• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹوپی

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
ویسے ایک اور بات ٹوپی کے بارے شیئر کرنا چاہوں گا کہ مسجد میں جاتے ہوئے بعض اوقات جان بوجھ کر ٹوپی پہن کر نہیں جاتا تا کہ وہ مجھے امام کے طور آگے نہ کر دیں۔ جب ٹوپی سر پر نہیں ہوتی تو خود ہی پیچھے چھپتا پھرتا ہوں کہ کیا ہے کہ لوگ کہیں گے آئیں جماعت کرائیں اور میں ننگے سر مصلے پر کھڑا ہو جاوں اور پھر کسی بزرگ کی ٹوپی اتروا کر سر پر رکھ لوں کیونکہ وہ تو مقتدیوں نے رکھوانی ہی ہے۔ معلوم نہیں کیونکہ کبھی کبھار دل بالکل نہیں کرتا کہ امامت کرواوں، دل پر بوجھ پڑتا ہے امامت کروانے اور بعض دنوں میں امامت کروانے کو دل بھی کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ تو جن دنوں میں امامت کو دل نہیں کر رہا ہوتا اور مقتدی بن کر نماز پڑھنے کو زیادہ دل کر رہا ہوتا ہے تو ان دنوں میں مسجد میں ٹوپی پہن کر جانے کا اہتمام نہیں کرتا تا کہ کسی ٹوپی والے کو آگے کرنے میں آسانی رہے۔ نہیں تو لوگ احترام کے مارے آگے کر دیتے ہیں۔

بعض اوقات کسی ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو وہاں ٹوپی پہن کر جانے میں خوشی ہوتی ہے لہذا بعض اوقات اس خوشی کی خاطر پہن لیتا ہوں۔ خوشی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ یہاں جو بعض اوقات ماحول ہوتا ہے، اس میں ٹوپی پہننا تو یوں محسوس ہو رہا ہوتا ہے جیسے کوئی جہاد کر لیا ہو۔ واللہ اعلم
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
احناف کی کتب فقہ میں لکھا ہے کہ اگر بغیر ٹوپی اور عمامہ کے اگر نماز میں خشوع زیادہ محسوس ہوتا ہو تو ٹوپی نہ پہننا ہی مستحب ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
تو جب داڑھی کے ہوتے ہوئے لوگوں نے مولوی ہی سمجھنا ہے اور مولوی نظر آنے کے خوف سے جب داڑھی صاف بھی نہیں کروائی جاسکتی تو ٹوپی ترک کرنے کا کیا فائدہ؟ بجائے ٹوپی ترک کرنے کے آپ اپنے کردار کو ایسا کیوں نہیں بناتے کہ لوگ مولوی کو گری ہوئی نظر سے دیکھنے کے بجائے فخریہ نظروں سے دیکھیں؟؟؟
نہیں یہاں صرف داڑھی کی وجہ سے لوگوں کو مولوی نہیں سمجھا جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں مسلم معاشرہ میں داڑھی رکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔ لہذا داڑھی صرف دین داری کی علامت ہے ۔ مولوی ہونے کی نہیں ۔
میرے اپنے کردار کو اچھا بنا لینے سے کیا ہونے والا ہے ۔ کیا مولوی سیٹھ لوگوں کے دروازے پر جاکر چندہ مانگنا چھوڑ دیں گے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
’’ داڑھی ‘‘ اور ’’ ٹوپی ‘‘ کے معاملے کو خلط نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اول الذکر بالاتفاق فرض اور اس کا منڈوانا حرام ہے ۔ جبکہ ثانی الذکر کا فرضیت کا قول کسی کا بھی نہیں ہے ، جبکہ اس کو سنت کہنے کا بھی محتاط الفاظ میں ’’ مختلف فیہ ‘‘ مسئلہ ہے ورنہ علماء نے تو اس کو ’’ عرف ‘‘ کے تحت شامل کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
تو جب داڑھی کے ہوتے ہوئے لوگوں نے مولوی ہی سمجھنا ہے اور مولوی نظر آنے کے خوف سے جب داڑھی صاف بھی نہیں کروائی جاسکتی تو ٹوپی ترک کرنے کا کیا فائدہ؟ بجائے ٹوپی ترک کرنے کے آپ اپنے کردار کو ایسا کیوں نہیں بناتے کہ لوگ مولوی کو گری ہوئی نظر سے دیکھنے کے بجائے فخریہ نظروں سے دیکھیں؟؟؟
بجائے ٹوپی ترک کرنے کے آپ اپنے کردار کو ایسا کیوں نہیں بناتے کہ لوگ مولوی کو گری ہوئی نظر سے دیکھنے کے بجائے فخریہ نظروں سے دیکھیں؟؟؟
یہ بڑا زبردست سوال کیا ہے آپ نے بھائی۔
ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ غیرضروری/اختلافی/مسلکی/فرقہ واری/طبقہ جاتی چیزوں پر گرماگرم بحث کرنے اور فریق مخالف کی سوچ و فکر پر طعنہ زن ہونے کے بجائے سب سے پہلے ہمیں اپنے کردار ہی کو اسوہ حسنہ کی روشنی میں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ لوگ ہماری بات یا فکر کو پرسنل اٹیک سمجھنے کے بجائے اصلاح کے ضمن میں لیں۔ مگر کیا کریں کہ ۔۔۔۔
اس میں لگتی ہے محنت زیادہ ۔۔۔ ;)
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
بعض علاقوں میں عموماً عمامہ (پگڑی) پہننے کا رواج ہے اور اسے بھلے مانس اور شریف لوگوں میں عزت اور وقار کی ایک علامت سمجھا جاتاہے جبکہ ننگے سر رہنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس چیزمیں اس وقت مزید شدت آجاتی ہے کہ جب کچھ لوگ ننگے سر نماز ادا کرتے نظر آتے ہیں اور وہ ننگے سر نماز ادا کرنے پر اصرار کرتے ہیں بلکہ ننگے سر نماز ادا کرنے کو اُنہوں نے اپنی عادت بنا رکھا ہے اور اُنہوں نے اسے سنت کا درجہ دے رکھا ہے۔ دوسرے لوگ ان کی اس عادت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور اس طرح اس معاملہ میں محاذ آرائی کی ایک شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی بھی مسئلہ میں تنازع و اختلاف کی صورت میں اہل ایمان کو قرآن وحدیث کی طرف پلٹنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ 1

ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا وَٱتَّقُواٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿٧...سوة الحشر
''اور تمہیں جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے تو اسے لے لو اور جس سے روکے تو رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو یقینا اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔''

احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر عمامہ (پگڑی) باندھا کرتے تھے اور آپؐ کے عمامہ کا رنگ سیاہ تھا۔ کبھی آپ کے سر پر چادر بھی ہوتی جس سے آپ اپنے سر کو ڈھانپ لیا کرتے تھے، اسی طرح ٹوپی کا ذکر بھی احادیث میں موجود ہے جس کا عمامہ کی احادیث کے بعد ذکر کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز

سیدنا جابر بن عبداﷲ انصاریؓ بیان کرتے ہیں :
''إن رسول اﷲ! دخل مکة وقال قتیبة دخل یوم فتح مکة وعلیه عمامة سوداء بغیر إحرام'' 2
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہوئے اور آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ ''

صحیح بخاری (رقم:1846) اورصحیح مسلم (رقم:1357) میں سیدنا انس بن مالکؓ کی روایت میں ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے اور آپؐ کے سر پر مِغْفَر(خود) تھا۔'' حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''اس حدیث میں یہ احتمال ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا، پھر آپ نے اسے اُتار دیا جیسا کہ اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ پہن لیا۔ اس طرح جس صحابی نے جو دیکھا، وہ بیان کردیا اور اس کی تائید سیدنا عمرو بن حریثؓ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور آپ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔'' یہ حدیث امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے بیان کی ہے ''اور آپؐ نے یہ خطبہ کعبہ کے دروازے کے قریب دیا تھا اور آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔'' بعض علما نے ان احادیث میں اس طرح بھی تطبیق دی ہے کہ سیاہ عمامہ خود کے اوپر یا نیچے بندھا ہوا تھا تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو خود کے ذریعے محفوظ رکھ سکیں ۔'' 3

سیدنا عمرو بن حریثؓ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں :
إن رسول اﷲ ! خطب الناس وعلیه عمامة سوداء 4
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اس حال میں کہ آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔''

ان احادیث سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمامہ پہننا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل عمامہ پہننا ہے، کیونکہ مکہ 8ہجری میں فتح ہوا اور آپؐ 11 ہجری کے شروع میں وفات پاگئے اور اس عرصہ کے دوران آپؐ سے اس کے خلاف کوئی عمل ثابت نہیں ہے۔

سیدنا عمرو بن حریثؓ بیان فرماتے ہیں :
'' کأني أنظر إلی رسول اﷲ ! علی المنبر وعلیه عمامة سوداء قد أرخٰی طرفیھا بین کتفیه'' 5
''گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہیں اور آپ کے سر پر سیاہ عمامہ ہے جس کا ایک حصہ آپؐ نے پیچھے دونوں کاندھوں کے درمیان چھوڑ رکھا ہے۔''

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے ، بیان کرتے ہیں :
کان النبي ! إذا اعتم سدل عمامته بین کتفیه۔ قال نافع: وکان ابن عمر یسدل عمامته بین کتفیه۔ قال عبید اﷲ: ورأیت القاسم وسالما یفعلان ذلك 6
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ پہنتے تو اس کے ایک حصہ کو دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکاتے۔ امام نافعؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبدللہ بن عمرؓ بھی عمامہ کے ایک حصہ کو کندھوں کے درمیان لٹکاتے اور امام عبیداللہ بن عمر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا محمد بن قاسم رحمة اللہ علیہ اور سالم بن عبداللہ رحمة اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ بھی اس حدیث کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ ''

سیدنا ابوعبدالسلام رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کس طرح پہنتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ آپؐ عمامہ کے کپڑے کو سر پر گھما کر لپیٹتے تھے اور اس کے سرے کو پیچھے رکھنے کا قصد فرماتے اور دونوں کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے۔ 7

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ ایک طویل حدیث میں ذکر فرماتے ہیں :
''...پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوفؓ کو حکم دیا کہ وہ سریّہ کے لئے تیاری کریں کہ جس پر امیر بنا کر اُنہیں بھیجا جانا ہے۔ پس صبح ہوئی اور اُنہوں نے سیاہ کھدر کے کپڑے کا عمامہ پہنا پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پس آپؐ نے ان کا عمامہ اُتار دیا اور انہیں (درست طریقے سے) عمامہ پہنایا اور پیچھے کی طرف چار اُنگلیوں یا اس کے برابر کپڑے کا حصہ چھوڑ دیا۔ پھر فرمایا: اے ابن عوف! اس طرح عمامہ باندھا کرو، یہ زیادہ اچھا اور خوبصورت لگتا ہے۔ (پھر آپ نے جھنڈا دے کر اُنہیں جہاد کے سلسلہ کی ہدایات دیں ) 8

