• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اب یہ خواب میں جو کچھ آیا اس کو مالک الدار نے کیسے مشاہدہ کرلیا ۔۔؟؟
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جناب والا بات کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں
میں اپنے بچوں سے کہتا ہوں کہ ممتاز قادری نے خواب میں حضور کو دیکھا۔
اب سنیئے میں نے ممتاز قادری کے خواب کا مشاہدہ نہیں کیا۔بلکہ اس نے اپنا خواب علما کے رو برور بیان کیا اور علما نے کو اس کو بقول کیا اس بات کے قطع نظر کے وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔تو ان کا قبول کرنا اس بات کی دلیل بن جائے گا کہ ان کے نزدیک خواب میں زیارت ممکن ہے ورنہ وہ کہہ دیتے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔
یہی مسلہ مالک دار والی روایت کا اس رجل مجہول نے اپنا سارا وقعہ اور خواب حضرت عمر کے سامنے بیان کیا۔کیونکہ حضرت مالک دار خازن عمر تھے اس لیے یہ واقعہ ان کے مشاہدے میں بھی آیا۔
پھر علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ بلال بن حارث المزنی تھے۔پھر بھی قطعا نظر اس بات کے وہ کون تھی کیسے تھے ان کی باتکو حضرت عمر کا قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر کے نزدیک بعد از وصال توسل جائز تھا۔ورنہ اس کو سزا دیتے۔
اور اب بھی بات سمجھ نہ آئے تو میں نہ مانوں کا کوئی علاج نہیں۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جب تک اعرابی کو قابل اعتماد ثابت نہیں کر لیا
اللہ کے بندے اعرابی نے اگر جھوٹ بھی بولا ہو تو بھی اس میں فرق نہیں آتا کیونکہ اگر استغاثہ بالقبر مصطفی نا جائز ہوتا یا شرک ہوتا تو حضرت عمر اس کو تجدید نکاح کا مشورہ دیتے۔اس کو مشرک قرار دیتے نہ کہ اس کی بات کو قبول کرتے
اور یہ بات آپ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دلیل عرابی نہیں حضرت عمر ہیں۔اگر ان کی صحت میں کلام ہے جیسا کہ لکھا کہ ان کی سمجھ معتبر نہیں(شمع محمدی)تو اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وسیلے کو موضوع پر اہل بدعت اس روایت سے بہت زیادہ استدلال کرتے ہیں اور اپنے مئوقف کی بنیاد اس روایت پر رکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں محترم انس نضر بھائی کی پوسٹ میں باوضاحت بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر تفصیل سے لکھا تھا اور اہل بدعت کی جانب سے اس کو ضعیف کہے جانے پر پیش کیے گئے شبہات کا بھی جواب دیا تھا۔ فائدے کے لئے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ یاد رہے کہ مضمون میں پیش کئے گئے اکثر حوالہ جات کی تحقیق شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی مختلف کتب و مضامین سے لی گئی ہے۔
مالک الدار کی روایت
مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نبی ﷺ کی قبر پر حاضر ہوتا ہے اور اپنا حال بیان کرتا ہے تو خواب میں نبیﷺ اس کو سیدنا عمر ؓکے پاس جانے کا فرماتے ہیں۔ تفصیل دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(ج۶ص۳۵۶ح۳۲۰۰۲)
الجواب:۔
یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔اس روایت کی سند کچھ یوں ہے:
حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار
چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
[الرسالہ:ص۵۳]
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
[فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
[خزائن السنن:ج۱ص۱]
اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے (دیکھئے میزان الاعتدال:ج۲ص۲۲۴، التمہید:ج۱۰ص۲۲۸) جو عن سے روایت کر رہا ہے۔
عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:
’’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵]
جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟
سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر نہیں کیونکہ یہ دوسرے طبقہ کا مدلس ہے حالانکہ یہ بات ہرگز بھی درست نہیں اور ان تمام آئمہ و محدثین کے خلاف ہے جنہوں نے الاعمش کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دے رکھا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مدلسین کے طبقات کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے الاعمش کو طبقات المدلسین (ص۶۷) میں دوسرے درجہ کا مدلس بیان کیا ہے اور پھر خود اس کی عن والی روایت کے صحیح ہونے کا انکار بھی کیا ہے۔( تلخیص الحبیر:ج۳ص۱۹)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک خود بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف ہے چاہے اسے طبقہ ثانیہ کا مدلس کہا جائے۔علاوہ ازیں آئمہ و محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے جواعمش کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیتی ہے۔
چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:
[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]
حافظ ابن عبدالبر ؒ نے فرمایا:
[التمہید:ج۱ص۳۰]​

