ویسے ایک اور بات ٹوپی کے بارے شیئر کرنا چاہوں گا کہ مسجد میں جاتے ہوئے بعض اوقات جان بوجھ کر ٹوپی پہن کر نہیں جاتا تا کہ وہ مجھے امام کے طور آگے نہ کر دیں۔ جب ٹوپی سر پر نہیں ہوتی تو خود ہی پیچھے چھپتا پھرتا ہوں کہ کیا ہے کہ لوگ کہیں گے آئیں جماعت کرائیں اور میں ننگے سر مصلے پر کھڑا ہو جاوں اور پھر کسی بزرگ کی ٹوپی اتروا کر سر پر رکھ لوں کیونکہ وہ تو مقتدیوں نے رکھوانی ہی ہے۔ معلوم نہیں کیونکہ کبھی کبھار دل بالکل نہیں کرتا کہ امامت کرواوں، دل پر بوجھ پڑتا ہے امامت کروانے اور بعض دنوں میں امامت کروانے کو دل بھی کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ تو جن دنوں میں امامت کو دل نہیں کر رہا ہوتا اور مقتدی بن کر نماز پڑھنے کو زیادہ دل کر رہا ہوتا ہے تو ان دنوں میں مسجد میں ٹوپی پہن کر جانے کا اہتمام نہیں کرتا تا کہ کسی ٹوپی والے کو آگے کرنے میں آسانی رہے۔ نہیں تو لوگ احترام کے مارے آگے کر دیتے ہیں۔
بعض اوقات کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو وہاں ٹوپی پہن کر جانے میں خوشی ہوتی ہے لہذا بعض اوقات اس خوشی کی خاطر پہن لیتا ہوں۔ خوشی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ یہاں جو بعض اوقات ماحول ہوتا ہے، اس میں ٹوپی پہننا تو یوں محسوس ہو رہا ہوتا ہے جیسے کوئی جہاد کر لیا ہو۔ واللہ اعلم