• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹخنوں سے نیچے شلوار سے وضو کا ٹوٹنا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ!
جزاکم اللہ خیرا
اس کتاب میں کہیں اوپر نیچے دائیں بائیں اپنے اسم گرامی کا اضافہ کر دیں..تا کہ سند رہے..اور بوقت ضرورت کام آوے..ابتسامہ
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ!
جزاکم اللہ خیرا
اس کتاب میں کہیں اوپر نیچے دائیں بائیں اپنے اسم گرامی کا اضافہ کر دیں..تا کہ سند رہے..اور بوقت ضرورت کام آوے..ابتسامہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم شیخ
اسم گرامی سے کچھ فائدہ نہیں ہونے والا، آپ آم کھائیں بس، :)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم شیخ
اسم گرامی سے کچھ فائدہ نہیں ہونے والا، آپ آم کھائیں بس، :)
جی بہتر..آموں کے لیے گرمیوں کا انتظار رہے گا...ابتسامہ
اور پی ڈی ایف فائل کو ری نیم کر کے آپ کا نام کم از کم فائل نیم میں تو میں لکھ ہی دوں گا..تا کہ یہ آم آگے کہیں ہدیہ کرنے ہوں تو کھانے والا آپ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے..ابتسامہ
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
القول المختار في تحقيق حديث إعادة الوضوء بإسبال الإزار

تحریر : ابوانیس عبدالجباراظہر

اربابِ علم و تحقیق اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہونگے کہ براہین باہره اور دلائل قاطعہ کی بنیاد پر علمائے کرام ہر زمانہ میں احادیث کی صحت و سقم کے بارے میں اختلاف کرتے آ رہے ہیں اور دلائل کی بنیاد پر اہل علم سے اختلاف رکھنا معیوب نہیں ہے بشرطیکہ تعصب و عناد سے خالی اور ادب واحترام کے دائرہ میں ہو۔
ایسے ہی اسبال ازار (شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے) سے وضوء اور نماز دہرانے کے متعلق فقیہ امت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
ہمارے نزدیک یہ حدیث صحیح اور قابل حجت ہے ۔
اس حدیث کی مکمل سند اور تحقیق پیش خدمت ہے ۔

قَالَ الْإِمَامُ أَبُوْدَاوُدَ : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا يَحْيٰى عَنْ أَبِى جَعْفَرٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّى مُسْبِلاً إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ» فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ ثُمَّ قَالَ «اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ» فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنَّ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ قَالَ «إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّى وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ ذِكْرُهُ لاَ يَقْبَلُ صَلاَةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ ».
سیدنا ابویریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ ایک شخص نماز پڑھ تھا اور وہ اپنا تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے تھا رسول اللہ ﷺ نے (دیکھا تو) اسے فرمایا : ’’جاؤ اور وضوء کرکے آؤ۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اور وضوء کرکے آیا ۔ آپﷺ نے اسے دوبارہ فرمایا : ’’ جاؤ اور وضوء کرکے آؤ۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اور وضوء کرکے آیا ۔ تو ایک آدمی نے آپﷺ سے کہا : اے اللہ کے رسول! کس وجہ سے آپ نے اسے وضوء کرنے کا حکم دیا پھر آپ اسے خاموش ہو رہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ’’ یہ شخص اپنا تہ بند لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالی ایسے بندے کی نماز قبول نہیں کرتا جو اپنا تہ بند لٹکا کر نماز پڑھ رہا ہو۔‘‘
(ابوداود برقم ٦٣٨ طبع دارالسلام مسند احمد برقم ١٦٦٢٨ طبع الرسالة السن الكبرى للبيهقى ٣٣٠٤ طبع دارالحديث القاهرة مسند البزار برقم ٨٧٦٢ طبع مكتبة العلوم والحكم بالمدينة المنورة السنن الكبرى للنسائى برقم ٩٦٢٤ طبع الرسالة بيروت مسند الحارث برقم ١٣٨ مطبع المدينة المنورة)

سند کے راویوں کا تعارف :

اس حدیث کی سند کے تمام رواة ثقہ ہیں انکا مختصر تعارف پیش خدمت ہے :

۱ ۔ موسی بن اسماعیل ابوسلمہ البصری یہ صحیحین (بخاری، مسلم) کے راوی ہیں انکے متعلق :
٭ امام الجرح والتعدیل ابوزکریا یحیی بن معین المتوفی (۲۳۳ھ) فرماتے ہیں :
ثِقَةٌ مَأْمُوْنٌ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۸/۱۵۷ وسندہ صحیح طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ امام ابوالولید ہشام بن عبدالملک الطیالسی المتوفی (۲۲۷ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ صَدُوْقٌ (المصدرالسابق ۸/۱۵۷وسندہ صحیح)
٭ امام ابو حاتم محمد بن ادریس بن منذر الرازی المتوفی (۲۷۷ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ (حوالہ مذکورہ)
٭امام ابوالحسن احمدبن عبداللہ بن صالح العجلی المتوفی (۲۶۱ھ) فرماتے ہیں:
بَصَرِيٌّ ثِقَةٌ (تاریخ الثقات برقم ۱۶۵۱طبع دارالباز مکہ المکرمہ)
٭امام ابو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي المتوفى(۲۳۰ھ) فرماتے ہیں:
كَانَ ثِقَةً كَثِيْرَ الْحَدَيْثِ (طبقات ابن سعد ۷/۲۲۲طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ امام ابوحاتم محمد بن حبان البستی المتوفی(۳۵۴ھ)’’ ثقات‘‘ میں ذکر کرکے فرماتے ہیں:
وَكَانَ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ متقی لوگوں میں سے تھے (کتاب الثقات لابن حبان ۹/۱۶۰طبع دارالفکر بیروت)
٭ امام ابوعبداللہ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(۷۴۸ھ)فرماتے ہیں :
اَلْحَافِظُ الْإِمَامُ الْحُجَّةُ شَيْخُ الْإِسْلَامِ (سیراعلام النبلاء ۱۰/۳۶۰ طبع الرسالة بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ ثَبْتٌ (تقریب التھذیب برقم ۶۹۴۳ طبع دارالرشید حلب)