سلیمان الاعمش کی ابو صالح سے معنعن روایات​

یہ بات تو دلائل سے بالکل واضح اور روشن ہے کہ سلیمان الاعمش مدلس راوی ہیں اور ان کی معنعن روایات ضعیف ہیں ۔ جب ان اصولی دلائل کے سامنے مخالفین بے بس ہو جاتے ہیں تو امام نوویؒ کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]
اس حوالے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابراہیم نخعی، ابو وائل شقیق بن سلمہ اور ابوصالح سے اعمش کی معنعن روایات صحیح ہیں حالانکہ یہ بات اصولِ حدیث اور دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی واضح تصریحات کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱)امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]
امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)
۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:
[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]​
۳) اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:
[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]
۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:
[علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم:ص۱۳۸]
۵)حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:
[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]
۶)اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:
[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]
۷)مشہور محدث بزارؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سندوالی روایت کے بارے میں فرمایا:
[فتح الباری:ج۸ص۴۶۲]
معلوم ہوا کہ دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی طرح محدث بزارؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف و بے اصل ہی ہے چاہے وہ ابی صالح وغیرہ ہی سے کیوں نہ ہو؟ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے محدث بزارؒ کی اس جرح شدہ روایت میں اعمش کے سماع کی تصریح ثابت کر دی لیکن محدث بزارؒ کے اس قاعدے کو غلط نہیں کہا۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک بھی اعمش کی ابی صالح سے معنعن روایت ضعیف ہی ہوتی ہے جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ کر دی جائے۔
ان تمام دلائل سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ جمہور آئمہ و محدثین اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کوبھی ضعیف اور غیر ثابت ہی قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ اور دلائل بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں آئمہ و محدثین نے اعمش کی ابراہیم نخعی اورابو وائل (شقیق بن سلمہ) سے معنعن روایات کو بھی تدلیس اعمش کی وجہ سے ضعیف کہہ رکھا ہے۔معلوم ہوا کہ جمہور آئمہ و محدثین امام نوویؒ کے اس قاعدے کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے کہ اعمش کی ابراہیم نخعی، ابو وائل اور ابو صالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے ۔خود امام نوویؒ بھی اپنے اس قاعدے پر کلی اعتماد نہیں کرتے۔ چنانچہ اعمش کی ابو صالح سے معنعن ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

[شرح صحیح مسلم:ج۱ص۷۲ح۱۰۹]
ان تمام دلائل کے باوجود جو ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کو پیش کرے اس کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو منافق قرار دیا ۔دیکھئے تاریخ یعقوب بن سفیان الفارسی(ج۲ص۷۷۱)
سیدنا حذیفہؓ کو منافقین کے نام نبی ﷺ نے بتا رکھے تھے یہ بات عام طالب علموں کو بھی پتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں اعمش ہیں جو مدلس ہیں اور شقیق (ابو وائل) سے معنعن روایت کر رہے ہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر جو حضرات جمہور محدثین کے خلاف امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کے مطابق اعمش کی ابو وائل یا ابو صالح سے معنعن روایت کو سماع پر محمول کرتے ہوئے صحیح سمجھتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق صحابی رسول سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ پر کیا حکم لگاتے ہیں۔۔۔؟
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عائشہ ؓ نے مشہور صحابی رسول عمرو بن العاصؓ کی شدید تکذیب اور ان پر شدید جرح کی۔ دیکھئے المستدرک حاکم (ج۴ص۱۳ح۶۸۲۲)
ہم تو کہتے ہیں کہ یہ بات نا قابل تسلیم ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی ابو وائل سے معنعن ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مگر جو جمہور محدثین کے خلاف اعمش کی ابو وائل وغیرہ سے روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق سیدنا عمرو بن العاص ؓ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔۔۔؟
چنانچہ خود مخالفین کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی امام نوویؒ کے اس قاعدے کو تسلیم نہیں کرتے اور اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کو ضعیف اور نا قابل حجت ہی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ روایت اعمش کی ابو صالح سے ہی معنعن ہے جس پر جرح کرتے ہوئے عباس رضوی بریلوی لکھتے ہیں:
[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
محدثین کا کسی روایت کو صحیح قرار دینایا اس پر اعتماد کرنا
احمد رضا خان بریلوی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
[ملفوظات،حصہ دوم:ص۲۲۲]
اس سے معلوم ہوا کہ کچھ علماء کا سہواً کسی حدیث کو صحیح قرار دے دینا یا اس پر اعتماد کر لینا اس حدیث کو صحیح نہیں بنا دیتا اگر تحقیق سے وہ حدیث ضعیف ثابت ہو جائے تو اسے غیر ثابت ہی کہا جائے گا۔چنانچہ اگر امام ابن کثیرؒ یا حافظ ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ نے مالک الدار والی روایت کو صحیح قرار بھی دیا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اصول حدیث اور دلائل کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف اور غیر ثابت ہی ہے۔خود حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ ہو جائے ضعیف ہی ہوتی ہے اور یہی جمہور آئمہ و محدثین کا اصول و قاعدہ ہے، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا یہ مالک الدار والی روایت بھی ضعیف ہی ہے۔
بریلویوں کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی ایک جگہ لکھتے ہیں:
[مناظرے ہی مناظرے:ص۲۹۲]
علاوہ ازیں خود بریلوی حضرات کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی کی مشہور کتاب ’’جاء الحق‘‘ سے ایک لمبی فہرست ان روایات کی پیش کی جا سکتی ہے جن کو ایک دو نہیں بلکہ جمہور آئمہ و محدثین نے صحیح قرار دے رکھا ہے مگر بریلوی حکیم الامت ان روایات پر اصول حدیث کے زریعے جرح کرتے ہیں۔ لہٰذا اصول و دلائل کے سامنے بلا دلیل اقوال و آراء پیش کرنا سوائے دھوکہ دہی کے کچھ نہیں۔
صحیحین میں مدلسین کی روایات
یہ بات بالکل واضح ہے کہ مدلسین کی معنعن روایات ضعیف ہی سمجھی جاتی ہیں جب تک سماع کی تصریح نہ مل جائے۔یہ بات خود مخالفین کو بھی تسلیم ہے مگر جب اپنے غلط و مردود عقائد و اعمال پر کو ئی صحیح روایت نہیں ملتی تو الٹے سیدھے بہانے بنانے لگتے ہیں۔ صحیحین یعنی صحیح بخاری و مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات کا بہانہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔
صحیحین میں زیادہ تر مدلسین کی روایات اصول و شواہد میں موجود ہیں۔ ابو محمد عبدالکریم الحلبی اپنی کتاب ’’القدس المعلمیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:
[التبصرۃ و التذکرۃ للعراقی:ج۱ص۱۸۶]
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات سماع کے قائم مقام ہیں اور زیادہ تر علماء کا مئوقف یہی ہے۔
امام نوویؒ لکھتے ہیں:
[تقریب النووی مع تدریب الراوی:ج۱ص۲۳۰]​
یعنی صحیحین کے مدلس راویوں کی عن والی روایات میں سماع کی تصریح یا متابعت صحیحین میں ہی یا دوسری کتب حدیث میں ثابت ہے۔ نیز دیکھئے النکت علی ابن الصلاح للحافط ابن حجر عسقلانی (ج۲ص۶۳۶)
اسی رواایت پر ایک فورم پر کچھ جوابات دیئے گئے ہیں وہ بھی یہاں نقل کر دیتا ہوں تاکہ ان کا بھی جائزہ لیا جا سکے

