• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نور جہاں ، فتورِ جہاں

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نور جہاں ، فتورِ جہاں

محمدعطاء اللہ صدیقی​
” نہیں، تم کچھ نہیں جانتے منٹو! … یہ نور ہے نورجہاں ہے، سرور ِ جہاں ہے۔ خدا کی قسم ایسی آواز پائی ہے کہ بہشت میں خوش اَلحان سے خوش الحان حور سنے تو اسے سیندور کھلانے کے لئے زمین پر اُتر آئے“
جھوٹ کی حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی یہ وہ جملے ہیں جو قلمی اَوباشی میں شہرت رکھنے والے افسانہ نویس سعادت حسن منٹو نے ایک گلوکارہ کے متعلق ۱۹۴۶ء میں لکھے گئے خاکے ” نور جہاں، سرورِ جہاں“ میں استعمال کئے تھے۔ اَدب میں حسن مبالغہ کے استعمال کو ہمیشہ روا سمجھا جاتاہے مگر … کہاں بہشت کی پاکیزہ حور او رکہاں فسق و فجور میں لتھڑی ہوئی ایک آوارہ مزاج گانے والی لڑکی!…۱۴/ جنوری ۲۰۰۱ء کے جنگ سنڈے میگزین کا فیچر نگار نور جہاں کے بارے میں اپنے فیچر کا آغاز اِن الفاظ میں کرتا ہے:
” ۷ ۲ رمضان المباک کی شب ڈیفنس کراچی کے قبرستان میں تقریباً سو اَفراد ایک چراغ کو مٹی میں رکھ رہے تھے… اَب صدیوں تک ایسے چراغ کے طلوع ہونے کی توقع نہیں تھی“
اس فیچر کا خاتمہ ان الفاظ میں کیا گیا:
” اللہ رکھی سے نورجہاں بن کر دنیا بھر میں روشنی پھیلانے والے نورجہاں جیسے انسان دنیا میں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اب اس دنیا کو صدیوں تک کسی اور نورجہاں کا انتظار کرنا ہوگا“
سعادت حسن منٹو جیسے ملحد جنس نگار ہی ہیں جنہیں اس طرح کی دروغ گوئی سے ذرّہ برابر خوفِ خدا نہیں رہتا۔ ایک لعوولعب، فسق و فجور، گانے بجانے اور جنسی آوارگی کا شکار عورت کو ’نور‘ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جن کے قلوب اِلحاد و زندیقیت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ وہ بدبخت طائفہ اُدباء ہے جس کو قرآن و سنت کا نور توکبھی نظر نہیں آیا، البتہ غناء اور موسیقی کے فتور کو ہی ’نور‘ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشادِ ربانی ہے :
﴿ اَللّٰهُ نُوْرُ الَسَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ ﴾ یعنی ” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے“
ایک اور مقام پر قرآنِ مجید کو ’نور‘ قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ اللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلیٰ النُّوْر ِ﴾ ” اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دوست ہیں جو ایمان لائے، وہ انہیں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لاتے ہیں“
مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں نور سے مراد ہدایت ِ خداوندی اور صراط ِمستقیم ہے۔
غناء ، موسیقی اور فلمی عورتوں کے طرزِ حیات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے تناظر میں پرکھا جائے تو نورجہاں کو ’نور‘ ، ’روشنی‘ یا ’چراغ‘کہنا ایک مشرکانہ قول ہے۔ شہوت پرستوں نے اللہ وسائی کا نام ’نورجہاں‘ رکھ دیا ورنہ حقیقت میں وہ ظلمت ِجہاں تھی۔ وہ فتنہٴ مجسم اور فتورِ جہاں تھی۔ مسلسل ستر برس تک اس نے سفلی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے گیت گائے۔ وہ خود بھی تمام عمر جنسی آوارگی، عشق و مستی اور فسق و فجور میں مبتلا رہی اور اس کے گانے سن کر کروڑوں اَفراد فکری ضلالتوں میں مبتلا ہوئے۔ خداداد حسن صوتی سے وہ چاہتی تو نشر خیر کا کام لے سکتی تھی، مگر اس نے اس سے فتنہ پروری کا کام لیا۔ ایک زمانہ ہے جو اسکے ہوش رُبا فتنے کا شکار اور اسکی آواز کے سحر سے مسحور ہوا۔ لفنگے عاشقوں کے غول ہیں جو اسکے گانوں سے دل بہلاتے ہیں۔
کجی کو حسن، شب ِدیجور کو صبح نور، ظلمت کو روشنی، حرمت کو حلت، کثافت کو ثقافت، تعفن کو فن اور شر کو خیر سمجھنے والے بے نور دماغ ہی ایک گائیکہ کو ’نور‘ کہہ سکتے ہیں۔ حسن مبالغہ سے اَعمال کی بدصورتی کو بدلا تو نہیں جاسکتا۔ آخر وہ کون سی روشنی ہے جو اللہ رکھی نے نورجہاں بن کر دنیا بھر میں پھیلائی؟اس کی تفصیلات بیان کرنا نورجہاں کے بے فیض مداحوں پرایک ایسا قرض ہے جس سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا کر بھی وہ عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔ سلیم باسط نامی مضمون نگار جس نے نورجہاں کی طرف سے روشنی پھیلانے کا بے حد لغو اور واہیات دعویٰ کیا ہے، خود ہی ۱۴/جنوری کے جنگ میگزین میں تحریر کرتا ہے:
” بے بی نورجہاں نے تھیٹر سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کلکتہ جو ان دنوں برصغیر میں فن وثقافت کی دنیا کا سب سے بڑامرکز تھا، نورجہاں کی اوّلین تربیت گاہ بنا۔ ان دنوں کئی تھیٹر کمپنیاں یہاں کام کررہی تھیں اور فلمی صنعت کی اوّلیت تربیت گاہ ان تھیٹر کمپنیوں کو ہی سمجھا جاتاتھا۔ اس دور کے کئی بزرگ آج بھی حیات ہیں جنہوں نے بے بی نورجہاں کو اسٹیج پر پرفارم کرتے دیکھا تھا“
تھیٹر جیسے ظلمت کدوں اور گناہ کے اڈّوں میں اللہ رکھی سے بے بی نورجہاں بننے والی ایک طوائف زادی کی مداحی میں آج کے ملحد قلمکار زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ جس عورت کی ’اوّلین‘ تربیت گاہ ایک تھیٹر ہو اور جس کی پوری زندگی یا تو فلمی اسٹوڈیوز کے گناہ آلود ماحول میں بسر ہوئی ہو یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں اپنے شباب کی قیمت وصول کرتے گذری ہو، اس کے بارے میں روشنی پھیلانے کا تصور وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دماغ روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق سمجھنے سے قاصر ہیں۔
موسیقی کو ’روح کی غذا‘ سمجھنے والے شہواتِ نفس کے غلاموں کی جانب سے ’ملکہ ترنم‘ اور ’تاریخ ساز ہستی‘ کے اَلقابات حاصل کرنے والی نورجہاں کی زندگی لہو و لعب کا مرقع ہے۔ نورجہاں نے ۱۹۲۸ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کا پیشہ قحبہ گری تھا۔ ا س کے حقیقی نام کے بارے میں اس کے سوانح نگاروں میں بھی اتفاق نہیں ہے۔ بعض نے اسے اللہ وسائی لکھا ہے توکچھ افراد نے اس کا نام اللہ رکھی بیان کیا ہے۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ اس قدر شہرت پانے والی گائیکہ کے حقیقی نام پر بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ بہرحال اس کا جو بھی خاندانی نام تھا، وہ بلاشبہ ایک طوائف زادی تھی۔ طوائف زادی ہونا فی نفسہ کوئی گناہ نہیں ہے، نہ ہی کسی گانے والی کی اولاد ہونا بذات ِ خود کوئی عار کا باعث ہے۔ البتہ اس گانے بجانے کو زندگی بھر اوڑھنا بچھونا اور طوائفوں کے انداز ِ حیات کو ہی اپنا طرز ِ زندگی بنا لینا یقینا پسندیدہ امر نہیں ہے۔ اللہ وسائی ابھی چھ برس کی ہی تھی کہ اس نے گانا شروع کردیا تھا۔ ۹ برس کی عمر میں وہ بمبئی کی فلمی صنعت میں جلوہ گر ہوگئی۔ ۱۹۳۴ء میں سیٹھ سکھ لال کرنانی کی ایک تھیٹر کمپنی میں اسے معقول مشاہرے پر ملازمت مل گئی۔ وہ فلموں میں بھی حصہ لیتی رہی۔ فلمی صنعت کے طوائف پرستوں نے اس کے جسمانی وصوتی جمال کا بھرپور استحصال کرکے اپنے کاروبار کو چمکایا۔
