- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
نور جہاں ، فتورِ جہاں
محمدعطاء اللہ صدیقی
جھوٹ کی حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی یہ وہ جملے ہیں جو قلمی اَوباشی میں شہرت رکھنے والے افسانہ نویس سعادت حسن منٹو نے ایک گلوکارہ کے متعلق ۱۹۴۶ء میں لکھے گئے خاکے ” نور جہاں، سرورِ جہاں“ میں استعمال کئے تھے۔ اَدب میں حسن مبالغہ کے استعمال کو ہمیشہ روا سمجھا جاتاہے مگر … کہاں بہشت کی پاکیزہ حور او رکہاں فسق و فجور میں لتھڑی ہوئی ایک آوارہ مزاج گانے والی لڑکی!…۱۴/ جنوری ۲۰۰۱ء کے جنگ سنڈے میگزین کا فیچر نگار نور جہاں کے بارے میں اپنے فیچر کا آغاز اِن الفاظ میں کرتا ہے:” نہیں، تم کچھ نہیں جانتے منٹو! … یہ نور ہے نورجہاں ہے، سرور ِ جہاں ہے۔ خدا کی قسم ایسی آواز پائی ہے کہ بہشت میں خوش اَلحان سے خوش الحان حور سنے تو اسے سیندور کھلانے کے لئے زمین پر اُتر آئے“
اس فیچر کا خاتمہ ان الفاظ میں کیا گیا:” ۷ ۲ رمضان المباک کی شب ڈیفنس کراچی کے قبرستان میں تقریباً سو اَفراد ایک چراغ کو مٹی میں رکھ رہے تھے… اَب صدیوں تک ایسے چراغ کے طلوع ہونے کی توقع نہیں تھی“
سعادت حسن منٹو جیسے ملحد جنس نگار ہی ہیں جنہیں اس طرح کی دروغ گوئی سے ذرّہ برابر خوفِ خدا نہیں رہتا۔ ایک لعوولعب، فسق و فجور، گانے بجانے اور جنسی آوارگی کا شکار عورت کو ’نور‘ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جن کے قلوب اِلحاد و زندیقیت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ وہ بدبخت طائفہ اُدباء ہے جس کو قرآن و سنت کا نور توکبھی نظر نہیں آیا، البتہ غناء اور موسیقی کے فتور کو ہی ’نور‘ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشادِ ربانی ہے :” اللہ رکھی سے نورجہاں بن کر دنیا بھر میں روشنی پھیلانے والے نورجہاں جیسے انسان دنیا میں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اب اس دنیا کو صدیوں تک کسی اور نورجہاں کا انتظار کرنا ہوگا“
ایک اور مقام پر قرآنِ مجید کو ’نور‘ قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ اَللّٰهُ نُوْرُ الَسَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ ﴾ یعنی ” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے“
مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں نور سے مراد ہدایت ِ خداوندی اور صراط ِمستقیم ہے۔﴿ اللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلیٰ النُّوْر ِ﴾ ” اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دوست ہیں جو ایمان لائے، وہ انہیں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لاتے ہیں“
غناء ، موسیقی اور فلمی عورتوں کے طرزِ حیات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے تناظر میں پرکھا جائے تو نورجہاں کو ’نور‘ ، ’روشنی‘ یا ’چراغ‘کہنا ایک مشرکانہ قول ہے۔ شہوت پرستوں نے اللہ وسائی کا نام ’نورجہاں‘ رکھ دیا ورنہ حقیقت میں وہ ظلمت ِجہاں تھی۔ وہ فتنہٴ مجسم اور فتورِ جہاں تھی۔ مسلسل ستر برس تک اس نے سفلی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے گیت گائے۔ وہ خود بھی تمام عمر جنسی آوارگی، عشق و مستی اور فسق و فجور میں مبتلا رہی اور اس کے گانے سن کر کروڑوں اَفراد فکری ضلالتوں میں مبتلا ہوئے۔ خداداد حسن صوتی سے وہ چاہتی تو نشر خیر کا کام لے سکتی تھی، مگر اس نے اس سے فتنہ پروری کا کام لیا۔ ایک زمانہ ہے جو اسکے ہوش رُبا فتنے کا شکار اور اسکی آواز کے سحر سے مسحور ہوا۔ لفنگے عاشقوں کے غول ہیں جو اسکے گانوں سے دل بہلاتے ہیں۔
