• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلہ اور اسلاف امت کا طریقہ کار

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
[FONT=Helvetica, Arial, sans-serif]حافظ أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني فتح الباری,میں آپ وسیلے کی حدیث حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کو سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں.

حضرت عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے واقعے سے یہ نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ اہل خیر اور اہل بیت نبی صلّی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے.

اور اس کے علاوہ اس واقعے سے حضرت عبّاس رضی الله تعالی عنہ کی فضیلت بیان کرنا، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کا حضرت عبّاس رضی الله تعالی عنہ
کی تواضع کرنا اور ان کے مقام و مرتبہ کو پہچاننا ہے ..


فتح الباری شرح صحیح بخاری ج ٢ ص ٥٧٧
وَقَدْ تَقَدَّمَ مِنْ رِوَايَةِ الْإِسْمَاعِيلِيِّ رَفْعُ حَدِيثِ أَنَسٍ الْمَذْكُورِ فِي قِصَّةِ عُمَرَ وَالْعَبَّاسِ وَكَذَلِكَ أخرجه بن حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُورِ وَيُسْتَفَادُ مِنْ قِصَّةِ الْعَبَّاسِ اسْتِحْبَابُ الِاسْتِشْفَاعِ بِأَهْلِ الْخَيْرِ وَالصَّلَاحِ وَأَهْلِ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وَفِيهِ فَضْلُ الْعَبَّاسِ وَفَضْلُ عُمَرَ لِتَوَاضُعِهِ للْعَبَّاس ومعرفته بِحقِّهِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 352 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 399 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 497 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية

یہ ہے جناب ابن حجر العسقلانی کی عبارت، اور اس عبارت میں کہیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی اور کی موت کے بعد اس سے توسل کے جائز ہونے کا ذکر نہیں!

اور آپ نے غالباً صحیح بخاری کی اس حدیث کو نظر انداز کردیا جس کی شرح میں ابن ابن حجر العسقلانی کا یہ کلام ہے، حدیث ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا ، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اورکہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطاکرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں ، ۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی ۔
‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ ذِكْرِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ )

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ

ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
صحيح البخاري: کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ (بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تجھ سے توسل کیا کرتے تھے، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جو حیات تھے ، ان کے ذریعے توسل کیا!
اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ توسل ان سے دعا کروانے کا ہے!

ابن حجر العسقلانی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل کرنے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کرنے کے لئے اسی فتح الباری میں حدیث رقم کی ہے:

وَأَمَّا حَدِيثُ أَنَسٍ عَنْ عُمَرَ فَأَشَارَ بِهِ أَيْضًا إِلَى مَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ وَهُوَ عِنْدَ الْإِسْمَاعِيلِيِّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنِ الْأَنْصَارِيِّ بِإِسْنَادِ الْبُخَارِيِّ إِلَى أَنَسٍ قَالَ كَانُوا إِذَا قَحَطُوا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَوْا بِهِ فَيَسْتَسْقِي لَهُمْ فَيُسْقَوْنَ فَلَمَّا كَانَ فِي إِمَارَةِ عُمَرَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 339 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية
لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کیا جاتا تھا، اور یہی درست ہے!
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

وَقَدْ تَقَدَّمَ مِنْ رِوَايَةِ الْإِسْمَاعِيلِيِّ رَفْعُ حَدِيثِ أَنَسٍ الْمَذْكُورِ فِي قِصَّةِ عُمَرَ وَالْعَبَّاسِ وَكَذَلِكَ أخرجه بن حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُورِ وَيُسْتَفَادُ مِنْ قِصَّةِ الْعَبَّاسِ اسْتِحْبَابُ الِاسْتِشْفَاعِ بِأَهْلِ الْخَيْرِ وَالصَّلَاحِ وَأَهْلِ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وَفِيهِ فَضْلُ الْعَبَّاسِ وَفَضْلُ عُمَرَ لِتَوَاضُعِهِ للْعَبَّاس ومعرفته بِحقِّهِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 352 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 399 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 497 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية

یہ ہے جناب ابن حجر العسقلانی کی عبارت، اور اس عبارت میں کہیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی اور کی موت کے بعد اس سے توسل کے جائز ہونے کا ذکر نہیں!

اور آپ نے غالباً صحیح بخاری کی اس حدیث کو نظر انداز کردیا جس کی شرح میں ابن ابن حجر العسقلانی کا یہ کلام ہے، حدیث ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا ، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اورکہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطاکرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں ، ۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی ۔
‌صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ ذِكْرِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ )

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ

ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
صحيح البخاري: کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ (بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تجھ سے توسل کیا کرتے تھے، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جو حیات تھے ، ان کے ذریعے توسل کیا!
اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ توسل ان سے دعا کروانے کا ہے!

ابن حجر العسقلانی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل کرنے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کرنے کے لئے اسی فتح الباری میں حدیث رقم کی ہے:

وَأَمَّا حَدِيثُ أَنَسٍ عَنْ عُمَرَ فَأَشَارَ بِهِ أَيْضًا إِلَى مَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ وَهُوَ عِنْدَ الْإِسْمَاعِيلِيِّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنِ الْأَنْصَارِيِّ بِإِسْنَادِ الْبُخَارِيِّ إِلَى أَنَسٍ قَالَ كَانُوا إِذَا قَحَطُوا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَوْا بِهِ فَيَسْتَسْقِي لَهُمْ فَيُسْقَوْنَ فَلَمَّا كَانَ فِي إِمَارَةِ عُمَرَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 339 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية
لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کیا جاتا تھا، اور یہی درست ہے!
محترم ان روایات میں کہیں بھی وصال کے بعد توسل کی نفی نہیں ہے۔
اور
ابن تیمیہ
کے علاوہ کسی امام کا حوالہ بھی نھیں دیا۔؟؟
اور عنوان رکھا "

"اسلاف امت کا طریقہ کار"
اور اگر ایک کا قول وفعل ہی اسلاف امت کا طریقہ کار تو امام ابن حبان کا عمل کیوں قبول نہیں؟؟
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-امام-ابن-حبان-رحہ-قبر-والوں-کے-وسیلے-سے-دعا-مانگنے-کے-قائل-تھے؟.29529/[/FONT]
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
امام مرداوی نے فرمایا،

يَجُوز التوسُّل بالرجل الصالح ، على الصحيح من المَذْهَب .
وقيل يُسْتَحب قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ لِلْمَرُّوذِيِّ : يَتَوَسَّلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دُعَائِهِ وَجَزَمَ بِهِ فِي الْمُسْتَوْعِبِ وَغَيْرِهِ.



