تاویلات تو کوئی اور فرمارہا ہے " نجد " اور " مشرق " کی شاید وہ آپ کی نظر سے نہیں گذری یا آپ تغا فل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں !! مسکراہٹجی دیکھی ہیں آپ کی پوسٹس ، وہی تاویلات کیں ہیں جو آپ یہاں کر رہے ہیں۔
تاویلات تو کوئی اور فرمارہا ہے " نجد " اور " مشرق " کی شاید وہ آپ کی نظر سے نہیں گذری یا آپ تغا فل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں !! مسکراہٹجی دیکھی ہیں آپ کی پوسٹس ، وہی تاویلات کیں ہیں جو آپ یہاں کر رہے ہیں۔
آپ نے مکمل حدیث کا غلط اطلاق کیا ہے، جس صاحب نے ترجمہ کیا ہے، ذرا ان سے پوچھیں کیا انہوں نے بھی اس حدیث کی وضاحت میں اہلحدیث مراد لیا ہے، اگر نہیں تو پھر یہ آپ کی بغض اور دشمنی ہے کہ آپ نے اپنا من چاہا مفہوم بیان کیا ہے۔اور تو کوئی ایسی بات نہیں آپ کے مراسلے میں جس کا موضوع سے تعلق ہو لیکن آپ نے جو معنوی تحریف کا الزام لگایا ہے اس کو میں کلیئر کردوں
حدیث کا ترجمہ داؤد راز صاحب کا پیش کیا تھا جو کچھ اس طرح تھا
اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔
اس ترجمہ میں داؤد راز صاحب نے " ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے " کی تشریح حدیث شریف بتائی ہے اور یہ سب آخر زمانے میں ہوگا یعنی آخری زمانے سے پہلے جو حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے وہ اہل حدیث کہلاتے تھے وہ نہ نو عمر ہوتے تھے نہ عقل سے کورے لیکن اس آخری زمانے ایک گروہ پیدا ہوگیا ہے جو اہل حدیث کہلاتا ہے وہ حدیث پڑھتا پڑھاتا بھی ہے اور ان میں اکثر نو عمر ہیں ان قرائن کی روشنی میں ہی شاید داؤد راز نے يقولون من خيرِ قولِ البريَّةِ کا ترجمہ ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے کیا ہے اور سے مراد حدیث لی ہے
اگر آپ کی نظر میں یہ معنوی تحریف ہے تو اس کی ذمہ داری داؤد راز کے ذمہ ہے کیونکہ انھوں نے
خيرِ قولِ البريَّةِ سے مراد حدیث لی ہے
چلیں وہ ایک علیحدہ موضوع ہے، ابھی آپ سے اس تھریڈ میں دو نکات پر بات ہو رہی ہے۔تاویلات تو کوئی اور فرمارہا ہے " نجد " اور " مشرق " کی شاید وہ آپ کی نظر سے نہیں گذری یا آپ تغا فل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں !! مسکراہٹ
زرا وہاں جاکر میرے مراسلات پر غور و خوص فرمالیں
سو کال معنوی تحریف کا جواب دیا جاچکا ہےچلیں وہ ایک علیحدہ موضوع ہے، ابھی آپ سے اس تھریڈ میں دو نکات پر بات ہو رہی ہے۔
نمبر 1
خوارج جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے تھے ان میں اور موجودہ دور میں بریلویوں پر حکم لگانے والوں میں فرق
نمبر 2
خوارج کی حدیث کی معنوی تحریف جو آپ نے کی ہے
لہذا ہم اپنی گفتگو کو ان دو نکات پر مرکوز رکھتے ہیں۔ ان شاءاللہ
ویسے تو میں عموما اس طرح کے دھاگوں میں شرکت کرنے سے حتی امکان گریز کرتا ہوں جن میں کسی ممبر کا نام لیکر اپنی فتح کی جھوٹی کہانی سنائی گئی ہو جس تھریڈ کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں بھی یہی بات ہے اور پھر آپ کے فراہم کردہ لنک میں جس تھریڈ کے حوالے سے اپنی فتح کی جھوٹی کہانی سنائی گئی ہے وہاں سے میرے سوالات کو ایک نئے دھاگے میں انتظامیہ نے منتقل کردیا تھا جس کا لنک یہ ہےمحترم علی بھائی!