کجی کو حسن، شب ِدیجور کو صبح نور، ظلمت کو روشنی، حرمت کو حلت، کثافت کو ثقافت، تعفن کو فن اور شر کو خیر سمجھنے والے بے نور دماغ ہی ایک گائیکہ کو ’نور‘ کہہ سکتے ہیں۔ حسن مبالغہ سے اَعمال کی بدصورتی کو بدلا تو نہیں جاسکتا۔ آخر وہ کون سی روشنی ہے جو اللہ رکھی نے نورجہاں بن کر دنیا بھر میں پھیلائی؟اس کی تفصیلات بیان کرنا نورجہاں کے بے فیض مداحوں پرایک ایسا قرض ہے جس سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا کر بھی وہ عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔ سلیم باسط نامی مضمون نگار جس نے نورجہاں کی طرف سے روشنی پھیلانے کا بے حد لغو اور واہیات دعویٰ کیا ہے، خود ہی ۱۴/جنوری کے جنگ میگزین میں تحریر کرتا ہے:
تھیٹر جیسے ظلمت کدوں اور گناہ کے اڈّوں میں اللہ رکھی سے بے بی نورجہاں بننے والی ایک طوائف زادی کی مداحی میں آج کے ملحد قلمکار زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ جس عورت کی ’اوّلین‘ تربیت گاہ ایک تھیٹر ہو اور جس کی پوری زندگی یا تو فلمی اسٹوڈیوز کے گناہ آلود ماحول میں بسر ہوئی ہو یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں اپنے شباب کی قیمت وصول کرتے گذری ہو، اس کے بارے میں روشنی پھیلانے کا تصور وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دماغ روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق سمجھنے سے قاصر ہیں۔” بے بی نورجہاں نے تھیٹر سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کلکتہ جو ان دنوں برصغیر میں فن وثقافت کی دنیا کا سب سے بڑامرکز تھا، نورجہاں کی اوّلین تربیت گاہ بنا۔ ان دنوں کئی تھیٹر کمپنیاں یہاں کام کررہی تھیں اور فلمی صنعت کی اوّلیت تربیت گاہ ان تھیٹر کمپنیوں کو ہی سمجھا جاتاتھا۔ اس دور کے کئی بزرگ آج بھی حیات ہیں جنہوں نے بے بی نورجہاں کو اسٹیج پر پرفارم کرتے دیکھا تھا“
موسیقی کو ’روح کی غذا‘ سمجھنے والے شہواتِ نفس کے غلاموں کی جانب سے ’ملکہ ترنم‘ اور ’تاریخ ساز ہستی‘ کے اَلقابات حاصل کرنے والی نورجہاں کی زندگی لہو و لعب کا مرقع ہے۔ نورجہاں نے ۱۹۲۸ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کا پیشہ قحبہ گری تھا۔ ا س کے حقیقی نام کے بارے میں اس کے سوانح نگاروں میں بھی اتفاق نہیں ہے۔ بعض نے اسے اللہ وسائی لکھا ہے توکچھ افراد نے اس کا نام اللہ رکھی بیان کیا ہے۔ یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ اس قدر شہرت پانے والی گائیکہ کے حقیقی نام پر بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ بہرحال اس کا جو بھی خاندانی نام تھا، وہ بلاشبہ ایک طوائف زادی تھی۔ طوائف زادی ہونا فی نفسہ کوئی گناہ نہیں ہے، نہ ہی کسی گانے والی کی اولاد ہونا بذات ِ خود کوئی عار کا باعث ہے۔ البتہ اس گانے بجانے کو زندگی بھر اوڑھنا بچھونا اور طوائفوں کے انداز ِ حیات کو ہی اپنا طرز ِ زندگی بنا لینا یقینا پسندیدہ امر نہیں ہے۔ اللہ وسائی ابھی چھ برس کی ہی تھی کہ اس نے گانا شروع کردیا تھا۔ ۹ برس کی عمر میں وہ بمبئی کی فلمی صنعت میں جلوہ گر ہوگئی۔ ۱۹۳۴ء میں سیٹھ سکھ لال کرنانی کی ایک تھیٹر کمپنی میں اسے معقول مشاہرے پر ملازمت مل گئی۔ وہ فلموں میں بھی حصہ لیتی رہی۔ فلمی صنعت کے طوائف پرستوں نے اس کے جسمانی وصوتی جمال کا بھرپور استحصال کرکے اپنے کاروبار کو چمکایا۔