۲ ۔ ابان بن یزید العطار ۔ یہ بھی صحیحین (بخاری، مسلم) کے راوی ہیں انکے متعلق:
٭ امام الجرح والتعدیل ابوزکریا یحیی بن معین المتوفی (۲۳۳ھ) فرماتے ہیں :
ثِقَةٌ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۲/۲۲۶وسندہ صحیح طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ امام ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی المتوفی (۲۴۱ھ) فرماتے ہیں :
ثَبْتٌ فِيْ كُلِّ الْمَشَايِخِ (المصدرالسابق۲/۲۲۶وسندہ صحیح)
٭امام ابوالحسن احمدبن عبداللہ بن صالح العجلی المتوفی (۲۶۱ھ) فرماتے ہیں:
بَصَرِيٌّ ثِقَةٌ (تاریخ الثقات برقم ۱۷طبع دارالباز مکہ المکرمہ)
٭ امام ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی المتوفی(۳۶۵ھ)فرماتے ہیں: وَهُوَ حَسَنُ الْحَدِيثِ مُتَمَاسِكٌ يُكْتَبُ حَدِيْثُهُ وَلَهُ أَحَادِيثُ صَالِحَةٌ عَن قَتادَة وَغَيْرِهِ وَعَامَّتُهَا مُسْتَقِيمَةٌ وَأَرْجُوْ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ.
(الکامل لابن عدی ۲/۷۳طبع دار الکتب العلمية بیروت)
٭ امام ابوحفص عمر بن احمد بن عثمان المعروف بابن شاہین المتوفی (۳۸۵ھ) نے ’’ثقہ ‘‘ قرار دیا ہے۔
دیکھئے (تاریخ اسماءالثقات لابن شاہین برقم ۷۸طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ (تقریب التھذیب برقم ۱۴۳ طبع دارالرشید حلب)

۳ ۔ یحیی بن ابی کثیر ابونصر الطائی یہ بھی صحیحین کے راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں انکے متعلق :
٭ امام ایوب السختیانی المتوفی (۱۳۱ھ) فرماتے ہیں:
مَا بَقِيَ عَلٰى وَجْهِ الْأرْضِ مِثْلُ يَحْيَى بْنِ أَبِيْ كَثِيْرٍ
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۹/۱۷۵وسندہ صحیح طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ امام ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی المتوفی (۲۴۱ھ) فرماتے ہیں:
يَحْيَى بْنُ أَبِيْ كَثِيْرٍ مِنْ أَثْبَتِ النَّاسِ إِنَّمَا يُعَدُّ مَعَ الزُّهْرِيِّ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيْدٍ وَإِذَا خَالَفَهُ الزُّهْرِيُّ فَالْقَوْلُ قَوْلُ يَحْيَى ابْنِ أَبِيْ كَثِيْرٍ.
(المصدرالسابق۹/۱۷۵وسندہ صحیح)
٭ امام ابو حاتم محمد بن ادریس بن منذر الرازی المتوفی (۲۷۷ھ) فرماتے ہیں:
يَحْيَى بْنُ أَبِيْ كَثِيْرٍ إِمَامٌ لَا يُحَدِّثُ إِلَّا عَنْ ثِقَةٍ.
’’یحیی بن ابی کثیر امام ہیں وہ صرف ثقہ راویوں سے حدیث بیان کرتے ہیں‘‘(المصدرالسابق)
٭امام ابوالحسن احمدبن عبداللہ بن صالح العجلی المتوفی (۲۶۱ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ حَسَنُ الْحَدِيْثِ يُكْنٰى أَبَا نَصْرٍ وَكَانَ يُعَدُّ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيْثِ
(تاریخ الثقات برقم ۱۸۲۳طبع دارالباز مکہ المکرمہ)
٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(۳۵۴ھ)رحمہ اللہ (کتاب الثقات ۷/۵۹۱طبع دارالفکر بیروت)اور
٭ امام ابوحفص عمر بن احمد بن عثمان المعروف بابن شاہین المتوفی (۳۸۵ھ) نے بھی ’’ثقہ ‘‘ قرار دیا ہے۔
دیکھئے ۔(تاریخ اسماءالثقات لابن شاہین برقم ۱۵۲۴طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ امام ابوعبداللہ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(۷۴۸ھ)فرماتے ہیں :
الْإِمَامُ الْحَافِظُ الْحُجَّةُ أَحَدُ الْاَعْلاَمِ ....وَكَانَ طَلَّابَةً لِلْعِلْمِ حُجَّةً
دیکھئے ۔(سیراعلام النبلاء۶/۲۷طبع الرسالة بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ ثَبْتٌ(تقریب التھذیب برقم ۷۶۳۲طبع دارالرشید حلب)

