T.K.H
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 05، 2013
- پیغامات
- 1,123
- ری ایکشن اسکور
- 330
- پوائنٹ
- 156
امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر کے تبصرے یزید کے بارے میں پڑھ کر اپ کی عادل امام والی غلط فہمی تو ہوا ہو گئی ہو گی اب ذرا ابن عباس سے منقول بلاذری کی اس روایت کی سند بھی دیکھ لیتے ہیں
اپ کی پیش کی ہوئی روایت کی سند یہ ہے
الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي:
اس روایت کی علت یہ ہے کہ عامر بن مسعود مجہول الحال ہیں چنانچہ عامر بن مسعود سے فقط دو نے روایت کی ہے (1)عبدالعزیز بن رفیع (2) نمیر بن عریب الھمدانی
چنانچہ اصول میں یہ موجود ہے کہ جس راوی کی توثیق موجود نہ ہو اور اس سے روایت کرنے والے صرف دو ہوں ایسا راوی مجہول الحال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تحریر تقریب التھذیب کے مولفین نے اس کو مجہول نقل کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں"وھو عندنا مجھول الحال ،فقد روی عنہ اثنان، وذکرہ ابن حبان فی "الثقات" ولا یعلم توثیقہ عن احد(تحریر تقریب التھذیب رقم 3109)
رہی بات لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا تو عروہ بن الزبیر جیسے تابعی جب یزید کےسامنے اس کی تعریفیں کر سکتے ہیں تو لیث بن سعد کا یزید کو امیر المومنین کہنا کیا معنی رکھتا ہے
محترم، بات صرف اتنی ہے کہ آپ کو یزید کے اگے کچھ دیکھائی نہیں دیتا ہے وگرنہ اہل مدینہ کا یزید کی بیعت توڑنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا یزید کے خلاف کھڑا ہونا ضرور نظر آتا باقی رہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جس جماعت کا اپ بار بار تذکرہ کر کے فرما رہے ہیں کہ وہ یزید کے فسق و فجور کے خلاف منظم کیونکر نہ ہوئے تو آں جناب مجھے صرف ۱۰ سے ۱۵ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام بتا دیں جو اس وقت اس عمر میں تھے کہ یزید اور اہل شام کی اتنی بڑی ظالم فوج کے خلاف منظم ہوتے جس نے تین دن مدینہ الرسول میں تباہی مچا دی اس وقت ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا تو محترم عرض یہ ہے کہ جو صغائر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے انہوں نے اپنی طرف سے اس ظلم کو روکنے کی کوشش کی تھی جن میں عبداللہ بن حنظلہ ، معقل بن سنان، ابن زبیر، حسین رضی اللہ عنھم وغیرہ ہے جنہوں نے یزید کے ظلم کے خلاف منظم ہونے کی کوشش کی مگر جو بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے جونکہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے اس لئے وہ ان کو اس سے منع کرتے رہے چنانچہ اس حوالے سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اصحابہ بدر میں سے صحابہ نےعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اپنے گھروں میں رہنا پسند کر لیا تھا
أما إن رجالا من مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ لَزِمُوا بُيُوتَهُمْ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ فَلَمْ يَخْرُجُوا إِلَّا إِلَى قُبُورِهِم
البدایہ النھایہ ط الفکر 7/253 )
تو آں جناب کو منظم تحریک والی بات بھی سمجھ آ گئی ہو گی آخر میں دو باتیں جو اپ نے کی ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو ہی قاتل سمجھتے تھے مگر اپ یہ ثابت کر دو وہ قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے والے لوگ تھے ابن عمر رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کو قاتل سمجھتے تھے ابن زیاد اور اس کی فوج اور عمر بن سعد کیا اہل کوفہ نہیں تھے اہل کوفہ کا قتل کرنا ثابت ہے مگر وہ اہل کوفہ جو حکومت می شامل تھے جس کا ثبوت میں بقلم سنابلی صاحب کے صحیح روایت سے دے چکا ہوں