سنن ابوداؤد (رقم:4079) میں بھی اس مضمون کی ایک مختصر روایت موجود ہے، لیکن اس کی سند میں ایک راوی شیخ اہل مدینہ مجہول ہے۔

ان احادیث کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً اپنے سر پر عمامہ باندھاکرتے تھے۔ لہٰذا سر پر عمامہ باندھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس سنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ قرآن و حدیث پر عامل ہیں ، ان کا اس سنت کواپنانا زیادہ ضروری ہے۔ان احادیث کو نگاہ میں رکھا جائے تاکہ سنت پر عمل پیرا ہونے کی اہمیت کا ہمیں اندازہ ہوسکے اور ترکِ سنت سے محرومی کا بھی پتہ چل سکے۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس وقت بعض لوگ اس سنت پر عمل پیرا تو ہیں ، لیکن اُنہوں نے ہرے رنگ ہی کو اپنی شناخت بنا رکھا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ کا رنگ سیاہ تھا۔

سیدنا عمرو بن امیہ ضمریؓ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
''رأیت النبي ﷺ یمسح علی عمامته وخفیه''9
''میں نے صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامہ اور موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔''

اس حدیث سے واضح ہوا کہ آپؐ نے نماز کے لئے جب وضو فرمایا تو عمامہ پر مسح فرمایا اور عمامہ کے ساتھ نماز بھی ادا فرمائی اور حدیث کا ظاہر اسی بات کو چاہتا ہے اور اس بات سے ان لوگوں کا بھی ردّ ہوجاتا ہے کہ جو ننگے سر نماز پڑھنے پر ہی اِصرار کرتے ہیں ۔ قرآنِ مجید کی آیت ِ کریمہ {خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ...﴿٣١﴾...سورة الاعراف}کا سیاق بھی اسی بات کو چاہتا ہے کہ نماز میں سر کو ڈھانکا جائے کیونکہ زینت اسی میں ہے۔

سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لئے قضاے حاجت سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے وضو فرمایا۔ ومسح بناصیته وعلی العمامة وعلی خفیه''اور آپ نے اپنی پیشانی، عمامہ اور موزوں پر مسح فرمایا۔ 10

امام ترمذی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس باب میں عمرو بن اُمیہ، سلمان، ثوبان اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم کی بھی روایات ہیں اورمغیرہ بن شعبہؓ کی حدیث حسن صحیح ہے۔11

سیدنا بلالؓ بیان فرماتے ہیں :
''إن رسول اﷲ ! مسح علی الخفین والخمار''12
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں اور چادر پر مسح فرمایا۔''

دوسری روایت میں ہے:
رأیت النبي ! یمسح علی الخفین والخمار 13
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں اور خمار پر مسح کرتے دیکھا ہے۔''

خمار اس چادر کو کہتے ہیں کہ جس کے ذریعے سر کو ڈھانپا جائے اور یہاں خمار سے مراد عمامہ ہے۔ 14

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ محرم کپڑوں میں سے کیا پہن سکتا ہے؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لایلبس القمص ولاالعمائم ولاالسراویلات ولاالبرانس ولا الخفاف
''محرم قمیصیں ، عمامے، پاجامے (شلوار) برانس (برنس کی جمع یعنی بڑی ٹوپی ) اور موزے نہیں پہن سکتا۔الخ'' 15

اس حدیث کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے کتاب الحج کے علاوہ کتاب اللباس، باب العمائم میں بھی وارد کیا ہے اور لباس اور عمامہ کے لئے اس حدیث کو دلیل بنایا ہے نیز امام بخاری نے اس حدیث کو گیارہ مقامات پر ذکر کیا ہے اور ہر جگہ کسی نہ کسی مسئلہ کا استدلال فرمایا ہے اور اس حدیث کو ہر جگہ اپنے مختلف اساتذہ سے ذکر فرما کر اس کی مختلف سندیں بھی ذکر فرمائی ہیں ۔

اس حدیث میں محرم کے لباس کا ذکر کیا گیا ہے۔ حاجی کے لئے احرام کی حالت میں جو کپڑے ممنوع ہیں جیسے قمیص، عمامے، ٹوپی وغیرہ، لیکن عام حالات میں یہی ایک مسلم کا لباس ہے۔ گویا اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلم کے لباس کی تفصیل بیان کردی ہے۔ اس حدیث میں قمیص کے فوراً بعد عمامہ اور پھر ٹوپی کا ذکر کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عمامہ، ٹوپی اور قمیص کا ایک خاص مقام ہے۔

سیدہ عائشہ صدیقہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن مبارک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
''إن رسول اﷲ ! کُفن في ثلاثة أثواب بیض سحولیة لیس فیھا قمیص ولا عمامة'' 16
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام سحول کے تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں میں کفن دیا گیا ان کپڑوں میں قمیص اور عمامہ شامل نہیں تھا۔ ''