الإنصاف (٢ : ٤٥٦)
imam ahmad.jpg
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ان روایات میں کہیں بھی وصال کے بعد توسل کی نفی نہیں ہے۔
بغور مطالعہ فرمائیں، نفی کرنے والے الفاظ کو ملون بھی کیا گیا ہے!
فتح الباری کا ابن حجر العسقلانی کے حوالہ سے جو بات آپ نے کی تھی! اس کا معاملہ ختم ہوا!
بجائے اس کہ اس پر اقرار کرتے ، کہ ہاں آپ کا مدعا ابن حجر العسقلانی کے پیش کئے گئے فتح الباری کے حوالہ سے ثابت نہیں ہوتا ، بلکہ فتح الباری میں اسی باب میں آپ کے مدعا کی نفی ہوتی ہے،
آپ نے ابن حبان اور مرداوی کی بات شروع کردی!
پہلے آپ فتح الباری ک۔فتح الباری کے حوالہ کو اپنے مؤقف کی دلیل نہ ہونے، بلکہ اس کے برخلاف ہونا تو تسلیم فرمائیں!
باقی ابن حبان اور مرداوی کی بات بھی کریں گے!
اور اگر ایک کا قول وفعل ہی اسلاف امت کا طریقہ کار تو امام ابن حبان کا عمل کیوں قبول نہیں؟؟
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-امام-ابن-حبان-رحہ-قبر-والوں-کے-وسیلے-سے-دعا-مانگنے-کے-قائل-تھے؟.29529/[/FONT]
چلیں تھریڈ کا جواب تھریڈ سے ہی دے دیتے ہیں؛
امام ابن حبان رحمہ اللہ اور قبر علی بن موسی الرضا سے استمداد؟ بشکریہ شیخ @کفایت اللہ

تقی الدین سبکی اور مرداوی کے حوالہ سے جواب کے لئے ایک دو روز انتظار کریں، میرا دوسرا کمپیوٹر گیراج سے لاکر سیٹ کرنا ہے، اس میں اس حوالہ سے لکھی تحریر ہے!
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بغور مطالعہ فرمائیں، نفی کرنے والے الفاظ کو ملون بھی کیا گیا ہے!
فتح الباری کا ابن حجر العسقلانی کے حوالہ سے جو بات آپ نے کی تھی! اس کا معاملہ ختم ہوا!
بجائے اس کہ اس پر اقرار کرتے ، کہ ہاں آپ کا مدعا ابن حجر العسقلانی کے پیش کئے گئے فتح الباری کے حوالہ سے ثابت نہیں ہوتا ، بلکہ فتح الباری میں اسی باب میں آپ کے مدعا کی نفی ہوتی ہے،
آپ نے ابن حبان اور مرداوی کی بات شروع کردی!
پہلے آپ فتح الباری ک۔فتح الباری کے حوالہ کو اپنے مؤقف کی دلیل نہ ہونے، بلکہ اس کے برخلاف ہونا تو تسلیم فرمائیں!
باقی ابن حبان اور مرداوی کی بات بھی کریں گے!

چلیں تھریڈ کا جواب تھریڈ سے ہی دے دیتے ہیں؛
امام ابن حبان رحمہ اللہ اور قبر علی بن موسی الرضا سے استمداد؟ بشکریہ شیخ @کفایت اللہ

تقی الدین سبکی اور مرداوی کے حوالہ سے جواب کے لئے ایک دو روز انتظار کریں، میرا دوسرا کمپیوٹر گیراج سے لاکر سیٹ کرنا ہے، اس میں اس حوالہ سے لکھی تحریر ہے!
لگتا ہے آپ نے میری بات کو غور سے نہیں پڑھا۔۔

محترم ان روایات میں کہیں بھی وصال کے بعد توسل کی نفی نہیں ہے۔

اس سے تو بس یہی پتہ چلتا ہے کہ اہل خیر اور اہل بیت نبی صلّی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے. اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔

"پہلے آپ فتح الباری ک۔فتح الباری کے حوالہ کو اپنے مؤقف کی دلیل نہ ہونے"
میں کب کہا کہ یہ میرے موقف کی دلیل ہے؟؟

بلکہ اس کے برخلاف ہونا تو تسلیم فرمائیں!
کہاں ہمارے خلاف کہا؟؟
وضاحت کر دیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
جی، اس طرح گفتگو کریں گے تو گفتگو مفید ہو گی، آپ کے لئے بھی میرے لئے بھی، اور قارئین کے لئے بھی!
ان شاءاللہ ! اس پر تفصیل سے تحریر کرتا ہوں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
لگتا ہے آپ نے میری بات کو غور سے نہیں پڑھا۔۔

محترم ان روایات میں کہیں بھی وصال کے بعد توسل کی نفی نہیں ہے۔
اس سے تو بس یہی پتہ چلتا ہے کہ اہل خیر اور اہل بیت نبی صلّی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے. اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔

"پہلے آپ فتح الباری ک۔فتح الباری کے حوالہ کو اپنے مؤقف کی دلیل نہ ہونے"
میں کب کہا کہ یہ میرے موقف کی دلیل ہے؟؟

بلکہ اس کے برخلاف ہونا تو تسلیم فرمائیں!
کہاں ہمارے خلاف کہا؟؟
وضاحت کر دیں
محترم -

احادیث میں اگر کسی چیز کی ممانعت نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ متعلقاً جائز یا مستحب ہے - احادیث نبوی میں چرس، افیون، ہیروئن وغیرہ کی بھی ممانعت موجود نہیں تو کیا پھر ان کو جائز یا مستحب سمجھا جائے ؟؟ - مغرب کی نماز چار فرض پڑھنے کی بھی ممانعت احادیث نبوی اور آثار صحابہ سے ثابت نہیں- تو کیا مغرب کی نماز میں چار فرض پڑھے جا سکتے ہیں ؟؟

عقیدہ توحید تو دین اسلام کی اساس ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی بعثت سے قبل اہل عرب بھی الله کی ذات و صفات کو مانتے تھے- الله رب العزت کا فرمان ہے کہ :

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ سوره الزخرف ٤٣
اور اگر آپ ان (مشرکوں) سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے الله نے- پھر یہ کہاں بہکے جا رہے ہیں-

مزید فرمایا کہ :
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ سوره الزمر ٣
جنہوں نے الله رب العالمین کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں (کہتے) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں الله سے قریب کر دیں- بے شک الله ان کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے-

ان آیات مبارکہ سے تو صاف ظاہر ہے کہ اہل عرب الله رب العزت کی ذات و صفات کو اچھی طرح جانتے اور مانتے تھے لیکن صرف اس بنا پرمشرک قرار پاے کہ اپنے باطل وسیلوں سے چمٹے ہوے تھے -

انہی کے لئے الله قران میں فرماتا ہے کہ :
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ سوره یونس ١٨
اور الله کے سوا اس چیز کی پرستش کرتے ہیں جونہ انہیں نقصان پہنچا سکے اورنہ انہیں نفع دے سکے اور کہتے ہیں کہ یہ الله کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہیں- کہہ دو کیا تم الله کو بتلاتے ہو جو اسے آسمانوں اور زمین میں معلوم نہیں وہ پاک ہے اوران لوگو ں کے شرک سے بلند ہے-

ویسے بھی الله کے نبی اور آپ کے اصحاب کے افعال سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پاک ہستیاں مشکل وقت میں فوت شدگان کا وسیلہ جائز نہیں سمجھتے تھیں ورنہ کوئی ایک آدھ مثال صحیح روایات میں ضرور مجود ہوتی- لیکن کہیں بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں فوت شدہ انسان کو اپنی دعا میں وسیلہ بنایا گیا ہو -

اس لئے آپ کا یہ کہنا "روایات میں کہیں بھی وصال کے بعد توسل کی نفی نہیں ہے" باطل ہے

