حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
آپ کیا اسی موقف کے حامل ہیں:
حرم پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
آپ کیا اسی موقف کے حامل ہیں:
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگی ہوجا!حرم پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
کوئی تو ہو جو جواب دے۔۔۔اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے والوں سے سوال ہے کہ اگر عالمی سطح پر ان کے موقف کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو رویت کا اختلاف کہاں کہاں معتبر ہوگا:
۱۔ ہر شہر والے اپنے ہی شہر کی رویت کا اعتبار کریں گےاور کسی دوسرے شہر کی رویت کا اعتبار نہیں کریں گے خواہ وہ ایک ہی ملک میں ہوں؟ یعنی اہل لاہور کی رویت اپنی اور اہل مریدکے کی رویت اپنی، اگر لاہورمیں رویت ثابت ہوجائے تو مریدکے میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے اور اسی طرح بالعکس۔
۲۔ ہر ملک والے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار کریں گے پس اس ملک کے جس کسی شہر میں رویت ثابت ہوجائے تو پورے ملک میں اس کا اعتبار کیا جائے گا لیکن ایک ملک کی رویت دوسرے کسی ملک کیلئے معتبر نہیں ہوگی خواہ وہ ایک دوسرے کے قریب ہوں یا دور۔ لحاظہ اگربھارت کے شہر امرتسر میں رویت ثابت ہوتی ہے تو پاکستان کے کسی شہر میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اگرچہ امرتسرکا لاہور سے فاصلہ صرف ۵۳ کیلو میٹر ہے مگر چونکہ ملک علیحدہ ہے لحاظہ رویت اپنی اپنی۔
۳۔ ایک شہر اپنے قریب والے دوسرے شہر کی رویت قبول کرے گا لیکن دور والے شہر کی نہیں کرے گا (کیا اس صورت میں ایک ملک کی شرط لگائی جائے گی یا نہیں؟ قرب کی مسافت کیا ہوگی؟)۔
۴۔ جن شہروں کا مطلع آپس میں متفق ہے وہ ایک دوسرے کی رویت قبول کرسکتے ہیں لیکن جن کا مطلع مختلف ہے وہ ایک دوسرے کی رویت قبول نہیں کرسکتے۔
اگر قائلینِ اعتبارِ اختلافِ مطالع ان میں سے کسی ایک صورت پر متفق ہوجائیں تو اس مسئلے پر مزید کلام کیا جا سکتا ہے۔
محترم ہم الحمداللہ یک رنگ ہی ہیں۔۔۔دو رنگی چھوڑ دے یک رنگی ہوجا!
قانونی لحاظ سے
پہلی بات تو یہ کہ میں نے معاذ اللہ اپنے علماء میں سے کسی کی بھی بے حرمتی نہیں کی ، اختلاف رائے سے احترام متاثر نہیں ہوتا اگر شرعی و اخلاقی ضوابط کے اندر رہ کر کیا جائے۔۔۔تو کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک کے علماء کی آراء کا احترام کریں۔۔۔
ارے آپ تو غصہ کر گئے!!! میرا یقین کیجئے میں نے آپ کی علمی قابلیت پر کوئی شک نہیں کیا بلکہ اچھا گمان ہی کیا ہے اور اپنے سے بہتر ہی سمجھا ہے، اسی لئے تو آپ سے علمی بحث کرنے میں دلچسپی لے رہا ہوں۔۔۔یہ کتابیں ہم نے بھی پڑھ رکھی ہیں اور جو بحث آج آپ چھیڑ رہے ہیں دو سال پہلے اس ہی موضوع پر اردو مجلس پر کافی لے دے ہوچکی ہے۔۔۔
بحمد اللہ تعالی میں آپ کی بات اچھی طرح سمجھ گیا ہوں مگر میری نظر میں یہ دونوں کام بیک وقت بھی ہوسکتے ہیں؛ اس لئے کہ قیام خلافت کی جد و جہد رویت ہلال جیسے مسائل پر علمی گفتگو کرنے سے متاثر نہیں ہوتی۔ البتہ مسئلہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب ہم جذباتی ہو کر اجتہادی مسائل میں اپنی رائے دوسرے پر جبرا تھونپنے کی کوشیش کرتے ہیں۔۔۔لہذا چاند رویت کو چھوڑیں اصل نظام کی طرف لوگوں کی توجہ مبزول کروائیں جس کا نام ہے خلافت جب وہ آجائے گی تو سب ہوجائے گا جیسے سطلنت عثمانیہ میں ہوا کرتا تھا۔۔۔ اُمید ہے میری بات سمجھ رہے ہونگے۔۔۔
کوئی تو ہو جو جواب دے۔۔۔