٤ ـ ابوجعفر محمدبن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب الباقرالمدنی ۔
یہ بھی صحیحین (بخاری، مسلم) کے راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں انکے متعلق:
٭امام ابو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي المتوفى(۲۳۰ھ) فرماتے ہیں:
وَكَانَ ثِقَةً كَثِيرَ الْعِلْمِ وَالْحَدِيْثِ (طبقات ابن سعد ۵/۲۴۶طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭امام ابوالحسن احمدبن عبداللہ بن صالح العجلی المتوفی (۲۶۱ھ) فرماتے ہیں:
تَابِعِيٌّ ثِقَةٌ (تاریخ الثقات برقم ۱۴۸۶طبع دارالباز مکہ المکرمہ)
٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(۳۵۴ھ)نے بھی ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے۔
(کتاب الثقات لابن حبان ۵/۳۴۸طبع دارالفکر بیروت)
٭ امام ابوعبداللہ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(۷۴۸ھ)فرماتے ہیں :
وَكَانَ أَحَدَ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ وَالسُّؤْدَدِ وَالشَّرَفِ وَالثِّقَةِ وَالرَّزَانَةِ وَكَانَ أَهْلاً
لِلْخِلَافَةِ .....وَاتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَى الْإِحْتِجَاجِ بِأَبِيْ جَعْفَرٍ.
دیکھئے ۔ (سیراعلام النبلاء۴/۴۰۲‘۴۰۳طبع مؤسسة الرسالة بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ فَاضِلٌ (تقریب التھذیب برقم ۶۱۵۱طبع دارالرشید حلب)
[5] عطاءبن یسار الہلالی۔ یہ بھی اعلی درجہ کے ثقہ اور صحیحین کے راوی ہیں انکے متعلق:
٭ امام ناقد ابوزکریا یحیی بن معین المتوفی (۲۳۳ھ) فرماتے ہیں :
ثِقَةٌ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۶/۴۳۸وسندہ صحیح طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ امام ابو زرعۃ عبیداللہ بن عبد الکریم بن فروخ الرازی المتوفی(۲۶۴ھ) فرماتے ہیں:
مَدِيْنِيٌّ ثِقَةٌ (المصدرالسابق ۶/۴۳۸)
٭امام ابوالحسن احمدبن عبداللہ بن صالح العجلی المتوفی (۲۶۱ھ) فرماتے ہیں:
مَدَنِيٌّ تَابِعِيٌّ ثِقَةٌ (تاریخ الثقات برقم۱۱۳۵طبع دارالباز مکہ المکرمہ)
٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(۳۵۴ھ)نے بھی ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے۔
(کتاب الثقات لابن حبان ۵/۱۹۹طبع دارالفکر بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ فَاضِلٌ صَاحِبُ مَوَاعِظَ وَعِبَادَةٍ (تقریب التھذیب برقم ۴۶۰۵طبع دارالرشید حلب)
[6] فقیہ امت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں ۔ وَالصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عَدُوْلٌ .

حدیث اسبالِ ازار علماء و محدثین کی نظر میں :

ہم سابقہ سطور میں یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اسباب ضعف میں سے کوئی بھی سبب موجود نہیں ہے لہذا یہ حدیث صحیح اور قابل حجت ہے اسی وجہ علماء ومحدثین کی ایک جماعت نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ۔
* امام ابو زكريا يحيى بن شرف النووي المتوفی (۶۷۶ھ) یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ عَلٰى شَرْطِ مُسْلِمٍ.
(ریاض الصالحین مع بھجة الناظرین للشیخ سلیم بن عید الہلالی۲/۹۲برقم ۷۹۷طبع دارابن الجوزی الریاض)
٭ امام ابوعبداللہ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی المتوفی(۷۴۸ھ)فرماتے ہیں :
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَهُوَ عَلٰى شَرْطِ مُسْلِمٍ إِنْ شَآءَالله.
(کتاب الکبائر للذہبی ص ۸۸ طبع مکتبة المعارف الریاض)
٭ حافظ محمد بن مفلح شمس الدين المقدسي المتوفى(۷۶۳ھ) فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
(الآداب الشرعیہ والمنح المرعیہ۳/۵۴۶طبع عالم الکتب بیروت)
٭ حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی المتوفی (۸۰۷ھ) فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
(مجمع الزوائد ۵/۲۱۸برقم ۸۵۳۱ طبع دارالفکر بیروت)
٭ شیخ محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان التمیمی المتوفی (۱۲۰۶ھ) اسی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَلِأَبِيْ دَاوُدَ بِسَنَدٍ صَحِيْحٍ.
(مجموعة الحدیث علی ابواب الفقہ ۱/۱۱۶ مکتبہ شاملہ)
٭ علامہ شمس الحق عظیم آبادی المتوفی (۱۳۲۹ھ) فرماتے ہیں:
قُلْتُ : وَالْحَدِيْثَ سَنَدُهُ حَسَنٌ.
دیکھئے ۔(عون المعبودشرح سنن ابی داود۱۱/۹۷ طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ ذہبی دوراں محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَسَنَدُهُ حَسَنٌ لِذَاتِهِ وَأَخْطَأَ مَنْ ضَعَّفَهُ .
(مشکوة المصابیح بتحقیق المحدث الحافظ زبیر علی زئی ۱/۲۵۸طبع مکتبہ اسلامیہ لاہور)
* استاذ الاساتذہ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو صحیح اور قابل حجت سمجھتے تھے دیکھئے
(احکام ومسائل ١٥٧/٢ طبع المکتبة الکریمیة لاہور)

چند شبہات کا ازالہ :