الله ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرے (آمین)-
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ویسے تو تقی الدین سبکی کے حوالہ سے ایک تھریڈ کی طرف منتقل کرکے آپ کو یہ بات بتلادی گئی تھی، کہ تقی الدین سبکی کی بات ہمارے نزدیک معتبر نہیں!
اب میں آپ کو خاص اس عبارت کے معتبر نہ ہونے کا بیان کرتا ہوں:
آپ نے جو حوالہ پیش کیا میں اسے ذرا تفصیل سے پیش کرتا ہوں:

إعلم: أنه يجوز، ويحسن التوسل، والاستغاثة، والتشفع بالنبي صلى الله عليه وآله وسلم إلى ربه سبحانه وتعالى. وجواز ذلك وحسنه من الأمور المعلومة لكل ذي دين، المعروفة من فعل الأنبياء والمرسلين، وسير السلف الصالحين، والعلماء والعوام من المسلمين. ولم ينكر أحد ذلك من أهل الأديان، ولا سمع به في زمن من الأزمان، حتى جاء ابن تيمية؛ فتكلم في ذلك بكلام يلبس فيه على الضعفاء الأغمار، وابتدع ما لم يسبق إليه في سائر الأعصار.
آنحضور کو وسیلہ بنانے اور آنحضور سے مدد حاصل کرنے اور آنحضور سے شفاعت چاہنے کے بیان میں
یاد رکھو آنحضور کو وسیلہ بنانا اور آنحضور سے مدد اور شفاعت چاہنا جائز ہی نہیں بلکہ امرمستحسن ہے۔ اِس کا جائز اور مستحسن ہونا ہر دین دار کے لئے ایک بدیہی امر ہے جو انبیاء، رسولوں اور سلفِ صالحین اور علماء سے ثابت ہے اور کسی مذہب والے نے اِن باتوں کا انکار نہیں کیا اور نہ کسی زمانہ میں اِن چیزوں کی بُرائی کی بات کہی گئی۔ حتیٰ کہ ابن تیمیّہ پیدا ہوئے اور اِن چیزوں کا اُنھوں نے انکار شروع کردیا اور ایسی باتیں کہیں جن سے ایک بھولا بھالا مسلمان دھوکے میں پڑ جائے اور ایک ایسی نئی بات کہنی شروع کردی جو اب تک کسی نے نہ کہی تھی ۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه357 شفاء السقام في زيارة خير الأنام صلى الله عليه وسلم - تقي الدين السبكي – دار لكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 110 زیارت خیر الانام ترجمہ شفاء السقام – مترجم قاضی سجاد حسین – شاہ ابوالخیر اکاڈیمی، دہلی
تقی الدین سبکی کا یہ دعوی کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قبل کسی نے بھی اس توسل کا انکار نہیں کیا، یہ دعوی ہی باطل ہے، ہم اس کا بطلان آگے ان شاء اللہ ثبوت کے ، اور وہ بھی فقہائے حنفیہ سے پیش کریں گے!
تقی الدین سبکی اس باب میں فرماتے ہیں:

ولذلك أدخلنا الاستغاثة في هذا الكتاب، لما تعرض إليها مع الزيارة، وحسبك أن إنكار ابن تيمية للاستغاثة والتوسل قول لم يقله عالم قبله، وصار بين أهل الإسلام مثلة،
ہم نے اِس کتاب میں شفاعت کی بحث اِس لئے کی ہے کہ ابن تیمیّہ نے زیارتِ قبر النبیّ کے انکار کے ساتھ شفاعت اور استعانت کا بھی انکار کیا ہے۔ ابنِ تیمیّہ کے اس فعل کی برائی اِسی سے سمجھ لیجئے کہ اِس طرح کی بات اِس سے پہلے کسی عالم نے نہیں کہی تھی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 357 شفاء السقام في زيارة خير الأنام صلى الله عليه وسلم - تقي الدين السبكي – دار لكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 111 زیارت خیر الانام ترجمہ شفاء السقام – مترجم قاضی سجاد حسین – شاہ ابوالخیر اکاڈیمی، دہلی
تقی الدین سبکی ایک بار پھر ابن تیمیہ کے مؤقف کو غلط باور کروانے کے لئے اپنی سب سے بڑی دلیل یہ قرار دیتے ہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے قبل کسی نے یہ مؤقف اختیار نہیں کیا!

اب دیکھئے کہ تقی الدین سبکی کس توسل کا اثبات کرنا چاہتے ہیں:

أقول: إن التوسل بالنبي صلى الله عليه وآله وسلم جائز في كل حال، قبل خلقه، وبعد خلقه، في مدة حياته في الدنيا، وبعد موته، في مدة البرزخ، وبعد البعث في عرصات القيامة والجنة، وهو على ثلاثة أنواع:
النوع الأول: أن يتوسل به، بمعنى: أن طالب الحاجة يسأل الله تعالى به، أو بجاهه، أو ببركته، فيجوز ذلك في الأحوال الثلاثة، وقد ورد في كل منها خبر صحيح.

میں کہتا ہوں کہ آنحضور سے توسّل ہر حال میں جائز ہے حضور کی پیدائش سے قبل بھی اور پیدائش کے بعد بھی۔ حضور کی دنیاوی زندگی میں بھی اور بعدالموت بھی، دنیا میں بھی اور حشر کے میدان، اور جنّت میں بھی۔
توسّل کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم توسّل کی یہ ہے کہ صاحبِ حاجت آنحضور کے وسیلہ سے آنحضور کے مرتبہ کے طفیل اور آنحضور کی برکت کے طفیل اللہ سے اپنی حاجت طلب کرے، یہ بہر حالت جائز ہے خواہ اُس کا وقوع آنحضور کی پیدائش سے پہلے ہوا ہو یا آنحضور کی حیات طیّبہ میں یا آنحضور کی وفات کے بعد، ہر حالت میں اِس کے جواز پر صحیح احادیث وارد ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 358 شفاء السقام في زيارة خير الأنام صلى الله عليه وسلم - تقي الدين السبكي – دار لكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 111 زیارت خیر الانام ترجمہ شفاء السقام – مترجم قاضی سجاد حسین – شاہ ابوالخیر اکاڈیمی، دہلی

ویسے ضمناً ایک سوال پیدا ہوتا ہے، کہ آیا مسلک بریلویہ نبی صلی اللہ علیہ کی پر موت اور نبی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی برزخی زندگی کے قائل ہیں بھی؟
خیر تقی الدین سبکی یہاں دعوی کرتے ہیں کہ توسل کی ان تمام اقسام کا جواز صحیح احادیث میں وارد ہے۔ اب اس دعوی کی کیا حقیقت ہے، یہ تقی الدین سبکی کی پیش کردہ حدیث کی حقیقت واضح کرنے پر واضح ہو جائے گی، ان شاءاللہ!


أما الحالة الأولى قبل خلقه: فيدل على ذلك، آثار عن الأنبياء الماضين صلوات الله عليهم وسلامه، اقتصرنا منها على ما تبين لنا صحته، وهو ما رواه الحاكم أبو عبد الله ابن البيع في (المستدرك على الصحيحين) أو أحدهما قال:
حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل، ثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق ابن إبراهيم الحنظلي، ثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري، ثنا إسماعيل بن مسلمة، أنا عبد الرحمان بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن جده، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال:
قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: (لما اقترف آدم عليه السلام الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي.