تھیٹر کمپنی والوں نے اللہ وسائی کا نام ’بے بی نورجہاں‘ رکھا دیا۔ یہ نام اتنا مقبول ہوا کہ خود اس کے جنونی مداحوں میں بھی یہ بات متنازعہ فیہ ہے کہ اس کا اصل نام کیا تھا۔ بمبئی میں قیام کے دوران نورجہاں کم سنی کے باوجود جنسی آوارگی اور اباحیت ِمطلقہ میں مبتلا رہی۔ اگرچہ اس کے چاہنے والے اس کی زندگی کے اس مکروہ پہلو کے متعلق آج اشارہ تک نہیں کرتے مگر ۱۹۴۶ء میں سعادت حسن منٹو نے ’نورجہاں سرورِ جہاں‘ کے عنوان سے جو خاکہ تحریر کیا تھا، اس میں شوکت رضوی کے ساتھ فاسقانہ شب باشیوں کا تذکرہ نہایت مزے لے کر کیا ہے۔ اس کے کئی افراد کے ساتھ ناجائز تعلقات رہے۔ عشق کا ڈھونگ رچا کر فی الواقع فسق کا ارتکاب کرنا فلمی طبقہ کا معروف کلچر ہے۔ نبی کریمﷺنے جن لوگوں کو ’ذواقین‘ اور ’ذواقات‘کا نام دیا ہے، جدید دور میں اس کا صحیح مصداق یہی طبقہ ہے۔ نورجہاں کو اچھی طرح جاننے والے اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں ’ذواقیت‘ کے بھرپور جراثیم تھے۔
سلیم باسط نے اپنے مضمون میں نورجہاں کو ایک بے حد خدا رسیدہ اور ’پہنچی ہوئی‘ عورت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لکھتا ہے:
” ان کی زندگی میں جو بھی ان کے قریب رہا، وہ خود بھی سونے کا بن گیا۔ ان کے پاس اکثر عورتیں دعا کرانے کے لئے آتی تھیں“۔
یہ لغو دعویٰ ناقابل یقین ہے۔ یہی قلمکار اپنے مضمون میں البتہ یہ بھی لکھ گیا ہے :
” نورجہاں کی پوری زندگی جہاں بے پناہ شہرت، دولت اور خوش قسمتی کی ناقابل یقین روایات سے عبارت تھی، وہیں ان کی پوری زندگی تنازعات اور اَفواہوں کی زد میں بھی رہی۔ شوکت حسین رضوی سے علیحدگی کے بعد ان کا نام ایک کرکٹر، ایک فلم ساز، کئی اداکاروں ، پی آئی اے کے ایک کپتان اور دیگر مختلف لوگوں کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔ اعجاز درّانی سے شادی کے بعد افواہوں کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے رک گیا مگر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہوگیا خوبصورتی اور ذہانت نورجہاں کی بڑی کمزوری تھی۔“
مذکورہ مداح نے بے حد محتاط انداز میں نورجہاں کی ذواقانہ طبیعت پر ’افواہوں‘کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے چند ایک افراد کے نام بھی لئے ہیں ورنہ نورجہاں کے ’چاہنے والوں‘ کی جو فہرست منظر عام تک آسکی ہے ، خاصی طویل ہے۔ ایک کالم نگار نے حال ہی میں نورجہاں پرلکھے جانے والے مضمون میں خود نورجہاں کا یہ قول نقل کیا ہے:
” میں گناہوں کا کبھی حساب رکھتی ہوں، نہ گانوں کا“ معروف صحافی خالد حسن نے بہت عرصہ پہلے انگریزی میں نورجہاں کا جو مفصل خاکہ تحریر کیا تھا، اس میں نورجہاں کا اپنے بارے میں یہ ’تعریفی‘ جملہ بھی ملتا ہے: ” ہر وقت کسی نہ کسی مرد سے قلبی وابستگی (عشق) رکھنا میری مجبوری ہے، اس کے بغیر میں اچھی طرح گا نہین سکتی“۔
شوکت رضوی جسے نورجہاں کے پہلے شوہر ہونے کا ’اعزاز‘ حاصل ہے، اس سے زیادہ بہتر نورجہاں کے بارے میں کون جانتا ہے۔ اس نے اپنی سابقہ بیوی پر جو کتاب شائع کی، اس کے بعض حصے روزنامہ خبریں، اور دیگر رسائل نے ’افادئہ عام‘ کے لئے شائع کئے ہیں۔ ا س میں نورجہاں کا جو مرقع کھینچا گیا ہے، اس میں ایک گھٹیا، شہوت پرست، آوارہ مزاج، بدطینت، زبان دراز اور بدتمیز عورت کی تصویر سامنے آئی ہے۔ صرف گانے ہی نہیں، مغلظات بکنے کے فن میں بھی نورجہاں یکتا تھی۔ ا س سے مسلسل ملنے والا شاید ہی کوئی ’خوش نصیب‘ ہو جو اس کی گالیوں کا تختہٴ مشق نہ بنا ہو۔ اس سے گالیاں کھا کر بدمزہ نہ ہونے والے بھی کم نہیں ہیں۔
نورجہاں تمام عمر زروجواہر میں کھیلتی رہی۔ وہ ’کوٹھے‘ کے ماحول سے نکل کر ’کوٹھی‘ کے ماحول میں آگئی۔ وہ روایتی طوائفوں کی طرح بدقسمت نہیں تھی جو تمام عمر کوٹھوں پر مجرے دکھا کر رزقِ خاک ہوجاتی ہیں۔ ا س کی پائل کی جھنکار ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤس جیسے شاہانہ محلات میں بارہا سنی گئی۔ کسی صدرِ مملکت کو اپنی انگلیوں پرنچانا کسی بھی طوائف زادی کا خواب بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے عظیم چیلنج بھی۔ نورجہاں اس اعتبار سے ’خوش قسمت‘ واقع ہوئی کہ یحییٰ خان جیسے بدبخت صدر نے اسے ’آنکھوں کا نور‘ بنا کے رکھا۔ نورجہاں کی زندگی کا یہ بھیانک پہلو قصہ ماضی بن چکا تھا، مگر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے اس کو ایک دفعہ پھر زندہ کر دیا ۔ نورجہاں کی موت کے فوراً بعد اس رپورٹ کا سامنے آنا غور طلب معاملہ ہے۔
۳۰/ دسمبر ۲۰۰۰ء کو منظر عام پر آنے والی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں یحییٰ خان اوردیگر جرنیلوں کی بدقماش عورتوں سے رنگ رلیوں کے واقعات میں نورجہاں کا تذکرہ پڑھئے او رپھر اندازہ کیجئے کہ نور جہاں کا اصل کردار کیاتھا:
” نومبر ۱۹۷۱ء میں جب پاک فوج مشرقی پاکستان میں دشمنوں سے نبرد آزما تھی تو اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں نورجہاں جنرل یحییٰ خان کے قدموں میں بیٹھ کر اسے شراب پیش کر رہی تھی۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب یحییٰ خان نے اپنی سالگرہ منعقد کی تو جنرل رانی پہلی مرتبہ نورجہاں کو لے کر آئی۔ پہلی ہی ملاقات میں نورجہاں نشے میں دھت ہو کر یحییٰ خان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ نورجہاں نے یحییٰ خان کے نام ایک خط بھی لکھا جس میں اس نے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے ایک صنعت کار کا کام کرنے کی فرمائش کی“
