کان رسول اﷲ إذا جلس فی الثنتین أو في الأربع یضع یدیہ علی رکبتیہ ثم أشار بأصبعہ“ (نسائی:۱۱۶۲)
لا الہ پر انگلی اٹھانا اور الاﷲ پررکھ دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ احادیث کے عموم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع سے آخر تک حلقہ بنا کر شہادت والی انگلی اٹھائی جائے۔ جیسا کہ ترمذی” اور نسائی• کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے ایک شخص کو دیکھا جو (تشہد میں) دو انگلیوں سے اشارہ کررہا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’أحّد أحّد‘‘ یعنی صرف ایک انگلی سے اشارہ کرو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شروع تشہد سے لے کر آخر تک شہادت والی انگلی اٹھائی رکھنی چاہئے۔
* آپ تشہد میں درج ذیل دعا (التحیات) سکھاتے تھے۔
اَلتَّحِیَّاتُ ﷲِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ–اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ، أشْھَدُ أنْ لَّا إلٰہَ إلاَّ اﷲُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ(صحیح بخاری:۱۲۰۲)
’’قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ اے نبی آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی، اس کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں اور ہم پر بھی اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی نازل ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
* پھر آپ درود پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمد وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (صحیح بخاری:۳۳۷۰)
’’یااللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور اُن کی آل پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم ؑ اور اُن کی آل پر۔ بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت فرما محمد اور ان کی آل پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر۔ بلا شبہ تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔‘‘
* دو رکعتیں مکمل ہوگئیں، اب اگر دو رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ الفجر) ہے تو دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیں اگر تین یا چار رکعتوں والی نماز ہے تو تکبیر کہہ کر کھڑے ہوجائیں۔
پہلے تشہد میں درود پڑھنا انتہائی بہتر اور موجب ثواب ہے، عام دلائل میں قولوا کے ساتھ اس کا حکم آیا ہے کہ ’درود پڑھو‘ اس حکم میں آخری تشہد کی کوئی تخصیص نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص پہلے تشہد میں درود نہ پڑھے اور صرف التحیات پڑھ کر ہی کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ مسند احمد—کی روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے التحیات (عبدہ ورسولہ تک)سکھا کر فرمایا:’’پھر اگر نماز کے درمیان (یعنی اول تشہد) میں ہو تو (اٹھ) کھڑا ہوجائے۔‘‘ اگر دوسری رکعت پر سلام پھیرا جا رہا ہے تو تورک کرنا بہتر ہے اور نہ کرنا بھی جائز ہے۔
* پھر جب آپ دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو (اٹھتے وقت) تکبیر(اللہ اکبر) کہتے۔
دلیل:
ویکبر حین یقوم من الثنتین بعد الجلوس (صحیح بخاری:۷۸۹، ۸۰۳، صحیح مسلم:۸۶۸)
* اور رفع یدین کرتے۔
دلیل:
وإذا قام من الرکعتین رفع یدیہ ورفع ذلک ابن عمر إلی النبی(صحیح بخاری:۷۳۹)
’’ ابن عمر جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو اپنے دو نوں ہاتھ اٹھاتے آپ نے اس طریقہ کو مرفوعا بیان کیا ہے۔‘‘
* تیسری رکعت بھی دوسری رکعت کی طرح پڑھنی چاہئے سوائے یہ کہ تیسری اور چوتھی (آخری دونوں) رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے اس کے ساتھ کوئی سورت وغیرہ نہیں ملانی چاہئے جیسا کہ ابوقتادہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ (صحیح بخاری:۷۷۶)
* اگر تین رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ المغرب) ہے تو تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد دوسری رکعت کی طرح تشہد اور درود پڑھ لیا جائے اور دعا (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیا جائے۔ (صحیح بخاری :۱۰۹۲)
* اگر چار رکعتوں والی نماز ہے تو پھر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے۔ ( صحیح بخاری:۸۲۳)
* چوتھی رکعت بھی تیسری رکعت کی طرح پڑھے یعنی صرف سورۃ فاتحہ ہی پڑھے تاہم تیسری اور چوتھی رکعتوں میںسورہ فاتحہ کے علاوہ سورت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔
دلیل: صحیح مسلم میں سعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ
’’کنا نحزر قیام رسول اﷲ فی الظھر والعصر، فحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من الظھر قدر قراء ۃ {الٓمّ تَنْزِیْل} السجدۃ وحزرنا قیامہ فی الاخریین قدر النصف من ذلک وحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من العصر علی قدر قیامہ من الأخریین من الظھر، وفي الأخریین من العصر علی النصف من ذلک‘‘