فقال الله عزّ وجل: يا آدم، وكيف عرفت محمداً ولم أخلقه؟
قال: يا رب لأنك لما خلقتني بيدك، ونفخت في من روحك، رفعت رأسي، فرأيتُ على قوائم العرش مكتوباً: (لا إله إلا الله، محمد رسول الله)، فعرفت أنك لم تضف إلى اسمك؛ إلا أحب الخلق إليك.
فقال الله عزّ وجل: صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إلي؛ إذ سألتني بحقه فقد غفرت لك، ولولا محمد ما خلقتك).
قال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمان بن زيد بن أسلم في هذا الكتاب.

ورواه البيهقي أيضا في (دلائل النبوة)، وقال: تفرد به عبد الرحمن.
وذكره الطبراني وزاد فيه: (وهو آخر الأنبياء من ذريتك).
وذكر الحاكم مع هذا الحديث أيضا: عن علي بن حماد العدل، ثنا هارون ابن العباس الهاشمي، ثنا جندل بن والق، ثنا عمرو بن أوس الأنصاري، ثنا سعيد ابن أبي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس قال:
(أوحى الله إلى عيسى عليه السلام: يا عيسى، آمن بمحمد؛ ومر من أدركه من أمتك أن يؤمنوا به، فلولا محمد ما خلقت آدم، ولولاه ما خلقت الجنة والنار، ولقد خلقت العرش على الماء فاضطرب، فكتبت عليه لا إله إلا الله فسكن).
قال الحاكم: هذا حديث حسن صحيح الإسناد، ولم يخرجاه، انتهى ما قاله الحاكم.
والحديث المذكور لم يقف عليه ابن تيمية بهذا الإسناد، ولأبلغه أن الحاكم صححه. فإنه قال - أعني ابن تيمية -: (أما ما ذكره في قصة آدم من توسله، فليس له أصل، ولا نقله أحد عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم بإسناد يصلح الاعتماد عليه، ولا الاعتبار، ولا الاستشهاد).
ثم ادعى ابن تيمية أنه كذب، وأطال الكلام في ذلك جدا، بما لا حاصل تحته بالوهم والتخرص، ولو بلغه أن الحاكم صححه لما قال ذلك، أو لتعرض للجواب عنه. وكأني به إن بلغه بعد ذلك؛ يطعن في (عبد الرحمان بن زيد بن أسلم) راوي الحديث.
ونحن نقول: قد اعتمدنا في تصحيحه على الحاكم، وأيضا عبد الرحمان بن زيد بن أسلم، لا يبلغ في الضعف إلى الحد الذي ادعاه، وكيف يحل لمسلم أن يتجاسر على منع هذا الأمر العظيم الذي لا يرده عقل ولا شرع، وقد ورد فيه هذا الحديث؟
وسنزيد هذا المعنى صحة وتثبيتا بعد استيفاء الأقسام.
وأما ما ورد من توسل نوح، وإبراهيم عليهما السلام، وغيرهما من الأنبياء، فذكره المفسرون، واكتفينا عنه بهذا الحديث، لجودته، وتصحيح الحاكم له.

پہلی حالت یہ ہے کہ آنحضور کی پیدائش سے قبل دعاء میں آنحضور کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ پہلے انبیاء نے آنحضور کی پیدائش سے پہلے آنحضور کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے حاجت طلب کی ہے۔ ہم اُن احادیث میں سے پہلے اِس حدیث کو بیان کرتے ہیں جس کو حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور اِس پر صحت کا حکم لگایا ہے۔ پوری سند کے ساتھ حضرتِ عمر سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ''حضرت آدم نے جب اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو دربارِ خداوندی میں عرض کیا اے خدا میں بحقِّ محمد درخواست کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے۔ اِ س پر حضرتِ حقّ جلّ مجدہ نے فرمایا۔ اے آدم تم محمدّ کو کیسے جان گئے میں تو ابھی اِن کو پیدا بھی نہیں کیا۔ اُنھوں نے عرض کیا اے بارِ الہٰا جب آپ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح مجھ میں پُھونکی۔ میں نے اپنا سر اُٹھایا تو میں نے دیکھا عرش کے پایوں پر لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ لکھا ہوا ہے تو میں سمجھا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ جس شخصیت کا نام لکھا ہے وہ یقیناً تمام مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اِس پر خا نے فرمایا۔ آدم تم نے صحیح کہا بیشک محمّد تمام مخلوق میں میرے لئے محبوب تر ہیں اور جبکہ تم نے اُن کے حق کا واسطہ دے کر مغفرت چاہی ہے تو میں نے تمہاری مغفرت کردی اور اگر محمّد نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔'' حاکم نے اِس حدیث کے ساتھ ابنِ عبّاس کی اِس روایت کو بھی نقل کیا ہے کہ اُنھوں نے فرمایا۔ ''حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بذریعہ وحی فرمایا کہ اے عیسیٰ محمّد پر ایمان لاؤ اور اپنی امّت سے کہو جو اُن کو پائے اُن پر ایمان لائے۔ اگر محمّد نہ ہوتے تو میں آدم کو نہ پیدا کرتا اور وہ نہ ہوتے تو میں جنّت اور جہنّم کو بھی نہ پیدا کرتا۔ میں نے عرش کو پانی پر پیدا کیا وہ ہلنے لگا۔ اس پر میں نے لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللّٰهُ لکھا تو ٹھہر گیا۔'' ابن تیمیہ نے حضرت آدم کے توسل کی روایت کے بارے میں کہا ہے کہ یہ بے اصل ہے اور کسی صحیح سند کے ساتھ منقول نہیں ہے اور محض اپنے خیال اور وہم سے بہت سی باتیں کہہ کر اُس کو جھوٹ قرار دیا ہے۔
یہ اُن کی ساری باتیں اِس بات پر مبنی ہیں کہ اُن کے علم میں یہ نہ آیا کہ حاکم نے اِس روایت کو صحیح سند کے ساتھ نقل کرکے اِس پر صحت کا حکم لگایا ہے۔ اگر اُن کے علم میں حاکم کی تصحیح آجاتی تو کبھی یہ بے جا جرأت نہ کرتے۔ ہوسکتا ہے اگر اُن کو حاکم کی اِس روایت کا علم ہوتا تو وہ عبداللہ ابن زید ابن اسلم جو اِس حدیث کے راوی ہیں اُن پر طعن کرتے۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جاتا کہ اُن میں ضُعف ہے تو وہ ضُعف اِس درجہ کا تو نہیں ہے کہ اَس کی بنیاد پر اِس روایت کو ساقط الاعتبار قرار دے کر ایسے مسئلہ کا انکار کردیا جائے جو عقلاً اور شرعاً ہر طرح سے جائز ہے۔
حضرت نوح اور حضرت ابراہیم نے بھی آنحضور کی ذات سے توسل کیا ہے جس کو مفسرین نے ذکر کیا ہے لیکن ہم نے حاکم کی روایت اور اُس پر حاکم کی تصحیح کی وجہ سے اِسی روایت پر اکتفا کیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 358 - 363 شفاء السقام في زيارة خير الأنام صلى الله عليه وسلم - تقي الدين السبكي – دار لكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 111 – 112 زیارت خیر الانام ترجمہ شفاء السقام – مترجم قاضی سجاد حسین – شاہ ابوالخیر اکاڈیمی، دہلی