تھیٹر کمپنی والوں نے اللہ وسائی کا نام ’بے بی نورجہاں‘ رکھا دیا۔ یہ نام اتنا مقبول ہوا کہ خود اس کے جنونی مداحوں میں بھی یہ بات متنازعہ فیہ ہے کہ اس کا اصل نام کیا تھا۔ بمبئی میں قیام کے دوران نورجہاں کم سنی کے باوجود جنسی آوارگی اور اباحیت ِمطلقہ میں مبتلا رہی۔ اگرچہ اس کے چاہنے والے اس کی زندگی کے اس مکروہ پہلو کے متعلق آج اشارہ تک نہیں کرتے مگر ۱۹۴۶ء میں سعادت حسن منٹو نے ’نورجہاں سرورِ جہاں‘ کے عنوان سے جو خاکہ تحریر کیا تھا، اس میں شوکت رضوی کے ساتھ فاسقانہ شب باشیوں کا تذکرہ نہایت مزے لے کر کیا ہے۔ اس کے کئی افراد کے ساتھ ناجائز تعلقات رہے۔ عشق کا ڈھونگ رچا کر فی الواقع فسق کا ارتکاب کرنا فلمی طبقہ کا معروف کلچر ہے۔ نبی کریمﷺنے جن لوگوں کو ’ذواقین‘ اور ’ذواقات‘کا نام دیا ہے، جدید دور میں اس کا صحیح مصداق یہی طبقہ ہے۔ نورجہاں کو اچھی طرح جاننے والے اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں ’ذواقیت‘ کے بھرپور جراثیم تھے۔
سلیم باسط نے اپنے مضمون میں نورجہاں کو ایک بے حد خدا رسیدہ اور ’پہنچی ہوئی‘ عورت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لکھتا ہے:
یہ لغو دعویٰ ناقابل یقین ہے۔ یہی قلمکار اپنے مضمون میں البتہ یہ بھی لکھ گیا ہے :” ان کی زندگی میں جو بھی ان کے قریب رہا، وہ خود بھی سونے کا بن گیا۔ ان کے پاس اکثر عورتیں دعا کرانے کے لئے آتی تھیں“۔
مذکورہ مداح نے بے حد محتاط انداز میں نورجہاں کی ذواقانہ طبیعت پر ’افواہوں‘کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے چند ایک افراد کے نام بھی لئے ہیں ورنہ نورجہاں کے ’چاہنے والوں‘ کی جو فہرست منظر عام تک آسکی ہے ، خاصی طویل ہے۔ ایک کالم نگار نے حال ہی میں نورجہاں پرلکھے جانے والے مضمون میں خود نورجہاں کا یہ قول نقل کیا ہے:” نورجہاں کی پوری زندگی جہاں بے پناہ شہرت، دولت اور خوش قسمتی کی ناقابل یقین روایات سے عبارت تھی، وہیں ان کی پوری زندگی تنازعات اور اَفواہوں کی زد میں بھی رہی۔ شوکت حسین رضوی سے علیحدگی کے بعد ان کا نام ایک کرکٹر، ایک فلم ساز، کئی اداکاروں ، پی آئی اے کے ایک کپتان اور دیگر مختلف لوگوں کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔ اعجاز درّانی سے شادی کے بعد افواہوں کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے رک گیا مگر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کے بعد یہ سلسلہ پھر شروع ہوگیا خوبصورتی اور ذہانت نورجہاں کی بڑی کمزوری تھی۔“
شوکت رضوی جسے نورجہاں کے پہلے شوہر ہونے کا ’اعزاز‘ حاصل ہے، اس سے زیادہ بہتر نورجہاں کے بارے میں کون جانتا ہے۔ اس نے اپنی سابقہ بیوی پر جو کتاب شائع کی، اس کے بعض حصے روزنامہ خبریں، اور دیگر رسائل نے ’افادئہ عام‘ کے لئے شائع کئے ہیں۔ ا س میں نورجہاں کا جو مرقع کھینچا گیا ہے، اس میں ایک گھٹیا، شہوت پرست، آوارہ مزاج، بدطینت، زبان دراز اور بدتمیز عورت کی تصویر سامنے آئی ہے۔ صرف گانے ہی نہیں، مغلظات بکنے کے فن میں بھی نورجہاں یکتا تھی۔ ا س سے مسلسل ملنے والا شاید ہی کوئی ’خوش نصیب‘ ہو جو اس کی گالیوں کا تختہٴ مشق نہ بنا ہو۔ اس سے گالیاں کھا کر بدمزہ نہ ہونے والے بھی کم نہیں ہیں۔” میں گناہوں کا کبھی حساب رکھتی ہوں، نہ گانوں کا“ معروف صحافی خالد حسن نے بہت عرصہ پہلے انگریزی میں نورجہاں کا جو مفصل خاکہ تحریر کیا تھا، اس میں نورجہاں کا اپنے بارے میں یہ ’تعریفی‘ جملہ بھی ملتا ہے: ” ہر وقت کسی نہ کسی مرد سے قلبی وابستگی (عشق) رکھنا میری مجبوری ہے، اس کے بغیر میں اچھی طرح گا نہین سکتی“۔