الشبهة الثانية:

يقول المعترض الناقد: ( أن مالك الدار مجهول ويستندون إلي هذه الأدلة:
ابن أبي حاتم في كتابه "الجرح والتعديل" [ج8/ص: 213]؛ لم ينقلا توثيقاً في ترجمته مالك، عن أي أحد من علماء الجرح والتعديل، مع كثرة إطلاعهما، وقال الحافظ المنذري في "الترغيب والترهيب" [ج2/ص: 29]: ( ومالك الدار لا أعرفه )؛ وأن الحافظ ابن حجر العسقلاني لم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا! )؛ اهـ


الرد:

نقول:
إن الحافظين المنذري وابن أبي حاتم نفيا المعرفة حقيقة شخصية والسيرة الذاتية لمالك فقط، ولم يحكما بالجهالة بالحال والحالة! ..
ونقول:
1) إن مالك الدار رجل ثقة ليس مجهولا لانه لا يتخذه أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه، خازناً الا لأنه: ثقة وأمين؛ وواعي وفطن حتى يتحاشى نقد الفاروق عملاق الإسلام ..

2) ثم إن من عرفه من النقاد كان حجة على من لم يعرف منهم ..
وقد ترجم له الائمة الأعلام والحفاظ في كتبهم تراجم فيها معرفة له، وعدم تعرف ناقد على ترجمته لا تعني جهالة الرواي لأن هناك من ترجم له، كما سنرى ..
1. قال ابن سعدٍ في "الطبقات الكبرى" [ج5/ص: 12]:
( مالك الدار مولى عمر بن الخطاب وروى مالك الدار عن أبي بكر الصديق وعمر رحمهما الله روى عنه أبو صالح السمان وكان معروفا )؛ اهـ
والملاحظ أن ابن سعد لم يطلق على رجل بأنه معروف من غير أن يعقبه بجرحٍ إلا لأنه ثقة عنده! والدليل لى ذلك هذا النموذج:
قول ابن سعد رحمه الله في "الطبقات" [ج6/ص: 236] :
( شريك بن حنبل العبسي روى عن علي بن أبي طالب؛ وكان معروفا قليل الحديث )؛اهـ
ونجد الحافظ العسقلاني في "التقريب" [ج1/ص: 266]، يقول:
( شريك بن حنبل العبسي الكوفي، وقيل ابن شرحبيل ثقة من الثانية )؛ اهـ
وفي غير موضع في الطبقات وكل من لم يعقبه بجرح وذكر انه معروف فهو ثقة عنده وراجع الطبقات لتقف على الكثير من هذه الأمثلة ..

2. الإمام أبو يعلى الخليلي القزويني في كتاب "الإرشاد في معرفة علماء الحديث" [ج1/ص 313]، قال :
( مالك الدار مولى عمر بن الخطاب رضي الله عنه تابعي قدي متفق عليه أثنى عليه التابعون وليس بكثير الرواية روى عن أبي بكر الصديق وعمر )؛ اهـ
وقوله متفق عليه يغني أن مالك الدار معروف وليس مجهولا ..

3. أورده الإمام ابن حبان في "الثقات" [ج5/ص: 384]، فقال:
( مالك بن عياض الدار يروي عن عمر بن الخطاب روى عنه أبو صالح السمان وكان مولى لعمر بن الخطاب أصله من جبلان )؛ اهـ

4. ترجم لمالك الدار البخاري في "تاريخه" [ج7/ص: 304]؛ وهو يصب لصالح مالك لأن البخاري لا يترجم إلا الثقات فيزكيهم أو يسكت عنهم، وإلا ينقدهم ..