اس حدیث کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے پانچ مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔اس حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں قمیص اور عمامہ کے نہ ہونے کا خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تک زندہ رہے تو قمیص اور عمامہ آپؐ کا خاص لباس تھا۔ البتہ محرم کی طرح میت کے لئے بھی قمیص اور عمامے کا استعمال درست نہیں ہے۔آج کل قمیص کا استعمال تو عام ہے،البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قمیص کے ساتھ ساتھ عمامہ کا استعمال بھی عام کیا جائے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی دلیل ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الإسبال في الإزار والقمیص والعمامة، من جَرَّ منھا شیئًا خیلاء لا ینظر اﷲ إلیه یوم القیامة ''درازیٔ اِزار، قمیص اور عمامہ (سب میں گناہ ہے)۔ جو شخص ان میں سے کسی چیز کو تکبر سے دراز کرے گا اور ٹخنوں کے نیچے تک اُنہیں لٹکائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف ( نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ 17

احادیث میں اِزار وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے تک لٹکانے والے کے متعلق سخت وعید ذکر کی گئی ہیں ۔ سیدنا ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا اور نہ اُنہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا۔ سیدنا ابوذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: خراب و خاسر ہوگئے یہ لوگ۔ کون لوگ ہیں یہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !؟ تو آپؐ نے فرمایا: اِزار کو لٹکانے والا، اِحسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سودا فروخت کرنے والا۔ 18

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (پہلی اُمتوں میں سے) ایک شخص اپنی اِزار کو تکبر کے سبب گھسیٹتا ہوا چلا جارہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ 19

صحیح مسلم (رقم:2088) میں بالوں پر فخر کرنے کا بھی ذکر آیا ہے اور آج یہ دونوں چیزیں نوجوانوں میں دیوانگی کی حد تک موجود ہیں ۔ بالوں پر ان کی ہر وقت نظر رہتی ہے۔ یہاں زلف کا کوئی بال پریشان ہوا اور فوراً ہی کنگھی جیب سے باہر آگئی اور اِزار (پتلون وغیرہ) کو تو اس قدر لٹکایا جاتا ہے کہ وہ زمین پر گھسٹتی ہی چلی جاتی ہے۔

سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے مثلاً یہ عمامہ ہے یا قمیص یا چادر ہے اور پھر فرماتے :

اللھم لك الحمد أنت کسوتنیه أسألك خیرہ وخیر ما صُنِع له وأعوذ بك من شرہ وشرما صُنِع له 20
''اے اللہ آپ ہی کے لئے تعریف ہے کہ آپ نے مجھے یہ کپڑا پہنایا، میں تجھ سے اس کپڑے کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس چیز کی بھلائی کہ جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے،اس کے شر سے۔''

سیدہ عائشہ صدیقہؓ ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ دوپہر کی گرمی میں ہم اپنے گھر کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے میرے والد ابوبکرؓ سے کہا: وہ دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چادر سے سر کو ڈھکے ہوئے تشریف لارہے ہیں ۔ 21

اَلتَقَنُّع کا مطلب یہ ہے کہ ''سر پر کپڑا ڈال کر سر چھپانا'' اور اسی سے مُتَقَنِّعًا کا لفظ بنا ہے جس کا مطلب 'سر کو ڈھانپتے ہوئے' بنتا ہے۔

سیدنا براء بن عازبؓ نے ایک طویل حدیث میں ابورافع یہودی کے قتل کا واقعہ بیان کیا ہے جسے سیدنا عبداللہ بن عتیک انصاریؓ نے ایک عجیب حیلہ سے آخر کار قتل کرڈالا۔ اور واپسی میں سیڑھیوں سے اُترتے وقت گر پڑے جس سے ان کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پس اُنہوں نے اپنے عمامہ سے پنڈلی کو باندھ لیا۔ فعصبتھا بعمامة 22

ابو رافع یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا اور وہ آپ کو اذیت پہنچاتا اور آ پ کے دشمنوں کی مدد کرتا رہتا تھا لہٰذا اس کا قتل ضروری ہوگیا تھا۔ اس حدیث میں عمامہ کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا لیکن جب عبداللہ بن عتیکؓ کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اُنہیں کپڑے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اُنہوں نے اپنے سر سے عمامہ اتارا۔ اس طرح عمامہ کا ذکربھی اس حدیث میں آگیا۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام ؓ عموماً اپنے سروں پر عمامہ باندھتے تھے اور یہ حدیث اس با ت کی زبردست شاہد ہے۔ نیز یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے، کیونکہ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا ہے۔

سیدنا سہل بن حنظلہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ عیینہ بن حصنؓ اور اقرع بن حابسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوا ل کیا۔ آپ نے معاویہ کو حکم دیا کہ ان کے لئے لکھ دے چنانچہ اُنہوں نے لکھ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مہر ثبت فرمائی اور اس تحریر کو ان کے حوالے کیا۔ عیینہ ؓ نے پوچھا کہ اس تحریر میں کیاہے؟ آپ نے فرمایا کہ جس بات کا تم نے تقاضا کیا تھا، وہ اس تحریر میں ہے۔ پس اُنہوں نے اسے قبول کیا اور اپنے عمامہ میں اسے باندھ لیا۔ 23

سیدنا محمد بن یحییٰ رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی حدرد اسلمیؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کا قرضہ اُتارنے کا حکم دیا تو وہ بازار گئے اور اپنے سر سے عمامہ اُتارا اور پھر بردہ (ایک دھاری دار چادر) اُتاری اور اسے بیچ ڈالا۔ 24