ایک ضمنی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا بریلوی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی مخلوق باور کرواتے ہیں، جبکہ اس روایت میں تو اس کے مخالف ثابت ہوتا ہے، کہ آدم علیہ السلام کو جب معافی دی گئی اس وقت تک محمد صلی اللہ علیہ کو تخلیق نہیں کیا گیا تھا۔
ہم بھی تقی الدین سبکی کی طرح اسی رویت کا بطلان بیان کرنے پر اکتفا کریں گے!
تقی الدین سبکی نے اس حدیث کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صرف امام حاکم کی تصحیح کا سہارا لیا ہے،اوہ یہ سہارا یہاں اس قدر کمزور ہے کہ اس پر تو ''ڈوبتے کو تنکہ کا سہارا '' کا محاورہ بھی درست نہ ہوگا!
تقی الدین سبکی نے اس روایت کے لئے
دلائل النبوة للبيهقي کا حوالہ بھی دیا ہے ، اور اتنا لکھا ہے :
ورواه البيهقي أيضا في (دلائل النبوة)، وقال: تفرد به عبد الرحمن.
حالانکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے صرف اتنا نہیں کہا کہ اس روایت میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم کا تفرد ہے، بلکہ وہ اس سے زیادہ بیان کرتے ہیں، جسے تقی الدین سبکی نے ذکرنہیں کیا، کیونکہ اگر وہ اسے ذکر کرتے تو تقی الدین سبکی کا بطلان ظاہر ہو جاتا؛ وہ بات ہم یہاں نقل کردیتے ہیں پوری روایت کے ساتھ:
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، إِمْلَاءً وَقِرَاءَةً، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْعَدْلُ إِمْلَاءً، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَارِثِ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُسْلِمٍ الْفِهْرِيُّ، بِمِصْرَ، قَالَ أَبُو الْحَسَنِ هَذَا مِنْ رَهْطِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْلَمَةَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ، قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا آدَمُ وَكَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ قَالَ: لِأَنَّكَ يَا رَبِّ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِكَ وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوحِكِ رَفَعَتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ عَلَى قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَكْتُوبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّكَ لَمْ تُضِفْ إِلَى اسْمِكَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْكَ، فَقَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ، إِنَّهُ لَأُحِبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ وَإِذْ سَأَلْتَنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ " تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ مِنَ هَذَا الْوَجْهِ عَنْهُ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَاللهُ أَعْلَمُ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 488 – 489 جلد 05 دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة - أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ) - دار الكتب العلمية، دار الريان للتراث

امام بیہقی رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن زید بن اسلم کو صراحتاً ضعیف قرار دے کر اس روایت کی تضعیف کردی ہے، جبکہ تقی الدین سبکی کا مدعا ہے کہ '' اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جاتا کہ اُن میں ضُعف ہے تو وہ ضُعف اِس درجہ کا تو نہیں ہے کہ اَس کی بنیاد پر اِس روایت کو ساقط الاعتبار قرار دے'' تقی الدین سبکی کو یہ معلوم نہ ہوا کہ امام حاکم کے شاگرد ، امام بیہقی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پیدائش سے بھی قبل اس راوی کو اسی راویت کے بیان کرنے کے بعد ضعیف قرار دیتے ہیں، اور یاد رہے کہ امام بیہقی نے یہ نہیں کہا کہ عبد الرحمن بن زید بن اسلم میں ''ضعف'' ہے بلکہ اسے ''ضعیف قرار دیا ہے! امام بیہقی کیا امام بیہقی سے قبل بھی ائمہ اس راوی پر شدید جرح کرتے ہوئے ناقابل اعتبار اور مردود قرار دے چکے ہیں! اور تو اور خود امام حاکم نے بھی عبد الرحمن بن زید بن اسلم کو متہم قرار دیا ہے! امام حاکم کا کلام آگے آئے گا ۔ ان شاء الله!

یاد رہے کہ امام بیہقی امام حاکم کے شاگرد ہیں ، امام حاکم کی وفات 405 ہجری کی ہے اور امام بیہقی کی وفات 458 ہجری کی، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وفات 728 ہجری کی ہے!
لہذا اس روایت کو تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ کی پیدائش سے بھی صدیوں قبل امام بیہقی ضعیف قرار دے چکے ہیں!
عبد الرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق دیگر ائمہ حدیث کے اقوال کو تو بعد میں دکھتے ہیں، پہلے اسی نکتہ کو مدنظر رکھیں کہ امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح کے متعلق خود بریلویہ کا کیا مؤقف ہے، اور اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اس روایت کو امام بیہقی ضعیف قرار دیتے ہیں؛ دیکھیں مسلک بریلویہ کا اس میں کیا مؤقف ہے:

سابعاً طرفہ تر یہ کہ شاہ صاحب نے تصانیف حاکم کو بھی طبقہ رابعہ میں گنا حالانکہ بلاشُبہ مستدرک حاکم کی اکثر احادیث اعلٰی درجہ کی صحاح وحسان ہیں بلکہ اُس میں صدہا حدیثیں برشرطِ بخاری ومسلم صحیح ہیں قطع نظر اس کہ تصانیف شاہ صاحب میں کتب حاکم سے کتنے اسناد ہیں اور بڑے شاہ صاحب کی ازالۃ الخفاء وقرۃ العینین تو مستدرک سے تو وہ تودہ احادیث نہ صرف فضائل بلکہ خود احکام میں مذکورکمالایخفی علی من طالعھما(جیسے کہ اس پر مخفی نہیں جس نے ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ت) لطیف ترید ہے کہ خود ہی بستان المحدثین میں امام الشان ابوعبداللہ ذہبی سے نقل فرماتے ہیں :

انصاف آنست کہ درمستدرک قدرے بسیار شرط ایں ہردو بزرگ یافتہ میشودیا بشرط یکے از زینہا بلکہ ظن غالب آنست کہ بقدر نصف کتاب ازیں قبیل باشد، وبقدر ربع کتاب از آں جنس است کہ بظاہرعہ اسناد او صحیح ست لیکن بشرط ایں ہردونیست وبقدر ربع باقی واہیات ومناکیر بلکہ بعضے موضوعات نیزہست چنانچہ من دراختصار آں کتاب کہ مشہور بتلخیص ذہبی است خبردار کردہ ام ۱؎انتہی ۔

انصاف یہ ہے کہ مستدرک میں اکثر احادیث ان دونوں بزرگوں (بخاری ومسلم) یا ان میں سے کسی ایک کے شرائط پر ہیں بلکہ ظنِ غالب یہ ہے کہ تقریباً نصف کتاب اس قبیل سے ہے اور تقریباً اس کا چوتھائی ایسا ہے کہ بظاہر ان کی اسناد صحیح ہیں لیکن ان دو (بخاری ومسلم) کی شرائط پر نہیں اور باقی چوتھائی واہیات اور مناکیر بلکہ بعض موضوعات بھی ہیں اس لئے میں نے اس کے خلاصہ جوکہ تلخیص ذہبی سے مشہور ہے، میں اس بارے میں خبردار کیا ہے، انتہٰی (ت)