5. ترجم له الحافظ ابن حجر في "الإصابة" [ج6/ص: 274]، وذكر أن له إدراكا، أي أنه كان واعيا ولم يكن جاهل أو أحمق أو ساذجا ..

وقال الرازي في "الجرح والتعديل" [ج8/ص:213]:
( مالك بن عياض مولى عمر بن الخطاب روى عن أبى بكر الصديق وعمر بن الخطاب رضي الله عنهما روى عنه. أبو صالح السمان سمعت أبى يقول ذلك )؛ اهـ

وقولهم أن الحافظ ابن حجر العسقلاني لم يذكر فيه جرح وتعديل يرد عليه الحافظ ابن حجر العسقلاني بنفسه! ..
قال الحافظ ابن حجر العسقلاني عن مالك الدار: ( مالك الدار هو مالك بن عياض مولى عمر بن الخطاب ) ذكره الحافظ في المخضرمين؛ وقال: له إدراك )؛ ورد في "الإصابة" لابن حجر [ج3/ص: 484] ..

قال الحافظ في موضع آخر: ( وروى عنه أبو صالح السمان وابناه عون وعبدالله )؛ ورد في "الإصابة" [ج6/ص: 274] ..
وقال أبو عبيدة كما في "الإصابة " [ج3/ص: 484] ..
إذا كان من له إدراك ممن اختلفوا في صحبته: فأثبتها بعضهم، ونفاها آخرون، فمن له إدراك وعامل عند الفاروق، مختلف في صحبته؟! ..
إذا علم ذلك، فقد قال الحافظ ابن حجر في "التلخيص الحبير" [ج1/ص: 74]، عند الكلام على حديث: ( لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه )؛ قال عند الكلام على أسماء بنت سعيد بن زيد بن عمرو ما نصه: ( وأما حالها فقد ذكرت في الصحابة وإن لم يثبت لها صحبة فمثلها لا يسأل عن حالها )؛ اهـ

إذاً قول الحافظ ابن حجر العسقلاني أن مالك الدار له إدراك وكل من له إدراك اختلفوا في صحبته ومن اختلفوا في صحبته فهو ثقة لا يسأل عن حاله ..
ولذلك لا يسأل عن حال مالك الدار لأنه ثقة ولا يحتاج إلى جرح وتعديل وأيضاً أورده الإمام ابن حبان في "الثقات"، وقال الإمام أبو يعلي الخليلي القزويني { متفق عليه } ووثقه الإمام ابن سعد وترجمته عند البخاري والحافظ ابن حجر العسقلاني تدل على ثقته وحاله لا يحتاج إلى بيان في هذه الحالة ..
فكيف يقال أن مالك مجهول وكيف يتغنى البعض بهذا القول بدون حتى التأكد من ذلك لمجرد نصرة الرأي والهوى؟ ..

ولنرى كيف ترفع جهالة المقبول الرواية عند الائمة والحفاظ
رضي الله عن الإمام الحافظ ابن حجر العسقلاني إذ قال "نزهة النظر" [ج1/ص: 135]:
عن المجهول وحكم قبول روايته : ( فإن سمي الراوي وانفرد راوٍ واحد بالرواية عنه فهو مجهول العين كالمبهم ، فلا يقبل حديثه إلا أن يوثقه غير من ينفرد عنه على الأصح وكذا من ينفرد عنه إذا كان متأهلا لذلك)؛ اهـ
ومالك الدار وثقه أكثر من حافظ فماذا يقول التيميون الجدد؟ ..
وروى عنه أكثر من واحد منهم
1. أبو صالح السمان ذكوان الزيات : قال الحافظ في "التقريب" [ج1/ص: 203]: ( ثقة ثبت ) ..
2. عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع المخزومي : قال الحافظ في "التقريب" 1/341]: ( ثقة ) ..
3. وذكرت الرواية في الطبراني [ج20/ص: 33]؛ رواية عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع عن مالك الدار ..
وقولهم بجهل أن الإمام البخاري لم يوثقه! ..
الرد عليهم من مشايخهم
قال الدكتور خالد بن منصور الدريس أحد شيوخ التيمية في كتابه " الحديث الحسن لذاته ولغيره .. دراسة استقرائية نقدية " [ج1/ص: 406 – 415]، ما نصه:
( إذا ترجم البخاري في تاريخه الكبير لراوٍ ولم يذكر فيه جرحًا ، فإنه يكون عنده ممن يحتمل حديثُهُ ، قال الحافظ الحجة أبو الحجاج المزي في آخر ترجمة عبد الكريم بن أبي المخارق : « قال الحافظ أبو محمد عبد الله بن أحمد بن سعيد بن يربوع الإشبيلي : بيّن مسلم جَرحَهُ في صدر كتابه، وأما البخاري فلم يُنبّه من أمره على شيء ، فدل أنه عنده على الاحتمال ، لأنه قد قال في التاريخ : ( كل من لم أبين فيه جُرْحَةً فهو على الاحتمال ، وإذا قلت : فيه نظر ، فلا يحتمل » ؛ ورد في "تهذيب الكمال" للمزي [ج18/ص: 265] ..