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران نورجہاں نے کم از کم چار دفعہ گورنر ہاؤس میں جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں محض گانا سننے تک تو محدود نہیں رہ سکتی تھیں۔ نہایت تعجب ہے کہ ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤس میں شراب نوشی کی محفلوں میں’کباب‘ بننے والی نورجہاں کو آج بعض کالم نگار ایک مقدس ہستی کے طو رپر پیش کررہے ہیں۔
مندرجہ بالا سطور میں جوکچھ بیان کیا گیا ہے وہ نور جہاں کی زندگی کی محض جھلکیاں ہی ہیں، مگر اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل تونہیں ہے کہ یہ گائیکہ اس قابل قطعاً نہیں ہے کہ اسے احترام کا مستحق سمجھا جائے بلکہ تہذیب کے نام پر ایسے بدنما داغ جس قدر ممکن ہو بے نقاب کر دئے جائیں تاکہ ان کا اصل چہرہ عوام کے سامنے رہے۔ ہمارے پریس اور ذرائع ابلاغ کویہ فریضہ انجام دینا چاہئے مگر اَرذل العمر کو پہنچی ہوئی یہ مغنیہ جب ۲۳/دسمبر ۲۰۰۰ء کو مری تو ہمارے اخبارات (بالخصوص اُردو) نے اس قدر بھرپور کوریج (تشہیر) دی کہ اسے بہت بڑا قومی سانحہ بنا کر پیش کیا۔
اخبارات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عوامی رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک دانش ور کا قول ہے کہ پریس معاشرے کے لئے تھرمامیٹر کا کام کرتا ہے۔ ۲۴ دسمبر ۲۰۰۰ء کے پاکستانی اخبارات کو دیکھ کر ان اَقوالِ زرّیں کی صداقت پر اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ ہر اخبار نے کوشش کی کہ نورجہاں کے متعلق جس قدر رطب و یابس میسر آئے، شائع کردیا جائے۔ نوائے وقت جیسے نظریہٴ پاکستان کے علمبردار اخبار پر بھی نورجہاں کا ’بخار‘ اس قدر طاری ہوا کہ اس کے صفحہٴ اوّل اور آخر پر نورجہاں کے حالاتِ زندگی، گیتوں اور تصاویر کے علاوہ کوئی خبر شائع نہ ہوئی۔ روزنامہ جنگ، خبریں، پاکستان اور دن کے صفحات پر ہر طرف نورجہاں ہی ’رقصاں‘ تھی۔
روزنامہ ’انصاف‘ شاید واحد اخبار ہے جسے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف نے ” نورجہاں کی موت کی ذرائع ابلاغ میں کوریج“ کے عنوان سے تحریر کردہ اپنے طویل مضمون میں مختلف اخبارات میں نورجہاں کو دی جانے والی مجنونانہ تشہیر پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون روزنامہ انصاف، ہفت روزہ ایشیاء اور مجلہ الدعوة (فروری) کے علاوہ بہت سے رسائل میں شائع ہوچکا ہے۔ تفصیل کے شائق قارئین وہاں دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارے ذرائع ابلاغ نے نورجہاں کو جو اہمیت، عزت و احترام اور بھرپور پذیرائی عطا کی ہے، کیا واقعی وہ اس کی مستحق تھی؟ آخر نورجہاں کا وہ عظیم کارنامہ کیا ہے جس کی بنیاد پر اس کی شخصیت کے متعلق مبالغہ آمیز پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے؟ گانا بجانا اور موسیقی سے وابستگی ایک مخصوص طبقے کے لئے بے حد قابل قدر فن ہوسکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کیا پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت بھی راگ رنگ کو اسی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے؟ پاکستان میں گانا سننے والے بہت ہیں، مگر کتنے لوگ ہیں جو اپنی بہو بیٹیوں کو گانے والیوں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں؟… اگر گیت گانا ہی عظیم ترین فن ہوتا تو ہمارے معاشرے میں ہر طرف میراثیوں کا راج ہوتا۔مگر آج بھی ہمارے معاشرے میں میراثیوں کو کمی کمین اور گھٹیا طبقہ سمجھا جاتا ہے، ان کے انسان ہونے کے ناطے سے نہیں بلکہ ان کے پیشے کے اعتبار سے۔ زیادہ سخت الفاظ میں عام طور پر لوگ گانے والوں کو ’کنجر طبقہ‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔
سوال پیداہوتا ہے کہ ذرائع اِبلاغ میں نورجہاں یا اس قماش کے دیگر لوگوں کو جو بے انتہا تشہیر دی جاتی ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں! راقم الحروف کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر ایک مخصوص طبقہ نے قبضہ کررکھا ہے جس نے موسیقی کو ’دین و ایمان‘ کا درجہ دے رکھا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا رہا ہے جس کی سوچ پر ہندو مذہب کے گہرے اثرات ہیں۔ چونکہ ہندو مذہب میں موسیقی کو عظیم فن اور نہایت قابل ستائش ’عبادت‘ کا درجہ دیا جاتا ہے، اس لئے یہ طبقہ بھی موسیقی اور گانے بجانے کو ویسی ہی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر شروع شروع میں سیکولر اور بے دین اَفراد نے قبضہ کرلیا کیونکہ شرفا ٹیلی ویژن جیسے اداروں کی ملازمت کو اپنے سماجی وقار کے منافی سمجھتے تھے۔ اِدارے اپنے اندر کام کرنے والے افراد کی سوچ کا پرتو ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن یا ہمارے ذرائع ابلاغ جو کچھ پیش کرتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ وہ قوم کے حقیقی عقائد و اَفکار کا صحیح عکس ہوں بلکہ زیادہ تر یہ ان اِداروں میں کام کرنے والے افراد کی سوچ کا ہی پرتو ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ایک قومی اِدارہ ہے مگر ایک مخصوص طبقہ اسے اپنی سوچ کی تشہیر کے لئے غلط استعمال کرتا ہے۔
اسلام نے رنگ و نسل ،دولت اور اختیار، پیشہ اور فن کی بجائے نیکی اور تقویٰ کو ہی بزرگی، احترام اور وقار کی بنیاد قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح ارشاد ہے
﴿ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰکُم ْ﴾ ” تم میں سے اہل تقویٰ ہی اللہ کے نزدیک قابل تکریم ہیں“
مگر ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہل مغرب کی بھونڈی تقلید کے جوش میں احترام و اِکرام کے جو نئے معیارات وضع کرلئے ہیں، اس میں تقویٰ کی بجائے فسق و فجور اورلہو و لعب کو ہی اصل وجہ ِامتیاز سمجھ لیا گیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کالم نگاروں کی سخن سازیاں
نورجہاں کی موت کے بعد کالم نگاروں میں سخن سازی کانہ ختم ہونے والا مقابلہ جاری ہے۔ کوئی اسے عظیم قومی سانحہ قرار دے رہا ہے۔ کسی کے نزدیک سر کی دنیا اداس ہوگئی ہے۔ کوئی صاحب نورجہاں کو لاہور میں دفن نہ کئے جانے پر خفگی کا اظہار کر رہے ہیں، بعض نورجہاں کی قبر عوام کے لئے زیارت گاہ اور طواف گاہ بنانے کی لغو تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ ایک صاحب کو یہ گلہ ہے کہ ملکہ ترنم نورجہاں کو ملکہ نور جہاں کے مقبرے میں دفن کیوں نہیں کیا گیا۔ کالم نگاروں کا ایک گروہ تو بے حد اصرار کے ساتھ یہ فتویٰ صادر کرچکا ہے کہ نورجہاں مرنے کے بعد سیدھی جنت میں چلی گئی ہے۔ اس فتویٰ کی بنیاد وہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ ۲۷ رمضان المبارک کی رات قبر میں اُتری، لہٰذا اب اس کے لئے ’جنت‘ میں جانا یقینی ہوگیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اہل عقل و دانش اور صاحب ِتحقیق سمجھتے ہیں، مگر ان میں سے کسی نے اپنے فتویٰ کے ثبوت میں کسی حدیث کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ نہ ہی ان میں سے کسی نے قرآنِ مجید کی اس آیت پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کی ہے جس میں ’لھوالحدیث‘ کے خریداروں کے لئے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
