ہر فقیہ خطا یا صواب پر ہوسکتا ہے لیکن جس کی پیروی کی جاتی ہے اسے اس معاملہ میں صواب پر سمجھتے ہوئے ہی کی جاتی ہے۔
اختلاف کسی بات کو سمجھنے میں فرق سے آتا ہے جن فقہاء (نہ کہ غیر فقیہ) نے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے فہم کو خطا پر سمجھا انہوں نے اپنا فہم دیا اور یہ جائز ہے کہ ہر ایک کی سمجھ لازم نہیں کہ صحیح ہی ہو سوائے انبیاء کے کہ ان کو خطا پر نہیں رہنے دیا جاتا تھا۔
السلام و علیکم و رحمت الله -
محترم -
بات اتنی سی ہے کہ الله رب العزت نے ہر انسان کو فہم و فراست سے نوازا ہے - اب یہ ہر انسان پر لازم ہے
(چاہے فقیہہ ہو یا غیر فقیہ) کہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوے حق کو پانے کی پوری کوشش کرے
(وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ - وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ - سوره النجم) ترجمہ: اور انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی - اور عنقریب اس کی اس کوشش کی پرکھ ہو گی-
دین کے مسائل میں اختلاف راے تو صحابہ کرام کے دور میں بھی ہوا - لیکن اس دور میں کہیں بھی ہمیں جامد تقلید کی مثال نظر نہیں آتی- کہ صحابہ کے کسی گروہ نے کسی متعین صحابی رسول کی تقلید کی ہو - جب کہ وہ خیر القرون تھا- اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر صحابی رسول مجتہد بھی نہیں تھا- اس کے باوجود نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم نے اپنی اتباع کے ساتھ ساتھ اپنے صحابہ کرام کی اتباع کا حکم بھی اپنی امّت کو دیا- جب صحابہ کرام تقلید سے پاک تھے تو ہم کیوں نہ اپنے آپ کو اس مذموم عمل سے پاک کریں؟؟-
قرآن میں الله رب العزت اپنے مقرب بندوں کے لئے ارشاد فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
ا
ور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (یعنی حتیٰ المکان غور و فکر کرتے ہیں- تقلید نہیں کرتے)-
غیر مقلد ہونے کے ناتے ہمارا مقصد آئمہ اربعہ کو جھوٹا ثابت کرنا نہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا ہے- بلکہ مقصد یہ ہے کہ مقلدین کو
جامد تقلید کی گمراہی سے آزاد کروایا جائے - تقلید انسان کو شخصیت پرستی کے مذموم عمل کی طرف دعوت دیتی ہے- اور شخصیت پرستی شرک کی طرف لے جانے والا راستہ ہے-
الله سب کو ہدایت دے (آمین)-