یہ حدیث صحیح ہے اور مرفوع ہے کیونکہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمامہ پہن رکھا تھا۔ اس حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ (عبدالرحمن) ابوحدرد اسلمیؓ صحابی ہیں جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے بھی ابوحدرد اسلمی کو صحابی قرار دیا ہے اور ابن ابی الحدرد اسلمی کو ان سے راوی بتایا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

رسول اللہﷺ کا آخری عمل
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان فرماتے ہیں :
''خرج رسول اﷲ ! وعلیه مِلحَفَةٌ متعطفا بھا علی منکبیه وعلیه عصابة دَسماء۔۔۔'' 25
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اپنے مونڈھوں سے لپیٹ کر باہر تشریف لائے اور آپ اپنے سر پر ایک چکنے کپڑے کی پٹی باندھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی پھر فرمایا: اما بعد! لوگو، دوسری قومیں بڑھتی جارہی ہیں اور اَنصار کم ہورہے ہیں اور کم ہوتے ہوئے آٹے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے۔ پھر تم میں سے جس شخص کو ایسی حکومت ملے جو کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکے تو وہ اَنصار کے اچھے آدمی کی قدر کرے اور بُرے کے قصور سے درگزر کرے۔ ''

ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :
وکان آخر مجلس جلسه 26
''اور یہ آپ کی آخری مجلس تھی جس میں آپ تشریف فرما ہوئے۔''

ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :
خرج رسول اﷲ في مرضه الذي مات فیه بملحفة قد عصب بعصابة دسماء حتی جلس علی المنبر 27
رسول اﷲ! اپنی اس بیماری میں جس میں آپ نے وفات پائی تھی، تشریف لائے۔ آپ نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور ایک چکنے کپڑے کو آپ نے اپنے سر پر لپیٹ رکھا تھا ...

اس حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ فکان ذلك اٰخر مجلس فیه النبي!
''پس یہ آخری مجلس تھی کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔''

سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں :
''سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عباس ؓ انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں ۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ تو جواب ملا کہ ہمیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس یاد آرہی ہیں ۔ پس وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی۔
قال: فخرج النبي ! وقد عصب علی رأسه حاشیة برد قال فصعد المنبر ولم یصعدہ بعد ذلك الیوم۔۔۔ ''پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں نکلے کہ آپ اپنے سر پر چادر کا حاشیہ باندھے ہوئے تھے۔ پس آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اس دن کے بعد آپ دوبارہ منبر پر تشریف فرما نہ ہوئے (یعنی یہ آپ کا آخری خطبہ تھا)۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: لوگو !میں تم کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں پس وہ میری جان و جگر ہیں ان پر جو (میرا حق) تھا، وہ انصار ادا کرچکے ہیں اب ان کا حق باقی ہے۔ ان میں جو نیک ہو تو اس کی قدر کرنا اور جو بُرا ہو اس کے قصور سے درگزر کرنا۔ ''28

قد عصب بعصابة دسماء کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر ایک چکنا کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ عَصْبٌ کے معنی لپیٹنا، باندھنا، گرد پھیرنا کے ہیں اور اسی سے عصبة کا لفظ بناہے جس کا مطلب پٹی، (بڑا) رومال ، عمامہ کے ہیں ۔ 29

اور دوسری روایت میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
وقد عصبت علی رأسه حاشیة برد
اور آپ اپنے سر پر چادر کا حاشیہ باندھے ہوئے تھے
الغرض آپ نے اپنے سر پر کپڑا باندھ کھا تھا یا آگے سر پر عمامہ تھا، بات ایک ہی بنتی ہے۔

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ آپ کا آخری عمل سر کو ڈھکے ہوئے ہی تھااور سر کو ڈھکنے کی یہ بھی زبردست دلیل ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر جو خطبہ دیا تھا، اس وقت بھی آپؐ کے سر پر عمامہ تھا اور اس آخری خطبہ میں بھی عمامہ آپ کے سر پر موجود تھا۔ کیونکہ جو کپڑا سر پر لپیٹا جائے، وہ عمامہ کہلاتا ہے اور اس حدیث سے ننگے سر رہنے کی تردید ہوتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سنت سے محبت رکھنے والوں کو ننگے سر ہونے سے بچنا چاہئے۔

ان تمام احادیث کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ عمامہ ایک محب ِرسول مسلمان کے لباس میں شامل ہونا چاہئے اور عمامہ سر کو ڈھانپنے کی ایک مستقل سنت ہے اور ننگے سر کے مقابلے میں عمامہ اور ٹوپی وقار کی علامت قرا رپاتی ہے۔ احادیث میں ٹوپی کے مقابلے میں عمامہ کی احادیث بہت زیادہ اور کثرت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ۔ البتہ ٹوپی کی ترغیب پر بھی صحیح روایات موجود ہیں جن کا ذکر ٹوپی کے عنوان کے تحت آئے گا۔٭ إن شاء اللہ تعالیٰ