راقم الحروف نے اپنے مذکورہ بالامضمون میں ایک کالم نگار کے بارے میں جو تبصرہ تحریر کیا تھا، اس کے اِقتباسات ’محدث‘ کے قارئین کے لئے یہاں دوبارہ پیش کئے جارہے ہیں :
” روزنامہ ’دن‘ کے ایک مستقل کالم نگار جو باریش بھی ہیں اور پگڑ پوش بھی۔ موصوف اپنے نام کے اعتبار سے ’بے نیازیاں‘ کے عنوان سے کالم نگاری فرماتے ہیں۔ فلمی اداکاراؤں کے متعلق موصوف اپنے دل میں ایک خاص گوشہٴ جمال رکھتے ہیں۔ اگر کبھی خوبی ٴ قسمت سے کسی فلمی اداکارہ سے پانچ منٹ کی ملاقات ہوجائے، تو وہ ’موصوفہ‘ کے ساتھ اس جمالیاتی ملاقات کے حوالہ سے ۵۰۰۰ الفاظ پر مبنی کالم لکھنا اپنی ’جمال پسندی‘ کا عین تقاضا سمجھتے ہیں۔ موصوف نے نورجہاں پر واقعی بے نیاز انہ انداز میں کالم لکھا ہے۔ (۲۵ دسمبر ، روزنامہ ’دن‘) ان صاحب نے اپنے کالم کا عنوان رکھا: ’’ وہ سیدھی جنت میں گئی ہوگی!‘‘ اگر نورجہاں سے نفرت کرنے والا کوئی اپنے کالم کا عنوان رکھتا: ’’ وہ سیدھی جہنم میں گئی ہوگی‘‘ تو سیکولر طبقہ الفاظ کی لاٹھیاں اس پربرساتا، اور واقعی کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس طرح کا دعویٰ کرے۔ مگر یہ صاحب کس قدر جسارت سے اپنی غیب دانی کا اعلان کر رہے ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ خدا سے انہیں براہِ راست ہم کلامی کا شرف حاصل ہے، جو اتنا بڑا دعویٰ وہ اس دھڑلے سے کر رہے ہیں۔ موصوف نے اپنے کالم میں سخن سازی او رمبالغہ آمیزی کے تمام ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی ہے، لکھتے ہیں:
” وہ جمال اور کمال کی انوکھی تصویر تھی، وہ دکھائی بھی اچھی دیتی تھی، سنائی بھی اچھی دیتی تھی۔ کچھ عورتیں مردوں جیسی ہوتی ہیں۔ وہ مردوں سے بڑھ کر تھی۔ عورتیں عشق کرتی ہیں، مگر کہلاتی معشوق ہی ہیں۔ نورجہاں دھڑلے کی عاشق عورت تھی، ہم کئی عورتوں کے قائل ہیں، ان کے سائل بھی ہیں، ان کی طرف مائل بھی ہیں۔ مگر دنیا میں گھائل کرنے والی عورتیں کم کم ہوتی ہیں۔ اور نورجہاں جیسی عورتیں تو کم سے بھی کم ہیں“
فاضل کالم نگار نے ہم قافیہ تعریفی تراکیب کی بھرمار سے ثابت کردیا ہے کہ واقعی وہ ’گھائل‘ ہیں۔ اور کسی عورت کے ’کمال کی انوکھی تصویر‘ بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ’دھڑلے کی عاشق عورت‘ ہو۔ اگر اس میں یہ ’خوبی‘ نہیں تو وہ درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ موصوف نے کمال کی اس انوکھی تصویر (نورجہاں) کا ایک اور وصف بھی بیان کیاہے، لکھتے ہیں:
” پھر جو نورجہاں کو بھا گیا، وہ بھاگ نہ سکا، ا س نے ثابت کیا کہ مرد بھی داشتہ بنائے جاسکتے ہیں۔ اس نے عورت ہونے کا حق ادا کردیا“
نورجہاں کے شہوت انگیز گانے سن کر ان صاحب پر کبھی وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کا اظہار یوں کرتے ہیں۔ ” سنناہٹ، سرسراہٹ، کسمساہٹ، تھرتھراہٹ اور نجانے کس کس آہٹ بدن میں سنائی دیتی ہے“ اسی طرح کے ادیبوں کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ع

آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار !​

عام طور پر تو لوگ نورجہاں کوملکہ ترنم ہی کہتے ہیں مگر یہ کالم نگار نہیں مانتے۔ وہ بضد ہیں:
” وہ صرف ملکہ ترنم نہ تھی، وہ ملکہ بھی تھی۔ اسکی حکومت دلوں سے دلوں تک، جہانوں سے جہانوں تک تھی“ (استغفر اللہ)
…قرآن مجید میں تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے لئے بیان کی گئی ہے کہ اس کی حکومت تمام جہانوں پرحاوی ہے۔ مگر ایک گانے والی عورت کے جسمانی و صوتی جمال کے گھائل ملحد کالم نگار کی خرافات نگاری ملاحظہ ہو۔ نور جہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کے ارتکاب میں بہت بے باک اور جری تھی۔ کسی کا گناہوں میں اسطرح جری ہونا گمراہی او رضلالت کی علامت ہے مگر ایک باتونی کالم نگار کچھ اور ہی سمجھتا ہے :
” ہم آدھے ادھورے ادھ موئے لوگ نہ نیکی کرسکے جس طرح نیکی کرنے کا حق ہے۔ ہم نہ گناہ کرسکے جس طرح گناہ کرنے کا حق ہے۔ یہ دونوں کام نورجہاں نے اس طرح کئے کہ انہیں کارنامہ بنا دیا“…
یہ ہذیان گویائی کی انتہا ہے کہ موصوف کے نزدیک بے اندازہ گناہوں کا ارتکاب بھی ایک ’کارنامہ‘ ہے۔ نورجہاں کے گناہوں سے تو ایک عالم واقف ہے۔ مگر موصوف کو چاہئے تھا کہ وہ نورجہاں کی نیکیوں کی فہرست بھی پیش کرتے جس سے ظاہر ہوتا کہ اس نے نیکی کرنے کا بھی ’حق‘ ادا کردیا۔ یہ کالم نگار جن کا نام نامی اجمل نیازی ہے، اپنی ملحدانہ فکر کے اظہار میں نورجہاں سے بھی زیادہ بے باک واقع ہوئے ہیں، لکھتے ہیں:
” بے حساب شخصیت کی عورت کا اگلے جہاں بھی حساب کتاب نہ ہوگا۔ ذرا یہ تو دیکھو کہ وہ کس برکتوں، رحمتوں، بخششوں والی رات کو اپنے خالق کے حضور حاضر ہوئی۔ وہ گاتی تھی تو حاضری اور حضوری کا فرق مٹ جاتا تھا۔ کل رات تلاوت ہوتی رہی اور نورجہاں کے گانے ہوتے رہے۔ کوئی کہہ رہا تھا ۔ آج کتنی مبارک رات ہے، آؤ نورجہاں کے لئے دعا کریں اور اس کے گیت سنیں، وہ سیدھی جنت میں گئی ہوگی۔ اسے سن کر لوگ جنت میں پہنچ جاتے تھے“
ایک سچے مسلمان کے لئے ان کلمات کا پڑھنا ہی سخت اذیت ناک ہے، مگر ہمارے سیکولر کالم نگار ذرا برابر رک کر نہیں سوچتے کہ ان کے یہ کلمات کفر و شرک کی غلاظت سے کس قدر لتھڑے ہوئے ہیں۔ لیلةالقدر کی رات کی جانے والی تلاوت اور نورجہاں کے لہوو لعب کو ہوا دینے والے گانے سننے کو برابر قرار دینا ایک ایسی ناپاک اور زندیقانہ جسارت ہے جس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ مسلمانوں کی تکفیر کرنا ایک ناپسندیدہ عمل ہے، مگر اس طرح کی باتیں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں۔ اگر ایسے کلمات پڑھنے کے بعد ایک عالم دین ایسے کالم نگار کے متعلق اسلام کے دائرے سے خارج قرار دینے کا فتویٰ دے، تو یہ عین دینی حمیت کا تقاضا سمجھا جانا چاہئے!!
