• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت نماز فجر، احناف اور رمضان

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
غیر رمضان میں احناف جو فجر تاخیر سے پڑھتے ہیں وہ یہاں موضوع نہیں، یہاں موضوع ہے کہ احناف رمضان میں فجر اول وقت کیوں پڑھتے ہیں
مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمائيں
حدثنا مسلم بن إبراهيم ،‏‏‏‏ حدثنا هشام ،‏‏‏‏ حدثنا قتادة ،‏‏‏‏ عن أنس ،‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال تسحرنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلاة‏.‏ قلت كم كان بين الأذان والسحور قال قدر خمسين آية‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں ( پڑھنے ) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا
ان احادیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں سحری کا وقت ختم ہونے پر کتنی دیر میں فجر کی نماز ادا کی جاتی تھی اور یہی احناف کا موقف ہے ۔ باقی غیر رمضان میں فجر کے ٹائم کا مسئلہ ہمارا موضوع نہیں ۔
چھوٹے چھوٹے جملوں میں بات کرتے ہیں تاکہ بحث بوجھل نہ ہو۔

اس حدیث سے مطلق فجر کی نماز کا وقت معلوم ہوتا ہے ۔ اس کو رمضان کے ساتھ خاص کیوں جاتا ہے؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جی نہیں یہاں دونوں موضوع ہے غیر رمضان میں تاخیر اور رمضان میں تعجیل
صاحب مضمون نے کہا تھا کہ
مناظرانہ طرز پر، یا احادیث سے حنفی نماز کو مستند ثابت کرنے کے لئے لکھی جانے والی کتب میں غلس میں نماز فجر پڑھنے والوں کی تردید میں جو صفحات کے صفحات کالے کئے جاتے ہیں، خود اسی پر رمضان کے مبارک اوقات میں عمل کرنا، کیا خودبخود یہ ثابت نہیں کرتا، کہ حنفی مسلک کا دفاع ہی اصل ترجیح ہے نا کہ افضل وقت کی تحقیق
صاحب مضمون نے سوال کیا تھا کہ
اگر فجر کی نماز کو خوب اجالے میں پڑھنا ہی مستحب اور افضل ہے تو رمضان میں، غیر افضل اوقات میں نماز فجر کیوں ادا کی جاتی ہے؟
صاحب مضمون نے سوال کیا تھا کہ ہم رمضان میں کیوں ایسے وقت میں نماز پڑھتے ہیں جو ہمارے نذدیک غیر افضل ہے ۔ صاحب مضمون نے کہیں بھی فجر کو تاخیر سے پڑھنے کی دلیل نہیں مانگي تو آپ کس طرح کہ رہے ہیں یہاں غیر رمضان میں اسفار میں نماز پڑھنا بھی موضوع بحث ہے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
چھوٹے چھوٹے جملوں میں بات کرتے ہیں تاکہ بحث بوجھل نہ ہو۔