جی ہاں! میں وحدت ہلال کا قائل ہوں، دنیا کے کسی شہر میں رویت اپنے شرعی ضوابط کیساتھ ثابت ہوجائے تو پوری دنیا میں جہاں جہاں خبر پہنچ جائےوہاں کے رہنے والوں پر روزہ رکھنا لازم ہے۔ مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں بھی اگر رویت ثابت ہوجائے تو اس کا اعتبار ہر جگہ کیا جائے گا مگر اتفاق سے مکہ مکرمہ میں رویت بہت واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے۔
اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے والوں سے سوال ہے کہ اگر عالمی سطح پر ان کے موقف کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو رویت کا اختلاف کہاں کہاں معتبر ہوگا:
۱۔ ہر شہر والے اپنے ہی شہر کی رویت کا اعتبار کریں گےاور کسی دوسرے شہر کی رویت کا اعتبار نہیں کریں گے خواہ وہ ایک ہی ملک میں ہوں؟ یعنی اہل لاہور کی رویت اپنی اور اہل مریدکے کی رویت اپنی، اگر لاہور میں رویت ثابت ہوجائے تو مریدکے میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے اور اسی طرح بالعکس۔
۲۔ ہر ملک والے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار کریں گے پس اس ملک کے جس کسی شہر میں رویت ثابت ہوجائے تو پورے ملک میں اس کا اعتبار کیا جائے گا لیکن ایک ملک کی رویت دوسرے کسی ملک کیلئے معتبر نہیں ہوگی خواہ وہ ایک دوسرے کے قریب ہوں یا دور۔ لحاظہ اگربھارت کے شہر امرتسر میں رویت ثابت ہوتی ہے تو پاکستان کے کسی شہر میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اگرچہ امرتسرکا لاہور سے فاصلہ صرف ۵۳ کیلو میٹر ہے مگر چونکہ ملک علیحدہ ہے لحاظہ رویت اپنی اپنی۔
۳۔ ایک شہر اپنے قریب والے دوسرے شہر کی رویت قبول کرے گا لیکن دور والے شہر کی نہیں کرے گا (کیا اس صورت میں ایک ملک کی شرط لگائی جائے گی یا نہیں؟ قرب کی مسافت کیا ہوگی؟)۔
۴۔ جن شہروں کا مطلع آپس میں متفق ہے وہ ایک دوسرے کی رویت قبول کرسکتے ہیں لیکن جن کا مطلع مختلف ہے وہ ایک دوسرے کی رویت قبول نہیں کر سکتے۔
اگر قائلینِ اعتبارِ اختلافِ مطالع ان میں سے کسی ایک صورت پر متفق ہو جائیں تو اس مسئلے پر مزید کلام کیا جا سکتا ہے۔
السلام علیکم
جہاں رویت ھلال کمیٹی والے اعلان کرتے ہیں کہ آج سحری ہو گی اور کل عید ہو گی اس اعلان کے مطابق ہی عمل ہو گا۔
چاند مکہ مکرمہ سے پہلے دوسرے ممالک میں نظر آتا ھے مگراحتراماًابتدا سعودی عرب میں رویت ھلال کا اعلان ہونے کے بعد ہی دوسرے دن ان ممالک میں روزہ کی ابتدا کی جاتی ھے کیونکہ ان کا وقت گزر جاتا ھے اور اسے دوسرے دن ہی پکڑا جا سکتا ھے پھر بھی ان ممالک میں اس وجہ سے ایک گروپ سعودی عرب کے اعلان کے ساتھ ہی اپنے روزہ کی ابتدا کرتے ہیں اور باقی دوسرے دن جس وجہ سے عید بھی دو ہوتی ہیں ایک وہ جنہوں نے سعودی اعلان کے ساتھ روزہ کی ابتدا کی ہوتی ھے اور دوسری عید جنہوں نے سعودی عرب کے اعلان کے بعد دوسرے دن ابتدا کی ہوتی ھے۔ ان ممالک میں اس اختلاف کی وجہ سے عید کم شرمندگی زیادہ ھے۔
اس مرتبہ سعودی عرب کا روزہ کا اعلان مشکوک نکلا روزہ کا اعلان ایک دن پہلے ہی کر دیا اور اس وجہ سے 28 روزہ پر عید کرنے کا پروگرام تھا جس وجہ سے اسی دن رویت ھلال والے چاند دیکھنے بیٹھ گئے تھے مگر شدید مزاحمت کی وجہ سے 28 پر بات نہیں بنی جس وجہ سے انہیں 29 روزہ کرنے پڑے یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ اخبارات میں اس پر بہت کچھ شائع ہو چکا ھے۔ ایسے ایرر سعودی ھلال کمیٹی والوں سے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔
تمام عرب ممالک میں صرف ایک سلطنت آف عمان جو چاند دیکھ کر اعلان کرتا ھے وہ سعودی اعلان کے ساتھ روزہ یا عید نہیں کرتے۔
والسلام