عہ: لفظ بظاہر درآنچہ امام خاتم الحفاظ درتدریب ازذہبی آور دنیست لفظش ہمین است کہ فیہ جملۃ وافرۃ علی شرطھما وجملۃ کثیرۃ علی شرط احدھما، لعل مجموع ذلک نحونصف الکتاب وفیہ نحو الربع مماصح سندہ، وفیہ بعض الشیئ، اولہ علۃ ومابقی وھونحو الربع فھو مناکیر اوواھیات لایصح وفی بعض ذلک موضوعات ۲؎ ۱۲ منہ (م)

لفظ ''بظاہر'' وہ جو امام خاتم الحفاظ نے تدریب میں امام ذہبی سے نقل کیا ہے اس میں نہیں ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اس میں بہت سی احادیث شیخین کی شرائط پر ہیں اور بہت سی ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر ہیں، شاید اس کا مجموعہ تقریباً آدھی کتاب ہو اور اس میں چوتھائی ایسی احادیث ہیں جن کی سند صحیح ہے، بعض ایسی ہیں جن میں کوئی شیئ یا علت ہے اور جو بقیہ چوتھائی ہے وہ مناکیر یا واہیات ہیں جو صحیح نہیں، اور بعض اس میں موضوع بھی ہیں ۱۲ منہ (ت)

(۱؎ بستان المحدثین مع اردو ترجمہ مستدرک میں احادیث موضوع کا اندراج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۱۳)
(۲؎ تدریب الرادی عدد احادیث مسلم وتساہل الحاکم فی المستدرک دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور ۱/ ۱۰۶)

تنبیہ : بحمداللہ ان بیانات سے واضح ہوگیا کہ اس طبقہ والوں کی احادیث متروکہ سلف کو جمع کرنے کے معنی اسی قدر ہیں کہ جن احادیث کے ایراد سے اُنہوں نے احتراز کیا انہوں نے درج کیں نہ یہ کہ انہوں نے جو کچھ لکھا سب متروک سلف ہے مجرد عدم ذکر کو اس معنے پر محمول کرنا کہ ناقص سمجھ کر بالقصد ترک کیا ہے محض جہالت ورنہ افراد بخاری متروکات مسلم ہوں اور افراد مسلم متروکات بخاری اور ہر کتاب متاخر کی وہ حدیث کو تصانیف سابقہ میں نہ پائی گئی تمام سلف کی متروک مانی جائے، مصنفین میں کسی کو دعوائے استیعاب نہ تھا۔ امام بخاری کو ایک لاکھ احادیث صحیحہ حفظ تھیں صحیح بخاری میں کُل چار ہزار بلکہ اس سے بھی کم ہیں

کمابینہ شیخ الاسلام فی فتح الباری شرح صحیح البخاری (جیسا کہ شیخ الاسلام نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں بیان کیا ہے۔ ت)

ثامناً شاہ صاحب اس کلام امام ذہبی کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
ولہذا علمائے حدیث قراردادہ اندکہ برمستدرک حاکم اعتماد نباید کردمگر از دیدن تلخیص ذہبی ۱؎۔اسی لئے محدثین نے یہ ضابطہ مقرر کردیا ہے کہ مستدرک حاکم پر ذہبی کی تلخیص دیکھنے کے بعد اعتماد کیا جائے گا۔ (ت)


(۱؎ بستان المحدثین مع اردوترجمہ مستدرک میں احادیث موضوعہ کا اندراج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۱۳)

اور اس سے پہلے لکھا: ذہبی گفتہ است کہ حلال نیست کسے راکہ برتصحیح حاکم غرہ شودتا وقتیکہ تعقبات وتلخیصات مرانہ بیند ونیز گفتہ است احادیث بسیار درمستدرک کہ برشرط صحت نیست بلکہ بعضے از احادیچ موضوعہ نیز ست کہ تمام مستدرک بآنہا معیوب گشتہ ۲؎۔

امام ذہبی نے کہا ہے کہ امام حاکم کی تصحیح پر کوئی کفایت نہ کرے تاوقتیکہ اس پر میری تعقبات وتلخیصات کا مطالعہ نہ کرلے، اور یہ بھی کہا ہے کہ بہت سی احادیث مستدرک میں شرطِ صحت پر موجود نہیں بلکہ بعض اس میں موضوعات بھی ہیں جس کی وجہ سے تمام مستدرک معیوب ہوگئی ہے۔ (ت)


(۲؎بستان المحدثین مع اردوترجمہ مستدرک میں احادیث موضوعہ کا اندراج مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۰۹)

ان عبارات سے ظاہر ہوا کہ وجہ بے اعتماد یہی اختلاط صحیح وضعیف ہے اگرچہ اکثر عہ صحیح ہی ہوں جیسے مستدرک میں تین ربع کتاب کی قدر احادیث صحیحہ ہیں نہ کہ سب کا ضعیف ہونا چہ جائے ضعف شدید یا بطلان محض کہ کوئی جاہل بھی اس کا اعاد نہ کرے گا اور اس بے اعتمادی کے یہی معنی اگر خود لیاقت نقد رکھتا ہو آپ پرکھے ورنہ کلام ناقدین کی طرف رجوع کرے بے اس کے حجت نہ سمجھ لے ۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 545 - 547 جلد 05 العطايا النبوية في الفتاوی الرضویة معروف بہ فتاوی رضویہ - احمد رضا بریلوی - رضا فاؤنڈیشن، جامع نظامیہ رضویہ۔لاہور
احمد رضا خان بریلوی صاحب نے بھی بڑی صراحت کے ساتھ امام حاکم کو متساہل قرار دیتے ہوئے، ان کی تصحیح کو معتبر قرار نہیں دیا!
اور احمد رضا خان بریلوی سے قبل بھی احناف کا بھی یہی مؤقف رہا ہے، اس کا ایک ثبوت ملاحظہ فرمائیں:

وَتَصْحِيحُ الْحَاكِمِ لَا يُعْتَدُّ بِهِ، سِيَّمَا فِي هَذَا الْمَوْضِعِ، فَقَدْ عُرِفَ تَسَاهُلُهُ فِي ذَلِكَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 344 جلد 01 نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي - جمال الدين أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي (المتوفى: 762هـ) - مؤسسة الريان للطباعة والنشر، بيروت - دار القبلة للثقافة الإسلامية، جدة

یہی نہیں بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے قبل امام النووی بھی امام حاکم کو متساہل قرار دے چکے ہیں:
واعتنى الحاكم بضبط الزائد عليهما، وهو متساهل، فما صححه ولم نجد فيه لغيره من المعتمدين تصحيحاً ولا تضعيفاً حكمنا بأنه حسن إلا أن يظهر فيه علة توجب ضعفه، ويقاربه في حكمه صحيح أبي حاتم بن حبان، والله أعلم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 26 – 27 - التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت

اس کی شرح میں امام سیوطی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن حجر العسقلانی کا قول بھی نقل کیا ہے:
وَاعْتَنَى الْحَافِظُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ (الْحَاكِمُ) فِي الْمُسْتَدْرَكِ (بِضَبْطِ الزَّائِدِ عَلَيْهِمَا) مِمَّا هُوَ عَلَى شَرْطِهِمَا أَوْ شَرْطِ أَحَدِهِمَا، أَوْ صَحِيحٌ، وَإِنْ لَمْ يُوجَدْ شَرْطُ أَحَدِهِمَا، مُعَبِّرًا عَنِ الْأَوَّلِ بِقَوْلِهِ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، أَوْ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ أَوْ مُسْلِمٍ، وَعَنِ الثَّانِي بِقَوْلِهِ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَرُبَّمَا أَوْرَدَ فِيهِ مَا هُوَ فِي الصَّحِيحَيْنِ، وَرُبَّمَا أَوْرَدَ فِيهِ مَا لَمْ يَصِحَّ عِنْدَهُ مُنَبِّهًا عَلَى ذَلِكَ، (وَهُوَ مُتَسَاهِلٌ) فِي التَّصْحِيحِ.

