بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وسیلے کو موضوع پر اہل بدعت اس روایت سے بہت زیادہ استدلال کرتے ہیں اور اپنے مئوقف کی بنیاد اس روایت پر رکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں محترم انس نضر بھائی کی پوسٹ میں باوضاحت بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر تفصیل سے لکھا تھا اور اہل بدعت کی جانب سے اس کو ضعیف کہے جانے پر پیش کیے گئے شبہات کا بھی جواب دیا تھا۔ فائدے کے لئے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ یاد رہے کہ مضمون میں پیش کئے گئے اکثر حوالہ جات کی تحقیق شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی مختلف کتب و مضامین سے لی گئی ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نبی ﷺ کی قبر پر حاضر ہوتا ہے اور اپنا حال بیان کرتا ہے تو خواب میں نبیﷺ اس کو سیدنا عمر ؓکے پاس جانے کا فرماتے ہیں۔ تفصیل دیکھئے
مصنف ابن ابی شیبہ(ج۶ص۳۵۶ح۳۲۰۰۲)
الجواب:۔
یہ روایت اصول حدیث کی روشنی میں ضعیف اور نا قابل استدلال ہے۔اس روایت کی سند کچھ یوں ہے:
حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار
چنانچہ اس سند میں ایک راوی الاعمش ہیں جو کہ مشہور مدلس ہیں اور اصول حدیث میں یہ بات طے شدہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے جب تک اس کا سماع ثابت نہ ہو۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
[الرسالہ:ص۵۳]
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:
[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
[فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
[خزائن السنن:ج۱ص۱]
اصول حدیث کے اس اتفاقی ضابطہ کے تحت اوپر پیش کی گئی روایت مالک الدار بھی ضعیف اور نا قابل حجت ہے کیونکہ سند میں الاعمش راوی مدلس ہے
(دیکھئے میزان الاعتدال:ج۲ص۲۲۴، التمہید:ج۱۰ص۲۲۸) جو عن سے روایت کر رہا ہے۔
عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:
’’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵]
جب اصول حدیث کے ساتھ ساتھ خود فرقہ بریلویہ کے فاضل محدث نے بھی اس بات کو تسلیم کر رکھا ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور ان کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف اور مردود ہے تو پھر اس مالک الدار والی روایت کو بے جا طور پر پیش کیے جانا کہاں کا انصاف ہے۔۔۔؟
سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سلیمان الاعمش کی تدلیس مضر نہیں کیونکہ یہ دوسرے طبقہ کا مدلس ہے حالانکہ یہ بات ہرگز بھی درست نہیں اور ان تمام آئمہ و محدثین کے خلاف ہے جنہوں نے الاعمش کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دے رکھا ہے۔
دوسری بات یہ کہ مدلسین کے طبقات کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے الاعمش کو طبقات المدلسین (ص۶۷) میں دوسرے درجہ کا مدلس بیان کیا ہے اور پھر خود اس کی عن والی روایت کے صحیح ہونے کا انکار بھی کیا ہے۔( تلخیص الحبیر:ج۳ص۱۹)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک خود بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف ہے چاہے اسے طبقہ ثانیہ کا مدلس کہا جائے۔علاوہ ازیں آئمہ و محدثین کی ایک کثیر تعداد ہے جواعمش کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیتی ہے۔
چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:
[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]
حافظ ابن عبدالبر ؒ نے فرمایا:
[التمہید:ج۱ص۳۰]
سلیمان الاعمش کی ابو صالح سے معنعن روایات
یہ بات تو دلائل سے بالکل واضح اور روشن ہے کہ سلیمان الاعمش مدلس راوی ہیں اور ان کی معنعن روایات ضعیف ہیں ۔ جب ان اصولی دلائل کے سامنے مخالفین بے بس ہو جاتے ہیں تو امام نوویؒ کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]
اس حوالے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابراہیم نخعی، ابو وائل شقیق بن سلمہ اور ابوصالح سے اعمش کی معنعن روایات صحیح ہیں حالانکہ یہ بات اصولِ حدیث اور دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی واضح تصریحات کے خلاف ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱)امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]
امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے
السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)
۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:
[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]
۳) اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:
[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]
۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:
[علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم:ص۱۳۸]
۵)حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:
[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]
۶)اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:
[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]
۷)مشہور محدث بزارؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سندوالی روایت کے بارے میں فرمایا:
[فتح الباری:ج۸ص۴۶۲]
معلوم ہوا کہ دوسرے بہت سے آئمہ و محدثین کی طرح محدث بزارؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت ضعیف و بے اصل ہی ہے چاہے وہ ابی صالح وغیرہ ہی سے کیوں نہ ہو؟ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے محدث بزارؒ کی اس جرح شدہ روایت میں اعمش کے سماع کی تصریح ثابت کر دی لیکن محدث بزارؒ کے اس قاعدے کو غلط نہیں کہا۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک بھی اعمش کی ابی صالح سے معنعن روایت ضعیف ہی ہوتی ہے جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ کر دی جائے۔