اب آتے ہیں ان شبہات کی طرف جن کی بنیاد پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا دیا جاتا ہے ۔
شبہ (١) : اس کی سند میں یحیی بن ابی کثیر مدلس ہیں اور صیغہ تمریض (عن) سے بیان کر رہے ہیں اور مدلس کی معنعن روایت بالاتفاق ضعیف ہوتی ہے۔
ازالہ : یحیی بن ابی کثیر کے ’’مدلس‘‘ ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا انکے متعلق :
٭ امام محمد بن حبان البستی المتوفی(۳۵۴ھ)فرماتے ہیں:
وَكَانَ يُدَلِّسُ’’وہ تدلیس کرتے تھے‘‘ (کتاب الثقات ۷/۵۹۲طبع دارالفکر بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ ثَبْتٌ لٰكِنَّهُ يُدَلِّسُ وَيُرْسِلُ’’ثقہ اور قابل حجت ہیں لیکن تدلیس اور ارسال کرتے تھے‘‘۔
(تقریب التھذیب برقم ۷۶۳۲طبع دارالرشید حلب)
٭ حافظ صلاح الدین خلیل بن کیلکدی العلائی المتوفی (۷۶۱ھ) فرماتے ہیں:
كَثِيْرُ التَّدْلِيْسِ وَهُوَ مُكْثِرٌ مِنَ الْإِرْسَالِ (جامع التحصیل برقم ۸۸۰ بتحقیق حمدی عبدالمجیدالسلفی)
٭ حافظ ابو الوفا سبط ابن العجمي المتوفى(۸۴۱ھ) فرماتے ہیں:
مَعْرُوْفٌ بِالتَّدْلِيْسِ (التبیین لاسماءالمدلسین برقم ۸۷ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
كَثِيْرُ الْإِرْسَالِ.....وَوَصَفَهُ النَّسَائِيُّ بِالتَّدْلِيْسِ
(تعریف اہل التقدیس ص۷۶ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت)
مزید دیکھئے۔ (الفتح المبین للمحدث الحافظ زبیر علی زئی ص۸۲طبع مکتبہ اسلامیہ لاہور)
البتہ حدیث زیر بحث میں یحیی بن ابی کثیر نے سماع کی صراحت کر رکھی ہے دیکھئے ۔
(مسند الحا رث برقم۱۳۸ مطبع مرکز خدمہ السنہ بالمدينہ المنورة ،اتحاف الخیرة المھرة ۲/۳۶ طبع دارالوطن بیروت)
اور ثقہ مدلس کی مصرح بالسماع روایت بالاتفاق مقبول ہےلہذا تدلیس کا شائبہ زائل ہوگیا۔

شبہ (٢) : اس کی سند میں ابوجعفر مؤذن مدنی ہے جوکہ مجہول الحال ہے ۔

ازالہ : ابوجعفر دو راوی ہیں (١) ابوجعفر باقر مدنی (٢) ابو جعفر مؤذن مدنی ۔
اس حدیث میں ابوجعفر سے سےمراد باقر ہی ہے کیونکہ اس حدیث میں ابوجعفر کے استاد عطاءبن یسار ہیں اور عطاء بن یسار کے شاگردوں میں ابوجعفر مؤذن کا ذکر نہیں ملتا جبکہ ابوجعفر باقر کا ذکر موجود ہے دیکھئے ۔
(تھذیب الکمال ۲۰/۱۲۶برقم ۳۹۴۶طبع الرسالہ بیروت )
اور ابوجعفر باقر کتب ستہ کے راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں۔

شبہ (٣) : اس حدیث میں ابوجعفر سے محمد بن علی بن حسین باقر مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَدَ وَهِمَ .
’’جس نے کہا کہ یہ محمد بن علی بن حسین ہے اس کو وہم ہوا ہے‘‘
(تقریب التھذیب برقم ۸۰۱۷ طبع دارالرشید حلب)
لہذا ابوجعفر سے مراد مؤذن مدنی ہے جوکہ مجہول الحال ہے ۔
ازالہ : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس تبصرے کا سند میں راوی کے تعین سے کوئی تعلق نہیں ہے حافظ ابن حجر نے وہم کی نسبت اس شخص کی طرف کی ہے جو ابوجعفر مؤذن اور باقر کو ایک ہی شخصیت شمار کرتا ہے جبکہ یہ دو الگ شخصیات ہیں ۔ مزید دیکھئے (تھذیب التھذیب ۱۲/۴۸ برقم۸۳۴۶ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت)
اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ حدیث اسبالِ ازار میں ابوجعفر مؤذن مدنی ہے پھر بھی حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ابوجعفر مؤذن بھی حسن الحدیث ہیں انکو مجہول قرار دینا درست نہیں ۔
شبہ (٤) : ابوجعفر مؤذن مدنی کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے مقبول (مجہول الحال) قرار دیا ہے۔
دیکھئے (تقریب التھذیب برقم ۸۰۱۷ طبع دارالرشید حلب )
اور حافظ ابن القطان الفاسی المتوفی (۶۲۸ھ): فرماتے ہیں:
وَأَبُوْ جَعْفَرٍ هُوَ الْمُؤَذِّنُ يَرْوِيْ عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِيْ كَثِيْرٍ لَا يُعْرَفُ رَوَىٰ عَنْهُ غَيْرُهُ ذَكَرَهُ بِذٰلِكَ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَلَا تُعْرَفُ لَهُ حَالٌ.
’’اور ابوجعفر موذن وہ ہیں جن سے یحیی بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کسی اور کا ان سے روایت کرنا معلوم نہیں امام مسلم اور ترمذی نے بھی یہی بات ذکر کی ہے ۔اور اس کا حال معلوم نہیں ہے‘‘
(بیان الوہم والایہام ۴/۵۲۶ طبع دارطیبہ الریاض)

