• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کرام براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیئے ہوئے افراد سے۔ لہٰذا صحابہ کرام یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ صحابہ کی۔
تقلید صحابہ کے زمانہ میں بھی ہوتی تھی۔ ہر جگہ صرف ایک ہی شخص کے فتاویٰ پر عمل ہوتا تھا خواہ وہ قاضی ہوتا یا گورنر یا خلیفہ۔ دوسرے ان میں سے کسی نے فقہ کو مدون نہیں کیا تھا کہ ہر کوئی اس کے مطابق عمل کرتا۔
فقہ حنفی کو مدون کرنے کے لئے ایک شوریٰ بنائی گئی جس میں مختلف امور کے ماہرین شامل تھے۔ جب یہ فقہ مدون ہو گئی تو لوگوں کو ایک ہی جگہ سے تمام مسائل کا حل ملنا شروع ہوگیا۔
بعد میں کچھ دوسرے فقہاء نے اس مدون فقہ کے کچھ مسائل سے اختلف کیا اور انہوں نے اپنی فقہ مدون کی۔ وہاں کے لوگوں نے اس کو اپنایا۔
اس طرح جب زیادہ فقہیں بنی تو اپنے کو ممتاز کرنے کے لئے حنفی مالکی حنبلی اور شافعی کہلائے۔
اپنی اس پوسٹ کو خود پڑهیں ۔ کیوں الزام دوسروں کے سر رکهتے ہیں ۔
اسی لیئے کہا کہ جاری تهریڈ مقفل کروا لیں ، اگر جوابات نا هوں تو ۔ محض مشورہ هے ۔
پلٹ کر مجهے الزام دے رهے ہیں کہ یہ تهریڈ متحمل نہیں هو سکتا ۔
واللہ المستعان
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
تقلید فقیہ مجتہد کی کی جاتی ہے جو ہر دو صورت میں مأجور ہوتا ہے۔ اس کی تقلید گمراہی کیسے ہوگئی؟
تقلید جامد وہی کرتا ہے جو مجتہد نہیں اور اسی میں اس کا فائدہ ہے۔ کیونکہ غیر اہل کو اہل کی طرف ہی رجوع کرنا چہیئے اور اسی کا حکم ہے۔
محترم -

تقلید اس لئے گمراہی ہے کہ اس میں آپ بغیر دلیل کے اپنے امام کی پیروی کررہے ہیں - ورنہ اگر تقلید صرف فقیہ مجتہد ہی کی جاتی ہے تو دنیا میں صرف چار نہیں ہزاروں فقیہہ و مجتہد موجود تھے اوراب بھی ہیں- تو پھر اس کو چار تک محدود کردینا کہاں کی عقلمندی ہے؟؟

پھر آپ کہتے ہیں کہ تقلید جامد وہی کرتا ہے جو مجتہد نہیں اور اس میں اس کا ہی فائدہ ہے- تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے بعد اہل سنّت میں کوئی مجتہد پیدا ہی نہیں ہوا اور سب کے سب مرتے دم تک غیر اہل (جاہل) ہی رہے ؟؟-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کرام براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیئے ہوئے افراد سے۔ لہٰذا صحابہ کرام یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ صحابہ کی۔
تقلید صحابہ کے زمانہ میں بھی ہوتی تھی۔ ہر جگہ صرف ایک ہی شخص کے فتاویٰ پر عمل ہوتا تھا خواہ وہ قاضی ہوتا یا گورنر یا خلیفہ۔ دوسرے ان میں سے کسی نے فقہ کو مدون نہیں کیا تھا کہ ہر کوئی اس کے مطابق عمل کرتا۔
فقہ حنفی کو مدون کرنے کے لئے ایک شوریٰ بنائی گئی جس میں مختلف امور کے ماہرین شامل تھے۔ جب یہ فقہ مدون ہو گئی تو لوگوں کو ایک ہی جگہ سے تمام مسائل کا حل ملنا شروع ہوگیا۔
بعد میں کچھ دوسرے فقہاء نے اس مدون فقہ کے کچھ مسائل سے اختلف کیا اور انہوں نے اپنی فقہ مدون کی۔ وہاں کے لوگوں نے اس کو اپنایا۔
اس طرح جب زیادہ فقہیں بنی تو اپنے کو ممتاز کرنے کے لئے حنفی مالکی حنبلی اور شافعی کہلائے۔
محترم -

ذرا ہمیں بھی بتائیں کہ وہ کون سے اصحاب تھے جو "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیئے ہوئے افراد کی یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرتے تھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ صحابہ کی تقلید کرتے تھے ؟؟

پھر آپ فرماتے ہیں کہ "تقلید صحابہ کے زمانہ میں بھی ہوتی تھی۔ ہر جگہ صرف ایک ہی شخص کے فتاویٰ پر عمل ہوتا تھا خواہ وہ قاضی ہوتا یا گورنر یا خلیفہ۔ دوسرے ان میں سے کسی نے فقہ کو مدون نہیں کیا تھا کہ ہر کوئی اس کے مطابق عمل کرتا۔ فقہ حنفی کو مدون کرنے کے لئے ایک شوریٰ بنائی گئی جس میں مختلف امور کے ماہرین شامل تھے۔ جب یہ فقہ مدون ہو گئی تو لوگوں کو ایک ہی جگہ سے تمام مسائل کا حل ملنا شروع ہوگیا۔"