نورجہاں تمام عمر زروجواہر میں کھیلتی رہی۔ وہ ’کوٹھے‘ کے ماحول سے نکل کر ’کوٹھی‘ کے ماحول میں آگئی۔ وہ روایتی طوائفوں کی طرح بدقسمت نہیں تھی جو تمام عمر کوٹھوں پر مجرے دکھا کر رزقِ خاک ہوجاتی ہیں۔ ا س کی پائل کی جھنکار ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤس جیسے شاہانہ محلات میں بارہا سنی گئی۔ کسی صدرِ مملکت کو اپنی انگلیوں پرنچانا کسی بھی طوائف زادی کا خواب بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے عظیم چیلنج بھی۔ نورجہاں اس اعتبار سے ’خوش قسمت‘ واقع ہوئی کہ یحییٰ خان جیسے بدبخت صدر نے اسے ’آنکھوں کا نور‘ بنا کے رکھا۔ نورجہاں کی زندگی کا یہ بھیانک پہلو قصہ ماضی بن چکا تھا، مگر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے اس کو ایک دفعہ پھر زندہ کر دیا ۔ نورجہاں کی موت کے فوراً بعد اس رپورٹ کا سامنے آنا غور طلب معاملہ ہے۔
۳۰/ دسمبر ۲۰۰۰ء کو منظر عام پر آنے والی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں یحییٰ خان اوردیگر جرنیلوں کی بدقماش عورتوں سے رنگ رلیوں کے واقعات میں نورجہاں کا تذکرہ پڑھئے او رپھر اندازہ کیجئے کہ نور جہاں کا اصل کردار کیاتھا:
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران نورجہاں نے کم از کم چار دفعہ گورنر ہاؤس میں جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں محض گانا سننے تک تو محدود نہیں رہ سکتی تھیں۔ نہایت تعجب ہے کہ ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤس میں شراب نوشی کی محفلوں میں’کباب‘ بننے والی نورجہاں کو آج بعض کالم نگار ایک مقدس ہستی کے طو رپر پیش کررہے ہیں۔” نومبر ۱۹۷۱ء میں جب پاک فوج مشرقی پاکستان میں دشمنوں سے نبرد آزما تھی تو اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں نورجہاں جنرل یحییٰ خان کے قدموں میں بیٹھ کر اسے شراب پیش کر رہی تھی۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب یحییٰ خان نے اپنی سالگرہ منعقد کی تو جنرل رانی پہلی مرتبہ نورجہاں کو لے کر آئی۔ پہلی ہی ملاقات میں نورجہاں نشے میں دھت ہو کر یحییٰ خان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ نورجہاں نے یحییٰ خان کے نام ایک خط بھی لکھا جس میں اس نے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے ایک صنعت کار کا کام کرنے کی فرمائش کی“
مندرجہ بالا سطور میں جوکچھ بیان کیا گیا ہے وہ نور جہاں کی زندگی کی محض جھلکیاں ہی ہیں، مگر اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل تونہیں ہے کہ یہ گائیکہ اس قابل قطعاً نہیں ہے کہ اسے احترام کا مستحق سمجھا جائے بلکہ تہذیب کے نام پر ایسے بدنما داغ جس قدر ممکن ہو بے نقاب کر دئے جائیں تاکہ ان کا اصل چہرہ عوام کے سامنے رہے۔ ہمارے پریس اور ذرائع ابلاغ کویہ فریضہ انجام دینا چاہئے مگر اَرذل العمر کو پہنچی ہوئی یہ مغنیہ جب ۲۳/دسمبر ۲۰۰۰ء کو مری تو ہمارے اخبارات (بالخصوص اُردو) نے اس قدر بھرپور کوریج (تشہیر) دی کہ اسے بہت بڑا قومی سانحہ بنا کر پیش کیا۔
اخبارات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عوامی رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک دانش ور کا قول ہے کہ پریس معاشرے کے لئے تھرمامیٹر کا کام کرتا ہے۔ ۲۴ دسمبر ۲۰۰۰ء کے پاکستانی اخبارات کو دیکھ کر ان اَقوالِ زرّیں کی صداقت پر اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ ہر اخبار نے کوشش کی کہ نورجہاں کے متعلق جس قدر رطب و یابس میسر آئے، شائع کردیا جائے۔ نوائے وقت جیسے نظریہٴ پاکستان کے علمبردار اخبار پر بھی نورجہاں کا ’بخار‘ اس قدر طاری ہوا کہ اس کے صفحہٴ اوّل اور آخر پر نورجہاں کے حالاتِ زندگی، گیتوں اور تصاویر کے علاوہ کوئی خبر شائع نہ ہوئی۔ روزنامہ جنگ، خبریں، پاکستان اور دن کے صفحات پر ہر طرف نورجہاں ہی ’رقصاں‘ تھی۔