ازالہ : ابو جعفر موذن مدنی جمہور محدثین کے نزدیک صدوق اور حسن الحدیث ہیں ان سے روایت کرنے والے یحیی بن ابی کثیر ہیں جنکے متعلق :
٭ امام ابو حاتم محمد بن ادریس بن منذر الرازی المتوفی (۲۷۷ھ) فرماتے ہیں:
يَحْيَى بْنُ أَبِيْ كَثِيْرٍ إِمَامٌ لَا يُحَدِّثُ إِلَّا عَنْ ثِقَةٍ.
’’یحیی بن ابی کثیر امام ہیں وہ صرف ثقہ راویوں سے حدیث بیان کرتے ہیں‘‘
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۹/۱۷۵ طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
گویا یحیی بن ابی کثیر نے روایت کی وجہ سے انکی توثیق کردی ہے۔
اسی طرح امام ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی المتوفی (۲۷۹ھ) نے انکی حدیث کو ’’حسن‘‘ اور امام ابو زكريا يحيى بن شرف النووي المتوفی (۶۷۶ھ) نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے دیکھئے۔
(جامع الترمذی برقم ۳۴۴۸ طبع دارالسلام ،ریاض الصالحین ۲/۹۲برقم ۷۹۷طبع دارابن الجوزی الریاض)
اور روایت کی تصحیح وتحسین راویوں کی ضمنی توثیق ہوتی ہے جیساکہ:
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) ’’ عبداللہ بن عبید الدیلی ‘‘ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:
وَأَمَّا الرَّاوِيْ عَنْ عُدَيْسَةَ فَقَدْ أَخْرَجَ حَدِيْثَهُ أَيْضًا التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ حَسَنٌ غَرِيْبٌ وَهٰذَا يَقْتَضِيْ أَنَّهُ عِنْدَهُ صَدُوْقٌ مَعْرُوْفٌ
’’ عدیسہ سے بیان کرنے والے راوی کی حدیث کو ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا:کہ
(اسکی حدیث) ’’حسن غریب‘‘ ہے یہ (تحسین حدیث)اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ راوی انکے نزدیک سچے
اور معروف ہیں‘‘۔
مزید فرماتے ہیں : وَيَحْسُنُ لَهُ التِّرْمِذِيُّ فَلَيْسَ بِمَجْهُوْلٍ ’’امام ترمذی نے انکی حدیث کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے لہذا وہ مجہول نہیں ہیں ‘‘ (تعجیل المنفعة ۱/۷۵۱ برقم ۵۶۴ طبع دارالبشائر بیروت)
اسی طرح ’’ عبدالرحمن بن خالد بن جبل العدوانی ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
صَحَّحَ ابْنُ خُزَيْمَةَ حَدِيْثَهُ وَمُقْتَضَاهُ أَنْ يَّكُوْنَ عِنْدَهُ مِنَ الثِّقَاتِ
’’ ابن خزیمہ نے انکی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جو اس بات کا تقاضہ ہے کہ وہ انکے نزدیک ثقہ ہیں ‘‘
دیکھئے ۔ (المصدرالسابق ۱/۷۹۳ برقم ۶۱۹)
’’عبداللہ بن عتبہ بن ابی سفیان‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
أَخْرَجَ ابْنُ خُزَيْمَةَ حَدِيْثَهُ فِيْ صَحِيْحِهِ فَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَهُ
’’ ابن خزیمہ نے انکی حدیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے لہذا وہ انکے نزدیک ثقہ ہیں ‘‘
دیکھئے ۔ (تھذیب التھذیب ۵/۲۷۵ برقم ۳۵۷۳ طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ علامہ عبد الله بن يوسف الزيلعي الحنفی المتوفی (۷۶۲ھ) ’’ زینب بنت کعب ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَفِيْ تَصْحِيْحِ التِّرْمِذِيِّ إِيَّاهُ تَوْثِيْقَهَا ’’ یعنی امام ترمذی کی تصحیح میں ہی انکی توثیق ہے ‘‘
(نصب الرأیہ ۳/۲۶۴ طبع مؤسسة الریان بیروت)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
وَمِنَ الْعَجَبِ كَوْنُ ابْنِ الْقَطَّانِ لَمْ يَكْتَفِ بِتَصْحِيْحِ التِّرْمِذِيِّ فِيْ مَعْرِفَةِ حَالِ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ مَعَ تَفَرُّدِهِ بِالْحَدِيثِ وَهُوَ قَدْ نَقَلَ كَلَامَهُ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ وَأَيُّ فَرْقٍ بَيْنَ أَنْ يَقُولَ: هُوَ ثِقَةٌ أَوْ يُصَحِّحَ لَهُ حَدِيْثًا اِنْفَرَدَ بِهِ؟
’’ تعجب ہے کہ ابن القطان نے عمرو بن بجدان کے بارے میں امام ترمذی کی تصحیح پر اکتفا نہیں کیا جبکہ وہ حدیث بیان کرنے میں منفرد ہیں حالانکہ انہوں نے ترمذی کا کلام بھی نقل کیا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے کسی راوی کو ثقہ کہنے یا اسکی منفرد حدیث کو صحیح قرار دینے میں کیا فرق ہے ؟
(نصب الرأیہ ۱/۱۴۹ طبع مؤسسة الریان)
حافظ ابن حجر اور علامہ زیلعی کے کلام سے معلوم ہوا کہ روایت کی تصحیح صاحب تصحیح کے نزدیک اس حدیث کے راویوں کی ضمنی توثیق ہوتی ہے ۔
گویا ابوجعفر مؤذن مدنی کو یحیی بن ابی کثیر نے روایت کے ذریعے اور امام ترمذی اور نووی نے حدیث کی تصحیح کے ذریعے ثقہ قرار دیا ہے انکے برخلاف ابن القطان الفاسی کا ’’لَا يُعْرَفُ ‘‘ کہنا مضر نہیں ہے کیونکہ أَلَّذِيْ يَعْلَمُ حُجَّةٌ عَلٰى مَنْ لَا يَعْلَمُ.
شبہ (٥) : ابو جعفر مؤذن مدنی کے بارے میں امام ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی المتوفی (۲۷۹ھ) فرماتے ہیں :
’’لَا نَعْرِفُ إِسْمَهُ ‘‘ (جامع ترمذی تحت حدیث ۳۴۴۸ طبع دارالسلام الریاض)
اور امام منذری المتوفی (۶۵۶ھ) فرماتے ہیں : ’’لَا يُعْرَفُ إِسْمُهُ ‘‘ دیکھئے ۔
(مختصر سنن ابی داود للمنذری ۱/۳۲۴ تحت حدیث ۶۰۹ طبع دارالمعرفة بیروت)
اور علامہ بدرالدین العینی الحنفی المتوفی (۸۵۵ھ) فرماتے ہیں
’’ وَأَبُوْ جَعْفَرٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَا يُعْرَفُ لَهُ إِسْمٌ ‘‘
دیکھئے (شرح سنن ابی داود للعینی ۳/۱۶۸ طبع مکتبہ الرشد الریاض)
لہذا ابوجعفر مؤذن مدنی مجہول ہے اور حدیث بھی ضعیف ہے ۔