قَالَ الْمُصَنِّفُ فِي شَرْحِ الْمُهَذَّبِ: اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى أَنَّ تِلْمِيذَهُ الْبَيْهَقِيَّ أَشَدُّ تَحَرِّيًا مِنْهُ، وَقَدْ لَخَّصَ الذَّهَبِيُّ مُسْتَدْرَكَهُ، وَتَعَقَّبَ كَثِيرًا مِنْهُ بِالضَّعْفِ وَالنَّكَارَةِ، وَجَمَعَ جُزْءًا فِيهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي فِيهِ وَهِيَ مَوْضُوعَةٌ، فَذَكَرَ نَحْوَ مِائَةِ حَدِيثٍ.
وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْمَالِينِيُّ: طَالَعْتُ الْمُسْتَدْرَكَ الَّذِي صَنَّفَهُ الْحَاكِمُ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ، فَلَمْ أَرَ فِيهِ حَدِيثًا عَلَى شَرْطِهِمَا. قَالَ الذَّهَبِيُّ: وَهَذَا إِسْرَافٌ وَغُلُوٌّ مِنَ الْمَالِينِيِّ، وَإِلَّا فَفِيهِ جُمْلَةٌ وَافِرَةٌ عَلَى شَرْطِهِمَا، وَجُمْلَةٌ كَثِيرَةٌ عَلَى شَرْطِ أَحَدِهِمَا، لَعَلَّ مَجْمُوعَ ذَلِكَ نَحْوُ نِصْفِ الْكِتَابِ، وَفِيهِ نَحْوُ الرُّبْعِ مِمَّا صَحَّ سَنَدُهُ، وَفِيهِ بَعْضُ الشَّيْءِ، أَوْ لَهُ عِلَّةٌ، وَمَا بَقِيَ وَهُوَ نَحْوُ الرُّبْعِ فَهُوَ مَنَاكِيرُ أَوْ وَاهِيَاتٌ لَا تَصِحُّ، وَفِي بَعْضِ ذَلِكَ مَوْضُوعَاتٌ.
قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَإِنَّمَا وَقَعَ لِلْحَاكِمِ التَّسَاهُلُ لِأَنَّهُ سَوَّدَ الْكِتَابَ لِيُنَقِّحَهُ فَأَعْجَلَتْهُ الْمَنِيَّةُ،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 112 – 113 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - مكتبة الكوثر، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 49 – 50 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 143 – 145 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - دار العاصمة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 180 – 182 تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي - عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) - دار ابن الجوزي، الدمام


اس روایت میں امام حاکم کا تساہل تو خود ان کے کلام سے ثابت ہے کہ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق امام حاکم خود فرماتے ہیں :
عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة لَا يخفى على من تأملها من أهل الصَّنْعَة أَن الْحمل فِيهَا عَلَيْهِ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 154 المدخل إلى الصحيح - أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ) - مؤسسة الرسالة، بيروت
لہٰذا امام حاکم کی اس روایت کی تصحیح کا باطل ہونا ثابت ہو جاتا ہے!

اب آتے ہیں تقی الدین سبکی کے اس دعوی کی طرف کہ ؛

''اِس کا جائز اور مستحسن ہونا ہر دین دار کے لئے ایک بدیہی امر ہے جو انبیاء، رسولوں اور سلفِ صالحین اور علماء سے ثابت ہے اور کسی مذہب والے نے اِن باتوں کا انکار نہیں کیا اور نہ کسی زمانہ میں اِن چیزوں کی بُرائی کی بات کہی گئی۔ حتیٰ کہ ابن تیمیّہ پیدا ہوئے اور اِن چیزوں کا اُنھوں نے انکار شروع کردیا''
اور مزید فرماتے ہیں کہ؛
'' ابنِ تیمیّہ کے اس فعل کی برائی اِسی سے سمجھ لیجئے کہ اِس طرح کی بات اِس سے پہلے کسی عالم نے نہیں کہی تھی۔''
اپنی دلیل کے لئے فرماتے ہیں:
''لیکن ہم نے حاکم کی روایت اور اُس پر حاکم کی تصحیح کی وجہ سے اِسی روایت پر اکتفا کیا ہے۔''
ہم اس حدیث کا کچھ حصہ دوبارہ نقل کرتے ہیں، پوری حدیث اوپر دیکھی جا سکتی ہے؛
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: (لما اقترف آدم عليه السلام الخطيئة قال: يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي.
حضرتِ عمر سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ''حضرت آدم نے جب اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو دربارِ خداوندی میں عرض کیا اے خدا میں بحقِّ محمد درخواست کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے۔
ویسے ایک ضمی سوال یہاں پیدا ہوتا ہے، کہ کیا مسلک بریلویہ اس بات کا قائل ہے کہ آدم علیہ السلام اور انبیاء سے خطاء ہوسکتی ہیں؟
تقی الدین سبکی کا دعوی ہے کہ اس طرح کے وسیلہ کا انکار شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے قبل کسی نے نہیں کیا!
آئیے اب ہم آپ کو تقی الدین سبکی کے دعوی کا بطلان ثابت کرتے ہیں، اور وہ بھی فقہ حنفیہ سے؛


ويكره أن يقول الرجل في دعائه: أسألك بمعقد العز من عرشك ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 235 جلد 04 بداية المبتدي في الفقه على مذهب الإمام أبي حنيفة النعمان - علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) - بمطبعة الفتوح، بمصر
اور معلوم ہونا چاہئے کہ فقہ حنفی میں جب ''مکروہ'' مطلق آئے تو مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے!

علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين کی وفات 593 ہجری کی ہے جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پیدائش 661 ہجری کی ہے، یعنی کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی پیدائش سے قبل صاحب الهداية نے اس وسیلہ کو مکروہ ، تحریمی یعنی ناجائز قرار دیا ہے۔
أن يقول الرجل في دعائه: أسألك بمعقد العز من عرشك" وللمسألة عبارتان: هذه، ومقعد العز، ولا ريب في كراهة الثانية؛ لأنه من القعود، وكذا الأولى؛ لأنه يوهم تعلق عزه بالعرش وهو محدث والله تعالى بجميع صفاته قديم. وعن أبي يوسف رحمه الله أنه لا بأس به. وبه أخذ الفقيه أبو الليث رحمه الله لأنه مأثور عن النبي عليه الصلاة والسلام. روي أنه كان من دعائه "اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك؛ ومنتهى الرحمة من كتابك، وباسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة" ولكنا نقول: هذا خبر واحد فكان الاحتياط في الامتناع "ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك"؛ لأنه لا حق للمخلوق على الخالق.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 265 جلد 07 الهداية شرح بداية المبتدي مع شرح العلامة عبد الحي اللكنوي - علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، باكستان
یہ عبارت فقہ حنفی کی معتبر کتاب الهداية کی ہے۔
اور یہ بات انہوں نے اپنے اجتہاد سے نہیں کہی، بلکہ یہ تو ائمہ احناف سے منقول فتاوی ہیں!