یہ نیازی صاحب نورجہاں کے خاص ’دیوانے‘ ہیں۔ ۲۱/ جنوری ۲۰۰۱ء ان کا ایک اور کالم شائع ہوا جس کا عنوان تھا ” نورجہاں کی قبر کو خطرہ ہے!
’’ اس کالم میں موصوف نے راقم الحروف کے مذکورہ مضمون کے حوالے سے بے حد وجدانی کیفیت میں لکھا: ” صدیقی صاحب خود یہ اِعزاز (تکفیری فتویٰ) کیوں نہیں حاصل کرتے…“
انہوں نے ہماری اطلاع کے لئے یہ بھی تحریر کیا کہ جب کسی پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے تو انہیں روحانی مسرت ہوتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ نیازی صاحب جیسے نورجہاں کے دیوانے مزید انتظار نہ کرسکے، ۲۱ جنوری ۲۰۰۱ء کو ہی گلبرگ کے گراؤنڈ میں نورجہاں کا چہلم مناکر دم لیا، حالانکہ اس کو مرے ہوئے ابھی ۲۷ دن ہوئے تھے۔
۲۷/ دسمبر ۲۰۰۰ء کے نوائے وقت میں ” برمزارِ ما غریباں“ کے عنوان سے عباس اطہر صاحب کا کالم شائع ہوا جس میں انہوں نے ’کنکریاں‘ پھینکنے کی روایت برقرار رکھی۔ا س مرتبہ یہ کنکریاں خانہٴ کعبہ کے رخ پر پھینکی گئی تھیں۔ عباس اطہر نے بھی اپنے کالم میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ نورجہاں کو لاہور میں دفن کیا جانا چاہئے تھا تاکہ اہل لاہور اس کی قبر کو’طواف گاہ‘ بنا سکتے۔ عین ممکن ہے انہوں نے نورجہاں جیسی گانے والی عورت کی قبر کے لئے ’طواف گاہ‘ کی ترکیب فکاہی انداز میں لکھی ہو، مگر اس میں کعبة اللہ کی صریحاً توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ عباس اطہر اشتراکی اور سیکولر فکر رکھنے والے کالم نگار ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک اسلامی مملکت کے باشندے ہیں جس کا سرکاری مذہب آئین کی رو سے اسلام ہے۔ کعبة اللہ کی حرمت مسلمانوں کے مقدس شعائر میں شامل ہے۔ ایک صدا فروشی کے دھندے میں مبتلا رہنے والی گمراہ عورت کی قبر کسی بھی طور پر ’طواف گاہ ‘ نہیں ہوسکتی۔ یہی عباس اطہر الحمرا ہال کو نورجہاں کے نام کرنے کی مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
موسیقی اور سیکولر سوچ
ہمارے ذرائع اَبلاغ پر چھایا ہوا سیکولر اور بے دین طبقہ بڑی فنکارانہ چابکدستی سے ہماری دینی اور سماجی اَقدار کو بدلنے کی مہم جوئی میں مصروف ہے۔ ان لوگوں نے نہایت تسلسل سے پاکستانی معاشرے سے ’کلچر‘ کامفہوم بدلنے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ آج صورت یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے اَفراد بھی کلچر کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں جو انہیں رقص و سرور کے دلدادہ طبقہ نے سمجھایا ہے۔ آج کل کلچر سے بالعموم رقص و سرور، ناچ گانا، گیت مانا، اَداکاری، موسیقی، ایک خاص وضع قطع مراد لی جاتی ہے، غرضیکہ جو جو باتیں ماضی میں ’لچر پن‘ سمجھی جاتی تھیں، آج عین کلچر کا روپ دھار چکی ہیں۔ یہاں موقع نہیں کہ فلاسفرز، ماہرین عمرانیات اور اہل علم نے ’کلچر‘ کی جو تعریف کی ہے، اس کو بیان کیا جائے، راقم الحرو ف نے مشرق و مغرب کے جید سکالرز کا کلچر کے متعلق لٹریچر دیکھا ہے، کسی نے بھی کلچر کی وہ تعریف پیش نہیں کی ہے، جس کا تصور ایک مخصوص طبقہ ہمارے ہاں پھیلا رہا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں ایک خطبے کا نام ’اسلامی کلچر‘ رکھا ہے، وہاں بھی انہوں نے کلچر کا بے حد عالمانہ اور افضل تصور پیش کیا ہے، ان کے نزدیک فن اسلامی کلچر کا ایک بھرپور اظہار ہے۔ ڈاکٹر جمیل احمد جالبی اور فیض احمد فیض نے ’پاکستانی کلچر‘ کے نام سے کتابیں تحریر کی ہیں، وہاں بھی تہذیب و ثقافت کا مفہوم آپ کو بہت وسیع ملے گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
موسیقی اور اسلامی تعلیمات
فلمی صنعت سے وابستہ افراد فن کے نام پر تعفن، ثقافت کے نام پر کثافت اور کلچر کے نام پر لچرپن کو فروغ دے رہے ہیں ۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ اس طبقہ کے پیشہ کو اس قدر مبالغہ آمیز طریقے سے پیش کر رہے ہیں گویا اس سے بہتر لائق عزت کوئی دوسرا فن نہیں ہے۔ کافی عرصہ سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ہمارے اخبارات میں موسیقی اور گانے بجانے کے متعلق اسلامی اَحکامات کو پیش نہیں کیا جارہا۔ اگر کوئی صحافی کبھی اس موضوع پر اظہار خیال کرنا بھی چاہے تو اسے ’بنیاد پرست‘ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے تو ہم اسلام کو زندگی کے ہر شعبے کیلئے ذریعہ راہنمائی سمجھتے ہیں، مگر عملی طور پر ہمارے کان موسیقی کے اس قدر رسیا ہوچکے ہیں، کہ اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے کے لئے ہم بالکل آمادہ نہیں ہیں۔ ہماری منتخب اخلاقیات کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہم اسلام کی محض ان تعلیمات کو قبول کرتے ہیں جو ہمارے نظریات کی تائید کرتی ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ لہو و لعب کااس قدر پرچار کر رہے ہیں کہ لہوو لعب کے خلاف کسی بات کو شائع کرنا انکے نزدیک عوام کو ایک ’جائز تفریح‘ سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔
جس طرح کی موسیقی اور گانے بجانے کا رواج ہمارے معاشرے میں عام ہے، علماءِ کرام، محدثین اور مفسرین نے کتاب و سنت کی روشنی میں اسے بالاتفاق حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ فواحش و منکرات میں شامل ہیں۔ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی گروہ یا فرد گانے بجانے کو ہی زندگی کا مستقل شغل بنالے۔ اسلامی تاریخ کے شروع کے اَدوار میں عام معاشرہ تو ایک طرف حکمرانوں کے درباروں میں بھی اس طرح کے پیشہ ور گانے والوں یا گانے والیوں کا وجود نہیں ملتا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لہوولعب اور فواحش سے کنارہ کشی کی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
” کہہ دیجئے (اے نبیﷺ) بے شک میرے ربّ نے حرام کیا ان تمام فحش باتو ں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں“…
سوره لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:
” اور کوئی انسان ایسا بھی ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی باتیں (لہوالحدیث) خرید کرتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے دوسروں کو گمراہ کرے اور اس راہ کا مذاق اُڑائے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے“ (ترجمہ: مولانا عبدالماجد دریا آبادی)
اس آیت ِمبارکہ میں ’لہوالحدیث‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی  نے اس کا ترجمہ ’کلامِ دلفریب‘ کیا ہے، جبکہ مولانا محمد جو نا گڑھی نے تفسیر ابن کثیر کے ترجمے میں ’لھو الحدیث‘ کا مطلب ’لغو باتیں‘ تحریر کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
