- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
[FONT=Helvetica, Arial, sans-serif]حافظ أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني فتح الباری,میں آپ وسیلے کی حدیث حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کو سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں.
حضرت عبّاس رضی الله تعالی عنہ کے واقعے سے یہ نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ اہل خیر اور اہل بیت نبی صلّی الله علیہ وسلم کے وسیلہ سے شفاعت طلب کرنا مستحب ہے.
اور اس کے علاوہ اس واقعے سے حضرت عبّاس رضی الله تعالی عنہ کی فضیلت بیان کرنا، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کا حضرت عبّاس رضی الله تعالی عنہ
کی تواضع کرنا اور ان کے مقام و مرتبہ کو پہچاننا ہے ..
فتح الباری شرح صحیح بخاری ج ٢ ص ٥٧٧
وَقَدْ تَقَدَّمَ مِنْ رِوَايَةِ الْإِسْمَاعِيلِيِّ رَفْعُ حَدِيثِ أَنَسٍ الْمَذْكُورِ فِي قِصَّةِ عُمَرَ وَالْعَبَّاسِ وَكَذَلِكَ أخرجه بن حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى بِالْإِسْنَادِ الْمَذْكُورِ وَيُسْتَفَادُ مِنْ قِصَّةِ الْعَبَّاسِ اسْتِحْبَابُ الِاسْتِشْفَاعِ بِأَهْلِ الْخَيْرِ وَالصَّلَاحِ وَأَهْلِ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وَفِيهِ فَضْلُ الْعَبَّاسِ وَفَضْلُ عُمَرَ لِتَوَاضُعِهِ للْعَبَّاس ومعرفته بِحقِّهِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 352 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 399 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 497 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية
یہ ہے جناب ابن حجر العسقلانی کی عبارت، اور اس عبارت میں کہیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی اور کی موت کے بعد اس سے توسل کے جائز ہونے کا ذکر نہیں!
اور آپ نے غالباً صحیح بخاری کی اس حدیث کو نظر انداز کردیا جس کی شرح میں ابن ابن حجر العسقلانی کا یہ کلام ہے، حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا ، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اورکہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطاکرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں ، ۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی ۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ ذِكْرِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ )
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
صحيح البخاري: کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ (بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تجھ سے توسل کیا کرتے تھے، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جو حیات تھے ، ان کے ذریعے توسل کیا!
اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ توسل ان سے دعا کروانے کا ہے!
ابن حجر العسقلانی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل کرنے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کرنے کے لئے اسی فتح الباری میں حدیث رقم کی ہے:
وَأَمَّا حَدِيثُ أَنَسٍ عَنْ عُمَرَ فَأَشَارَ بِهِ أَيْضًا إِلَى مَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ وَهُوَ عِنْدَ الْإِسْمَاعِيلِيِّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنِ الْأَنْصَارِيِّ بِإِسْنَادِ الْبُخَارِيِّ إِلَى أَنَسٍ قَالَ كَانُوا إِذَا قَحَطُوا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَوْا بِهِ فَيَسْتَسْقِي لَهُمْ فَيُسْقَوْنَ فَلَمَّا كَانَ فِي إِمَارَةِ عُمَرَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 339 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية
لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کیا جاتا تھا، اور یہی درست ہے!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 352 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 577 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 399 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 497 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية
یہ ہے جناب ابن حجر العسقلانی کی عبارت، اور اس عبارت میں کہیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی اور کی موت کے بعد اس سے توسل کے جائز ہونے کا ذکر نہیں!
اور آپ نے غالباً صحیح بخاری کی اس حدیث کو نظر انداز کردیا جس کی شرح میں ابن ابن حجر العسقلانی کا یہ کلام ہے، حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا ، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا ، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اورکہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطاکرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں ، ۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما ۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی ۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ (بَابُ ذِكْرِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ )
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ
ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
صحيح البخاري: کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ (بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تجھ سے توسل کیا کرتے تھے، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل نہیں کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جو حیات تھے ، ان کے ذریعے توسل کیا!
اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ توسل ان سے دعا کروانے کا ہے!
ابن حجر العسقلانی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل کرنے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کرنے کے لئے اسی فتح الباری میں حدیث رقم کی ہے:
وَأَمَّا حَدِيثُ أَنَسٍ عَنْ عُمَرَ فَأَشَارَ بِهِ أَيْضًا إِلَى مَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ وَهُوَ عِنْدَ الْإِسْمَاعِيلِيِّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُثَنَّى عَنِ الْأَنْصَارِيِّ بِإِسْنَادِ الْبُخَارِيِّ إِلَى أَنَسٍ قَالَ كَانُوا إِذَا قَحَطُوا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَوْا بِهِ فَيَسْتَسْقِي لَهُمْ فَيُسْقَوْنَ فَلَمَّا كَانَ فِي إِمَارَةِ عُمَرَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 339 جلد 03 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 جلد 02 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية
لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے توسل صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کیا جاتا تھا، اور یہی درست ہے!