آخر میں اپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے کچھ اقوال نقل کیے تھے کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو خروج سے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے سے روکا آں جناب ذرا ان اقوال کی سند پیش کریں گے یزید کی شراب نوشی اور دیگر باتوں پر صحیح سند کا تقاضہ کیا جاتا ہے مگر حسین رضی اللہ عنہ جیسی عظیم ہستی اس کے لئے کسی سند کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ یزید کی پارسائی ثابت کرتی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کو شریعت کے خلاف ثابت کرتی ہے کہاں گئی اہل حدیث کی وہ شان جو سند کو دین مانتی ہے
لیں اپ کے پیش کیے ہوئے اقوال کی سند دیکھ لیں
20826 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
20827 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس کی سند آپ کو غور سے نظر آرہی ہو گی اس میں "قالوا" کے الفاظ سے روایت شروع ہے میں نے نشاندہی کی ہے اب یہ آپ بتا دیں یہ قالوا کون نے یہ کوئی ناصبیوں کی جماعت ہوگئی جو حسین رضی اللہ عنہ کو بدنام کرنے اور ان کے اس اقدام کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے جبکہ آئیں میں آپ کو بتاتا ہوں اہلسنت و الجماعۃ کی نظر میں حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کی کیا قدر ومنزلت ہے۔
وَمِنْ قَامَ لِعَرَضِ دُنْيَا فَقَطْ، كَمَا فَعَلَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَمَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ فِي الْقِيَامِ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَكَمَا فَعَلَ مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي الْقِيَامِ عَلَى يَزِيدَ بْنِ الْوَلِيدِ، وَكَمَنْ قَامَ أَيْضًا عَنْ مَرْوَانَ، فَهَؤُلَاءِ لَا يُعْذَرُونَ، لِأَنَّهُمْ لَا تَأْوِيلَ لَهُمْ أَصْلًا، وَهُوَ بَغْيٌ مُجَرَّدٌ.
وَأَمَّا مَنْ دَعَا إلَى أَمْرٍ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٍ عَنْ مُنْكَرٍ، وَإِظْهَارِ الْقُرْآنِ، وَالسُّنَنِ، وَالْحُكْمِ بِالْعَدْلِ: فَلَيْسَ بَاغِيًا، بَلْ الْبَاغِي مَنْ خَالَفَه
(المحلی بالاثار باب قتل اھل البغی 11/335)
ابن حجر فرماتے ہیں
قِسْمٌ خَرَجُوا غَضَبًا لِلدِّينِ مِنْ أَجْلِ جَوْرِ الْوُلَاةِ وَتَرْكِ عَمَلِهِمْ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ فَهَؤُلَاءِ أَهْلُ حَقٍّ وَمِنْهُمُ الْحَسیَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ فِي الْحَرَّةِ وَالْقُرَّاءُ الَّذِينَ خَرَجُوا عَلَى الْحَجَّاجِ(ُفتح الباری تحت رقم 6929)
اور شذرات الذھب میں اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ خروج حق بجانب تھا۔
والعلماء مجمعون على تصويب قتال عليّ لمخالفيه لأنه الإمام الحق،
ونقل الاتفاق أيضا على تحسين خروج الحسين على يزيد، وخروج ابن الزّبير، وأهل الحرمين على بني أمية، وخروج ابن الأشعث [1] ومن معه من كبار التابعين وخيار المسلمين على الحجّاج.
ثم [إن] الجمهور رأوا جواز الخروج على من كان مثل يزيد، والحجّاج، ومنهم من جوّز الخروج على كل ظالم
شذرات الذھب جلد 1 275
اہلسنت والجماعۃ نے حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو حق لکھا ہے اور اس پر اجماع نقل کیا ہے
آخر میں امام ابن کثیر کا قول نقل کررہا ہوں جنہوں نے یہی لکھا کہ سب دل سے حسین رضی اللہ عنہ کو پسند فرماتے تھے مگر پوری یزیدی حکومت ان کی دشمنی پر تلی ہوئی تھی اب ابن کثیر رحمہ اللہ کو رافضی نما اہلسنت مت کہنا شروع کر دیجیئے گا
بَلِ النَّاسُ إِنَّمَا مَيْلُهُمْ إِلَى الْحُسَيْنِ لِأَنَّهُ السَّيِّدُ الْكَبِيرُ، وَابْنُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يساميه ولا يساويه، ولكن الدولة اليزيدية كانت كُلَّهَا تُنَاوِئُهُ.