” یہاں بیان ہورہا ہے ان بدبختوں کا جو کلامِ الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے ، باجے گاجے، ڈھول تاشے سنتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: ” قسم اللہ کی، اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ راگنیاں ہیں۔ یہی قول حضرات عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ ، مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر وغیرہ کا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے۔ چنانچہ ابن حاتم وغیرہ میں نبی اکرم کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے“ (تفسیر ابن کثیر: جلد چہارم، صفحہ ۱۸۸)
سید ابوالاعلیٰ مودودی اس آیت کے بارے میں اپنے تفسیری نوٹ میں لکھتے ہیں:
” لہو الحدیث، یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کرکے ہر دوسری چیز سے غافل کردے۔ ان کا اطلاق بری، فضول اور بیہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے۔ مثلاً گپ، خرافات، داستانیں، افسانے، گانا بجانا اور اس طرح کی دوسری چیزیں، لہو الحدیث خریدنے کا مطلب بھی یہی لیا جاسکتا ہے کہ وہ شخص حدیث ِحق کو چھوڑ کر حدیث ِباطل کو اختیار کرتا ہے او رہدایت سے منہ موڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں ۔“
مولانا عبدالماجد دریا آبادی فرماتے ہیں:
” لہو الحدیث سے مراد عموماً غناء (موسیقی) سمجھی گئی ہے“
حضرت ابن عباس کا قول ہے:
” لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس کے مشابہ چیزیں ہیں۔ گویا ہر بیکار، غیر مفید مشغلہ اس کے تحت میں داخل ہے جو حق کی طرف سے غفلت، بے رغبتی پیدا کرنے والا ہو، اس کے تحت میں آجاتا ہے “
آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں ذکر ایسے لہو و لعب کا ہے جو دین حق سے روکنے والے ہوں او ران کا اثر دوسروں تک متعدی ہو رہا ہو، بلکہ دین حق کی تحقیر دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں، ظاہر ہے ایسا مشغلہ صریح کفر کے درجہ میں آئے گا اور اس کی تائید شانِ نزول کی روایتوں سے بھی ہوتی ہے۔ جاہلیت میں ایک شخص نضر بن حارث نامی تھا۔ آس پاس کے ملکوں کا سیاح، وہاں سے جاہلی لٹریچر کی اعلیٰ درجہ کی کتابیں لاتا، انہیں لاکر اہل عرب کو سناتا۔ ایران کے بہادروں کے افسانے، حیرہ کے بادشاہوں کے قصے پڑھ کر سناتا اور کہتا: جی ان میں لگاؤ، قرآن کے وعظ میں کیا رکھا ہے۔ اس سے بڑھ کر ممنوع و ناجائز وہ سارے کھیل تماشے ہوں گے جو تہذیب و تمدن نے خدا اور آخرت کی طرف سے غافل کرنے کے لئے گھڑ لئے ہیں۔ سینما، تھیٹر، پکچر، گیلری وغیرہ نیزادبیات، افسانہ و شعر کا وہ بہت بڑا ذخیرہ جو آج ’آرٹ‘ کے پرفخر کارنامہ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا کہ اس میں ہر اُس گانے کی حرمت آگئی جو عملاً دین سے غفلت کی طرف لے جانے والا ہو۔ (تفسیر ماجدی)
متعدد احادیث میں گانا بجانا اور موسیقی وغیرہ کی ممانعت وارد ہوتی ہے۔ امام ابن تیمیہ  اور دورِ حاضر کے علماء میں سے مفتی محمد شفیع  کی اس موضوع پر کتاب راقم الحروف کی نگاہ سے گذری ہیں جس میں کتاب و سنت سے دلائل کی روشنی میں موسیقی کو خلافِ شرع فعل ثابت کیا گیا ہے۔ درج ذیل احادیث پر غور فرمائیے او رپھر گانے بجانے کے متعلق اسلام کے احکامات کا تعین خود کیجئے!
1۔ ابومالک اشعری فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسولِ اکرم کو فرماتے سنا کہ میری اُمت میں سے کچھ گروہ اٹھیں گے جو زنا کاری اور سازباجوں کو حلال سمجھیں گے۔ (بخاری)
2۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ساز باجے کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔
3۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” میں سازباجے اور ڈھولک کو ختم کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔“
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قارئین کرام!
قرآن و سنت کی مندرجہ بالا ہدایات و اَحکام کی روشنی میں گانے بجانے اور فلموں میں کام کرنے کی اسلامی معاشرے میں حیثیت کا تعین خود کرلیجئے۔ یہ ہر اعتبار سے مذموم افعال ہیں جن کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ان افعال میں مشغول افراد کو ’معزز و محترم‘ صرف وہی افراد قرار دے سکتے ہیں جن کا اَخلاقی طور پر دیوالیہ نکل چکا ہے۔ اگر صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے تو نورجہاں جیسی گانے والیوں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرنے والی عورتوں پر شرعی حدود کو نافذ کیا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فن قراء ت اور فن موسیقی
سعادت حسن منٹو نور جہاں کے ’فن‘ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
” مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی، ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔ سہگل کے بعد میں نورجہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرچ اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا۔ میں نے سوچا یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سر پرکھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح جس طرح بازی گرتنے ہوئے رسے پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں“
یہ غالباً خوبصورت ترین جملے ہیں جو اُردو زبان میں لکھنے والے کسی ادیب نے کسی بھی مغنیہ کی تعریف میں ادا کئے ہیں، مگراے کاش! فلمی اسٹوڈیو میں عمر گنوا دینے والا اور طوائفوں کے تلوے چھونے کو زندگی بھر کی ’عطا‘ سمجھنے والا جمال پرست منٹو اگر کم سن قاری جواد فروغی کو کبھی سن لیتا تو اسے قلم پھینکنا پڑتا کیونکہ اس کے خداداد صوتی جمال کو لفظوں کے پیکر عطا کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ جواد فروغی کون ہے؟… جواد سرزمین ایران میں جنم لینے والا وہ نوجوان تھا جس نے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید کی قراء ت کے ذریعے کروڑوں سننے والوں کو تڑپا تڑپا کر رکھ دیا۔ وہ جب اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کرتلاوتِ قرآن پاک کرتا تو اس کے گھر کے سامنے سننے والوں کے رش کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی۔ وہ جب ایک لمبے سانس میں بے حد وجدانی آواز میں کئی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد وقفہ کرتا تو سننے والے اپنے آپ میں نہ رہتے اور کافی دیر تک فضا ” واہ واہ ، سبحان اللہ“ کے وجدانی نعروں سے گونجتی رہتی۔ قلبی قساوت کے شکار سامعین کی آنکھیں بھی وفورِ جذبات سے چھم چھم ہوجاتیں۔ ایسے سریلے لحن، ملکوتی گونج کو سن کر گمان ہوتا کہ اس نوجوان کے گلے سے نور برس رہا ہے۔ قرآنِ مجید ایک نور ہے۔ جواد فروغی کی سحر انگیز آواز میں ا س کی قراء ت ’نورعلیٰ نور‘ محسوس ہوتی تھی۔ اس بارہ سالہ قاریٴ قرآن کو ایران میں اس قدر پذیرائی ملی کہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنائی کے جلسوں کی رونق اس کے بغیر اُدھوری سمجھی جانے لگی۔
