کیونکہ کبھی نہ کبھی دل کی بات زبان و قلم پر آہی جاتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والا ہے یا نہیں
کون اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا ہے اور کون نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنا آپ کے بس کی بات نہیں، کیونکہ آپ محبت کے نام سے تو واقف ہیں لیکن کیفیت اور محبت کی حقیقت آپ کیا سمجھیں، یہ تو وہی پرہیز گار اور متقی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں۔
ایسی لئے کہا تھا کہ حدیث رسول ﷺ پیش فرمادیں اور آپ نے یہ رام لیلا سنا ڈالی
یہ سب کچھ اس لئے نہیں سنایا کہ آپ ہم سے محبت کرنے لگ جائیں، کیونکہ کافر کبھی مسلمانوں سے خوش نہیں ہو سکتے جب تک مسلمان اس کی ملتِ کفر پر نہ چلنے لگ جائیں۔ یہ سب کچھ سنانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ کے نزدیک ایک شرابی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کی بنا پر اچھا ہو سکتا ہے، تو تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے والے مومن لوگ تو بدرجہ اولیٰ آپ کے نزدیک اچھے ہونے چاہئے تھے، لیکن اصل بات وہی ہے کہ کافر کبھی مسلمانوں سے خوش نہیں رہ سکتے جب تک کہ وہ ان کی طرح کافر نہ بن جائیں۔ اللہ محفوظ فرمائے آمین
ویسے یہ سب اعمال ہیں اور یہ معیار نہیں محبت کا
محبت کیا ہے، اور کیسے کرنی ہے، اور محبت کے لئے کیا کچھ کرنا ہے، یہ بتانے کی آپ کو ضرورت نہیں، ہم اللہ کے فضل و کرم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
اس نفرت کی بنیاد بھی فرمان رسول اللہﷺ کی بنیاد پر ہے
وإني سمعتُ رسولَ الله صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول : ( سيخرج قومٌ في آخرِ الزمانِ، أحداثُ الأسنانِ، سفهاءُ الأحلامِ، يقولون من خيرِ قولِ البريَّةِ، لا يجاوزُ إيمانُهم حناجرَهم، يمرُقون من الدينِ كما يمرقُ السهمُ من الرمِيَّةِ، فأينما لقِيتموهم فاقتلوهم، فإنَّ في قتلِهم أجرًا لمن قتلَهم يومَ القيامةِ ) .
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6930
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3611
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5057
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1066
ترجمہ داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ آخر زمانے میں نو عمر اور بیوقوف لوگ ظاہر ہونگے جن کام یہ ہوگا کہ حدیث شریف پڑھیں اور پڑھائیں گے حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کو اہل حدیث کہا جاتا ہے جو کہ آج کل وہابیوں کی پہچان ہے اور ان کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہین اترے گا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے دل میں ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا جب تک میری قرابت کی نسبت سے اہل بیت اطہار سے محبت نہ کرو وہابیوں کو اہل بیت اطہار سے کتنی محبت ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اس کے علاوہ وہابی فتنہ اس خطہ زمین سے اٹھا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے پہلے ہی ارشاد فرمادیا تھا کہ نجد سے فتنے اور شیطان کا سینگ نکلے گا
ایسی طرح صحیح بخاری ہی میں بیان ہوا کہ
ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟
جب یہ گستاخ و خبیث پلٹ کا جانے لگا تو حضور ﷺ نے اس کی طرف اشارہ فرماکر ارشاد فرمایا
اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔
یعنی ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ قبیلہ بنی تمیم سے تھا کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کی نسل میں اس جیسے گستاخ پیدا ہونگے چونکہ وہابی فتنہ کے بانی کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے اور اس کے بارے میں بھی علماء اسلام کی رائے ہے کہ یہ رسول اللہ کی شان گھٹانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اس لئے غالب گمان یہی کہ یہ ذوالخویصرہ کی نسل سے ہے
ذوالخویصرہ کا حیلہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان ہوا جو کہ کچھ اس طرح ہے