البدایہ والنھایہ 8/151)
اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور اصل اہلسنت میں شامل فرمائے آمین
جس شخص کی بیعت و خلافت پر صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام ؒ کا اجماع و اتفاق ہو چکا ہو اس شخص کے ” عادل “ اور ” معتبر “ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔
اور جن اہلِ مدینہ کی فسقِ بیعت کا آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ وہی فتنہ پرداز ٹولہ تھا جو حادثہ ٔ کربلاء کا باعث بنا اور اسی فتنہ کی سرکوبی کے لیے ان سے جنگ کی گئی اور امیر یزیدؒ کے فرضی فسق و فجور و مظالم کے افسانے بنانے والے بھی یہی اہلِ مدینہ کے کچھ عناصر تھے۔
سوچنے کی بات ہے اگر عبیداللہ بن زیاد اور عمر بن سعد وغیرہ ہی قاتلِ حسین ؓ تھے تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور خود حضرت حسین ؓ کی شہادت کے عینی گواہوں نے ان کا نام کیوں نہ لیا ؟ کیا انہیں خبر نہ تھی کہ اہلِ کوفہ میں یہ حضرات بھی شامل ہیں بلکہ اصل مجرم ہی یہی ہیں ؟ بات دراصل وہی ہے کہ جب ان فتنہ پردازوں کو معلوم ہوا کہ حضرت حسین ؓ ان کی غداری و مکاری سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں اور امیر یزیدؒ سے مصالحت کےلیے تیار ہیں تو جس طرح ان کے آباؤ اجداد نے جنگِ جمل و صفین میں فتنہ کی آگ بھڑکائی تھی بالکل اسی نہج پر وہی چال یہاں بھی چلی اور اُمت میں انتشارپھیلانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور آخر میں سارا الزام یزید ی لشکر پر ڈال کر ،محبتِ حسین ؓ کی چادر اوڑھ کر صفِ ماتم بچھا کر بیٹھ گئے۔
وقد کان فی ذالک العصر کثیر من الصحابہ بالحجاز والشام والبصرہ والکوفہ و مصر وکلھم لم یخرج علی یزید لا وحدۃ لا مع الحسین ( اتمام الو فاء فی سیرۃ الخلفاء )
اس دور میں صحابہ کرام ؓ کی بہت بڑی تعداد حجاز ، شام ، بصرہ، کوفہ اور مصر میں موجود تھی ان میں سے کوئی بھی یزید ؒ کے خلاف کھڑا نہ ہوا ، نہ از خود اور نہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ سفرِ کوفہ میں کوئی صحابیِ رسولﷺ موجود نہیں تھا ۔ اس لیے جن صحابہ کرام ؓ کے اقوال میں نے ذکر کیے ہیں ان کی تائید کےلیے یہی دلیل کا فی ہے یعنی ان کے نزدیک حضرت حسین ؓ کا خروج” غیر صحیح“ تھا ۔
باقی کیا امیر یزید ؒ نے تین دن کےلیے مدینہ حلال کیا ، لوٹ مار کی اور قاتل و غارت کا بازار گرم کیا ؟اس کے لیے آپ محترم کفایت اللہ صاحب کی کتاب ” یزیدؒ بن معاویہؓ پر لگائے گئے الزامات کا تحقیقی جائزہ“ صفحہ نمبر 483-416 ملاحظہ فرمائیں ۔
محترمی و مکرمی !میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جن علماء نے ایسے ” اجماع “ کا دعویٰ کیا ہے ان کی نظر میں وہی افسانوی روایات مدِ نظر تھیں جن میں امیر یزید ؒ کے فرضی فسق و فجور اور مظالم کی داستانیں لکھی ہوئی ہیں لہٰذاایسے اجماع کو بار بار نقل کرنا فعلِ عبث ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کوحقیقی ا ہل ِسنت و الجماعت میں شامل فرمائے آمین، یا رب العالمین !
