قادری رانا
رکن
- شمولیت
- جون 20، 2014
- پیغامات
- 676
- ری ایکشن اسکور
- 55
- پوائنٹ
- 93
اور سماع کی تصریح امام زہبی نے کی ہے۔اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]
آپ کے زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں
مدلس کی غیرمصرح بالسماع روایت مرسل کی طرح ہے(علمی مقالات ج 4 ص 161)
ملاں علی قاری لکھتے ہیں
امام ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین کا اجماع ہے (شرح نخبۃ الفکر ص 112)
امام جلال الدین سیوطی نے بھی یہی لکھا ہے (تدریب الراوی ج 1 ص 198)
امام نووی نے لکھا کہ امام مالک ،امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مرسل سے استدلال کی جائے گا۔اور امام شافعی نے کہا کہ جب کوئی روایت مرسل کو تقویت کرنے والی مل جائے تو اس سے استدلال کیا جائے گا۔(مقدمہ صحیح مسلم ص 17)
گفتگو مذکورہ کا خلاصہ یہ کہ بالفرض محال اگر اعمش کے سماع کی تصریح نہ بھی ہو تو یہ حدیث مرسل ہے اور مرسل قابل حجت ہے۔جہاں تک امام شافعی کی شرط تو کیونکہ البدایۃ والنہایہ میں بھی دو رواتیںموجود ہیں لہذا ثابت ہوا یہ حدیث حجت ہے۔
ان کے بارے میں عرض ہے کہ محڈثین نے ایک خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہو سکتا ہے نہ سنی ہو یا یقینا نہ سنی ہو ۔تو یہ خاص حکم ہے اس کو مطلقا لاگو نہیں کیا جا سکتا۔اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوتا کہ اس حدیث میں بھی سماع نہ ہو۔پھر ان سب کا جواب تو امام زہبی کا قول ہے جس میں آپ نےسماع کی تصریح کی ہے۔۱)امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)
۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:
[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]۳) اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:
[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]
اگلی بات جو باتیں طالب نور صاحب نے نقل کی ہیں ان سب کو نقل کرنے کے بعد زبیر صاحب فرماتے ہیں
جس طرح بعض اصول و قواعد میں تخصیصات ثابت ہو جانے کے بعد عام کا حکم عموم پر جاری رہتا ہے اور خاص کو عموم سے باہر نکال لیا جاتا ہے ۔(مقالات ج 4 ص 164)
لہذا امام زہبی کے قول نے تخصیص ثابت کی جس سے سماع ثابت ہوتا ہے۔