نورجہاں کی گائیکی کا دورانیہ ستر برس پر محیط ہے، مگر جواد کو جب کسی شقی القلب نے قتل کیا تو اس کی عمر بڑی مشکل سے اٹھارہ برس ہوگی۔ وہ آج بھی اسلامی دنیا میں قراء ت کا ذوق رکھنے والوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ اس کی قراء ت کا جمال اچھے اچھے سنگ دلوں کے جسم و جاں کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے۔ نورجہاں کو ’ملکہ ترنم‘ کہا جاتا ہے، مگر جب اس کا جسد ِخاکی قبر میں اتارا جارہا تھا تو ایک سو افراد بھی اس کی آخری رسومات میں شریک نہ ہوئے۔ مگر قاری جواد کا جنازہ فقید المثال تھا، لاکھوں افراد نے مافوق الطبیعاتی آواز رکھنے والے اس نوجوان کی آخری رسومات میں شریک ہونے کو سعادت سمجھا۔ پاکستان میں بھی قاری جواد کے کیسٹ دستیاب ہیں مگر نورجہاں کے شہوت انگیز ترنم سے کسی کو فراغت ملے تو اس طرف بھی گوشِ سماعت وا کرسکے۔
ہمارے کالم نگار نورجہاں کا موازنہ عرب دنیا کی معروف گلوکارہ اُمّ کلثوم سے کرتے ہیں۔ بلاشبہ اُمّ کلثوم ایک خوبصورت آواز کی مالک مغنیہ تھی، اس کے سوز بھرے گیت لوگ آج بھی سنتے ہیں، اگر ان دونوں مغنیات کا موازنہ ان کوملنے والی پذیرائی کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے تودرست نہیں ہے۔ پذیرائی کے اعتبار سے عرب دنیا میں نورجہاں کی حریف اُمّ کلثوم نہیں بلکہ قاری عبدالباسط ہے۔ عرب دنیا میں قاری عبدالباسط کی آواز نے جو جادو جگایا، وہ جادو اس کے مرنے کے ۱۲/ سال بعد بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ قاری عبدالباسط نے اپنے ناقابل موازنہ فن قراء ت سے پذیرائی ، مقبولیت اور عوامی محبت کے جو ریکارڈ قائم کئے، ابھی تک کوئی دوسرا اس کا حریف نہیں ہوسکا۔
کہا جاتاہے:
الناس علی دین ملوكهم ” جو مذہب بادشاہوں کا ہوتا ہے، عوام بھی اسے اپناتے ہیں“
یہ مقولہ موسیقی اور غنا کی پذیرائی پر بھی فٹ بیٹھتا ہے۔ سیکولر حکمران، سیکولر معاشرے ہی پروان چڑھاتے ہیں۔ جن بادشاہوں کے دلوں سے خوفِ خدا اُٹھ جائے، ان کے دربار طوائفوں ، بھانڈوں، طبلہ بازوں اور گویوں کے اَڈے بن جاتے ہیں۔ ہندوستان میں لکھنوٴ، دہلی، پٹیالہ وغیرہ کے حکمرانوں اور راجاؤں کے دربارِ رقص و سرور کو پروان چڑھانے کے عظیم مراکز تھے۔ انہوں نے گویوں کی مصنوعی شان بڑھا کر کسی کو ’خان بہادر‘ تو کسی کو ’فلاں بیگم‘ بنا دیا۔ گویوں کو سرپرستی کرنے والے اسی طبقہ نے اللہ رکھی کو ملکہ ترنم بنا دیا۔
نظریہٴ حیات اور حکمرانوں کے طرزِعمل کا موسیقی کے فروغ و زوال پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ اسے شاہِ ایران کے دور کی گائیکہ’گوگوش‘ کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس گلوکارہ کوایران میں اس قدر مقبولیت حاصل تھی کہ اسے ایران کی ’نورجہاں‘ کہا جاسکتا ہے۔مگر جب ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا، تو اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ چند ماہ پہلے ۲۲ سال کے بعد یہ گلوکارہ دوبارہ منظر عام پر آئی ہے۔ اب اس کے چاہنے والے مرکھپ گئے تھے، خود اس کی شکل پہچانی نہیں جاتی تھی۔ اسے مایوسی کے عالم میں امریکہ کا سفر اختیار کرنا پڑا ہے۔ اگر پاکستان میں اسلام پسندوں کی حکومت قائم ہوتی تو نورجہاں جیسی لچرگانے والیوں کو یہاں سرچھپانے کے لئے بھی جگہ نہ ملتی۔
سکندر مرزا، یحییٰ خان، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیکولر عورت پرست حکمرانوں کی سرپرستی میں ’نورجہانیں‘ ہی پروان چڑھ سکتی ہیں۔ جس اسلامی مملکت کو جدید دور میں شاہ فیصل جیسے دین دار، خداترس اور اسلام پسند اُمت ِمسلمہ کا حقیقی درد رکھنے والے بادشاہ کی حکمرانی نصیب ہوئی، اس معاشرے میں قرآن مجید کے ’قراء ‘ کی نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ سعودی عرب میں گھر گھر، گلی گلی، شیخ عبدالرحمن السدیس، قاری ایوب یوسف، قاری ابراہیم الاخضر ، قاری صدیق منشاوی جیسے قراء کی آواز میں تلاوتِ قرآن سے فضائیں گونجتی ہیں۔ اس معاشرے میں کسی نورجہاں کے ترقی پانے کا اِمکان نہیں ہے۔ مصر، جہاں قدرے سیکولر گروہ برسراقتدار ہے، وہاں بھی صورت یہ ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر عام طور پر قراء کو ہی بلایا جاتا ہے۔ مصر میں قاری عنتر سعید مسلم، قاری عبدالباسط، قاری محمود خلیل حصری اور قاری صدیق منشاوی جیسے عظیم قراء نے جنم لیا۔
ہمارے ہاں سیکولر طبقہ فن موسیقی کی باریکیوں پر جان چھڑکتا ہے، خیال گائیگی، ٹھمری، دھرپد، دپیک… نجانے کتنے راگ ہیں، کوئی کچے راگ کا ذکر کرتا ہے تو کوئی پکے راگ پر جان چھڑکتاہے۔ مگر اسلامی دنیا میں قرآن مجید کی سات مستند لہجوں میں قراء ت (سبعہ وعشرہ قراء ات) ایک عظیم الشان فن جیتی جاگتی مثال ہے۔ سعودی عرب میں فن قراء ت میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد سینکڑوں میں مل جائیں گے۔ قاری ایوب، قاری سعود الشریم، قاری عبدالرحمن السدیس، جن کی آواز میں پورے قرآن مجید کے کیسٹوں کا سیٹ بازار میں عام ملتا ہے او رپاکستان کے حجاج کرام بھی تحائف کے طور پر لاتے ہیں، ان سب قراء حضرات کی اپنے فن میں پختگی برسہابرس کی مرہونِ منت ہیں۔ سبعہ قراء ات میں جولہجے مروّج ہیں، ان میں حفص، نافع، ابن کثیر اور ورش کی روایات کو تجوید وقراء ت کا ذوق رکھنے والوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہے۔
قرآنِ مجید کے عظیم قراء کی سحرانگیز آواز میں تلاوتِ کلام مجید سننا محض نیکی ہی نہیں ہے، ذوقِ غنا کی تسکین کی اس میں بے پناہ قوت و تاثیر موجود ہے۔ فن کی نفاستوں، باریکیوں او رلطافتوں کا ایسا پرلطف غنائی ذخیرہ ان اصحابِ فن کی ادائیگی میں ہے کہ سننے والے پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ مصر کے قاری عنتر سعید کی فن میں مہارت کا یہ عالم ہے کہ ایک کلمہ یا آیت کو ایک نشست میں دس بار ادا کریں توہربار لہجہ کا زیر وبم دوسری ادائیگی سے مختلف ہوتا ہے۔ دوسری طرف فن قراء ت کے نامور ستارے قاری عبدالباسط کی اپنی آواز پر کنٹرول اور ادائیگی کی مہارت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر وہ ایک آیت کو دس بار دہرائیں اوراس آواز کو میزان پر تولا جائے تو اس کی آواز کا زیروبم اور اِرتعاش میں ذرّہ برابر تبدیلی نہ ملے ۔