اور جن اہلِ مدینہ کی فسقِ بیعت کا آپ ذکر فرما رہے ہیں وہ وہی فتنہ پرداز ٹولہ تھا جو حادثہ ٔ کربلاء کا باعث بنا اور اسی فتنہ کی سرکوبی کے لیے ان سے جنگ کی گئی اور امیر یزیدؒ کے فرضی فسق و فجور و مظالم کے افسانے بنانے والے بھی یہی اہلِ مدینہ کے کچھ عناصر تھے۔
سوچنے کی بات ہے اگر عبیداللہ بن زیاد اور عمر بن سعد وغیرہ ہی قاتلِ حسین ؓ تھے تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور خود حضرت حسین ؓ کی شہادت کے عینی گواہوں نے ان کا نام کیوں نہ لیا ؟ کیا انہیں خبر نہ تھی کہ اہلِ کوفہ میں یہ حضرات بھی شامل ہیں بلکہ اصل مجرم ہی یہی ہیں ؟ بات دراصل وہی ہے کہ جب ان فتنہ پردازوں کو معلوم ہوا کہ حضرت حسین ؓ ان کی غداری و مکاری سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں اور امیر یزیدؒ سے مصالحت کےلیے تیار ہیں تو جس طرح ان کے آباؤ اجداد نے جنگِ جمل و صفین میں فتنہ کی آگ بھڑکائی تھی بالکل اسی نہج پر وہی چال یہاں بھی چلی اور اُمت میں انتشارپھیلانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور آخر میں سارا الزام یزید ی لشکر پر ڈال کر ،محبتِ حسین ؓ کی چادر اوڑھ کر صفِ ماتم بچھا کر بیٹھ گئے۔
وقد کان فی ذالک العصر کثیر من الصحابہ بالحجاز والشام والبصرہ والکوفہ و مصر وکلھم لم یخرج علی یزید لا وحدۃ لا مع الحسین ( اتمام الو فاء فی سیرۃ الخلفاء )
اس دور میں صحابہ کرام ؓ کی بہت بڑی تعداد حجاز ، شام ، بصرہ، کوفہ اور مصر میں موجود تھی ان میں سے کوئی بھی یزید ؒ کے خلاف کھڑا نہ ہوا ، نہ از خود اور نہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت حسین ؓ کے ساتھ سفرِ کوفہ میں کوئی صحابیِ رسولﷺ موجود نہیں تھا ۔ اس لیے جن صحابہ کرام ؓ کے اقوال میں نے ذکر کیے ہیں ان کی تائید کےلیے یہی دلیل کا فی ہے یعنی ان کے نزدیک حضرت حسین ؓ کا خروج” غیر صحیح“ تھا ۔
باقی کیا امیر یزید ؒ نے تین دن کےلیے مدینہ حلال کیا ، لوٹ مار کی اور قاتل و غارت کا بازار گرم کیا ؟اس کے لیے آپ محترم کفایت اللہ صاحب کی کتاب ” یزیدؒ بن معاویہؓ پر لگائے گئے الزامات کا تحقیقی جائزہ“ صفحہ نمبر 483-416 ملاحظہ فرمائیں ۔
محترمی و مکرمی !میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جن علماء نے ایسے ” اجماع “ کا دعویٰ کیا ہے ان کی نظر میں وہی افسانوی روایات مدِ نظر تھیں جن میں امیر یزید ؒ کے فرضی فسق و فجور اور مظالم کی داستانیں لکھی ہوئی ہیں لہٰذاایسے اجماع کو بار بار نقل کرنا فعلِ عبث ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کوحقیقی ا ہل ِسنت و الجماعت میں شامل فرمائے آمین، یا رب العالمین !