• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نوح علیہ السلام کی قوم میں شرک نیک لوگوں کی عقیدت میں غلو سے پیدا ہوا

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ابھی موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ۔ باقی باتیں کسی اور تھریڈ میں ہوں گی۔
ان سوالوں کے جواب دیں
پہلی بات تو یہ کہ امام بخاری روایت کررہے ہیں۔ بیان کرنے والے تو ابن عباس ہیں۔
دوسری بات قرآن میں ہے یہ باتیں نہیں ۔ پھر صحیح سند سے یہ روایت ابن عباس سے ثابت ہے لہذا اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں بچتی کہ یہ بات ابن عباس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔
تیسری بات جو انس نضر بھائی نے کہی کہ کیا صحابی سے یہ صراحت جہاں مل جائے کہ انہوں نے یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی ہے تو کیا آپ حدیث مان لیں گے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
سوال نمبر١۔ قبیلہ بنو نضیر کے درخت کاٹنے کا حکم قرآن مجید میں کہاں ھے؟

جواب۔ اس نام کے کسی قبیلے کا ذکر قرآن میں نہیں ھے۔


سوال نمبر٢۔ حرمت والے مہینوں کے ناموں کی وضاحت قرآن مجید کی کون سی آیت میں ھے؟

جواب۔ تفصیل کے ساتھ جواب دیکھنے اور سمجھنے کے لیئے لیکچر دیکھیں۔
www.iipc.tv

ویب سائٹ پر جا کر VOD کو کلک کریں اور اردو لیکچر سلیکٹ کریں۔ نیچے لیکچر کا عنوان لکھا ھے۔ SACRED MONTHS. اس کو کلک کریں۔


سوال نمبر٣۔ بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم قرآن مجید میں کس جگہ ھے؟

جواب۔ اگر بیت المقدس سے مراد یروشلم میں واقع عمارت ھے، تو یہ کبھی بھی مسلمانوں کا قبلہ نہیں رہا ھے۔ جب یہ قبلہ ہی نہیں تھا تو حکم کیسا۔


سوال نمبر ٤ اللہ تعاٰ لٰی نے اپنے نبی پر کیا ظاہر کیا تھا؟

جواب۔ اگر اس سے مراد سورۃ تحریم والا واقعہ ھے تو اس کا جواب ھے۔

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّـهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿٣-٦٦﴾

اور جب نبی نے اپنی ایک بی بی سے ایک راز کی بات فرمائی پھر جب وہ اس کا ذکر کر بیٹھی اور اللہ نے اسے نبی پر ظاہر کردیا تو نبی نے اسے کچھ جتایا اور کچھ سے چشم پوشی فرمائی پھر جب نبی نے اسے اس کی خبر دی بولی حضور کو کس نے بتایا، فرمایا مجھے علم والے خبردار نے بتایا (3)

اللہ نے اسی آیت میں نبی پر یہ ظاہر کردیا، کہ نبی کی زوجہ نے وہ بات ظاہر کردی ھے جو انہوں نے اپنی زوجہ کو بتائی تھی۔


سوال۔ کون سی چیز رسول اکرم نے اپنے اوپر حرام کرلی تھی؟

جواب۔ یہ اس بات کا ذکر ھے کہ جو اللہ نے نبی پر حلال کیا وہ انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیا ( اپنی ازواج کی خوشی کے لیئے)


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١-٦٦﴾

اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے


آیت سے واضح ہو رہا ھے کہ کوئی خاص چیز ھے جو اللہ نے اپنے بنی پر حلال کی ھے، مگر ان کی ازواج اس سے خوش نہیں ہیں۔
دنیا کی کوئی عورت یہ پسند نہیں کرتی کہ اس کا شوہر دوسری عورتوں سے شادی کرے۔ نبی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ھے۔ اس کی وضاحت سورۃ الا حزاب آیت ٥٠ میں ھے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥٠-٣٣﴾


اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں، اور تمہاری وہ چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبیؐ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبیؐ اسے نکاح میں لینا چاہے یہ رعایت خالصۃً تمہارے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں (تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے) تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے (50)