’’ہم ظہر اور عصر کی نماز میں رسول اللہﷺ کے قیام کا اندازہ لگاتے، ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں آپ کے قیام کااندازہ الم تنزیل السجدہ (تین آیات) جتنا ہوتا اور آخری دو رکعتوں میں آپ کے قیام کے متعلق ہمارا اندازہ اس سورہ سے نصف پر، اسی طرح عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کانصف اور آخری دو رکعتوں میں عصر کی پہلی دو کا نصف۔‘‘(صحیح مسلم:۴۵۲)
*آپ چوتھی رکعت میں ’تورک‘ کرتے تھے۔
دلیل:
وإذا جلس فيٍ الرکعۃ الآخرۃ قدم رجلہ الیسری ونصب الأخری وقعد علی مقعدتہ (صحیح بخاری:۸۲۸)
’’ اور جب آپ آخری رکعت میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو (دائیں پنڈلی کے نیچے سے) نکال لیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور اپنی مقعد پر بیٹھ جاتے۔‘‘
* چوتھی رکعت مکمل کرنے کے بعد التحیات اور درود پڑھے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
* پھر اس کے بعد جو دعا پسند ہو (عربی زبان میں) پڑھ لے۔
دلیل: آپ نے فرمایا:
(ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو )(صحیح بخاری:۸۳۵)
چند دعائیں درج ذیل ہیں جنہیں رسول اللہ پڑھتے یا حکم دیتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ (صحیح بخاری:۱۳۷۷، صحیح مسلم:۵۸۸)
’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور آگ کے عذاب سے اور موت و حیات کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
رسول اللہﷺ اس دعا کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: صحیح مسلم ۵۹۰) لہٰذا یہ دعا تشہد میں ساری دعاؤں سے بہتر ہے طاؤس (تابعی) سے مروی ہے کہ وہ اس دعا کے بغیر نماز کے اعادے کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: مسلم: ۵۹۰)
(اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَأعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَفِتْنَۃِ الْمَمَاتِ، اَللّٰھُمَّ إنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَمِ وَالْمَغْرَمِ )(صحیح بخاری: ۸۳۲)
’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔الٰہی! میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے موت و حیات کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اے اللہ! میں تجھ سے گناہوں اور قرض (کے بوجھ) سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
(اَللّٰھُمَّ إنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِیْ إنَّکَ أنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ )
’’یا اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں لہٰذا تو اپنی جناب سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما کیونکہ تو ہی بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۳۴)
(اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ ،وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُوَخِّرُ لَا اِلٰہَ إلاَّ أَنْتَ ) (صحیح مسلم:۷۷۱)
’’ الٰہی میرے اگلے پچھلے،خفیہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے اور جو میں زیادتی کر بیٹھا اور وہ گناہ جن کو تو جانتا ہے معاف فرما دے تو ہی(عزت میں) آگے کرنے والا اور پیچھے ہٹانے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘
ان کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا جائز اور موجب ثواب ہے مثلاً آپ یہ دعا بکثرت پڑھتے تھے۔
(اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ )(صحیح بخاری:۴۵۲۲)
’’اے اللہ! اے ہمارے رب ہماری دنیا وآخرت اچھی بنا دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔‘‘
سلام
* دعا کے بعد آپ دائیں اور بائیں سلام پھیر دیتے تھے۔(صحیح مسلم:۵۸۲)
* سلام پھیرتے ہوئے آپ کی گالوں کی سفیدی دائیں بائیں کے مقتدیوں کو نظر آتی اور سلام کے یہ الفاظ ہوتے۔
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ
دلیل :روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
عن عبداﷲ (قال) أن النبی کان یسلم عن یمینہ وعن شمالہ حتی یری بیاض خدہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ˜(ابوداود:۹۹۶)
* سلام کے یہ الفاظ بھی نبی سے ثابت ہیں۔
دائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اور بائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ™(ابوداود:۹۹۷)
اگر امام نماز پڑھا رہا ہوتو جب وہ سلام پھیر دے تو سلام پھیرنا چاہئے۔ عتبان بن مالک فرماتے ہیں کہ’’
صیلنا مع النبيٍﷺ فسلمنا حین سلم‘‘
’’ہم نے نبی کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔‘‘ (صحیح بخاری:۸۳۸)
* عبداللہ بن عمر پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرلے تو (پھر) مقتدی سلام پھیریںé لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی مقتدی سلام پھیرے، اگر امام کے ساتھ ساتھ، پیچھے پیچھے بھی سلام پھیر لیا جائے تو جائز ہے۔š