• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہابیوں سے ایک نہایت ہی سادہ سوال۔۔۔۔؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
سبحان اللہ
کیا بات کی ہے شیخ صاحب نے۔
آپ صحیح روایت پیش کردے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یزید کو خلیفہ اور امیر المؤمنین سمجھتے تھے؟
اب میرے مطالبہ کو پورا کریں :
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حسین رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ کو خلیفہ اور امیر المؤمنین سمجھتے تھے۔
اس کے برخلاف کیا آپ کوئی ایک بھی صحیح روایت پیش کرسکتے ہیں جس میں یہ ذکر ہو کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی خلافت سے انکار کیا یا ان کی بیعت سے انکار کیا ؟
ساری دنیا کے علماء سے مدد لے لیں اور صرف ایک صحیح روایت پیش فرمادیں۔
سیدنا حسین کا خروج ہی سب سے بڑی دلیل ہے ۔شاید اس کی سند کی ضرورت بھی نہ ہو ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
بھائی بے سند بات کا مطالبہ نہیں ، بلکہ باسند اور صحیح سند سے کوئی ایک روایت پیش فرمادیں کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کے خلاف خروج کیا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بھائی بے سند بات کا مطالبہ نہیں ، بلکہ باسند اور صحیح سند سے کوئی ایک روایت پیش فرمادیں کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کے خلاف خروج کیا۔
شیخ صاحب ہم صرف تحقیق کی نیت سے یہ بات کر رہے ہیں ، لیکن یہ بات ہمارے لیے نئی ہے اس لیے کچھ تجسس پیدا ہوا ہے
أنبأنا على ابن مُحَمَّدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي الْمُهَاجِرِ عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ لُوطِ بْنِ يَحْيَى العامري عن محمد بن بشير الْهَمْدَانِيِّ وَغَيْرِهِ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنُ الْحَجَّاجِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عن هارون بن عيسى عن يونس بن إِسْحَاقَ عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ: وَغَيْرُ هَؤُلَاءِ قَدْ حَدَّثَنِي أَيْضًا فِي هَذَا الْحَدِيثِ بِطَائِفَةٍ فَكَتَبْتُ جَوَامِعَ حَدِيثِهِمْ فِي مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَرْضَاهُ:
قَالُوا: لَمَّا بَايَعَ النَّاسُ مُعَاوِيَةَ ليزيد كان حسين مِمَّنْ لَمْ يُبَايِعْ لَهُ، وَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ يكتبون إليه يَدْعُونَهُ إِلَى الْخُرُوجِ إِلَيْهِمْ فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ، كل ذلك يأبى عليهم، فقدم منهم قوم إلى محمد بن الْحَنَفِيَّةِ يَطْلُبُونَ إِلَيْهِ أَنْ يَخْرُجَ مَعَهُمْ فَأَبَى، وجاء إلى الحسين يعرض عليه أمرهم، فقال له الحسين: إِنَّ الْقَوْمَ إِنَّمَا يُرِيدُونَ أَنْ يَأْكُلُوا بِنَا، ويستطيلوا بنا، ويستنبطوا دماء الناس ودماءنا، فَأَقَامَ حُسَيْنٌ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ مِنَ الْهُمُومِ، مَرَّةً يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْهِمْ، وَمَرَّةً يجمع الاقامة عنهم. فَجَاءَهُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ! إِنِّي لَكُمْ نَاصِحٌ، وَإِنِّي عَلَيْكُمْ مشفق، وقد بلغني أنه قد كَاتَبَكَ قَوْمٌ مِنْ شِيعَتِكُمْ بِالْكُوفَةِ يَدْعُونَكَ إِلَى الخروج إليهم، فلا تخرج إليهم، فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَاكَ يَقُولُ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
آپ نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب البدایۃ والنہایہ سے مذکورہ بات نقل کی ہے چنانچہ:

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وقد ساق محمد بن سعد كاتب الواقدى هذا سياقا حسنا مبسوطا فقال أنبأنا على ابن محمد عن يحيى بن إسماعيل بن أبى المهاجر عن أبيهوعن لوط يحيى العامرى عن محمد بن بشير الهمدانى وغيرهوعن محمد بن الحجاج عن عبد الملك بن عمير عن هارون بن عيسى عن يونس بن إسحاق عن أبيهوعن يحيى بن زكريا بن أبى زائدة عن مجالد عن الشعبى
قال محمد بن سعد وغير هؤلاء قد حدثنى أيضا فى هذا الحديث بطائفة فكتبت جوامع حديثهم فى مقتل الحسين رضى الله عنه وأرضاه قالوا لما بايع الناس معاوية ليزيد كان حسين ممن لم يبايع له وكان أهل الكوفة يكتبون إليه يدعونه إلى الخروج إليهم فى خلافة معاوية كل ذلك يأبى عليهم فقدم منهم قوم إلى محمد بن الحنفية يطلبون إليه أن يخرج معهم فأبى وجاء إلى الحسين يعرض عليه أمرهم فقال له الحسين إن القوم إنما يريدون أن يأكلوا بنا ويستطيلوا بنا ويستنبطوا دماء الناس ودماءنا فأقام حسين على ما هو عليه من الهموم مرة يريد أن يسير إليهم ومرة يجمع الاقامة عنهم فجاءه أبو سعيد الخدرى فقال يا أبا عبد الله إنى لكم ناصح وإنى عليكم مشفق وقد بلغنى أنه قد كاتبك قوم من شيعتكم بالكوفة يدعونك إلى الخروج إليهم فلا تخرج إليهم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[
البداية والنهاية:8/ 161]

یعنی امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ بات امام ابن سعد رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔
اب ہم امام ابن سعد رحمہ اللہ کی کتاب سے براہ راست یہ بات نقل کرتے ہیں چنانچہ:


امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخبَرنا محمد بن عمر، قال: حَدَّثَنَا ابن أبي ذئب، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الله بن عمير مولى أم الفضل (ح)
قال: وأَخبَرنا عبد الله بن محمد بن عمر بن علي، عن أبيه (ح)
قال: وأَخبَرنا يحيى بن سعيد بن دينار السعدي، عن أبيه (ح)
قال: وحدثني عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن أبي وجزة السعدي، عن علي بن حسين, قال: وغير هؤلاء أيضًا قد حدثني.

قال مُحمد بن سَعد: وأَخبَرنا علي بن محمد، عن يحيى بن إسماعيل بن أبي المهاجر، عن أبيه(ح)
وعن لوط بن يحيى الغامدي، عن محمد بن نَشر الهمداني، وغيره(ح)
وعن محمد بن الحجاج، عن عبد الملك بن عمير(ح)
وعن هارون بن عيسى، عن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه (ح)
وعن يحيى بن زكريا بن أبي زائدة، عن مجالد، عن الشعبي.
ْ
قال ابن سَعد: وغير هؤلاء أيضًا قد حدثني في هذا الحديث بطائفة،
فكتبت جوامع حديثهم في مقتل الحسين رحمة الله عليه ورضوانه وصلواته وبركاته، قالوا: لما بايع معاوية بن أبي سفيان الناس ليزيد بن معاوية، كان حسين بن علي بن أبي طالب ممن لم بايع له، وكان أهل الكوفة يكتبون إلى حسين, يدعونه إلى الخروج إليهم في خلافة معاوية، كل ذلك يأبى. فقدم منهم قوم إلى محمد بن الحنفية، فطلبوا إليه أن يخرج معهم, فأبى وجاء إلى الحسين فأخبره بما عرضوا عليه, وقال: إنّ القوم إنما يريدون أن يأكلوا بنا ويُشيطوا دماءنا، فأقام حسين على ما هو عليه من الهموم، مرّة يريد أن يسير إليهم، ومرة يجمع الإقامة، فجاءه أبو سعيد الخدري فقال: يا أبا عبد الله, إني لكم ناصح, وإني عليكم مشفق، وقد بلغني أنه كاَتَبك قوم من شيعتكم بالكوفة, يدعونك إلى الخروج إليهم، فلا تخرج
[الطبقات الكبير لابن سعد 6/ 422]۔


اس سند کی پوزیشن کاخلاصہ یہ ہے ہے کہ ابن سعد رحمہ اللہ نے دو سندوں سے یہ روایت بیان کی ہے۔
پہلی سند کا بنیادی راوی واقدی ہے ۔

امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:
كتب الواقدي كذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔

امام إسحاق بن راهَوَيْه رحمه الله (المتوفى 237)نے کہا:
عندي ممن يضيع الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
والكذابون المعروفون بِوَضْع الحَدِيث على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَرْبَعَة: ١- ابْن أبي يحيى بِالْمَدِينَةِ ٢- والواقدي بِبَغْدَاد ٣ - وَمُقَاتِل بن سُلَيْمَان بخراسان ٤ - وَمُحَمّد بن السعيد بِالشَّام وَيعرف بالمصلوب [ أسئلة للنسائي في الرجال المطبوع فی رسائل في علوم الحديث ص: 76]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
أجمعوا على تركه[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 163]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قَدِ انْعَقَدَ الإِجْمَاعُ اليَوْمَ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ بِحُجَّةٍ، وَأَنَّ حَدِيْثَهَ فِي عِدَادِ الوَاهِي[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 469]۔
ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ ہو عام کتب رجال اور امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)سے تو یہ بھی نقل کیا گیا ہے واقدی حدیث ، انساب یا کسی بھی چیز میں قابل اعتماد نہیں ، چنانچہ:

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُوسَى السِّيرَافِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُهَلَّبِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، يَقُولُ: الْهَيْثَمُ بْنُ عَدِيٍّ أَوْثَقُ عِنْدِي مِنَ الْوَاقِدِيِّ , وَلَا أَرْضَاهُ فِي الْحَدِيثِ , وَلَا فِي الْأَنْسَابِ , وَلَا فِي شَيْءٍ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 108 ، شیخ العقیلی لم اعرفہ وباقی الرجال ثقات ، ومن طریق العقلیلی اخرجہ الخطیب فی تاريخ : 14/ 52 و ابن عساکر فی تاريخ دمشق 54/ 452 و ذکرہ المزی فی تهذيب الكمال: 26/ 187]۔

فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
محمد بن عمر هذا - وهو الواقدي - كذاب ، فلا يفرح بروايته[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 13]۔

پھر اس سند میں واقدی نے اپنے سے اوپر کئی طرق ذکر کئے ہیں جو سب مردود ہیں لیکن اس تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ان سب کادارو مدار واقدی پر ہے جس کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے۔


ابن سعد رحمہ اللہ نے دوسری سند علی بن محمد کے واسطہ سے ذکر ہے پھر اس کے اوپر کوئی طرق ہیں جن میں سے ایک بھی صحیح نہیں ۔
پہلے طریق میں اسماعیل نے حسین رضی اللہ عنہ کادور نہیں پایا۔
دوسرے طریق میں طوط بن یحیی کذاب روی ہے۔
تیسرے طریق میں محمد بن الحجاج کذاب راوی ہے۔
چوتھے طریق میں ہارون ضعیف ہے۔
پانچویں طریق میں مجالد ضعیف ۔


اس کے بعد ابن سعد رحمہ اللہ نے کچھ مجہول سندوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔


علاوہ بریں تمام سندوں اور تمام طرق سے نقل کردہ بات کو یکجا کردیا گیا ہے اور کون سی بات کس سند اورکس طریق سے اس کی کوئی وضاحت نہ اس کتاب میں ہے نہ اس کتاب سے باہر اس کی طرف کوئی اشارہ ملتاہے۔

الغرض یہ کہ پیش کردہ بات غیر ثابت ہے۔

آپ سے گذارش ہے کہ صحیح سند سے ہمارا مطالبہ پورا کریں ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شیخ صاحب بہت شکریہ ، ، میں نے دوسری پوسٹ میں آپ کا سارا موقف مع دلائل پڈھ لیا ہے اب میری تسلی ہو گئی ہے
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
آپ لوگ کیوں بلا وجہ اہل بیت سے عداوت رکھتے ہیں؟کربلا میں جو یزید نے اہل بیت کے ساتھ سلوک کیا ہے اس بربریت کی کوئی مثال ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ لوگ کیوں بلا وجہ اہل بیت سے عداوت رکھتے ہیں؟کربلا میں جو یزید نے اہل بیت کے ساتھ سلوک کیا ہے اس بربریت کی کوئی مثال ہے۔
یہ بالکل غلط بات ہے اس کا کوئی ثبوت دیں
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
یہ بالکل غلط بات ہے اس کا کوئی ثبوت دیں
اہل بیت طہار کو شہید کر دیا گیا کیا یزید نے زمہ داروں کا تعین کیا؟انکو سزا دی؟اگر اس طرح کا کوئ
یہ بالکل غلط بات ہے اس کا کوئی ثبوت دیں
ی ثبوت ہے آپ کےپاس کو اس کو ذرا سامنے لائیں
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
حافظ صاحب آپ کی بات بھی غلط ہےِ؟سمجھ نہیں آتی کہ اہل بیت سے دشمنی سے آپ کو کیا مل جاتا ہے؟
 
Top