• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وھابیوں کے کیا "جرم" ہیں؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شرابی تو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرنے والا ہوسکتا ہے !! لیکن کیا وہابی اس کے برعکس نہیں ؟
أن رجلًا على عهدِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان اسمُه عبدَ اللهِ، وكانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا، وكان يُضحِكُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، وكان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قدْ جلَدَه في الشَّرابِ، فأُتيَ بهِ يومًا فأمَرَ بِهِ فجُلِدَ، فقال رجلٌ مِنَ القَومِ : اللَّهُمَّ العَنْهُ، ما أكثَرَ ما يُؤتَى بهِ ؟ فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( لا تَلْعَنُوه، فواللهِ ما عَلِمْتُ إلَّا أنه يُحِبُّ اللهَ ورسولَه ) .
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6780
ترجمہ داؤد راز
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص، جس کا نام عبداللہ تھا اور "حمار" کے لقب سے پکارے جاتے تھے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شراب پینے پر مارا تھا تو انہیں ایک دن لایا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حکم دیا اور انہیں ماراگیا۔ حاضرین میں ایک صاحب نے کہا اللہ اس پر لعنت کرے! کتنی مرتبہ کہا جا چکا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو واللہ میں نے اس کے متعلق یہی جانا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
نہیں، وہابی اس کے بالکل برعکس نہیں؟ وہابی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ الحمدللہ

آپ یہ بتائیں کہ آپ کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہوتا ہے؟ یعنی وہ کون سے افعال و اعمال ہیں جو اختیار کرنے والا آپ کے نزدیک حقیقی محبت کرنے والا شمار ہوتا ہے؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
نہیں، وہابی اس کے بالکل برعکس نہیں؟ وہابی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ الحمدللہ

آپ یہ بتائیں کہ آپ کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہوتا ہے؟ یعنی وہ کون سے افعال و اعمال ہیں جو اختیار کرنے والا آپ کے نزدیک حقیقی محبت کرنے والا شمار ہوتا ہے؟
بخاری کی کوئی دلیل پیش فرمادیں جیسا کہ میں شرابی کے لئے بخاری کی دلیل پیش کی یا کہیں تو میں پیش کروں حدیث صحیح آپ کے قول کے رد میں

اس حدیث میں ہی بیان ہوا کہ باوجود اس کے یہ صحابی بار بار شراب پیتے تھے اس کے باوجود رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ " یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے "
اس سے معلوم ہوا کہ محبت کا تعلق افعال اور اعمال سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دل کی ایک کفیت کا نام ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بخاری کی کوئی دلیل پیش فرمادیں جیسا کہ میں شرابی کے لئے بخاری کی دلیل پیش کی یا کہیں تو میں پیش کروں حدیث صحیح آپ کے قول کے رد میں

اس حدیث میں ہی بیان ہوا کہ باوجود اس کے یہ صحابی بار بار شراب پیتے تھے اس کے باوجود رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ " یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے "
اس سے معلوم ہوا کہ محبت کا تعلق افعال اور اعمال سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دل کی ایک کفیت کا نام ہے
تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وھابی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتے۔ دلی کیفیت سے تو آپ بھی واقف نہیں ہیں، ہو سکتا ہے جن وھابیوں کو آپ غلط سمجھ رہے ہوں وہ آپ سے زیادہ محبت کرتے ہوں۔

جبکہ حدیث میں دیکھیں وہ آدمی پیتا تو شراب تھا لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا تھا، تو وھابی:
1) شراب بھی نہیں پیتے
2) شرک بھی نہیں کرتے
3) ایمان بھی لاتے ہیں
4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی کرتے ہیں
5) اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلے میں کسی کی بات تسلیم بھی نہیں کرتے
6) قرآن و حدیث کی طرف دعوت بھی دیتے ہیں
7) جہاد فی سبیل اللہ بھی کرتے ہیں
8) تہجد بھی پڑھتے ہیں
9) تقویٰ بھی اختیار کرتے ہیں
10) امر بالمعروف ونھی عن المنکر بھی کرتے ہیں