ازالہ : ابو جعفر مؤذن مدنی ’’مجہول الاسم‘‘ ضرور ہیں لیکن ’’مجہول الحال‘‘ نہیں ہیں اور کسی بھی راوی کا محض مجہول الاسم ہونا مضر نہیں ہے اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ بدر الدین العینی الحنفی المتوفی (۸۵۵ھ): فرماتے ہیں:
فَيَجُوْزُ أَنْ يَكُوْنَ التِّرْمِذِيُّ أَرَادَ بِهِ أَنَّهُ مَجْهُوْلُ الْاِسْمِ وَلَا يَضُرُّ ذٰلِكَ فَإِنَّ جَمَاعَةً مِنَ الرُّوَاةِ لَا تُعْرَفُ أَسْمَاؤُهُمْ وَإِنَّمَا عُرِفُوْا بِالْكُنٰى.
’’ شاید کہ امام ترمذی کی مراد مجہول الاسم ہو جو کہ مضر نہیں ہے کیونکہ راویوں کی ایک بڑی جماعت کے نام معروف نہیں ہیں وہ صرف کنیتوں سے پہچانے جاتے ہیں ‘‘
(البنایہ شرح الھدایہ ۱/۵۰۱ طبع مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ)
اگر ہر مجہول الاسم راوی کی روایت کو ضعیف قرار دیا جائے تو نہ جانے کتنی ہی صحیح احادیث جرح کی بھینٹ چڑھ جائیں گی کیونکہ بہت سارے ثقہ راوی ایسے ہیں جو صرف اور صرف کنیتوں سے معروف ہیں یہاں پر اسکی صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں ۔وَلَوِاسْتَزِدْتَنِيْ لَزِدْتُكَ.
[۱] ابوبکر بن ابی موسی الاشعری ۔ انکے بارے میں امام ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی المتوفی (۲۴۱ھ) فرماتے ہیں: «لَا يُعْرَفُ إِسْمُهُ» (جامع ترمذی تحت حدیث ۲۵۲۸ دارالسلام الریاض)
جبکہ یہ کتب ستہ کے راوی ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں انکے متعلق :
٭امام ابوالحسن احمدبن عبداللہ بن صالح العجلی المتوفی (۲۶۱ھ) فرماتے ہیں:
كُوْفِيٌّ تَابِعِيٌّ ثِقَةٌ (تاریخ الثقات برقم ۱۹۱۴طبع دارالباز مکہ المکرمہ)
٭ امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی المتوفی(۳۵۴ھ)نے ’’ ثقہ‘‘ قرار دیا ہے
(کتاب الثقات ۵/۵۹۲طبع دارالفکر بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ (تقریب التھذیب برقم ۷۹۹۰ طبع دارالرشید حلب)
[۲] ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود ۔ انکے بارے میں امام ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی المتوفی (۲۷۹ھ) فرماتے ہیں:
«لَا نَعْرِفُ إِسْمُهُ» (جامع ترمذی تحت حدیث ۱۷ دارالسلام)
جبکہ آئمہ ومحدثین نے انکی زبردست توثیق کر رکھی ہے ۔
٭ امام ابوزکریا یحیی بن معین المتوفی (۲۳۳ھ) فرماتے ہیں :
ثِقَةٌ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۹/۴۵۱وسندہ صحیح طبع دارالکتب العلمیة بیروت)
٭ حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی المتوفی(۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
كُوْفِيٌّ ثِقَةٌ (تقریب التھذیب برقم ۷۹۹۰ طبع دارالرشید حلب)
الغرض کسی بھی راوی کا محض ’’مجہول الاسم ‘‘ ہونا صحت حدیث کیلئےمضر نہیں ہے اور اسی وجہ سے صدوق اور حسن
الحدیث راوی ابوجعفر مؤذن مدنی کو ’’مجہول الحال‘‘ قرار دینا درست نہیں ہے ۔
شبہ (٦) : اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم بھی کیا جائے تو یہ منسوخ ہے کیونکہ اس کے خلاف اجماع ہے ۔