ان شاء اللہ وضاحت ہوگئی ہوگی۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
مسلم صاحب١ اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت عطا فرمائے آمین
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ابھی موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ۔ باقی باتیں کسی اور تھریڈ میں ہوں گی۔
ان سوالوں کے جواب دیں
پہلی بات تو یہ کہ امام بخاری روایت کررہے ہیں۔ بیان کرنے والے تو ابن عباس ہیں۔
دوسری بات قرآن میں ہے یہ باتیں نہیں ۔ پھر صحیح سند سے یہ روایت ابن عباس سے ثابت ہے لہذا اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں بچتی کہ یہ بات ابن عباس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔
تیسری بات جو انس نضر بھائی نے کہی کہ کیا صحابی سے یہ صراحت جہاں مل جائے کہ انہوں نے یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی ہے تو کیا آپ حدیث مان لیں گے ۔
سرفراز بھائی! مسلم صاحب پہلے بھی بارہا اقرار کر چکے ہیں اور یہاں بھی انہوں نے صاف لکھا ہے کہ ان کے نزدیک حدیث وحی نہیں وہ نہ حدیث موقوف کو مانتے ہیں یا مرفوع کو۔ لہٰذا ظاہر سی بات ہے کہ حدیث کے منکر ہیں۔ ان کا مسئلہ مرفوع موقوف حدیث کا نہیں ہے۔
بھائیوں، دنیا کی کوئی کتاب یہ دعوٰی نہیں کرتی کہ اسے اللہ نے نازل کیا ھے، سوائے اللہ کی کتاب قرآن مجید کے۔
دنیا میں صرف القرآن ہی اللہ کا کلام ھے۔ اگر اسکے علاوہ آپ کسی اور کلام کو اللہ کا کلام سمجھتے ہیں تو ثابت کریں۔
جیسا کہ مودودی صاحب نے لکھا ھے کہ، نبی کریم نے بحیثیت انسان بھی گفتگو فرمائی ہے۔ وہ اللہ کا کلام نہیں ھے۔
اگر نبی کریم نے پانی مانگا، یا اپنے گھر والوں سے ضرورت کی کوئی چیز طلب کی، تو یہ وحی نہیں ھے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
سرفراز بھائی! مسلم صاحب پہلے بھی بارہا اقرار کر چکے ہیں اور یہاں بھی انہوں نے صاف لکھا ہے کہ ان کے نزدیک حدیث وحی نہیں وہ نہ حدیث موقوف کو مانتے ہیں یا مرفوع کو۔ لہٰذا ظاہر سی بات ہے کہ حدیث کے منکر ہیں۔ ان کا مسئلہ مرفوع موقوف حدیث کا نہیں ہے۔


١-اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ کتب احادیث بھی وحی اور اللہ کی نازل کی ہوئی ہیں، تو کیا آپ اس آیت کو کسی بھی حدیث کی کتاب (علاوہ اللہ کی کتاب) سے منسوب کر سکتے ہیں۔

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢-٢﴾
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے (ترجمہ مودودی)


وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢٣-٢﴾


٢-کیا احادیث کی کتب میں بھی سورتیں لکھی ہوئی ہیں؟



٣- کیا شیعہ حضرات کی جمع کی ہوئی احادیث بھی، اللہ کی وحی ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
کیا آپ کے پاس اس بات کی کوئی شہادت ھے کہ کتب احادیث میں لکھی ہوئی احادیث " قول رسول کریم " ہیں؟
کیا آپ شیعہ محدّثین کی مرتّب کردہ احادیث کو بھی مانتے ہیں؟

محدّثین آپ کو بتا رہے ہیں کہ کیا صحیح ھے کیا غلط ۔
اگر یہ محدثین نہ ہوتے تو دین کا کیا ھوتا؟ کیا اللہ نے اپنا دین اسلام، محدّثین پر چھوڑ دیا؟
کیا انبیاء سابقین کے لیئے بھی محدّث تھے؟ اگر نہیں تو دین کیسے پھیلا؟
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے کام پورا نہیں کیا؟ اور امّت کو اہل سنّت اور شیعہ محدّثین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟
کیا کسی بھی حدیث کی کتاب کی تصدیق اللہ کے رسول نے کی ھے؟
آپ حدیث کی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو قول رسول کریم کیوں سمجھتے ہیں؟
جبکہ اللہ اپنی کتاب میں بتا رہا ھے کہ " قول رسول کریم کیا ھے"۔ کیا یہ ہمارے لیئے کافی نہیں ھے؟

فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٨﴾ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٩﴾ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٨﴾ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ ﴿٤٩﴾ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٥٠﴾ وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ﴿٥١﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٦٩-٥٢﴾

تو مجھے قسم ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو، (38) اور جنہیں تم نہیں دیکھتے (39) بیشک یہ قرآن قول رسول کریم ھے (40) اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں کتنا کم یقین رکھتے ہو (41) اور نہ کسی کاہن کی بات کتنا کم دھیان کرتے ہو (42) اس نے اتارا ہے جو سارے جہان کا رب ہے، (43) اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی بنا کر کہتے (44) ضرور ہم ان سے بقوت بدلہ لیتے، (45) پھر ان کی رگِ دل کاٹ دیتے (46) پھر تم میں کوئی ان کا بچانے والا نہ ہوتا، (47) اور بیشک یہ قرآن ڈر والوں کو نصیحت ہے، (48) اور ضرور ہم جانتے ہیں کہ تم کچھ جھٹلانے والے ہیں، (49) اور بیشک وہ کافروں پر حسرت ہے (50) اور بیشک وہ یقین حق ہے (51) تو اے محبوب تم اپنے عظمت والے رب کی پاکی بولو (52)


رسول نے کوئی اقوال نہیں کہے بجز اس کے جو اللہ نے ان پر نازل کیئے۔
یہ تو راوی حضرات اور محدّثین کا کمال ھے کہ وہ اللہ کے رسول کی جانب اقوال منسوب کررہے ہیں۔