آثارِ صحابہ کرام ؓ
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے پانچ مرفوع روایات عمامہ کے سلسلہ میں گزر چکی ہیں جس میں سے ایک روایت میں بَرْنَسْ (بڑی ٹوپی) کا بھی ذکر ہے اور انہی سے مروی ترمذی کی حدیث کے تحت ان کاایک اثر بھی گزر چکا ہے۔ اب ان کا دوسرا اثر بھی ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا عبدللہ بن دینارؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ جب مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے تو ایک گدھا بھی اپنے ساتھ رکھتے جب وہ اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو آسانی اور آرام کے لئے گدھے پر سواری کرتے تھے اور ایک عمامہ جسے وہ سر پر باندھے رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دن وہ اپنے گدھے پر جارہے تھے کہ ایک دیہاتی سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ عبداللہ بن عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ تو فلاں کا بیٹا اور فلاں کا پوتا ہے، اس نے کہا: جی ہاں ! اُنہوں نے اس اَعرابی کو گدھا دے دیا اور فرمایا: اس پر سوار ہوجا اور عمامہ بھی دیا اور فرمایا کہ اسے اپنے سر پر باندھ لے۔ ان کے بعض ساتھیوں (عبداللہ بن دینار رحمة اللہ علیہ ) نے کہا:
اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے! آپ نے اپنی آرام دہ سواری (گدھا) ان کو دے دیا اور عمامہ بھی ان کو دے دیا جسے آپ اپنے سر پر باندھتے تھے۔ پس اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''نیکیوں میں سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے مرنے کے بعد ان کے دوستوں سے حسن سلوک کرے اور اس دیہاتی کا باپ حضرت عمرؓ کا دوست تھا۔ '' 30

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کرنے والے اور ان سے بے پناہ محبت کرنے والے تھے اور اس کا اندازہ احادیث کے مطالعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ سیدنا عبید رحمة اللہ علیہ بن جریج روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے کہا کہ چار باتیں ایسی ہیں کہ میں آپ کو ہی کرتے دیکھتا ہوں اور آپ کے دوسرے ساتھی ان پر عمل نہیں کرتے۔ (ان میں سے ایک چیز انہوں نے یہ ذکر کی کہ) آپ النعال السبتیة ''بغیر بالوں والے جوتے'' ہی پہنتے ہیں ۔ تو سیدنا عبداللہ ؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بغیر بالوں والے جوتے ہی پہنتے تھے اور ان کو پہنے پہنے آپ وضو بھی فرماتے۔ اس لئے میں بھی ان کا پہننا ہی پسند کرتا ہوں ۔31

صحابہ کرامؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے کس قدر پیار کیا کرتے تھے، اس کا اندازہ سیدنا انس بن مالک ؓ کے طرزِعمل سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔سیدنا انس بن مالکؓ بیان فرماتے ہیں کہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک درزی غلام کے ہاں تشریف لائے۔ وہ آپ کے لئے کدو (کا سالن) لے کر آیا، آپ اسے کھانے لگے۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جب سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو کھاتے دیکھا، تب سے میں اسے پسند (محبت)کرتا ہوں ۔'' 32

یہی وجہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ ہمیشہ اپنے سر پر عمامہ باندھے رکھتے تھے۔

سیدنا نافع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرؓ عمامہ باندھتے تھے اور اس کے سرے (شملے) کو دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکاتے۔ امام عبیداللہ بن عمر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ہمارے بہت سے أَشْیَاخ (شیخ کی جمع یعنی اساتذہ) نے خبر دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓ عمامے باندھتے تھے اور ان کے سروں کو وہ کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے۔ 33

سیدنا ابوعمر مولیٰ اسمائ رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمرؓ کو ایک عمامہ خریدتے ہوئے دیکھا کہ جس پر نشان (بیل بوٹے) بنے ہوئے تھے۔ 34

سیدنا جویریہ بن قدامہ رحمة اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ جب زخمی ہوگئے۔ وقد عصب بطنہ بعمامة سوداء والدم یسیل اور اُنہوں نے عمامہ کو اپنے پیٹ کے گرد زخم پر لپیٹ رکھا تھا اور ان کا خون جاری تھا ( کیونکہ آنتیں کٹ چکی تھیں )۔ 35

سیدنا سلیمان ٭بن ابی عبداللہ رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مہاجرین اوّلین کو پایا جو سوتی کپڑے کے عمامے باندھتے تھے۔ (جن کے رنگ) سیاہ، سفید، لال، ہرے اور زرد ہوتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک عمامہ (کا ایک سرا) اپنے سر پر رکھتے تھے اور اس پر ٹوپی رکھتے اور پھر اس طرح عمامہ کو گھما کر باندھتے یعنی عمامہ کے کپڑے کو سر پر لپیٹ لیتے تھے۔ اور اسے ٹھوڑی کے نیچے سے نہیں نکالتے تھے۔ 36

سیدنا ہشام رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓ جب سجدہ کرتے تو ان کے ہاتھ کپڑوں پر ہوتے اور ان میں سے ہر شخص (گرمی اور تپش سے بچنے کے لئے) اپنے عمامہ پر سجدہ کرتا تھا۔ 37

سیدنا حسن بصری رحمة اللہ علیہ کی روایت امام بخاری نے صحیح بخاری میں بھی معلقا ً ذکر فرمائی ہے۔ امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :کان القوم یسجدون علی العمامة والقلنسوة ویداہ في کمه38
''صحابہ ؓ عمامہ اور ٹوپی پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے تھے۔''