ذوالخویصرہ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں تھیں ، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا
اگر اس حیلے پر فی زمانہ غور کیا جائے تو وہابی ہی اس پر پورا اترتے ہیں
رسول اللہﷺ نے صحابہ سے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔
اور اس معیار پر بھی وہابی پورا اتر تے ہیں جس کا اعتراف آپ نے فرمایا ہے
صحیح بخاری کی اس حدیث کا جتنا غلط اطلاق آپ لوگوں نے کیا ہے شاید کسی نے اتنا کیا ہو گا، آپ کو اپنے باطل موقف کو بچانے کے لئے یہ حدیث آخری کڑی نظر آتی ہے حالانکہ اگر غور و فکر کیا جائے تو اس حدیث کا اطلاق بھی بریلویت اور رافضیت پر ہوتا ہے، لیکن خیر یہاں بات لمبی ہو جائے گی۔
یہاں آپ نے جو ایک اور خیانت کی اور یہ بات کہتے ہوئے آپ کو ذرا برابر شرم نہیں آئی کہ اہلحدیث کا کیا مقام ہے؟؟ اور آپ نے خوارج کی حدیث کو ڈائریکٹ اہلحدیث پر فٹ کر دیا۔
- یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
- یہ حدیث حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
- یہ حدیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
- یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
- یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
- یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
- یہ حدیث حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
یہ آپ کی بدترین خیانت اور حدیث کی معنوی تحریف ہے کہ آپ نے اپنے بغض اور دشمنی کے اظہار کے لئے حدیث کی معنوی تحریف کر ڈالی۔
جہاں تک خوارج کی حدیث کا تعلق ہے۔ اب اس کی وضاحت سن لو:
خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ظاہر ہوئے، انہوں نے مسئلہ تحکیم پر دو صحابی حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کو کافر قرار دیا (معاذاللہ) اس حدیث کا اطلاق ان پر ہوتا ہے، ناکہ اہلسنت والجماعت اہلحدیث جو ناجی فرقہ ہے (ان شاءاللہ) پر ہوتا ہے۔
اور
آج اہلحدیث بریلویوں کو مشرک اور شیعہ (جو اپنے باطل عقائد جیسے تحریف قرآن کے عقیدے پر اٹل ہیں) کو کافر سمجھتے ہیں اور قرآن و حدیث کے مضبوط دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ شیعہ کافر اور بریلوی مشرک ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ خوارج اور اہلحدیث کے نظریے میں کتنا فرق ہے:
1) خوارج جس ہستی کو کافر سمجھتے تھے (نعوذباللہ) یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ مشرک نہیں تھے، جبکہ اہلحدیث شیعہ کو کافر سمجھتے ہیں اور شیعہ مشرک ہیں۔
2) حضرت علی رضی اللہ عنہ قبر پرست نہیں تھے، (بلکہ قبروں کو بالشت برابر کرنے والے تھے) جبکہ شیعہ اور بریلوی قبر پرست ہیں۔
3) حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے سوا کسی غیر کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا، غوث الاعظم، اولادیں دینے والا، روزی دینے والا نہیں سمجھتے تھے، جبکہ شیعہ اور بریلوی ان تمام مشرکانہ امور کے مرتکب ہیں۔
4) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں پکاراجبکہ شیعہ اور بریلویوں نے کئی باطل معبود گھڑ رکھے ہیں۔
5) حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد نہیں کرتے تھے۔ جبکہ شیعہ اور بریلوی مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرتے ہیں۔
6) حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتے تھے، جبکہ شیعہ اور بریلوی مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔
غرض حضرت علی رضی اللہ عنہ جو موحد صحابی تھے، ان کو کافر کہنے والے خوارج، اور قبر پرست مشرک و کافر شیعہ و بریلویوں کو مشرک کہنے والے موحد اہلحدیث کو بھی خوارج میں شمار کرنا نا انصافی ہے۔
لہذا آپ کا مسلمانوں کے خلاف یہ باطل پروپیگنڈہ زمین بوس ہو جاتا ہے اور حدیث کے معنوی تحریف کا جرم بھی آپ پرلاگو ہوتا ہے۔ آپ نے اہلحدیث کو خاص کر کے سلف صالحین پر بہتان باندھا ہے۔
اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے آمین