مسائل الدعاء
روي
عن أبي حنيفة رضي الله عنه أنه قال: يكره للرجل أن يقول في دعائه: اللهم إني أسألك بمقعد العز من عرشك يروى هذا اللفظ بروايتين: بمقعد العز من عرشك عن العقد، وبمقعد العز من عرشك من القعود، فبالرواية الثانية لا شك في الكراهة؛ لأنه وصف الله تعالى بما لا يليق به، وهو القعود والتمكن على العرش، وهو قول المجسمة. وأما في اللفظ الأول؛ فلأنه يوهم تعلق عزه بالعرش، وأن عزه حادث إذا تعلق بالحادث، والله تعالى متعالٍ عن صفة الحدث، وعن أبي يوسف أنه لا يكره؛ قال الفقيه أبو الليث رحمه الله: وبه نأخذ، فقد جاء في الحديث عن رسول الله عليه السلام أنه كان يقول: «اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك، واسمك الأعظم وجدك الأعلى، وكلماتك التامة».
ويكره أيضاً: أن يقول الرجل في دعائه: اللهم إني أسألك بحق أنبيائك ورسلك؛ لأنه لا حق لأحد من المخلوقين على الله تعالى. وفي «المنتقى»: عن أبي يوسف عن أبي حنيفة: لا ينبغي لأحد أن يدعو الله إلا به. ويكره أن يقول: أدعوك بمقعد العز من عرشك قال ثمة: والدعاء المأذون فيه، والمأثور به ما استفيد من قوله تعالى: {ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها} (الأعراف: 10)، وإنما كره بمقعد العز من عرشك؛ لأنه لا يدعوه به.
قال ثمة أيضاً: وقال أبو حنيفة رضي الله عنه: لا يصلي أحد على أحد إلا على النبي، وهو قول محمد رحمه الله، وقال أبو يوسف رحمه الله: لا بأس به، وإن ذكر غير النبي على أثر النبي في الصلاة، فلا بأس به بلا خلاف، ويكره الدعاء عند ختم القرآن في شهر رمضان، وعند ختم القرآن بجماعة؛ لأن هذا لم ينقل عن النبي عليه السلام وأصحابه؛ قال الفقيه أبو القاسم الصفار: لولا أن أهل هذه البلدة قالوا: إنه يمنعنا من الدعاء، وإلا لمنعتهم عنه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 312 – 312 جلد 05 المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه - أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (المتوفى: 616هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
لیں جناب ! شیخ الاسلام کی پیدائش سے پہلے کی کتاب میں، اور وہ بھی فقہ حنفیہ کی کتاب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی موجود ہے!
اب آپ پر منحصر ہے، کہ آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فتوی کو درست مانتے ہوئے، تقی الدین سبکی کے مؤقف کا انکار کریں ، یا چاہیں تو آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کو غلط قرار دیتے ہوئے تقی الدین سبکی کے مؤقف کو اختیار کریں!
بہرصورت تقی الدین سبکی کے دعوی کا بطلان ثابت کیا جا چکا ہے۔

یوں تو فقہ حنفیہ کی متعدد کتب سے یہ حوالے پیش کیئے جاسکتے ہیں، فی الوقت ہم اس پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
وحید الزماں صاحب کو صرف متروک کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا اس پہ فتویٰ واضح کریں۔ہم توسل کو مان کر مشرک تو یہ مومن کیسے۔اور اس کی تعریف کرنے والے علماء پر بھی حکم واضح کیا جائے

 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وحید الزماں صاحب کو صرف متروک کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا اس پہ فتویٰ واضح کریں۔ہم توسل کو مان کر مشرک تو یہ مومن کیسے۔اور اس کی تعریف کرنے والے علماء پر بھی حکم واضح کیا جائے
قادری رانا بھائی! آپ اب تک وحید الزمان کے معاملہ میں الجھے ہوئے ہیں؛
ان اسکین صفحات سے کیا بیان کرنا چاہتے ہیں؟ ذرا تحریر فرمائیں!
وحید الزمان کا معاملہ تو ہم بیان کرچکے ہیں!
قادری رانا بھائی! کیا آپ امام صاحب پر فتوی واضح کریں گے؟
مسائل الدعاء
روي
عن أبي حنيفة رضي الله عنه أنه قال: يكره للرجل أن يقول في دعائه: اللهم إني أسألك بمقعد العز من عرشك يروى هذا اللفظ بروايتين: بمقعد العز من عرشك عن العقد، وبمقعد العز من عرشك من القعود، فبالرواية الثانية لا شك في الكراهة؛ لأنه وصف الله تعالى بما لا يليق به، وهو القعود والتمكن على العرش، وهو قول المجسمة. وأما في اللفظ الأول؛ فلأنه يوهم تعلق عزه بالعرش، وأن عزه حادث إذا تعلق بالحادث، والله تعالى متعالٍ عن صفة الحدث، وعن أبي يوسف أنه لا يكره؛ قال الفقيه أبو الليث رحمه الله: وبه نأخذ، فقد جاء في الحديث عن رسول الله عليه السلام أنه كان يقول: «اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك، واسمك الأعظم وجدك الأعلى، وكلماتك التامة».
ويكره أيضاً: أن يقول الرجل في دعائه: اللهم إني أسألك بحق أنبيائك ورسلك؛ لأنه لا حق لأحد من المخلوقين على الله تعالى. وفي «المنتقى»: عن أبي يوسف عن أبي حنيفة: لا ينبغي لأحد أن يدعو الله إلا به. ويكره أن يقول: أدعوك بمقعد العز من عرشك قال ثمة: والدعاء المأذون فيه، والمأثور به ما استفيد من قوله تعالى: {ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها} (الأعراف: 10)، وإنما كره بمقعد العز من عرشك؛ لأنه لا يدعوه به.
قال ثمة أيضاً: وقال أبو حنيفة رضي الله عنه: لا يصلي أحد على أحد إلا على النبي، وهو قول محمد رحمه الله، وقال أبو يوسف رحمه الله: لا بأس به، وإن ذكر غير النبي على أثر النبي في الصلاة، فلا بأس به بلا خلاف، ويكره الدعاء عند ختم القرآن في شهر رمضان، وعند ختم القرآن بجماعة؛ لأن هذا لم ينقل عن النبي عليه السلام وأصحابه؛ قال الفقيه أبو القاسم الصفار: لولا أن أهل هذه البلدة قالوا: إنه يمنعنا من الدعاء، وإلا لمنعتهم عنه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 312 – 312 جلد 05 المحيط البرهاني في الفقه النعماني فقه الإمام أبي حنيفة رضي الله عنه - أبو المعالي برهان الدين محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (المتوفى: 616هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
 
Last edited:
Top