سیدنا جعفر بن عمرو بن اُمیہ ضمری رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن عدی بن خیار رحمة اللہ علیہ کے ساتھ سفر پر نکلا۔ جب ہم لوگ حِمص پہنچے تو عبیداللہ نے کہا کہ چلو وحشی (بن حرب حبشیؓ) سے ملتے ہیں اور اس سے سیدنا حمزہؓ کے قتل کا حال پوچھتے ہیں ۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ وحشیؓ حمص ہی میں رہتے تھے ۔ ہم نے ان کا پتہ معلوم کیا۔ لوگوں نے بتایا: دیکھو وہ اپنے مکان کے سایہ میں بیٹھا ہے اور مشک کی طرح پھولا ہوا ہے۔ جعفر رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ جب ہم اس کے پاس پہنچے تو کچھ دیر کھڑے رہے۔ پھر ہم نے اسے سلام کیا تو اس نے سلام کا جواب دیا۔ اس وقت عبیداللہ اپنا عمامہ سر پر لپیٹے ہوئے تھے اور وحشی ؓ کو ان کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آتا تھا، سوائے آنکھوں اور پاؤں کے۔ عبیداللہ رحمة اللہ علیہ نے ان سے پوچھا:کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ وحشیؓ نے اُن کو دیکھا اور کہا: نہیں ۔ اللہ کی قسم! میں اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ایک عورت اُمّ قتال بنت ِابو عیص سے نکاح کیا تھا۔ اُمّ قتال نے مکہ میں ایک بچہ جنا، میں اس کے لئے انّا ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے اس کی ماں کے ساتھ اس لڑکے کو اُٹھا لیا، پھر وہ لڑکا میں نے اس کی ماں کو دے دیا، گویا میں اب وہی پاؤں دیکھ رہا ہوں (یعنی تم وہی لڑکے ہو)۔ عبیداللہ رحمة اللہ علیہ نے یہ سن کر اپنے سر سے عمامہ کھول دیا۔ 39

مصنف ِابن ابی شیبہ کے کتاب اللباس والزینة میں بعض صحابہ ؓ اور تابعین کرام رحمة اللہ علیہ کے آثار بھی مذکور ہیں ۔ چنانچہ عمامہ کے متعلق مزید آثار ملاحظہ ہوں ، اختصار کے پیش نظر محض اثر نمبر اور اس کی فنی حیثیت کا مختصر اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔

سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ : باب 43 حدیث نمبر 2، اس اثر کی سند صحیح ہے۔
سیدنازید بن ثابت انصاریؓ: باب 44 حدیث 3، اس اثر کی سند میں شریک بن عبداللہ نخعی کوفی ہیں اور امام اعمش کا عنعنہ بھی ہے۔ شواہد میں اس اثر کو پیش کیا گیا ہے۔
سیدنا انس بن مالک انصاریؓ: باب 42، حدیث 2۔اس اثر کی سند صحیح ہے۔
سیدنا علی ؓ: باب 40، حدیث 2 ۔اس اثر میں امام اعمش کا عنعنہ ہے۔
سیدنا حسین بن علیؓ: باب 40 حدیث 21۔ اس اثر میں شریک رحمة اللہ علیہ ہے جس کی روایت شواہد میں درست ہے۔

تابعین کرام رحمہم اللہ کے آثار
یہ آثار بھی مصنف ِابن ابی شیبہ میں وارد ہیں :
امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ : آپ کا اسم گرامی حسن بن ابو حسن بصری انصاری ہے۔ آپ کے والد کا نام یسار ہے۔ آپ ثقہ، فقیہ، فاضل اور مشہور (امام) ہیں ۔ کثیر الارسال اور مدلس ہیں ۔ ان کا اثر دو صحیح سندوں سے موجود ہے۔ 40

امام عبداللہ بن یزید بن قیس نخعی ابوبکر کوفی رحمة اللہ علیہ ثقہ ہیں اور صحاحِ ستہ کے مرکزی راوی ہیں ۔ ان کا اثر باب 40 حدیث 11 میں ہے۔ سند صحیح ہے۔

امام محمد بن حنفیہ رحمة اللہ علیہ کا نام محمد بن علی بن ابی طالب ہاشمی ابوالقاسم ابن حنفیہ مدنی ہے۔ آپ ثقہ ،عالم اور صحاحِ ستہ کے راوی ہیں ۔ ان کا اثر باب 40، حدیث 13 میں ہے۔ اس اثر کی سند صحیح ہے۔

امام اسود بن یزید بن قیس نخعی ابوعمرو یا ابوعبدالرحمن مُخَضْرَم ہے (مُخَضْرَم وہ شخص ہے جس نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو پایا) ثقہ، مکثر فقیہ اور صحاحِ ستہ کے راوی ہیں ۔ ان کا اثر باب 40، اثر 15 میں ہے۔

امام ابونضرہ کا نام منذر بن مالک بن قطعہ عبدی عوفی بصری ہے۔ ابونضرہ ان کی کنیت ہے اور اپنی کنیت سے ہی مشہور ہیں ۔ ثقہ ہیں ، صحیح مسلم اور کتب ِاربعہ کے راوی ہیں ۔ ان کا اثر دوسندوں سے ہے۔ باب 40، حدیث 22 اور باب 43، حدیث 9 دونوں سندیں صحیح ہیں ۔

امام شعبی رحمة اللہ علیہ کا نام عامر بن شراحیل شعبی ابوعمر ہے۔ ثقہ مشہور ہیں ، فقیہ اور فاضل ہیں ۔ امام مکحول رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ فقیہ کسی کو نںیب دیکھا۔ ان کا اثر باب 41، حدیث 1 میں ہے، سند صحیح ہے۔

امام سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ کا نام سعید بن جبیر اسدی کوفی ہے۔ آپ ثقہ ثبت اور فقیہ ہیں ۔ عائشہؓ ، ابوموسیٰ اشعری رحمة اللہ علیہ وغیرہ سے ان کی روایت مرسل ہے۔ اُنہیں حجاج بن یوسف کے سامنے قتل کیا گیا۔ ان کا اثر باب ۴۱، حدیث ۲ میں ہے ۔ اس اثر کا راوی اسماعیل بن عبدالملک رحمة اللہ علیہ صدوق لیکن کثیر الوہم ہے۔