ازالہ : نسخ اور اجماع کا دعوی بے دلیل ہے نصوص کے خلاف اجماع نہیں ہوسکتا بلکہ اس بے دلیل اجماع کی مخالفت سلف صالحین سے ثابت ہے جیساکہ :
٭ مشہور ثقہ تابعی امام ابوالحجاج مجاہد بن جبر المخزومی المتوفی (۱۰۴ھ) فرماتے ہیں :
كَانَ يُقَالُ مَنْ مَسَّ إِزَارُهُ كَعْبَيْهِ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاَةٌ
’’یعنی (صحابہ اور تابعین کے زمانے میں ) کہا جاتا تھا جس کے تہبند نے ٹخنوں کو چھولیا اسکی نماز قبول نہیں ہوگی‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ ۸/۲۸۵برقم ۲۵۱۱۹ طبع مکتبة الرشد الریاض وسندہ صحیح)
٭ امام ذر بن عبداللہ الہمدانی المتوفی (۱۵۳ھ) فرماتے ہیں :
مَنْ مَسَّ إِزَارُهُ الْأَرْضَ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاَةٌ
’’یعنی جس کے تہبند نے ٹخنوں کو چھولیا اسکی نماز قبول نہیں ہوگی‘‘ ۔ (المصدر السابق)
مزید دیکھئے (شرح الطیبی علی مشکاة المصابیح ۲/۲۶۸،عارضة الاحوذی ۷/۲۳۸)۔
الغرض نسخ اور اجماع کا دعوی بے بنیاد ہے ۔

خلاصة البحث : حدیث اسبالِ ازار سندًا صحیح اور قابل حجت ہے اس کے تمام رواة اعلی درجہ کے ثقہ ہیں
ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح احادیث کو عوام کے سامنے بیان کیاجائے تاکہ عوام الناس کی اصلاح ہوسکے عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ نمازیوں کی بڑی تعداد کا معمول شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا ہے پھر جب نماز کیلئے آتے ہیں تو وضوء کے بعد شلوار ٹخنوں سے اوپر کرتے لہذا خطباء اور واعظین سے گذارش ہے کہ ضعیف اور موضوع روایات بیان کرنے کے بجائے صحیح احادیث کے ذریعے اصلاح کی کوشش کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی غفلت اور سستی کی وجہ سے ہماری نمازیں اور دیگر اعمالِ صالحہ ضائع نہ ہوجائیں اللہ تعالی ہمارا حامی وناصر ہو ۔ آمین.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
سیدنا ابویریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ ایک شخص نماز پڑھ تھا اور وہ اپنا تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے تھا رسول اللہ ﷺ نے (دیکھا تو) اسے فرمایا : ’’جاؤ اور وضوء کرکے آؤ۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اور وضوء کرکے آیا ۔ آپﷺ نے اسے دوبارہ فرمایا : ’’ جاؤ اور وضوء کرکے آؤ۔‘‘ چنانچہ وہ گیا اور وضوء کرکے آیا ۔ تو ایک آدمی نے آپﷺ سے کہا : اے اللہ کے رسول! کس وجہ سے آپ نے اسے وضوء کرنے کا حکم دیا پھر آپ اسے خاموش ہو رہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ’’ یہ شخص اپنا تہ بند لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالی ایسے بندے کی نماز قبول نہیں کرتا جو اپنا تہ بند لٹکا کر نماز پڑھ رہا ہو۔
@مظفر اختر صاحب
محترم
مجھے اس حدیث کے اس پہلو کی تشریح کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اس شخص کو اس کی غلطی نہیں بتا رہے ہیں کہ کیوں وضو کا کہا جارہا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دوسرے شخص نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بتارہے ہیں ۔کہ کیا وجہ تھی ۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے ۔حدیث میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ اس شخص کو آخری تک پتا ہو کہ کس لئے بار بار وضو کا کہا جارہا ہے۔
اس حدیث میں دونوں صحابیوں کے نام کا بھی ذکر نہیں ہے ۔
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ دونوں صحابیوں کو نہیں پتا تھا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو تو وضو ختم ہوجاتا ہے اور نماز نہیں ہوتی ۔ اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک عام حکم نہیں تھا جب کہ اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کو تو سب کو پتا ہونا چاہیے تھا کہ اس پر نماز کے صحیح ہونے کا دارومدار تھا ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو شرائط نماز میں شامل ہونا چاہیےتھا۔
پھر حدیث کا آخری حصہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ رہے ہیں کہ جس کا تہبند نیچے ہو اس کی نماز نہیں ہوتی یہاں بھی وضو کی صراحت نہیں ہے۔
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
محترم نسیم احمد
اولا.... یہ تحریر میری نہیں محرر کا نام میں نے آغاز ہی میں لکھا ہے
مجھے اس حدیث کے اس پہلو کی تشریح کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اس شخص کو اس کی غلطی نہیں بتا رہے ہیں کہ کیوں وضو کا کہا جارہا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دوسرے شخص نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بتارہے ہیں ۔کہ کیا وجہ تھی
تو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ بتا دی تو ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے..