وفي موضع آخر قال ابن يربوع في عثمان بن عمر التيمي: «هو على أصل البخاري محتمل» ورد في "تهذيب الكمال" للمزي [ج19/ص: 416] ..
إلي أن قال في نفس المصدر
: ( ولعل في هذه الأمور ما يجعل القلب يركن إلى ثبوت الكلام الذي نقل عن البخاري في بيان منهجه في كتابه التاريخ الكبير )؛ اهـ
ويظهر أن قول البخاري: «ومن لم أبين فيه جُرحةً فهو على الاحتمال» يدخل فيه الثقة ومتوسط الحفظ وكل راوٍ ضُعّف ولم يشتد ضعفه ، ويوضح الأمر أكثر ويفسر مقصوده أنه قد قال : «كل من لا أعرف صحيح حديثه من سقيمه فلا أروي عنه»
فغير المحتمل عنده من يترك هو الرواية عنه ، وكل من تميَّزَ صحيح حديثه من سقيمه فهو يروي عنه ، وهو المحتمل عنده فيما يظهر ليأنتهي .

وهذا الكلام من الدكتور خالد بن منصور معناه انه يعتبر بحديث مالك الدار عند الإمام البخاري قد ذكره البخاري في تاريخه الكبير ولم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً ..وهذا معناه انه يعتبر بحديثه عنده ..

ونقول لو لم يكن هنالك دليل إلا أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه اتخذه خادماً لزالت جهالة الحال لأن عمر رضي الله عنه لا يتخذ خادما إلا ثقة واعي ناضج الذهن وصادق وأمين ..
فالرجل ارتفعت عنه جهالة الحال وجهالة العين بهذا النصوص وهي توثيق عال له؛ اهـ