اس کے باوجود آپ کی وھابیوں سے نفرت چہ معنی دارد؟ آپ کو تو دیگر لوگوں سے زیادہ وھابیوں سے محبت کرنی چاہیئے، جب ایک آدمی شرابی ہو کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کر سکتا ہے تو وہابی کیوں نہیں کر سکتا؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وھابی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتے۔ دلی کیفیت سے تو آپ بھی واقف نہیں ہیں، ہو سکتا ہے جن وھابیوں کو آپ غلط سمجھ رہے ہوں وہ آپ سے زیادہ محبت کرتے ہوں۔
کیونکہ کبھی نہ کبھی دل کی بات زبان و قلم پر آہی جاتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والا ہے یا نہیں
جبکہ حدیث میں دیکھیں وہ آدمی پیتا تو شراب تھا لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا تھا، تو وھابی:
1) شراب بھی نہیں پیتے
2) شرک بھی نہیں کرتے
3) ایمان بھی لاتے ہیں
4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی کرتے ہیں
5) اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلے میں کسی کی بات تسلیم بھی نہیں کرتے
6) قرآن و حدیث کی طرف دعوت بھی دیتے ہیں
7) جہاد فی سبیل اللہ بھی کرتے ہیں
8) تہجد بھی پڑھتے ہیں
9) تقویٰ بھی اختیار کرتے ہیں
10) امر بالمعروف ونھی عن المنکر بھی کرتے ہیں
ایسی لئے کہا تھا کہ حدیث رسول ﷺ پیش فرمادیں اور آپ نے یہ رام لیلا سنا ڈالی
ویسے یہ سب اعمال ہیں اور یہ معیار نہیں محبت کا
اس کے باوجود آپ کی وھابیوں سے نفرت چہ معنی دارد؟ آپ کو تو دیگر لوگوں سے زیادہ وھابیوں سے محبت کرنی چاہیئے، جب ایک آدمی شرابی ہو کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کر سکتا ہے تو وہابی کیوں نہیں کر سکتا؟
اس نفرت کی بنیاد بھی فرمان رسول اللہﷺ کی بنیاد پر ہے
وإني سمعتُ رسولَ الله صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول : ( سيخرج قومٌ في آخرِ الزمانِ، أحداثُ الأسنانِ، سفهاءُ الأحلامِ، يقولون من خيرِ قولِ البريَّةِ، لا يجاوزُ إيمانُهم حناجرَهم، يمرُقون من الدينِ كما يمرقُ السهمُ من الرمِيَّةِ، فأينما لقِيتموهم فاقتلوهم، فإنَّ في قتلِهم أجرًا لمن قتلَهم يومَ القيامةِ ) .
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6930
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3611
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5057
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1066

ترجمہ داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔

اس حدیث میں بیان ہوا کہ آخر زمانے میں نو عمر اور بیوقوف لوگ ظاہر ہونگے جن کام یہ ہوگا کہ حدیث شریف پڑھیں اور پڑھائیں گے حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کو اہل حدیث کہا جاتا ہے جو کہ آج کل وہابیوں کی پہچان ہے اور ان کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہین اترے گا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے دل میں ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا جب تک میری قرابت کی نسبت سے اہل بیت اطہار سے محبت نہ کرو وہابیوں کو اہل بیت اطہار سے کتنی محبت ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اس کے علاوہ وہابی فتنہ اس خطہ زمین سے اٹھا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے پہلے ہی ارشاد فرمادیا تھا کہ نجد سے فتنے اور شیطان کا سینگ نکلے گا
ایسی طرح صحیح بخاری ہی میں بیان ہوا کہ
ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟
جب یہ گستاخ و خبیث پلٹ کا جانے لگا تو حضور ﷺ نے اس کی طرف اشارہ فرماکر ارشاد فرمایا
اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔

یعنی ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ قبیلہ بنی تمیم سے تھا کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کی نسل میں اس جیسے گستاخ پیدا ہونگے چونکہ وہابی فتنہ کے بانی کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے اور اس کے بارے میں بھی علماء اسلام کی رائے ہے کہ یہ رسول اللہ کی شان گھٹانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اس لئے غالب گمان یہی کہ یہ ذوالخویصرہ کی نسل سے ہے


ذوالخویصرہ کا حیلہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان ہوا جو کہ کچھ اس طرح ہے
ذوالخویصرہ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں تھیں ، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا


اگر اس حیلے پر فی زمانہ غور کیا جائے تو وہابی ہی اس پر پورا اترتے ہیں
رسول اللہﷺ نے صحابہ سے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔

اور اس معیار پر بھی وہابی پورا اتر تے ہیں جس کا اعتراف آپ نے فرمایا ہے
جبکہ حدیث میں دیکھیں وہ آدمی پیتا تو شراب تھا لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا تھا، تو وھابی:
1) شراب بھی نہیں پیتے
2) شرک بھی نہیں کرتے
3) ایمان بھی لاتے ہیں
4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی کرتے ہیں
5) اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے مقابلے میں کسی کی بات تسلیم بھی نہیں کرتے
6) قرآن و حدیث کی طرف دعوت بھی دیتے ہیں
7) جہاد فی سبیل اللہ بھی کرتے ہیں
8) تہجد بھی پڑھتے ہیں
9) تقویٰ بھی اختیار کرتے ہیں
10) امر بالمعروف ونھی عن المنکر بھی کرتے ہیں
ان سب قرائن باوجود آپ کی وھابیوں سے محبت چہ معنی دارد؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
کیونکہ کبھی نہ کبھی دل کی بات زبان و قلم پر آہی جاتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والا ہے یا نہیں
کون اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا ہے اور کون نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنا آپ کے بس کی بات نہیں، کیونکہ آپ محبت کے نام سے تو واقف ہیں لیکن کیفیت اور محبت کی حقیقت آپ کیا سمجھیں، یہ تو وہی پرہیز گار اور متقی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں۔
ایسی لئے کہا تھا کہ حدیث رسول ﷺ پیش فرمادیں اور آپ نے یہ رام لیلا سنا ڈالی
یہ سب کچھ اس لئے نہیں سنایا کہ آپ ہم سے محبت کرنے لگ جائیں، کیونکہ کافر کبھی مسلمانوں سے خوش نہیں ہو سکتے جب تک مسلمان اس کی ملتِ کفر پر نہ چلنے لگ جائیں۔ یہ سب کچھ سنانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ کے نزدیک ایک شرابی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کی بنا پر اچھا ہو سکتا ہے، تو تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے والے مومن لوگ تو بدرجہ اولیٰ آپ کے نزدیک اچھے ہونے چاہئے تھے، لیکن اصل بات وہی ہے کہ کافر کبھی مسلمانوں سے خوش نہیں رہ سکتے جب تک کہ وہ ان کی طرح کافر نہ بن جائیں۔ اللہ محفوظ فرمائے آمین
ویسے یہ سب اعمال ہیں اور یہ معیار نہیں محبت کا
محبت کیا ہے، اور کیسے کرنی ہے، اور محبت کے لئے کیا کچھ کرنا ہے، یہ بتانے کی آپ کو ضرورت نہیں، ہم اللہ کے فضل و کرم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
اس نفرت کی بنیاد بھی فرمان رسول اللہﷺ کی بنیاد پر ہے
وإني سمعتُ رسولَ الله صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول : ( سيخرج قومٌ في آخرِ الزمانِ، أحداثُ الأسنانِ، سفهاءُ الأحلامِ، يقولون من خيرِ قولِ البريَّةِ، لا يجاوزُ إيمانُهم حناجرَهم، يمرُقون من الدينِ كما يمرقُ السهمُ من الرمِيَّةِ، فأينما لقِيتموهم فاقتلوهم، فإنَّ في قتلِهم أجرًا لمن قتلَهم يومَ القيامةِ ) .
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6930
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3611
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5057
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1066
ترجمہ داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ آخر زمانے میں نو عمر اور بیوقوف لوگ ظاہر ہونگے جن کام یہ ہوگا کہ حدیث شریف پڑھیں اور پڑھائیں گے حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کو اہل حدیث کہا جاتا ہے جو کہ آج کل وہابیوں کی پہچان ہے اور ان کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہین اترے گا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے دل میں ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا جب تک میری قرابت کی نسبت سے اہل بیت اطہار سے محبت نہ کرو وہابیوں کو اہل بیت اطہار سے کتنی محبت ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اس کے علاوہ وہابی فتنہ اس خطہ زمین سے اٹھا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے پہلے ہی ارشاد فرمادیا تھا کہ نجد سے فتنے اور شیطان کا سینگ نکلے گا
ایسی طرح صحیح بخاری ہی میں بیان ہوا کہ
ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟
جب یہ گستاخ و خبیث پلٹ کا جانے لگا تو حضور ﷺ نے اس کی طرف اشارہ فرماکر ارشاد فرمایا
اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔
یعنی ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ قبیلہ بنی تمیم سے تھا کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کی نسل میں اس جیسے گستاخ پیدا ہونگے چونکہ وہابی فتنہ کے بانی کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے اور اس کے بارے میں بھی علماء اسلام کی رائے ہے کہ یہ رسول اللہ کی شان گھٹانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اس لئے غالب گمان یہی کہ یہ ذوالخویصرہ کی نسل سے ہے
ذوالخویصرہ کا حیلہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان ہوا جو کہ کچھ اس طرح ہے
ذوالخویصرہ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں تھیں ، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا
اگر اس حیلے پر فی زمانہ غور کیا جائے تو وہابی ہی اس پر پورا اترتے ہیں
رسول اللہﷺ نے صحابہ سے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔
اور اس معیار پر بھی وہابی پورا اتر تے ہیں جس کا اعتراف آپ نے فرمایا ہے
صحیح بخاری کی اس حدیث کا جتنا غلط اطلاق آپ لوگوں نے کیا ہے شاید کسی نے اتنا کیا ہو گا، آپ کو اپنے باطل موقف کو بچانے کے لئے یہ حدیث آخری کڑی نظر آتی ہے حالانکہ اگر غور و فکر کیا جائے تو اس حدیث کا اطلاق بھی بریلویت اور رافضیت پر ہوتا ہے، لیکن خیر یہاں بات لمبی ہو جائے گی۔
یہاں آپ نے جو ایک اور خیانت کی اور یہ بات کہتے ہوئے آپ کو ذرا برابر شرم نہیں آئی کہ اہلحدیث کا کیا مقام ہے؟؟ اور آپ نے خوارج کی حدیث کو ڈائریکٹ اہلحدیث پر فٹ کر دیا۔
  • یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
  • یہ حدیث حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
  • یہ حدیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
  • یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
  • یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
  • یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
  • یہ حدیث حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔

یہ آپ کی بدترین خیانت اور حدیث کی معنوی تحریف ہے کہ آپ نے اپنے بغض اور دشمنی کے اظہار کے لئے حدیث کی معنوی تحریف کر ڈالی۔

جہاں تک خوارج کی حدیث کا تعلق ہے۔ اب اس کی وضاحت سن لو:
خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ظاہر ہوئے، انہوں نے مسئلہ تحکیم پر دو صحابی حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کو کافر قرار دیا (معاذاللہ) اس حدیث کا اطلاق ان پر ہوتا ہے، ناکہ اہلسنت والجماعت اہلحدیث جو ناجی فرقہ ہے (ان شاءاللہ) پر ہوتا ہے۔

اور

آج اہلحدیث بریلویوں کو مشرک اور شیعہ (جو اپنے باطل عقائد جیسے تحریف قرآن کے عقیدے پر اٹل ہیں) کو کافر سمجھتے ہیں اور قرآن و حدیث کے مضبوط دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ شیعہ کافر اور بریلوی مشرک ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ خوارج اور اہلحدیث کے نظریے میں کتنا فرق ہے:
1) خوارج جس ہستی کو کافر سمجھتے تھے (نعوذباللہ) یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ مشرک نہیں تھے، جبکہ اہلحدیث شیعہ کو کافر سمجھتے ہیں اور شیعہ مشرک ہیں۔

2) حضرت علی رضی اللہ عنہ قبر پرست نہیں تھے، (بلکہ قبروں کو بالشت برابر کرنے والے تھے) جبکہ شیعہ اور بریلوی قبر پرست ہیں۔

3) حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے سوا کسی غیر کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا، غوث الاعظم، اولادیں دینے والا، روزی دینے والا نہیں سمجھتے تھے، جبکہ شیعہ اور بریلوی ان تمام مشرکانہ امور کے مرتکب ہیں۔

4) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں پکاراجبکہ شیعہ اور بریلویوں نے کئی باطل معبود گھڑ رکھے ہیں۔

5) حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد نہیں کرتے تھے۔ جبکہ شیعہ اور بریلوی مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرتے ہیں۔

6) حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتے تھے، جبکہ شیعہ اور بریلوی مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔

غرض حضرت علی رضی اللہ عنہ جو موحد صحابی تھے، ان کو کافر کہنے والے خوارج، اور قبر پرست مشرک و کافر شیعہ و بریلویوں کو مشرک کہنے والے موحد اہلحدیث کو بھی خوارج میں شمار کرنا نا انصافی ہے۔

لہذا آپ کا مسلمانوں کے خلاف یہ باطل پروپیگنڈہ زمین بوس ہو جاتا ہے اور حدیث کے معنوی تحریف کا جرم بھی آپ پرلاگو ہوتا ہے۔ آپ نے اہلحدیث کو خاص کر کے سلف صالحین پر بہتان باندھا ہے۔

اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ایک اور بات جو رہ گئی وہ ہے نجد والی حدیث کا اطلاق
تو اس بارے میں عبدہ صاحب نے مکمل ایک اور تھریڈ میں وضاحت کر دی تھی اور مدلل جواب دے دئیے تھے، آپ مانیں نہ مانیں اس کی پرواہ نہیں، لیکن ہم نے البتہ جواب دے دیا ہے،الحمدللہ
وہاں ملاحظہ کر لیں۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہاں آپ نے جو ایک اور خیانت کی اور یہ بات کہتے ہوئے آپ کو ذرا برابر شرم نہیں آئی کہ اہلحدیث کا کیا مقام ہے؟؟ اور آپ نے خوارج کی حدیث کو ڈائریکٹ اہلحدیث پر فٹ کر دیا۔
یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
یہ حدیث حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
یہ حدیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔
یہ حدیث حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے سامنے تھی انہوں نے کبھی نہیں کہا اس سے مراد اہلحدیث ہیں۔

یہ آپ کی بدترین خیانت اور حدیث کی معنوی تحریف ہے کہ آپ نے اپنے بغض اور دشمنی کے اظہار کے لئے حدیث کی معنوی تحریف کر ڈالی۔
اور تو کوئی ایسی بات نہیں آپ کے مراسلے میں جس کا موضوع سے تعلق ہو لیکن آپ نے جو معنوی تحریف کا الزام لگایا ہے اس کو میں کلیئر کردوں
حدیث کا ترجمہ داؤد راز صاحب کا پیش کیا تھا جو کچھ اس طرح تھا

اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔

اس ترجمہ میں داؤد راز صاحب نے " ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے " کی تشریح حدیث شریف بتائی ہے اور یہ سب آخر زمانے میں ہوگا یعنی آخری زمانے سے پہلے جو حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے وہ اہل حدیث کہلاتے تھے وہ نہ نو عمر ہوتے تھے نہ عقل سے کورے لیکن اس آخری زمانے ایک گروہ پیدا ہوگیا ہے جو اہل حدیث کہلاتا ہے وہ حدیث پڑھتا پڑھاتا بھی ہے اور ان میں اکثر نو عمر ہیں ان قرائن کی روشنی میں ہی شاید داؤد راز نے يقولون من خيرِ قولِ البريَّةِ کا ترجمہ ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے کیا ہے اور سے مراد حدیث لی ہے
اگر آپ کی نظر میں یہ معنوی تحریف ہے تو اس کی ذمہ داری داؤد راز کے ذمہ ہے کیونکہ انھوں نے
خيرِ قولِ البريَّةِ سے مراد حدیث لی ہے
غرض حضرت علی رضی اللہ عنہ جو موحد صحابی تھے، ان کو کافر کہنے والے خوارج، اور قبر پرست مشرک و کافر شیعہ و بریلویوں کو مشرک کہنے والے موحد اہلحدیث کو بھی خوارج میں شمار کرنا نا انصافی ہے۔
عجیب و غریب بات اس پر خود ہی غور فرمالیں
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک اور بات جو رہ گئی وہ ہے نجد والی حدیث کا اطلاق
تو اس بارے میں عبدہ صاحب نے مکمل ایک اور تھریڈ میں وضاحت کر دی تھی اور مدلل جواب دے دئیے تھے، آپ مانیں نہ مانیں اس کی پرواہ نہیں، لیکن ہم نے البتہ جواب دے دیا ہے،الحمدللہ
وہاں ملاحظہ کر لیں۔
زرا وہاں جاکر میرے مراسلات پر غور و خوص فرمالیں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عجیب و غریب بات اس پر خود ہی غور فرمالیں
ساری بات کا خلاصہ اسی جملے کے اندر ہے جو آپ کو عجیب و غریب محسوس ہوئی ہے میں وضاحت کر دیتا ہوں
بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی موحد اور نیک شخصیت کی تکفیر کرنے والے بھی خوارج
اور بریلوی جیسے مشرک لوگوں کے شرک کا رد کرنے والے بھی خوارج

تو یہ ناانصافی ہے، کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بریلویوں میں کوئی فرق نہیں ہے؟ اگر فرق ہے تو ان پر حکم لگانے والوں میں بھی فرق کریں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top