یہ کب اور کیسے ہوا ؟؟- چلیں آپ کی فرضی دلیل کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے کچھ اصحاب کو مقرر کردیا کہ جن کی تقلید ضروری ہوئی - لیکن امام ابو حنیفہ کی تقلید پر لوگوں کو کس نے مقرر کیا ؟؟ کیا امام صاحب نے خود فرمایا کہ آج سے میری تقلید تم سب پر پر واجب ہوئی وغیرہ - ؟؟

مزید یہ کہ لوگوں کو کس نے یہ اختیار دیا کہ ابو حنیفہ کی مدون کی گئی فقہ کو چھوڑ کر دوسرے آئمہ کی فقہ پر عمل بھی جائز ہے ؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایک تو آپ نے اس کی آخری آیت کاترجمہ صحیح نہیں کیا دوسرے اس سے جو مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی ہے وہ من مرضی کی ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق۔
اس سے پہلے والی آیت اور ان دو کے بعد والی آیت کو بھی ساتھ ملا لیں مطلب خود بخود واضح ہو جائے گا۔
{أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (38) وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (39) وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى (40) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى (41)} [النجم: 38 - 41]
محترم -

ذرا آپ ہی اس قرآن کی آیات کا صحیح مفہوم واضح کردیں ؟؟-

ظاہر ہے انسان دنیا میں جس چیز کی کوشش کرتا ہے الله رب العزت اس کا بدلہ اسی طرح قیامت کے دن دے گا- اب ایک انسان جاہلوں کی طرح ساری زندگی اپنے امام کی پیروی کرتا رہتا ہے تو دنیا و آخرت میں گمراہی کی سوا اس کے کیا ہاتھ آے گا ؟؟

أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (38)
وہ یہ کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا -


یہ آپ احناف ہی ہیں جو اس آیات کا صحیح مطلب نہیں سمجھتے - ورنہ چلّہ، چالیسواں، برسی، ایصال ثواب وغیرہ کے نام پر جو حرکتیں احناف کرتے ہیں شاید ہی کوئی اور کرتا ہو- جب کہ الله رب العزت تو مذکورہ آیت میں صاف فرما رہا ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا-
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ہر فقیہ خطا یا صواب پر ہوسکتا ہے
ہر ایک کی سمجھ لازم نہیں کہ صحیح ہی ہو سوائے انبیاء کے
کاش آپ اتنی ہی بات کہتے تو بہت مختصر تو ہوتا مگر جامع ہوتا ۔ کیونکہ یہی بات تو ہم آپ کو سمجھانے میں لگے ہیں ۔ مگر آپ کی باتوں سے ہمیں یہی تاثر ملتا ہے کہ آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ کے اور کوئی فقیہ یا مجتہد ہے ہی نہیں یا امام ابو حنیفہ ؒ نے اپنی فقہ نبیﷺ کے سامنے بیٹھ کر مدون فرمائی ہے ۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
کاش آپ اتنی ہی بات کہتے تو بہت مختصر تو ہوتا مگر جامع ہوتا ۔ کیونکہ یہی بات تو ہم آپ کو سمجھانے میں لگے ہیں ۔ مگر آپ کی باتوں سے ہمیں یہی تاثر ملتا ہے کہ آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ کے اور کوئی فقیہ یا مجتہد ہے ہی نہیں یا امام ابو حنیفہ ؒ نے اپنی فقہ نبیﷺ کے سامنے بیٹھ کر مدون فرمائی ہے ۔
ہر فقیہ خطا یا صواب پر ہوسکتا ہے
لیکن جس کی پیروی کی جاتی ہے اسے اس معاملہ میں صواب پر سمجھتے ہوئے ہی کی جاتی ہے۔
اختلاف کسی بات کو سمجھنے میں فرق سے آتا ہے جن فقہاء (نہ کہ غیر فقیہ) نے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے فہم کو خطا پر سمجھا انہوں نے اپنا فہم دیا

اور یہ جائز ہے کہ ہر ایک کی سمجھ لازم نہیں کہ صحیح ہی ہو سوائے انبیاء کے کہ ان کو خطا پر نہیں رہنے دیا جاتا تھا۔
اقتباس میں ایڈیٹنگ مت کریں۔ الگ الگ اقتباس لے لیں اگر ساری بات پر بحث نہ کرنی ہو تب۔
جس حصہ کو ملون کیا ہے اس پر آپ کے کوئی تحفظات ہیں؟
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
یہ تھریڈ نماز پڑھنے سے متعلق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کہا کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی ہوئی نماز میں تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اتنے بلند کیئے گئے کہ انگوٹھے کان کی لو کے برابر ہو گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو گٹ کے پاس سے پکڑا اور خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کے مطابق ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے سنت ہیں۔
اگر آپ دائیں ہاتھ سے بائیں کو گٹ کے پاس سے پکڑیں گے توہیئت کچھ یوں بنے گی (عملاً کر کے دیکھ لیجئے گا) کہ اگر ہاتھ ناف سے نیچے ہونگے تو کہنیاں کندھوں سے اندر کی طرف ہوں گی۔ آپ جیسے جیسے اسی طرح ہاتھ بابندھے ہوئے اوپر کی طرف لانا شروع کریں تو کہنیاں کندھوں سے باہر نکل آئیں گی۔ اس صورت میں مسنون طریقہ پر صف بندی ممکن نہ رہے گی جس میں کندھے سے کندھا ملانا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں؛
Saf 3.png


آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہاتھ مسنون طریقہ پر باندھ کر سینہ پر لائے جائیں تو کندھے سے کندھا ملانا ممکن نہیں رہتا اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف صف بندی ہوگی۔
ہاتھ باندھنے کا جو طریقہ زبیر علی زئی مرحوم نے وڈیوز میں دکھلایا ہے (حدیث کی غلط تعبیر کرتے ہوئے) اس طرح ہاتھ سینہ پر کبھی نہیں آسکتے۔ ملاحظہ فرمائیں؛
ڈھانچہ.jpg
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
تمام قارئین کو میرا بهی ایک مشورہ هے ۔ اگر عنوان نماز کی ادائیگی کا سنت طریقہ جو کے ثابتہ بهی هو تو کیوں نا "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" لﻷلباني پڑهی جائے ، سمجهی جائے !
كيفية صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بهی پڑهی اور سمجهی جائے !

یا قارئین مخصوص ترین طریقہ سے ہی نماز کے ادا کرنے کا طریقہ سمجهنا چاہیں گے ایک ایسے صاحب سے جنکی معلومات اسلامیہ بقول انکے خود کسی بهی مستند مدرسہ سے نہیں هوئی هے ؟

یا تو میری شرط هیکہ اس تهریڈ کا عنوان نماز کی ادائیگی کا طریقہ بطریقہ احناف کیا جائے ۔

@ جملہ قارئین
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
یا قارئین مخصوص ترین طریقہ سے ہی نماز کے ادا کرنے کا طریقہ سمجهنا چاہیں گے ایک ایسے صاحب سے جنکی معلومات اسلامیہ بقول انکے خود کسی بهی مستند مدرسہ سے نہیں هوئی هے ؟
تمام ساتھی میرے اس مراسلہ کے ایک ایک لفظ کو بغور اور فکر کے ساتھ پڑھیں

میں نے دینی علم براہِ راست نصوص سے سیکھا ہے۔
مجھ پر کسی دینی مدرسہ کی چھاپ نہیں۔
جو جس دینی مدرسہ سے پڑھتا ہے وہ اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے الا ماشاء اللہ۔
میں نے غیر مقلدوں کی دعوت کہ، جس امام کی بات صحیح ہو اس کی پیروی کرو، پر عمل پیرا ہوں (یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ اب تک نماز کے مسائل میں مجھے حنفی مسلک حق پر ملا اور میں نے زیادہ تر اسی کے مسائل کی چھان پھٹک کی اور یہ چیز آپ کو میری تحریروں سے محسوس ہوگی کہ میری اکثر ابحاث نماز سے متعلق ہیں)۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کا ست طریقہ جو تمام صحیح احادیث سے ملتا ہے وہ یہی ہے کہ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو کلائی کے پاس سے پکڑیں گے۔ اتنی بات پر میراخیال ہے کہ کسی کو اختلاف نہیں سوائے زبیر علی زئی کے مقلدین غیر مقلدین کے (ابتسامہ)۔
مقلدین اور غیر مقلدین کا اصل اختلاف سینہ پر اور سینہ سے نیچے کا ہے ناف سے اوپر نیچے کا نہیں۔
امت مسلمہ کا متواتر عمل (جیسا کہ محدثین اور فقہا کے بیانات سے عیاں ہے) سینہ سے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے۔
سینہ پر ہاتھ بناندھنے کی جتنی احادیث پیش کی جاتی ہیں ان میں بھی یا تو روات کا ضعف ہے یا متن میں اضطراب۔
میں نے جہاں تک غورو فکر کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’صدرہ‘‘ چونکہ سمت کے لئے (ظہرہ کا متضاد)بھی آتا ہے لہٰذا ان احادیث کو اس پر حمل کیا جائے کہ اس سے مراد سامنے کی طرف ہاتھ باندھنا ہے نہ کہ پیچھے کی طرف۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عام زندگی میں لوگ چلتے پھرتے ہوئے پیچھے ہاتھ باندھ لیتے ہیں خصوصاً سردی کے موسم میں۔
خیر القرون کے کسی محدث یا فقیہ سے سینہ پر ہاتھ باندھنی کی روایت نہیں سوائے امام شافعی سے جس سے کہ انہوں نے خود ہی رجوع فرما لیا تھا۔
 
Top