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جناب والا بات کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں
میں اپنے بچوں سے کہتا ہوں کہ ممتاز قادری نے خواب میں حضور کو دیکھا۔
اب سنیئے میں نے ممتاز قادری کے خواب کا مشاہدہ نہیں کیا۔بلکہ اس نے اپنا خواب علما کے رو برور بیان کیا اور علما نے کو اس کو بقول کیا اس بات کے قطع نظر کے وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔تو ان کا قبول کرنا اس بات کی دلیل بن جائے گا کہ ان کے نزدیک خواب میں زیارت ممکن ہے ورنہ وہ کہہ دیتے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔
چلیں جی آپ کی مثال سے ہی ہم بھی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ، اگر کوئی قادری اپنی طرف سے کہانی گھڑ کر بیان کردے ، کہ مجھے حضور کی زیارت ہوئی ، اس میں انہوں نے مجھے طاہر القادری صاحب کے پاس بھیجا ، میں نے وہاں جاکر ادارہ منہاج میں بھرے جلسے میں قادری صاحب کو یہ واقعہ بیان کیا ،،،، کیا خیال ہے ، یہ آدمی اپنے جھوٹ کو سچ کرنے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ جب قادری صاحب کے جلسے میں کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا تو آپ لوگوں مجھ پر اعتراض کیوں کر رہے ہیں ؟
یہی مسلہ مالک دار والی روایت کا اس رجل مجہول نے اپنا سارا وقعہ اور خواب حضرت عمر کے سامنے بیان کیا۔کیونکہ حضرت مالک دار خازن عمر تھے اس لیے یہ واقعہ ان کے مشاہدے میں بھی آیا۔
یہ آپ کی طرف سے وضاحت ہے ، اس کے لیے واضح دلیل چاہیے کہ اس مجہول نے واقعتا اپنا واقعہ حضر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کیا تھا ، اور خازن عمر اس وقت موجود تھے ، اور حضرت عمر نے اس کی بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا ۔ اگر اس طرح کی کوئی چیز ثابت ہو جائے تو واقعتا بات میں وزن ہے ، لیکن مسئلہ تو انہیں وضاحتوں کے ثبوت کا ہے ۔
پھر علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ بلال بن حارث المزنی تھے۔پھر بھی قطعا نظر اس بات کے وہ کون تھی کیسے تھے ان کی باتکو حضرت عمر کا قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر کے نزدیک بعد از وصال توسل جائز تھا۔ورنہ اس کو سزا دیتے۔
اور اب بھی بات سمجھ نہ آئے تو میں نہ مانوں کا کوئی علاج نہیں۔
حافظ ابن حجر نے نہیں کہا ، بلکہ انہوں نے سیف کا قول بیان کیا ہے ، اور سیف کی یہ حیثیت نہیں کہ اس کی کسی بات پر اعتماد کیا جائے ۔
دوسری بات اگر آپ بلا دلیل یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عمر نے اس کی باتوں کو سنا ، اور ان کو قبول کیا ، اور کوئی سرزنش نہیں کی ، تو آپ کا مخالف بھی اسی طرح کہہ سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سخت سرزنش کی تھی ، اور بارش مانگنے کا وہی طریقہ بتایا تھا ، جس طرح وہ سنت رسول کی پیروی میں خود مانگا اور منگوایا کرتے تھے ۔
جو اعتراض آپ کا مخالف کی بات پر ہے ، وہی اعتراض اپنے دعوے پر بھی سمجھ لیں ۔
اللہ کے بندے اعرابی نے اگر جھوٹ بھی بولا ہو تو بھی اس میں فرق نہیں آتا کیونکہ اگر استغاثہ بالقبر مصطفی نا جائز ہوتا یا شرک ہوتا تو حضرت عمر اس کو تجدید نکاح کا مشورہ دیتے۔اس کو مشرک قرار دیتے نہ کہ اس کی بات کو قبول کرتے
اور یہ بات آپ سمجھنے کی کوشش کریں کہ دلیل عرابی نہیں حضرت عمر ہیں۔
ابتسامہ ۔
اگر استغاثہ بقبر مصطفے جائز ہوتا اور عین توحید ہوتا تو حضرت عمر خود اس نیک عمل سے محروم نہ رہتے ، بلکہ دوسروں کو بھی مشورہ دیتے کہ بارش کے لیے صحراؤں ، میدانوں میں دھکے کھانے کی بجائے قبر رسول پر آکر گھٹنے ٹیکا کرو ۔۔۔ کیا خیال ہے ، حضرت عمر نے ایسا کیا تھا ؟
نہیں تو کیوں ؟ اعرابی والے قصے سے واقف نہیں تھے ، ؟ یا طریقہ پسند نہیں آیا تھا ؟ یا وہ بندہ ان کے نزدیک قابل اعتبار نہیں تھا ؟ یا اللہ کے رسول نے خواب میں آکر حضرت عمر کو سمجھا دیا تھا کہ یہ طریقے صرف ’’ عاشقوں ‘‘ کے لیے ہیں ، عمر تیرے جیسے ( وہابی ) کا اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ۔۔؟؟!
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اگر استغاثہ بقبر مصطفے جائز ہوتا اور عین توحید ہوتا تو حضرت عمر خود اس نیک عمل سے محروم نہ رہتے ، بلکہ دوسروں کو بھی مشورہ دیتے کہ بارش کے لیے صحراؤں ، میدانوں میں دھکے کھانے کی بجائے قبر رسول پر آکر گھٹنے ٹیکا کرو ۔۔۔ کیا خیال ہے ، حضرت عمر نے ایسا کیا تھا ؟
نہیں تو کیوں ؟ اعرابی والے قصے سے واقف نہیں تھے ، ؟ یا طریقہ پسند نہیں آیا تھا ؟ یا وہ بندہ ان کے نزدیک قابل اعتبار نہیں تھا ؟ یا اللہ کے رسول نے خواب میں آکر حضرت عمر کو سمجھا دیا تھا کہ یہ طریقے صرف ’’ عاشقوں ‘‘ کے لیے ہیں ، عمر تیرے جیسے ( وہابی ) کا اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ۔۔؟؟!
اس پر صرف اتناکہوں گا کہ یہ ہے
اظہار بے بسی۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
دوسری بات اگر آپ بلا دلیل یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عمر نے اس کی باتوں کو سنا ، اور ان کو قبول کیا ، اور کوئی سرزنش نہیں کی ، تو آپ کا مخالف بھی اسی طرح کہہ سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سخت سرزنش کی تھی ، اور بارش مانگنے کا وہی طریقہ بتایا تھا ، جس طرح وہ سنت رسول کی پیروی میں خود مانگا اور منگوایا کرتے تھے ۔
ہمارا مخالف تب کہے جب اس روایت میں کچھ اس بات کا ذکر ہو۔روایت میں ہے کہ یہ سن کر حضرت عمر رو پڑے ۔اور کہاکہ میں عاجز ہوں۔
اور جوخواب میں دانائی کا ذکر ہے وہ نماز استسقا پڑھنے کا ہے ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اگر کوئی قادری اپنی طرف سے کہانی گھڑ کر بیان کردے ، کہ مجھے حضور کی زیارت ہوئی
جناب نحث اس سے نہیں کہ اسے ہوئی کہ نہیں ہوئی بحث اس سے ہے کہ خواب میں ہوسکتی ہے کہ نہیں۔
اور ہاں استغاثہ سے مراد توسل ہی ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
اسی رواایت پر ایک فورم پر کچھ جوابات دیئے گئے ہیں وہ بھی یہاں نقل کر دیتا ہوں تاکہ ان کا بھی جائزہ لیا جا سکے

الشبهة الثانية:

يقول المعترض الناقد: ( أن مالك الدار مجهول ويستندون إلي هذه الأدلة:
ابن أبي حاتم في كتابه "الجرح والتعديل" [ج8/ص: 213]؛ لم ينقلا توثيقاً في ترجمته مالك، عن أي أحد من علماء الجرح والتعديل، مع كثرة إطلاعهما، وقال الحافظ المنذري في "الترغيب والترهيب" [ج2/ص: 29]: ( ومالك الدار لا أعرفه )؛ وأن الحافظ ابن حجر العسقلاني لم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا! )؛ اهـ


الرد:

نقول:
إن الحافظين المنذري وابن أبي حاتم نفيا المعرفة حقيقة شخصية والسيرة الذاتية لمالك فقط، ولم يحكما بالجهالة بالحال والحالة! ..
ونقول:
1) إن مالك الدار رجل ثقة ليس مجهولا لانه لا يتخذه أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه، خازناً الا لأنه: ثقة وأمين؛ وواعي وفطن حتى يتحاشى نقد الفاروق عملاق الإسلام ..