ہمارے ذرائع ابلاغ نے نورجہاں کو جو اہمیت، عزت و احترام اور بھرپور پذیرائی عطا کی ہے، کیا واقعی وہ اس کی مستحق تھی؟ آخر نورجہاں کا وہ عظیم کارنامہ کیا ہے جس کی بنیاد پر اس کی شخصیت کے متعلق مبالغہ آمیز پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے؟ گانا بجانا اور موسیقی سے وابستگی ایک مخصوص طبقے کے لئے بے حد قابل قدر فن ہوسکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کیا پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت بھی راگ رنگ کو اسی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے؟ پاکستان میں گانا سننے والے بہت ہیں، مگر کتنے لوگ ہیں جو اپنی بہو بیٹیوں کو گانے والیوں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں؟… اگر گیت گانا ہی عظیم ترین فن ہوتا تو ہمارے معاشرے میں ہر طرف میراثیوں کا راج ہوتا۔مگر آج بھی ہمارے معاشرے میں میراثیوں کو کمی کمین اور گھٹیا طبقہ سمجھا جاتا ہے، ان کے انسان ہونے کے ناطے سے نہیں بلکہ ان کے پیشے کے اعتبار سے۔ زیادہ سخت الفاظ میں عام طور پر لوگ گانے والوں کو ’کنجر طبقہ‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔روزنامہ ’انصاف‘ شاید واحد اخبار ہے جسے مستثنیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف نے ” نورجہاں کی موت کی ذرائع ابلاغ میں کوریج“ کے عنوان سے تحریر کردہ اپنے طویل مضمون میں مختلف اخبارات میں نورجہاں کو دی جانے والی مجنونانہ تشہیر پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون روزنامہ انصاف، ہفت روزہ ایشیاء اور مجلہ الدعوة (فروری) کے علاوہ بہت سے رسائل میں شائع ہوچکا ہے۔ تفصیل کے شائق قارئین وہاں دیکھ سکتے ہیں۔
اسلام نے رنگ و نسل ،دولت اور اختیار، پیشہ اور فن کی بجائے نیکی اور تقویٰ کو ہی بزرگی، احترام اور وقار کی بنیاد قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح ارشاد ہےسوال پیداہوتا ہے کہ ذرائع اِبلاغ میں نورجہاں یا اس قماش کے دیگر لوگوں کو جو بے انتہا تشہیر دی جاتی ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں! راقم الحروف کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر ایک مخصوص طبقہ نے قبضہ کررکھا ہے جس نے موسیقی کو ’دین و ایمان‘ کا درجہ دے رکھا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا رہا ہے جس کی سوچ پر ہندو مذہب کے گہرے اثرات ہیں۔ چونکہ ہندو مذہب میں موسیقی کو عظیم فن اور نہایت قابل ستائش ’عبادت‘ کا درجہ دیا جاتا ہے، اس لئے یہ طبقہ بھی موسیقی اور گانے بجانے کو ویسی ہی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر شروع شروع میں سیکولر اور بے دین اَفراد نے قبضہ کرلیا کیونکہ شرفا ٹیلی ویژن جیسے اداروں کی ملازمت کو اپنے سماجی وقار کے منافی سمجھتے تھے۔ اِدارے اپنے اندر کام کرنے والے افراد کی سوچ کا پرتو ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن یا ہمارے ذرائع ابلاغ جو کچھ پیش کرتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ وہ قوم کے حقیقی عقائد و اَفکار کا صحیح عکس ہوں بلکہ زیادہ تر یہ ان اِداروں میں کام کرنے والے افراد کی سوچ کا ہی پرتو ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ایک قومی اِدارہ ہے مگر ایک مخصوص طبقہ اسے اپنی سوچ کی تشہیر کے لئے غلط استعمال کرتا ہے۔
مگر ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہل مغرب کی بھونڈی تقلید کے جوش میں احترام و اِکرام کے جو نئے معیارات وضع کرلئے ہیں، اس میں تقویٰ کی بجائے فسق و فجور اورلہو و لعب کو ہی اصل وجہ ِامتیاز سمجھ لیا گیا ہے۔﴿ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰکُم ْ﴾ ” تم میں سے اہل تقویٰ ہی اللہ کے نزدیک قابل تکریم ہیں“