لیکن صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ اس خارجی خبیث گستاخ رسول کا تعلق قبیلہ بنی تمیم سے تھا یہ وہی قبیلہ ہے جس سے محمد بن عبدالوھاب نجدی التمیمی کا تعلق ہے اور اس کی جنم بھومی عیینہ ہے جو کہ عراق میں نہیں بلکہ نجد میں ہے اب جو لوگ قبیلہ بنی تمیم کو عراقی قبیلہ مانتے ہیں ان کے لئے بخاری کی اس حدیث اور ان کے سربراہ کی جنم بھوی نے ایک مشکل کھڑی کردی ہےاس حدیث کی تفصیل اسطرح ہے -
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھجوایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ سونا چار ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیا۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ آپ کو پشت کر کے مڑا تو آپ نے پھر اس کی جانب دیکھا اور فرمایا: اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔
حوالہ جات
صحیح بخاري، کتاب المغازی، حدیث نمبر 4094
صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، حدیث نمبر
1064
اس شخص کی پشت سے خارجی پیدا ہوے خارجی گروہ کی اکثریت بدوی عراقیوں کی تھی۔ جنگ صفین کے موقع پر سب سے پہلے نمودار ہوا۔ یہ لوگ حضرت علی کی فوج سے اس بنا پر علیحدہ ہوگئے کہ انھوں نے حضرت امیر معاویہ کی ثالثی کی تجویز منظور کر لی تھی۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے خارجیوں کو جنگ نہروان کا مقام پر شکست فاش دی۔ حضرت علی رضی الله عنہ کی فوج ١٠٠٠ نفوس پر مستعمل تھی جب کہ خارجیوں کی تعداد لگ بھگ ٦٠٠٠-٧٠٠٠ تھی - لیکن بعد کے کچھ ادوار میں ان کی شورش باقی رہی۔ حضرت علی ایک خارجی ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس کے بعد امیر معاویہ کے عہد میں بھی ان کی بغاوتیں ہوتی رہیں اور ان کا دائرہ عمل شمالی افریقہ تک پھیل گیا۔ کوفہ اور بصرہ ان کے دو بڑے مرکز تھے۔ فارس اور عراق میں بھی ان کی کافی تعداد تھی۔ وہ بار بار حکومت سے ٹکرائے۔ عباسی خلافت تک ان لوگوں کا اثر رسوخ رہا اور حکومت کے خلاف ان کی چھوٹی بڑی جنگیں جاری رہیں۔
حوالہ جات
تاریخ طبری جلد دوم سوم
طبقات ابن سعد جلد ششم
البدایہ و نہایہ از حماد الدین ابن کثیر -
ان تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا خارجیوں کو وہابی سمجھنے والا استدلال سرے سے غلط ہے -خارجی عراقی سرزمین پر پیدا ہونے والا گروہ تھا - جو کہ ایک صحیح حدیث کے مطابق فتنوں کی سرزمین ہے -
بينا النبيُّ صلى الله عليه وسلم يَقْسِمُ ذات يومٍ قِسْمًا، فقال ذو الخُوَيْصَرَةِ ,رجلٌ من بني تميم: يا رسولَ اللهِ اعدلْ، قال: ويلك، من يعدلُ إذا لم أعدلْ.
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6163
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3610
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1064
ترجمہ داؤد راز
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے۔ بنی تمیم کے ایک شخص ذوالخویصرۃ نے کہا یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس! اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا۔