2) ثم إن من عرفه من النقاد كان حجة على من لم يعرف منهم ..
وقد ترجم له الائمة الأعلام والحفاظ في كتبهم تراجم فيها معرفة له، وعدم تعرف ناقد على ترجمته لا تعني جهالة الرواي لأن هناك من ترجم له، كما سنرى ..
1. قال ابن سعدٍ في "الطبقات الكبرى" [ج5/ص: 12]:
( مالك الدار مولى عمر بن الخطاب وروى مالك الدار عن أبي بكر الصديق وعمر رحمهما الله روى عنه أبو صالح السمان وكان معروفا )؛ اهـ
والملاحظ أن ابن سعد لم يطلق على رجل بأنه معروف من غير أن يعقبه بجرحٍ إلا لأنه ثقة عنده! والدليل لى ذلك هذا النموذج:
قول ابن سعد رحمه الله في "الطبقات" [ج6/ص: 236] :
( شريك بن حنبل العبسي روى عن علي بن أبي طالب؛ وكان معروفا قليل الحديث )؛اهـ
ونجد الحافظ العسقلاني في "التقريب" [ج1/ص: 266]، يقول:
( شريك بن حنبل العبسي الكوفي، وقيل ابن شرحبيل ثقة من الثانية )؛ اهـ
وفي غير موضع في الطبقات وكل من لم يعقبه بجرح وذكر انه معروف فهو ثقة عنده وراجع الطبقات لتقف على الكثير من هذه الأمثلة ..

2. الإمام أبو يعلى الخليلي القزويني في كتاب "الإرشاد في معرفة علماء الحديث" [ج1/ص 313]، قال :
( مالك الدار مولى عمر بن الخطاب رضي الله عنه تابعي قدي متفق عليه أثنى عليه التابعون وليس بكثير الرواية روى عن أبي بكر الصديق وعمر )؛ اهـ
وقوله متفق عليه يغني أن مالك الدار معروف وليس مجهولا ..

3. أورده الإمام ابن حبان في "الثقات" [ج5/ص: 384]، فقال:
( مالك بن عياض الدار يروي عن عمر بن الخطاب روى عنه أبو صالح السمان وكان مولى لعمر بن الخطاب أصله من جبلان )؛ اهـ

4. ترجم لمالك الدار البخاري في "تاريخه" [ج7/ص: 304]؛ وهو يصب لصالح مالك لأن البخاري لا يترجم إلا الثقات فيزكيهم أو يسكت عنهم، وإلا ينقدهم ..

5. ترجم له الحافظ ابن حجر في "الإصابة" [ج6/ص: 274]، وذكر أن له إدراكا، أي أنه كان واعيا ولم يكن جاهل أو أحمق أو ساذجا ..

وقال الرازي في "الجرح والتعديل" [ج8/ص:213]:
( مالك بن عياض مولى عمر بن الخطاب روى عن أبى بكر الصديق وعمر بن الخطاب رضي الله عنهما روى عنه. أبو صالح السمان سمعت أبى يقول ذلك )؛ اهـ

وقولهم أن الحافظ ابن حجر العسقلاني لم يذكر فيه جرح وتعديل يرد عليه الحافظ ابن حجر العسقلاني بنفسه! ..
قال الحافظ ابن حجر العسقلاني عن مالك الدار: ( مالك الدار هو مالك بن عياض مولى عمر بن الخطاب ) ذكره الحافظ في المخضرمين؛ وقال: له إدراك )؛ ورد في "الإصابة" لابن حجر [ج3/ص: 484] ..

قال الحافظ في موضع آخر: ( وروى عنه أبو صالح السمان وابناه عون وعبدالله )؛ ورد في "الإصابة" [ج6/ص: 274] ..
وقال أبو عبيدة كما في "الإصابة " [ج3/ص: 484] ..
إذا كان من له إدراك ممن اختلفوا في صحبته: فأثبتها بعضهم، ونفاها آخرون، فمن له إدراك وعامل عند الفاروق، مختلف في صحبته؟! ..
إذا علم ذلك، فقد قال الحافظ ابن حجر في "التلخيص الحبير" [ج1/ص: 74]، عند الكلام على حديث: ( لا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه )؛ قال عند الكلام على أسماء بنت سعيد بن زيد بن عمرو ما نصه: ( وأما حالها فقد ذكرت في الصحابة وإن لم يثبت لها صحبة فمثلها لا يسأل عن حالها )؛ اهـ

إذاً قول الحافظ ابن حجر العسقلاني أن مالك الدار له إدراك وكل من له إدراك اختلفوا في صحبته ومن اختلفوا في صحبته فهو ثقة لا يسأل عن حاله ..
ولذلك لا يسأل عن حال مالك الدار لأنه ثقة ولا يحتاج إلى جرح وتعديل وأيضاً أورده الإمام ابن حبان في "الثقات"، وقال الإمام أبو يعلي الخليلي القزويني { متفق عليه } ووثقه الإمام ابن سعد وترجمته عند البخاري والحافظ ابن حجر العسقلاني تدل على ثقته وحاله لا يحتاج إلى بيان في هذه الحالة ..
فكيف يقال أن مالك مجهول وكيف يتغنى البعض بهذا القول بدون حتى التأكد من ذلك لمجرد نصرة الرأي والهوى؟ ..