کیا، اللہ نے انسانیت کی ہدایت کے لیئے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ حق کے ساتھ الکتاب نازل کی یا محدّثین کو بھیجا؟ کہ وہ لوگوں
کو بتایئں کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے؟


كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢-٢١٣﴾

لوگ ایک امّت تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی الکتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے اور کتاب میں اختلاف اُنہیں نے ڈالا جن کو دی گئی تھی بعداس کے کہ ان کے پاس روشن حکم آچکے آپس میں سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے،


غور کریں آیت مبارکہ میں نہ تو کسی محدّث کا ذکر ھے اور نہ ہی ان کی کتابوں کا۔ ہر فیصلہ صرف اللہ کی کتاب سے ہو رہا ھے۔

کیا نبی کریم کے لیئے اللہ کی سنّت تبدیل ہوئی؟ یا تمام انبیاء پر دو طرح کی وحی نازل ہوئی؟ (یاد رہے کہ، اللہ کی سنّت کبھی تبدیل نہیں ہوتی ھے)
اگر تمام انبیاء پر دو طرح کی وحی نازل ہوئی تو ان کی احادیث کہاں ہیں؟




امّید ھے وضاحت فرمائیں گے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
کیا آپ کے پاس اس بات کی کوئی شہادت ھے کہ کتب احادیث میں لکھی ہوئی احادیث " قول رسول کریم " ہیں؟
کیا آپ شیعہ محدّثین کی مرتّب کردہ احادیث کو بھی مانتے ہیں؟

محدّثین آپ کو بتا رہے ہیں کہ کیا صحیح ھے کیا غلط ۔
اگر یہ محدثین نہ ہوتے تو دین کا کیا ھوتا؟ کیا اللہ نے اپنا دین اسلام، محدّثین پر چھوڑ دیا؟
کیا انبیاء سابقین کے لیئے بھی محدّث تھے؟ اگر نہیں تو دین کیسے پھیلا؟
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے کام پورا نہیں کیا؟ اور امّت کو اہل سنّت اور شیعہ محدّثین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟
کیا کسی بھی حدیث کی کتاب کی تصدیق اللہ کے رسول نے کی ھے؟
آپ حدیث کی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو قول رسول کریم کیوں سمجھتے ہیں؟
جبکہ اللہ اپنی کتاب میں بتا رہا ھے کہ " قول رسول کریم کیا ھے"۔ کیا یہ ہمارے لیئے کافی نہیں ھے؟

فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٨﴾ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٩﴾ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٨﴾ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ ﴿٤٩﴾ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٥٠﴾ وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ﴿٥١﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٦٩-٥٢﴾

تو مجھے قسم ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو، (38) اور جنہیں تم نہیں دیکھتے (39) بیشک یہ قرآن قول رسول کریم ھے (40) اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں کتنا کم یقین رکھتے ہو (41) اور نہ کسی کاہن کی بات کتنا کم دھیان کرتے ہو (42) اس نے اتارا ہے جو سارے جہان کا رب ہے، (43) اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی بنا کر کہتے (44) ضرور ہم ان سے بقوت بدلہ لیتے، (45) پھر ان کی رگِ دل کاٹ دیتے (46) پھر تم میں کوئی ان کا بچانے والا نہ ہوتا، (47) اور بیشک یہ قرآن ڈر والوں کو نصیحت ہے، (48) اور ضرور ہم جانتے ہیں کہ تم کچھ جھٹلانے والے ہیں، (49) اور بیشک وہ کافروں پر حسرت ہے (50) اور بیشک وہ یقین حق ہے (51) تو اے محبوب تم اپنے عظمت والے رب کی پاکی بولو (52)


رسول نے کوئی اقوال نہیں کہے بجز اس کے جو اللہ نے ان پر نازل کیئے۔
یہ تو راوی حضرات اور محدّثین کا کمال ھے کہ وہ اللہ کے رسول کی جانب اقوال منسوب کررہے ہیں۔

کیا، اللہ نے انسانیت کی ہدایت کے لیئے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ حق کے ساتھ الکتاب نازل کی یا محدّثین کو بھیجا؟ کہ وہ لوگوں
کو بتایئں کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے؟


كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢-٢١٣﴾

لوگ ایک امّت تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی الکتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے اور کتاب میں اختلاف اُنہیں نے ڈالا جن کو دی گئی تھی بعداس کے کہ ان کے پاس روشن حکم آچکے آپس میں سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے،


غور کریں آیت مبارکہ میں نہ تو کسی محدّث کا ذکر ھے اور نہ ہی ان کی کتابوں کا۔ ہر فیصلہ صرف اللہ کی کتاب سے ہو رہا ھے۔

کیا نبی کریم کے لیئے اللہ کی سنّت تبدیل ہوئی؟ یا تمام انبیاء پر دو طرح کی وحی نازل ہوئی؟ (یاد رہے کہ، اللہ کی سنّت کبھی تبدیل نہیں ہوتی ھے)
اگر تمام انبیاء پر دو طرح کی وحی نازل ہوئی تو ان کی احادیث کہاں ہیں؟




امّید ھے وضاحت فرمائیں گے۔
انس نضر صاحب۔
یاد دہانی۔
 
Top