پاکستان میں ذوقِ قراء ت پر وان چڑھ رہا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں گذشتہ رمضان میں مختلف مساجد میں نمازِ تراویح میں شریک ہو کر ہوا۔ گارڈن ٹاؤن میں جامعہ لاہو رالاسلامیہ کے تحت قاری ابراہیم میرمحمدی کی زیرنگرانی قرآن فیکلٹی اس ضمن میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے، جہاں فن قرأت کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ خود قاری ابراہیم کا شمار اس فن کے بین الاقوامی ماہرین میں ہوتا ہے۔ آپ قرآنِ مجید کی جملہ متواتر قراء ات کے عالم ہیں جو کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خوبصورت آواز کے ساتھ خوبصورت اَلفاظ اور خوبصورت خیالات جمع ہوجائیں تو تب ہی غنا صحیح معنوں میں انسانی روح کو سرشار کرتا ہے اور یہی غنا ہی روح کی غذا کہلانے کا صحیح حقدار ہے نہ کہ نورجہاں کے بیہودہ فلمی گانے!…
افسوس کہ ان بیہودہ گانوں کو تو ’فن‘ قرار دے کر اس کی پذیرائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی لیکن کلام الٰہی کی تلاوت کرنے والے نفوسِ مطہرہ جو فن ادا اور آواز پر کنٹرول میں ان سے کسی طور کم نہیں بلکہ انہیں مشق کے اس سے زیادہ مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ، ان کے فن اور مہارت کو کسی قطار شمار میں نہیں لایا جاتا ، اُلٹا انہیں ’ملا‘ قرار دے کر ان کی بے توقیری کی جاتی ہے۔ ایک اسلامی مملکت میں قرآن کے خادموں سے یہ دوہرا معیار آخر ہمارے کونسے رجحانات کا عکاس ہے! ؟؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسلامی معاشرے میں موسیقی کا نفوذ
شہرہ آفاق مسلمان ما ہر عمرانیات و موٴرّخ علامہ ابن خلدون ’مقدمہ‘ میں لکھتے ہیں:
” اسلام سے پہلے عجمیوں کے دورِ حکومت میں قصبوں اور شہروں میں راگوں کا سمندر جوش مارا کرتا تھا۔ سلاطین عجم کی مجلسیں گویوں سے بھری رہتی تھیں اور وہ گانوں پر جانیں چھڑکاتے تھے۔ حتیٰ کہ شاہانِ فارس گویوں کی بڑی قدرومنزلت کیا کرتے تھے اور ان کی سرکار میں ان کا مرتبہ بلند ہوتا تھا۔ وہ ان کے گانوں کی مجلس اور اجتماعات میں شامل ہوا کرتے تھے اور خود بھی گایا کرتے تھے۔ ہر علاقے اور ہر ملک میں عجمیوں کا آج بھی یہی حال ہے“ (صفحہ ۳۱۷)
ابن خلدون کے مطابق عرب شروع میں صرف فن شاعری میں دلچسپی لیتے تھے۔ اَشعار میں عرب اپنے تاریخی اور جنگی واقعات اور نسبی شرف کی داستانیں دہرایا کرتے تھے۔ پر جب ان کا دورِ تعیش آیا اور ان پر خوش حالی چھا گئی کیونکہ اَقوام عالم کی دولت ان کے پاس آگئی تھی تو یہ عیش پرست بن گئے اور تعیش کی شادابیوں کی جھلک ان کے چہروں سے ٹپکنے لگی۔ علاوہ ازیں ان میں نوکر رکھنے کی نزاکت بھی آگئی اور ان پر فراغت کی جلوہ گری بھی چھا گئی۔ اب فارس و روم کے گانے والے حجاز میں جمع ہوگئے اور عرب کے لونڈی غلام بن گئے۔ یہ طنبور، بانسری اور دیگر باجوں سے گانے لگے اور عربوں نے ان کی آوازوں کے سرسنے تو اپنے اَشعار ان سے گوائے۔ بہرحال بغداد میں جو دارالخلافہ تھا، ناچ گانے کا خوب زور ہوا اور گانے کی مجلسیں خوب جمنے لگیں جن کا آج تک چرچا ہے اور عرب لہو و لعب میں سب سے آگے بڑھ گئے۔ رقص و سرود کے سامان و اَوزار تیار ہونے لگے۔ گویوں کے لباس خاص طرح کے بننے لگے۔ گانے کے بول عام اَشعار سے علیحدہ ہوگئے۔ابن خلدون موسیقی کے فروغ کے اَسباب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” موسیقی کی صنعت تمدن میں سب صنعتوں سے آخیر میں آتی ہے کیونکہ یہصنعت زندگی میں لطف پیدا کرنے والی ہے اور زندگی کے اسی گوشے میں چمکتی ہے جسے فراغت کہتے ہیں۔ فراغت و دولت اسی وقت آتی ہے جب کوئی حکومت ترقی کا دور پورا کرنے کے بعد روبہ تنزل ہوتی ہے اور یہ فن تمدن میں آتے ہی سب سے پہلے ختم ہوجاتا ہے“ (صفحہ ۳۲۰)
یہاں اسلامی تاریخ کے مختلف اَدوار میں موسیقی اور اس ’فن‘ سے وابستہ طبقہ کے بارے میں زیادہ مفصل تجزیے سے قطع نظر کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون کی مذکورہ بالا رائے کی روشنی میں نہایت اعتمادکے ساتھ یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں میں فن موسیقی کو ملوکیت کے دورِ تعیش میں رواج ملا۔ ا س کی زیادہ تر پذیرائی اہل دربار تک ہی محدود رہی۔ یہ وہ فن تھا جواخلاقی تنزل کے نتیجے میں ترقی پذیر ہوتا ہے۔ لکھنوٴ، دہلی اور ہندوستان کے دیگر تہذیبی مراکز کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ اُمراء نے جب طوائف کے کوٹھے کو تہذیب ِمکتب کا درجہ دیا تو ان کے سیاسی اِقتدار کا سنگھاسن ڈول گیا۔
ہمارے عوام تو عجمی سلاطین کے شاہانہ اطوار کو تقریباً فراموش کرچکے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اس ’ذوق‘ کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ سے وابستہ ایک مخصوص طبقہ ایسا ہے جس میں عجمی سلاطین کی اَرواح حلول کرچکی ہیں اور یہ ’ارواح‘ ان کے اندر کبھی کبھار جوش مارتی ہیں۔ غناء، سرور، رقص و موسیقی ہی اس گروہ کا ’حقیقی مذہب‘ ہے۔ گانے والوں اور گانے والیوں سے ان کی شیفتگی اور وارفتگی ایک والہانہ جنون کا انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔ جتنی عقیدت و محبت ان کو ان نام نہاد فنکاروں سے ہے، ہمارے مشائخ عظام اور پیرانِ کرام بھی ان پر رشک کھائیں گے۔ ابھی حال ہی میں موسیقی کے ان دلدادگان کی اس جنوں خیزی کا بھرپور مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب ۲۳/ دسمبر ۲۰۰۰ء بمطابق ۲۶ رمضان المبارک فتورِ جہاں المعروف نورِ جہاں نے اس عالم فانی سے عالم ابدی کی طرف کوچ کیا۔
” زندگی جھوٹ اورموت برحق ہے !“
نورجہاں نے اپنے آخری انٹرویو میں بالکل سچ کہا کہ ” زندگی جھوٹ ہے اور موت برحق ہے“ اگر اس پر یہ حقیقت بہت پہلے منکشف ہوجاتی تو وہ اپنا خاندانی پیشہ کبھی اختیار نہ کرتی، وہ محض اللہ وسائی ہی رہتی، نورجہاں بننا کبھی پسند نہ کرتی۔ نورجہاں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والے ہمارے صحافیوں کو اس کے مذکورہ قول پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہئے۔ اگر ان کو بھی اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے تو وہ فلمی عورتوں کے مبالغہ آمیز اور شہوت انگیز افسانے لکھ کر اپنے قلم کی حرمت کو کبھی پامال نہ کریں۔ قلم ایک مقدس امانت ہے، اس کا تقدس قائم رکھنا ہر صاحب ِقلم کی ذمہ داری ہے…!! **
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
اس مضمون کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کی ضرورت ہے آج ;)
سوشل میڈیا پر آج "میڈم" کی "سالگرہ" کے زور و شور سے محبوبانہ اعلان آ رہے ہیں
 
Top