ولنرى كيف ترفع جهالة المقبول الرواية عند الائمة والحفاظ
رضي الله عن الإمام الحافظ ابن حجر العسقلاني إذ قال "نزهة النظر" [ج1/ص: 135]:
عن المجهول وحكم قبول روايته : ( فإن سمي الراوي وانفرد راوٍ واحد بالرواية عنه فهو مجهول العين كالمبهم ، فلا يقبل حديثه إلا أن يوثقه غير من ينفرد عنه على الأصح وكذا من ينفرد عنه إذا كان متأهلا لذلك)؛ اهـ
ومالك الدار وثقه أكثر من حافظ فماذا يقول التيميون الجدد؟ ..
وروى عنه أكثر من واحد منهم
1. أبو صالح السمان ذكوان الزيات : قال الحافظ في "التقريب" [ج1/ص: 203]: ( ثقة ثبت ) ..
2. عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع المخزومي : قال الحافظ في "التقريب" 1/341]: ( ثقة ) ..
3. وذكرت الرواية في الطبراني [ج20/ص: 33]؛ رواية عبد الرحمن بن سعيد بن يربوع عن مالك الدار ..
وقولهم بجهل أن الإمام البخاري لم يوثقه! ..
الرد عليهم من مشايخهم
قال الدكتور خالد بن منصور الدريس أحد شيوخ التيمية في كتابه " الحديث الحسن لذاته ولغيره .. دراسة استقرائية نقدية " [ج1/ص: 406 – 415]، ما نصه:
( إذا ترجم البخاري في تاريخه الكبير لراوٍ ولم يذكر فيه جرحًا ، فإنه يكون عنده ممن يحتمل حديثُهُ ، قال الحافظ الحجة أبو الحجاج المزي في آخر ترجمة عبد الكريم بن أبي المخارق : « قال الحافظ أبو محمد عبد الله بن أحمد بن سعيد بن يربوع الإشبيلي : بيّن مسلم جَرحَهُ في صدر كتابه، وأما البخاري فلم يُنبّه من أمره على شيء ، فدل أنه عنده على الاحتمال ، لأنه قد قال في التاريخ : ( كل من لم أبين فيه جُرْحَةً فهو على الاحتمال ، وإذا قلت : فيه نظر ، فلا يحتمل » ؛ ورد في "تهذيب الكمال" للمزي [ج18/ص: 265] ..

وفي موضع آخر قال ابن يربوع في عثمان بن عمر التيمي: «هو على أصل البخاري محتمل» ورد في "تهذيب الكمال" للمزي [ج19/ص: 416] ..
إلي أن قال في نفس المصدر
: ( ولعل في هذه الأمور ما يجعل القلب يركن إلى ثبوت الكلام الذي نقل عن البخاري في بيان منهجه في كتابه التاريخ الكبير )؛ اهـ
ويظهر أن قول البخاري: «ومن لم أبين فيه جُرحةً فهو على الاحتمال» يدخل فيه الثقة ومتوسط الحفظ وكل راوٍ ضُعّف ولم يشتد ضعفه ، ويوضح الأمر أكثر ويفسر مقصوده أنه قد قال : «كل من لا أعرف صحيح حديثه من سقيمه فلا أروي عنه»
فغير المحتمل عنده من يترك هو الرواية عنه ، وكل من تميَّزَ صحيح حديثه من سقيمه فهو يروي عنه ، وهو المحتمل عنده فيما يظهر ليأنتهي .

وهذا الكلام من الدكتور خالد بن منصور معناه انه يعتبر بحديث مالك الدار عند الإمام البخاري قد ذكره البخاري في تاريخه الكبير ولم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً ..وهذا معناه انه يعتبر بحديثه عنده ..

ونقول لو لم يكن هنالك دليل إلا أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه اتخذه خادماً لزالت جهالة الحال لأن عمر رضي الله عنه لا يتخذ خادما إلا ثقة واعي ناضج الذهن وصادق وأمين ..
فالرجل ارتفعت عنه جهالة الحال وجهالة العين بهذا النصوص وهي توثيق عال له؛ اهـ

@خضر حیات
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسی رواایت پر ایک فورم پر کچھ جوابات دیئے گئے ہیں وہ بھی یہاں نقل کر دیتا ہوں تاکہ ان کا بھی جائزہ لیا جا سکے
عبد اللہ بھائی اس میں مالک الدار کی جہالت کے متعلق کیے گئے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے ، اور یہ کہ وہ مجہول نہیں ہے ۔ یہ جواب درست ہے ، یہ بات اسی تھریڈ میں پہلے بھی گزر چکی ہے ، جن علماء نے اس کو مجہول قرار دیا ہے ، شاید ان کے علم میں اس کی توثیق اور اس کے روایت کرنے والے نہیں ہوں گے ۔
 
شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
عبد اللہ بھائی اس میں مالک الدار کی جہالت کے متعلق کیے گئے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے ، اور یہ کہ وہ مجہول نہیں ہے ۔ یہ جواب درست ہے ، یہ بات اسی تھریڈ میں پہلے بھی گزر چکی ہے ، جن علماء نے اس کو مجہول قرار دیا ہے ، شاید ان کے علم میں اس کی توثیق اور اس کے روایت کرنے والے نہیں ہوں گے ۔
یعنی اس میں اب صرف اعمش کی تدلیس کا ہی مسئلہ باقی رہ گیا ہے؟
 
Top