ہر ہر دھاگہ میں اصلاح یا سیکھنے کی غرض سے نہیں بلکہ محض بحث کی کوئی غیر ضروری وجہ نکالنا آپ کا مشن ہے۔
پہلے ان موضوعات میں تو تشریف لیں آئیں جہاں سے فرار اختیار کیئے ہوئے ہیں۔
http://forum.mohaddis.com/threads/علی-بہرام-کو-ساکت-کردینے-والی-پوسٹیں.19211/
بہرام صاحب! ہم سب موضوعات پر باری باری گفتگو کریں گے۔ ان شاءاللہسو کال معنوی تحریف کا جواب دیا جاچکا ہے
خوارج کا نعرہ تھا کہ " حکم صرف اللہ کا " اور یہ نعرہ آج بھی سنے کو مل رہا ہے اس کو لگانے والے وہابی ہی ہیں کیا آپ اس بات جھٹلا سکتے ہیں ؟؟؟
آپ نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا، آپ نے بتایا نہیں کہ ایک موحد شخصیت پر حکم لگانے والے اور موجودہ دور میں مشرک لوگوں پر حکم لگانے والے دونوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟خوارج جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے تھے ان میں اور موجودہ دور میں بریلویوں پر حکم لگانے والوں میں فرق
اس حدیث کی تفصیل اسطرح ہے -کیونکہ کبھی نہ کبھی دل کی بات زبان و قلم پر آہی جاتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والا ہے یا نہیں
ایسی لئے کہا تھا کہ حدیث رسول ﷺ پیش فرمادیں اور آپ نے یہ رام لیلا سنا ڈالی
ویسے یہ سب اعمال ہیں اور یہ معیار نہیں محبت کا
اس نفرت کی بنیاد بھی فرمان رسول اللہﷺ کی بنیاد پر ہے
وإني سمعتُ رسولَ الله صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول : ( سيخرج قومٌ في آخرِ الزمانِ، أحداثُ الأسنانِ، سفهاءُ الأحلامِ، يقولون من خيرِ قولِ البريَّةِ، لا يجاوزُ إيمانُهم حناجرَهم، يمرُقون من الدينِ كما يمرقُ السهمُ من الرمِيَّةِ، فأينما لقِيتموهم فاقتلوهم، فإنَّ في قتلِهم أجرًا لمن قتلَهم يومَ القيامةِ ) .
الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6930
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3611
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5057
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1066
ترجمہ داؤد راز
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
اس حدیث میں بیان ہوا کہ آخر زمانے میں نو عمر اور بیوقوف لوگ ظاہر ہونگے جن کام یہ ہوگا کہ حدیث شریف پڑھیں اور پڑھائیں گے حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کو اہل حدیث کہا جاتا ہے جو کہ آج کل وہابیوں کی پہچان ہے اور ان کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہین اترے گا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے دل میں ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا جب تک میری قرابت کی نسبت سے اہل بیت اطہار سے محبت نہ کرو وہابیوں کو اہل بیت اطہار سے کتنی محبت ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اس کے علاوہ وہابی فتنہ اس خطہ زمین سے اٹھا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے پہلے ہی ارشاد فرمادیا تھا کہ نجد سے فتنے اور شیطان کا سینگ نکلے گا
ایسی طرح صحیح بخاری ہی میں بیان ہوا کہ
ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟
جب یہ گستاخ و خبیث پلٹ کا جانے لگا تو حضور ﷺ نے اس کی طرف اشارہ فرماکر ارشاد فرمایا
اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔
یعنی ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ قبیلہ بنی تمیم سے تھا کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کی نسل میں اس جیسے گستاخ پیدا ہونگے چونکہ وہابی فتنہ کے بانی کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے ہے اور اس کے بارے میں بھی علماء اسلام کی رائے ہے کہ یہ رسول اللہ کی شان گھٹانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اس لئے غالب گمان یہی کہ یہ ذوالخویصرہ کی نسل سے ہے
ذوالخویصرہ کا حیلہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بیان ہوا جو کہ کچھ اس طرح ہے
ذوالخویصرہ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں تھیں ، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا
اگر اس حیلے پر فی زمانہ غور کیا جائے تو وہابی ہی اس پر پورا اترتے ہیں
رسول اللہﷺ نے صحابہ سے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔
اور اس معیار پر بھی وہابی پورا اتر تے ہیں جس کا اعتراف آپ نے فرمایا ہے
ان سب قرائن باوجود آپ کی وھابیوں سے محبت چہ معنی دارد؟
جی بھائی اس موضوع کی مناسبت سے جو آپ کی طرف سے یہاں جاری ہے ،میں اتنا ہی کہوں گی خدارا یہ حدیث رسول اللہ ﷺ ہیں ، اگر آپ کو حدیث سمجھنی یا مکمل پیش کرنی بھی نہیں آتی تو احتیاط کریں جب تک کہ آپ کو اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔حدیث کو ادھورا پیش کرنا اور من چاہا مفہوم نکالنا یہ آپ کی روش ہے۔دوسروں کی اصلاح سے پہلے خود پر تو غور فرما لیں۔۔۔!ویسے تو میں عموما اس طرح کے دھاگوں میں شرکت کرنے سے حتی امکان گریز کرتا ہوں جن میں کسی ممبر کا نام لیکر اپنی فتح کی جھوٹی کہانی سنائی گئی ہو جس تھریڈ کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں بھی یہی بات ہے اور پھر آپ کے فراہم کردہ لنک میں جس تھریڈ کے حوالے سے اپنی فتح کی جھوٹی کہانی سنائی گئی ہے وہاں سے میرے سوالات کو ایک نئے دھاگے میں انتظامیہ نے منتقل کردیا تھا جس کا لنک یہ ہے
صحابہ کرام و أئمہ عظام کی طرف جھوٹ کی نسبت ؟
اس دھاگے میں میری آخری پوسٹ 15 دسمبر 2013 کو پوسٹ کی تھی اس کے بعد سے اب تک وہاں سنا ٹا چھایا ہوا ہے
کیا ایسے ہم ساکت کرنا کہہ سکتے ہیں ؟؟؟؟
آپ اگر موضوع کی مناسبت سے کچھ اظہار خیال فرمائے تو مجھے ہمتن گوش پائیں گی