حدیث میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ اس شخص کو آخری تک پتا ہو کہ کس لئے بار بار وضو کا کہا جارہا ہے۔
اس حدیث میں دونوں
اس شخص کو اطلاع ملنے کا ذکر اگر نہیں تو اطلاع ملنے کی نفی بھی تو نہیں ہے.. عدم ذکر نفی کو مستلزم نہیں ہے

اس حدیث میں دونوں صحابیوں کے نام کا بھی ذکر نہیں ہے
نام ذکر نہ ہونے سے حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا
الصحابۃ کلہم عدول

اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ دونوں صحابیوں کو نہیں پتا تھا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو تو وضو ختم ہوجاتا ہے اور نماز نہیں ہوتی ۔
صحابہ کو علم ہوتا تو وہ ایسا کیوں کرتے
علم نہیں تھا اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کر دی

اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک عام حکم نہیں تھا
یہ رزلٹ کس حدیث سے ثابت ہے؟

پھر حدیث کا آخری حصہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ رہے ہیں کہ جس کا تہبند نیچے ہو اس کی نماز نہیں ہوتی یہاں بھی وضو کی صراحت نہیں ہے۔
وضو نماز کے لئے شرط ہے جب وضو ہی نہیں ہوگا تو نماز بھی نہیں ہوگی

اگر آپ کا اعترض مان بھی لیا جائے تو ایک سوال کا جواب آپ دے دیں
کہ اسبال ازار کا تعلق اگر صرف نماز سے ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کا حکم کیوں دیا؟؟

واللہ اعلم بالصواب
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم مظفر اختر صاحب
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کی صحت پر کافی بحث ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ضعیف ہے۔

صحابہ کو علم ہوتا تو وہ ایسا کیوں کرتے
علم نہیں تھا اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کر دی
یہ رزلٹ کس حدیث سے ثابت ہے؟
جن احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنوں سے اوپر کپڑا کرنے کا حکم دیا تو اس کی وجہ تکبر بتائی ۔ یہ کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ کپڑا نیچے ہوگا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اس لئے میں نے یہ اخذ کیا کہ ایسا حکم نہیں تھا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اس بات کا اظہار کیا تھا کہ میں تو پوری کوشش کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی کپڑا نیچے لٹک جاتا ہے تو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ "ابو بکر اس سے تمہارا وضو ٹوٹ جائے گا۔"
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ضعیف ہے۔
جی بالکل علامہ البانی رح نے ضعیف کہا ہے لیکن جب ان کے اٹھائے گئے اعتراضات کے جوابات دے دئیے گئے ہیں تو پھر علامہ البانی رح کا حوالہ بے سود ہے

جن احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹخنوں سے اوپر کپڑا کرنے کا حکم دیا تو اس کی وجہ تکبر بتائی ۔ یہ کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ کپڑا نیچے ہوگا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اس لئے میں نے یہ اخذ کیا کہ ایسا حکم نہیں تھا۔
آپ صرف ایک حدیث کو سامنے رکھ کر رزلٹ نکال رہے ہیں میں نے آپ سے ایک سوال پوچھا تھا
کہ جب اسبال ازار کا تعلق نماز کے ساتھ تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو دوبارہ کرنے کا حکم کیوں دیا؟
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اس بات کا اظہار کیا تھا کہ میں تو پوری کوشش کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی کپڑا نیچے لٹک جاتا ہے تو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ "ابو بکر اس سے تمہارا وضو ٹوٹ جائے گا۔"
اس سے استثناء صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ہے.
کیا آپ اس حدیث کی بنیاد پر کسی کو اجازت دیتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہ اجازت دی تھی لہذا سب کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟؟؟
یقینا آپ کا جواب نہ میں ہوگا کیونکہ یہ اجازت صرف ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لئے خاص تھی
واللہ اعلم
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم@مظفراخترصاحب
آپ بھی صرف ایک حدیث سے ایک اتنا بڑا مسئلہ ثابت کررہے ہیں ۔ جس پر امت کی غالباً اکثریت عمل نہیں کرتی ۔(میرے علم کے مطابق)۔
اگر اسی طرح ہر حدیث کا ظاہر دیکھیں تو کتنے ایسے مسئلے ایجاد ہوجائیں گے جن پر کوئی متفق نہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے "جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں "۔نکاح میر سنت جس نے نکاح سے احتراز کیا وہ ہم سے نہیں ۔(مفہوم حدیث)
اب اس سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جو یہ کام کرے گااس کا ایمان خارج ہوجائے گا۔کیوں کہ اس کو امت سے خارج کرنے کی بات ہورہی ہے،
دوسری بات یہ ہے کہ محترم میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ فقط کپڑا لٹکانا گناہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ تکبر یا غرور کی نیت ہونے کبائر میں سے ہے ۔ اس فورم پر میری اس مسئلے میں ایک تھریڈ پر کافی بحث موجود ہے۔

کپڑا لٹکانے کا گناہ یہ ہے
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو (ٹخنے سے نیچے) تہبند لٹکاتا ہے “
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تین لوگ ہیں ، جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا ، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا ، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : کچھ دے کر حد سے زیادہ احسان جتانے والا ، (ٹخنے سے نیچے) تہبند لٹکانے والا ، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا

اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ کیا بذات خود ٹخنوں سے نیچے کپڑا ہونا ہی اتنا بڑا کبیرہ گنا ہ ہے کہ رحمن و رحیم اس کو داخل جہنم کرے گا۔
جب کہ اللہ رب العزت تو جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا اس کو جہنم سے نکال کر پاک کر دے گا۔

 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
محترم نسیم احمد صاحب
کوئی علمی جواب ہو تو ضرور پیش کریں مجھے فضول بحث کرنے کی نہ عادت ہے اور نہ ہی وقت....
آپ یا میں کیا سوچتے ہیں.... ہماری سوچ دین نہیں.... دین صرف وحی الہی ہے
 
Top