امام اخنف رحمة اللہ علیہ کا نام اخنف بن قیس بن معاویہ بن حصین تمیمی سعدی ابوبحر ہے۔ اس کے علاوہ ان کا نام ضحاک ہے اور صَخَربھی منقول ہے۔ آپ بھی مُخضرم،ثقہ اور صحاحِ ستہ کے راوی ہیں ۔ ان کا اثر باب 42 حدیث 1 میں بہ سند صحیح موجود ہے۔

قاضی شریح رحمة اللہ علیہ کا نام شریح بن حارث بن قیس کوفی نخعی القاضی ابو اُمیہ ہے۔ آپ بھی مخضرم اور ثقہ ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو صحبت حاصل ہے۔ آپ کا اثر دو سندوں سے ہے۔ باب 43 حدیث 7 اور باب 44 حدیث1۔ دونوں سندیں صحیح ہیں ۔ شریک کے اثر کی تائید امام وکیع کے اثر سے بھی ہوتی ہے۔

امام سالم کا نام سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب قرشی عدوی ابوعمر یا ابوعبداللہ مدنی ہے۔ مدینہ کے کبار فقہاے سبعہ سے ہیں ۔ آپ ثبت، عابد اور فاضل ہیں ۔ سنت اور طریقہ پر عمل پیرا ہونے میں اپنے والد عبداللہ بن عمرؓ کے مشابہ تھے۔ صحاحِ ستہ کے راوی ہیں ۔

امام قاسم کا نام القاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق تیمی ہے۔ آپ ثقہ ہیں اور فقہاے مدینہ میں سے ایک ہیں ۔ امام ایوب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔ صحاحِ ستہ کے راوی ہیں ۔ ان دونوں کا ایک اثر ترمذی کے حوالہ سے گزر چکا ہے اور دوسرا اثر باب 43 حدیث 8 میں بہ سند صحیح ہے۔

سیدنا جبریل علیہ السلام کا عمامہ:سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فرعون کے غرق ہونے کے دن جبریل علیہ السلام کے عمامہ کا رنگ سیاہ تھا۔ (مصنف بن ابی شیبہ : باب 40 حدیث 12) امام سعید تک سند صحیح ہے۔

مسند احمد کی ایک روایت میں عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سوار تاتاری (ترکی) گھوڑے پر سوار ہوکر آیا اور اس کے سر پر عمامہ تھاجس کا سرا اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان تھا۔ پس میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اسے دیکھا ہے ؟ وہ جبریل علیہ السلام تھے۔ (6؍150،152) اس روایت کی سند میں ایک راوی عبداللہ بن عمر بن حفص عمری مدنی ضعیف ہے۔ (جاری ہے)
حوالہ جات
1. (ملاحظہ ہو) النساء :59
2. صحیح مسلم:1358
3. فتح الباری:4؍6261
4. صحیح مسلم:1359، شمائل محمدیہ از امام ترمذی :117
5. صحیح مسلم:1359
6. سنن ترمذی:1736 ، شمائل محمدیہ :118 وقال الالبانی : صحیح (صحیحہ :717) وقال زبیر علی زئی: حسن (تخریج مشکوٰة المصابیح:4337
7. مجمع الزوائد:5؍120 وقال الهیثمي: رواہ الطبراني في الأوسط ورجاله رجال الصحیح
8. مجمع الزوائد :5؍120 وقال الهیثمي: رواہ الطبراني في الأوسط وإسنادہ حسن
9. بخاری :205
10. صحیح مسلم : 274 ، سنن ترمذی:100
11. سنن ترمذی:تحت رقم:100
12. صحیح مسلم :275،ابن ماجہ :561
13. سنن نسائی:104، ابن ماجہ:561
14. حاشیہ ابن ماجہ ،دارالسلام
15. صحیح بخاری :1542، صحیح مسلم:2791
16. بخاری کتاب الجنائز باب الکفن بلا عمامة :1273،مسلم :941
17. سنن نسائی:5336،سنن ابوداؤد :4094، مشکوٰة المصابیح: 4332 وقال الالبانی و علی زئی: صحیح
18. صحیح مسلم:106،سنن ابوداؤد: 4087
19. صحیح بخاری:3485
20. ترمذی:1767،ابوداؤد:4020،مشکوٰة :4342 وقال الالبانی: اسنادہ صحیح
21. صحیح بخاری: 5807
22. بخاری :4039
23. مسنداحمد:4؍180،181 'صحیح
24. مسنداحمد:3؍423
25. صحیح بخاری:3800
26. صحیح بخاری :927
27. بخاری :3628
28. صحیح بخاری:3799
29. لغات الحدیث :3؍116
30. صحیح مسلم:2552
31. صحیح بخاری :5851
32. صحیح بخاری : 5433
33. مصنف ابن ابی شیبہ6؍47، طبع بیروت 'صحیح
34. ابن ماجہ :3594 ' صحیح
35. مسند احمد: 1؍51 'صحیح
36. مصنف ابن ابی شیبہ: 6؍47
37. مصنف ابن ابی شیبہ: 1؍298
38. صحیح بخاری قبل حدیث 385
39. صحیح بخاری:4072
40. باب 40 حدیث 9 اور باب 43 حدیث 10
 
Top