ان تمام دلائل سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ جمہور آئمہ و محدثین اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کوبھی ضعیف اور غیر ثابت ہی قرار دیتے ہیں۔اس کے علاوہ اور دلائل بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں آئمہ و محدثین نے اعمش کی ابراہیم نخعی اورابو وائل (شقیق بن سلمہ) سے معنعن روایات کو بھی تدلیس اعمش کی وجہ سے ضعیف کہہ رکھا ہے۔معلوم ہوا کہ جمہور آئمہ و محدثین امام نوویؒ کے اس قاعدے کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے کہ اعمش کی ابراہیم نخعی، ابو وائل اور ابو صالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے ۔خود امام نوویؒ بھی اپنے اس قاعدے پر کلی اعتماد نہیں کرتے۔ چنانچہ اعمش کی ابو صالح سے معنعن ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’
[شرح صحیح مسلم:ج۱ص۷۲ح۱۰۹]
ان تمام دلائل کے باوجود جو ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کو پیش کرے اس کی خدمت میں عرض ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو منافق قرار دیا ۔دیکھئے
تاریخ یعقوب بن سفیان الفارسی(ج۲ص۷۷۱)
سیدنا حذیفہؓ کو منافقین کے نام نبی ﷺ نے بتا رکھے تھے یہ بات عام طالب علموں کو بھی پتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں اعمش ہیں جو مدلس ہیں اور شقیق (ابو وائل) سے معنعن روایت کر رہے ہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر جو حضرات جمہور محدثین کے خلاف امام نوویؒ کے مرجوح قاعدے کے مطابق اعمش کی ابو وائل یا ابو صالح سے معنعن روایت کو سماع پر محمول کرتے ہوئے صحیح سمجھتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق صحابی رسول سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ پر کیا حکم لگاتے ہیں۔۔۔؟
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عائشہ ؓ نے مشہور صحابی رسول عمرو بن العاصؓ کی شدید تکذیب اور ان پر شدید جرح کی۔ دیکھئے
المستدرک حاکم (ج۴ص۱۳ح۶۸۲۲)
ہم تو کہتے ہیں کہ یہ بات نا قابل تسلیم ہے کیونکہ یہ روایت اعمش کی ابو وائل سے معنعن ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مگر جو جمہور محدثین کے خلاف اعمش کی ابو وائل وغیرہ سے روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں وہ اس روایت کے مطابق سیدنا عمرو بن العاص ؓ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔۔۔؟
چنانچہ خود مخالفین کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی امام نوویؒ کے اس قاعدے کو تسلیم نہیں کرتے اور اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت کو ضعیف اور نا قابل حجت ہی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ روایت اعمش کی ابو صالح سے ہی معنعن ہے جس پر جرح کرتے ہوئے عباس رضوی بریلوی لکھتے ہیں:
[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]
محدثین کا کسی روایت کو صحیح قرار دینایا اس پر اعتماد کرنا
احمد رضا خان بریلوی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
[ملفوظات،حصہ دوم:ص۲۲۲]
اس سے معلوم ہوا کہ کچھ علماء کا سہواً کسی حدیث کو صحیح قرار دے دینا یا اس پر اعتماد کر لینا اس حدیث کو صحیح نہیں بنا دیتا اگر تحقیق سے وہ حدیث ضعیف ثابت ہو جائے تو اسے غیر ثابت ہی کہا جائے گا۔چنانچہ اگر امام ابن کثیرؒ یا حافظ ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ نے مالک الدار والی روایت کو صحیح قرار بھی دیا ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اصول حدیث اور دلائل کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف اور غیر ثابت ہی ہے۔خود حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے نزدیک بھی اعمش کی معنعن روایت جب تک سماع کی تصریح ثابت نہ ہو جائے ضعیف ہی ہوتی ہے اور یہی جمہور آئمہ و محدثین کا اصول و قاعدہ ہے، جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا یہ مالک الدار والی روایت بھی ضعیف ہی ہے۔
بریلویوں کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی ایک جگہ لکھتے ہیں:
[مناظرے ہی مناظرے:ص۲۹۲]
علاوہ ازیں خود بریلوی حضرات کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی کی مشہور کتاب ’’جاء الحق‘‘ سے ایک لمبی فہرست ان روایات کی پیش کی جا سکتی ہے جن کو ایک دو نہیں بلکہ جمہور آئمہ و محدثین نے صحیح قرار دے رکھا ہے مگر بریلوی حکیم الامت ان روایات پر اصول حدیث کے زریعے جرح کرتے ہیں۔ لہٰذا اصول و دلائل کے سامنے بلا دلیل اقوال و آراء پیش کرنا سوائے دھوکہ دہی کے کچھ نہیں۔
صحیحین میں مدلسین کی روایات
یہ بات بالکل واضح ہے کہ مدلسین کی معنعن روایات ضعیف ہی سمجھی جاتی ہیں جب تک سماع کی تصریح نہ مل جائے۔یہ بات خود مخالفین کو بھی تسلیم ہے مگر جب اپنے غلط و مردود عقائد و اعمال پر کو ئی صحیح روایت نہیں ملتی تو الٹے سیدھے بہانے بنانے لگتے ہیں۔ صحیحین یعنی صحیح بخاری و مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات کا بہانہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔
صحیحین میں زیادہ تر مدلسین کی روایات اصول و شواہد میں موجود ہیں۔ ابو محمد عبدالکریم الحلبی اپنی کتاب ’’القدس المعلمیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:
[التبصرۃ و التذکرۃ للعراقی:ج۱ص۱۸۶]
معلوم ہوا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مدلسین کی معنعن روایات سماع کے قائم مقام ہیں اور زیادہ تر علماء کا مئوقف یہی ہے۔
امام نوویؒ لکھتے ہیں:
[تقریب النووی مع تدریب الراوی:ج۱ص۲۳۰]
یعنی صحیحین کے مدلس راویوں کی عن والی روایات میں سماع کی تصریح یا متابعت صحیحین میں ہی یا دوسری کتب حدیث میں ثابت ہے۔ نیز دیکھئے
النکت علی ابن الصلاح للحافط ابن حجر عسقلانی (ج۲ص۶۳۶)