اس حدیث سے مطلق فجر کی نماز کا وقت معلوم ہوتا ہے ۔ اس کو رمضان کے ساتھ خاص کیوں جاتا ہے؟
غالبا آپ نے میری پوسٹ کو تفصیلا پڑھا ہی نہیں میں کہ چکا ہوں
حدیث میں بیان کردہ سحری رمضان کے متعلق ہے اس کی دلیل
احناف فجر کو غلس میں ادا کرنے کو افضل نہیں مانتے بلکہ اسفار میں فجر کی ادائیگي کو افضل کہتے ہیں ۔ (اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو اس پر بھی بات کی جاسکتی ہے لیکن في الحال یہ ہمارا موضوغ نہیں) اب اگر وہ احادیث جن میں سحری اور فجر کے درمیاں پچاس آیات کی قرات جتنا وقفہ بتایا گيا ہے تو اگر ہم اس سحری کو رمضان اور غیر رمضان دونوں پر لیتے ہیں تو پھر بہت مشکل صورت الحال ہوجائے گي ۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزہ رکھیں تو فجر کی نماز جلدی پڑھیں اور جب روزہ نہ رکھیں تو اسفار میں پڑھیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئیے کیا مشکلات ہوجائیں گي ۔ وہ تو پھر سوچتے ہوں گے ہم آج غلس کے لئیے نماز فجر میں جائيں یا اسفار میں ، ان کو کیا معلوم ہوگا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزہ رکھا ہوگا یا نہیں ۔ اس لئیے اس سحری کو رمضان کے ساتھ ہی خاص سمجھا جاسکتا ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
غالبا آپ نے میری پوسٹ کو تفصیلا پڑھا ہی نہیں میں کہ چکا ہوں
آپ نے میرا سوال نہیں سمجھا شاید ۔ میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ اس حدیث کو محض رمضان کے ساتھ خاص کرنے کی کیا دلیل ہے ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یسروا ولا تعسروا
آسانی فراہم کرو نہ کہ تنگی!
کے مصداق،بات وہ ہی زیادہ مناسب ہے جس کو جناب جمشید صاحب نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا ہے ۔اس کے بعد تو بحث برائے بحث رہ جاتی ہے۔
یہ کھلی بات ہے کہ احناف میں ’’تیسیر‘‘اور ’’تکثیر‘‘مد نظر ہے اسی بنا پر رمضان المبارک میں فجر کی نماز کو اول وقت میں اور اور باقی ایام میں اسفار میں پڑھنا افضل ہے ،نیز فجر کی نماز میں طویل تلاوت خود اس بات کی غماز ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد فجر کی نماز میں شامل ہوجائیں ۔
کیا یہ اس بات کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے کہ’’جمعہ‘‘ کی نماز تمام سال لوگوں کی سہولیات کے اعتبار سے پورے سال مختلف اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔
اسی طرح سےظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کا حکم ہے حکمت اس میں یہ ہےکہ جن ممالک میں دوپہر کو سخت ترین گرمی ہوتی ہے ،لوگوں کا بوجہ گرانی طبیعت اس وقت گھروں سے نکلنا ایک تکلیف دہ عمل ہے،جو کہ نماز سے تساہلی کو سبب ہوسکتا تھا،بایں مصلحت ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا کا حکم ہوا۔لیکن وہ علاقے جہاں موسم ٹھنڈا ہوتے ہیں تو وہاں اگر ظہر کی نماز اول وقت میں پڑھ لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔اسی طرح سے وہ علاقے جہاں دفاتر ،کارخانے،فیکٹریاں،ہیں ان جگہوں پر ملازمین کی رعایت کرتے ہوئے نماز ادا کی جاتی ہے اور ادا کی جانی چاہئے۔مقصد صرف اور صرف لوگوں میں نماز کی رغبت پیدا کرنی ہے نہ کہ تنفر۔
لہٰذا اس بابت ’’اہلحدیث‘‘ کی فضیلت بیان کرنا اور ’’احناف ٗٗکی فضیحت بیان کرنا چنداں مفید اور مناسب نہیں ہے۔
فقط واللہ اعلم بالصواب۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یسروا ولا تعسروا
آسانی فراہم کرو نہ کہ تنگی!
کے مصداق،بات وہ ہی زیادہ مناسب ہے جس کو جناب جمشید صاحب نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا ہے ۔اس کے بعد تو بحث برائے بحث رہ جاتی ہے۔
یہ کھلی بات ہے کہ احناف میں ’’تیسیر‘‘اور ’’تکثیر‘‘مد نظر ہے اسی بنا پر رمضان المبارک میں فجر کی نماز کو اول وقت میں اور اور باقی ایام میں اسفار میں پڑھنا افضل ہے ،نیز فجر کی نماز میں طویل تلاوت خود اس بات کی غماز ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد فجر کی نماز میں شامل ہوجائیں ۔
کیا یہ اس بات کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے کہ’’جمعہ‘‘ کی نماز تمام سال لوگوں کی سہولیات کے اعتبار سے پورے سال مختلف اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔
اسی طرح سےظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کا حکم ہے حکمت اس میں یہ ہےکہ جن ممالک میں دوپہر کو سخت ترین گرمی ہوتی ہے ،لوگوں کا بوجہ گرانی طبیعت اس وقت گھروں سے نکلنا ایک تکلیف دہ عمل ہے،جو کہ نماز سے تساہلی کو سبب ہوسکتا تھا،بایں مصلحت ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا کا حکم ہوا۔لیکن وہ علاقے جہاں موسم ٹھنڈا ہوتے ہیں تو وہاں اگر ظہر کی نماز اول وقت میں پڑھ لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔اسی طرح سے وہ علاقے جہاں دفاتر ،کارخانے،فیکٹریاں،ہیں ان جگہوں پر ملازمین کی رعایت کرتے ہوئے نماز ادا کی جاتی ہے اور ادا کی جانی چاہئے۔مقصد صرف اور صرف لوگوں میں نماز کی رغبت پیدا کرنی ہے نہ کہ تنفر۔
لہٰذا اس بابت ’’اہلحدیث‘‘ کی فضیلت بیان کرنا اور ’’احناف ٗٗکی فضیحت بیان کرنا چنداں مفید اور مناسب نہیں ہے۔
فقط واللہ اعلم بالصواب۔
مفتی صاحب! اصل سوال تو وہیں موجود ہے کہ نماز فجر میں اگر اسفار افضل ہے تو پھر رمضان میں کیوں نہیں؟؟؟ اور اگر رمضان میں غلس میں نماز پڑھنا بہتر ہے تو باقی سارا سال کیوں نہیں؟ کیا آپ اس کے متعلق امام ابو حنیفہ﷫ وصاحبین وکبار ائمہ احناف﷭ سے کچھ ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟

یا دین ویسے ہی موم کی ناک ہے جیسے آسانی لگی عمل کر لیا۔ عام دنوں میں جلدی اٹھنا مشکل تو تاخیر سے نماز اور رمضان میں اسفار تک جاگنا مشکل تو غلس میں نماز پڑھ لی!!!

اگر اوقات نماز کیلئے نصوص کو مد نظر رکھنے کی بجائے یہی اصول ہے تو پھر اگر کسی شخص کیلئے آٹھ بجے سے پہلے اٹھنا مشکل ہو تو وہ کیا کرے؟؟؟
 

حسیب

رکن
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
75
اب غورکریں۔

اگرعا م دنوں میں عوام الناس کیلئے سہولت،آسانی اورتکثیر جماعت اسفار بالفجر میں ہے تو رمضان کے مہینے میں عوام الناس کی سہولت اورتکثیر بالجماعۃکا زیادہ امکان اس میں ہے کہ سحری کے کچھ دیر بعد نماز پڑھ لی جائے۔ ورنہ لوگ سستی اورلاپرواہی برتنے لگیں گے اورنیند کی تھکان غالب ہونے لگے گی۔بالخصوص جب کہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سحری تناول فرمانے کے بعد پچاس آیتوں کے بقدر رکتے پھر نماز فجر اداکرتے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگرانسان روح شریعت کو سمجھے اورعمل کرے تو بہت سارے توہمات کا خاتمہ ہوجائے۔نماز میں طویل قیام کرنابہترہے لیکن جماعت کی نماز میں ضعیف اورعورتوں کاخیال کرتے ہوئے حکم دیاگیاکہ ہلکی نماز پڑھائی جائے۔ایک مرتبہ حضورپاک فجر کی نماز پڑھارہے تھے کہ کسی بچے کی رونے کی آواز کانوں میں پڑی تو بچے کی ماں کاخیال کرتے ہوئے کہ اس کو اس کے رونے سے تکلیف ہورہی ہوگی نماز مختصر کردی۔

اگرانہی نظائر اورمثالوں کو دیکھتے ہوئے احناف نے عمومی طورپر اسفار کی افضیلت کا قائل ہوتے ہوئے اورروح شریعت کاخیال کرتے ہوئے رمضان میں سحری کے فوری بعد یاغلس میں نماز پڑھنے کو اپنایاہے تویہ نہ کوئی تضادہے اورنہ کوئی دورخاعمل ۔بلکہ روح شریعت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ہاں جن لوگوں کی سمجھ اورفہم ظاہریت تک محدود ہے اور وہ موتی کے بجائے صرف سیپی کے خواہاں اورخواہشمند ہیں ت وہ علامہ قرافی کا یہ ارشاد سنیں۔
الجمود علی المنقولات ابداضلال فی الدین وجھل بمقاصد العلماء المسلمین والسلف الماضین(اعلام الموقعین 2/15
منقولات پر ہمیشہ جمود اختیار کرنا دین میں گمراہی کا پیش خیمہ ہے اورعلماء مسلمین اوراسلاف کے مقاصد شرعیہ کے فہم سے جہالت کا ثبوت ہے۔




آپ نے بات صحیح کی ہے لیکن نتیجہ غلط نکالاہے۔ تیسیر اورتکثیر جماعت شریعت کے مقاصد میں سے ہے اوراس کا خیال حضورپاک نےبھی رکھاہے لہذا اس کوخواہش نفس قراردینانہ صرف اپنے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اپنے ایمان اوردین کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔

تقلید معین کی یہ دلیل کہ غیرمتعین میں ہرشخص اپناراگ الاپے گاکوئی غیرواقعی بات نہیں ہے۔اس کا اعتراف مولاناحسین بٹالوی نے بھی کیاہے اوراہل حدیث بننے کے بعد جن لوگوں نے قادیانی فرقہ میں شمولیت اختیار کی یاپھر منکر حدیث بنے یاپھر دین وشریعت کے بہت سے اصول کا ہی انکار کردیا اس کیلئے ماضی کی تاریخ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔
یہ بات کہ غیرمعین میں ہرشخص کو من مانی کی آزادی مل جاتی ہے اوراس سے بچناچاہئے۔ دیگر علمائے عظام نے بھی یہ بات کہی ہے۔اگرکبھی وقت موقع اورفرصت ہوتو تقلید کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں اس کا مطالعہ کرلیں۔ شاہ ولی اللہ نے بھی چار مذہب کے دائرہ سے باہر نکلنے کومنع کیاہے اوربرصغیر کے باشندوں کے حق میں یہ بہترسمجھاہے کہ وہ فقہ حنفی کو اپنائیں۔بہرحال اس پر بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ تھریڈ کا موضوع نہیں ہے اورذیلی موضوع پر زیادہ توجہ دینے سے اصل موضوع گم ہوجاتاہے۔


ہماری بھی دعاہے کہ اللہ حق کو حق اورباطل کو باطل سمجھنے والی فہم عنایت کرے اورحق کے پردے میں باطل اورباطل کے پردے میں حق کو دیکھنے والی بصیرت نصیب کرے،علماء ماضی کا احترام کرنے کی توفیق دے۔ والسلام
جمشید بھائی یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔ چلیں یہ تومانا کہ رمضان میں تاخیر سے نماز پڑھنے سے لوگوں کو مشقت ہو گی۔ لیکن غیر رمضان میں تاخیر سے پڑھنے پر کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ عموما 15، 20 منٹ کا ہی فرق ہوتا ہے۔ سوئے ہوئے آدمی کے لیے یہ فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جس نے نماز کے لیے اٹھنا ہو وہ 15، 20 منٹ پہلے بھی اٹھ سکتا ہے۔
اگر لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہی ہے تو گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر کیا کریں تاکہ نیند تو پوری ہو
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
آسانی کے لیے نماز دیر سے پڑہنے کا موقف آپ کا ذاتی اجتہاد ہے یا فقہ میں اس کی کوئ مثال بھی ہے۔دلائل بعینہ وہی نہ ہوں پر راے تو ہونی چاہیے۔دوسری بات یہ کہ آسانی کے لیے سب اماموں کے قول پر عمل کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔یہ تضاد کیوں ہے جبکہ بعض احناف نے بھی چند باتوں میں دوسرے اماموں کے قول پر عمل کیا ہے۔
 
شمولیت
نومبر 24، 2011
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
38
ویسے حق تو یہ ہے کہ یہی بات اھل حدیث بھی کرتے ہیں۔ ہماری عشاء کی نماز رمضان سے ایک دن پہلے 9:30 پر تھی اور اگلے ہی دن حنفیوں والے ٹائم 9:00 پہ آگئی۔ وہ کریں تو غلط ہم کریں تو صحیح یہ زیادتی ہے۔ اگر لوگوں کی آسانی بابت سوچنا غلط ہے تو مسائل کی ایک فہرست ہے جس پر ہم تخفیف کرتے ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح اور نماز فجر کیا اتنی مختصر تھی جتنی ہم کراتے ہیں، اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کے ایمان میں کمزوری آگئی ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ویسے حق تو یہ ہے کہ یہی بات اھل حدیث بھی کرتے ہیں۔ ہماری عشاء کی نماز رمضان سے ایک دن پہلے 9:30 پر تھی اور اگلے ہی دن حنفیوں والے ٹائم 9:00 پہ آگئی۔ وہ کریں تو غلط ہم کریں تو صحیح یہ زیادتی ہے۔ اگر لوگوں کی آسانی بابت سوچنا غلط ہے تو مسائل کی ایک فہرست ہے جس پر ہم تخفیف کرتے ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح اور نماز فجر کیا اتنی مختصر تھی جتنی ہم کراتے ہیں، اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کے ایمان میں کمزوری آگئی ہے۔
شاکر صاحب ذرا توجہ فرمایں
 
Top