بہت عمدہ! جزاکم اللہ خیرا!
اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
البتہ درج ذیل فقرے سے مجھے اتفاق نہیں
پس میں اپنا حلیہ دینداروں کی بجائے عام گناہ گاروں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں
:
آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں اس کی ایڈیٹنگ کر دیتا ہوں کیونکہ الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے شاید غلط مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات انسان ایک بات کہنا چاہ رہا ہوتا ہے، وہ بات تو درست ہوتی ہے لیکن اس کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، شاید وہ مناسب نہیں ہوتے۔ بلاشبہہ الفاظ کے انتخاب کی بھی اہمیت ہے۔
دینداروں کے حلیے سے مراد وہ ظاہری حلیہ ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلا ڈاڑھی رکھنا یا شلوار ٹخنے سے اوپر رکھنا یہ تو دینی حکم ہے اور اس حلیے کو دینی حلیہ کہنا چاہیے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک حلیہ ایسا ہے کہ جو دینی تو نہیں لیکن دینداروں کا ہے جیسا کہ آج کل دین داروں اہلحدیث یا سلفی لوگوں کا سرخ رومال پہننا ہے۔ یا توپ پہننا ہے۔ یا عمامہ باندھنا ہے۔ یا ٹوپی پہننا ہے یا سفید کپڑے پہننا ہے یا کرتا پہننا ہے وغیرہ۔ اس کے بارے میرے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ لوگوں کے نزدیک تقوی کا معیار یہی ظاہری حلیہ بن چکا ہے جبکہ تقوی کا اصل تعلق دل سے ہے۔
اب یہی دیکھ لیں کہ ایک شخص شلوار کرتا پہن کر، سفید عمامہ باندھ کر، موزے پہن کر، اور جیب میں مسواک رکھ کر اچھا خاصا عالم دین یا ولی اللہ معلوم ہوتا ہےاور بات چیت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ تو عالم دین ہے اور نہ ہی اللہ کا ولی۔ میرے نزدیک یہ دھوکہ ہے کہ آپ اپنے ظاہر سے اتنے نیک معلوم ہوں جو آپ حقیقت میں نہ ہوں۔ واللہ اعلم۔ یہ ایک سوچ ہے، غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میں آپ کی بات پر غور کروں گا۔ میری مراد صرف اس قسم کا حلیہ تھا جو مجھے لوگوں کی نظر میں زیادہ دیندار بنا کر دکھائے۔
یہ مسئلہ شاید ایک عام شخص کے ساتھ اتنا نہ ہو لیکن ایک مدرس یا واعظ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات لوگ جب میرے درس یا وعظ سے متاثر ہو کر مجھے آئیڈیلائز کرنا شروع کر دیتے ہیں تو مجھے اپنے دل میں بہت ندامت ہوتی ہے کہ معلوم نہیں یہ مجھے حسن بصری یا جنید بغدای کیا سمجھے جا رہے ہیں۔ ایسے میں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انہیں کیسے سمجھاوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو تم کہہ رہے ہو۔ اہلیہ سے مشورہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ جو تمہاری تعریف میں مبالغہ کرے تو اسے کہہ دو میں گناہ گار آدمی ہو۔ میں نے کہا میں خواہ مخواہ اپنے عیوب لوگوں کو کیوں بتلاتا پھروں، یہ تو الٹا فساد ہے۔
البتہ حدیث میں ہے کہ اس کے منہ میں مٹی ڈال دو۔ اس کی ہمت نہیں ہوتی، اس کے لیے بڑا ایمان چاہیے جو میرے پاس نہیں ہے اور اس میں مانع یہ بھی ہے کہ بعض اوقات تعریف کرنے والے آپ سے مقام یا عمر یا کسی بھی اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔ تو مجھے اس کا حل یہی سوجھا کہ عام لوگوں جیسے حلیے میں رہا کرو، لوگ تمہیں عام سمجھ کر تمہیں اس آزمائش میں نہ ڈالیں جو آزمائش تمہارے خطاب وبیان سے پیدا ہو رہی ہے۔ سوچ تو اس کو پیدا ہوتی ہے جسے آزمائش پیدا ہو۔ جسے اس آزمائش کا سامنا ہی نہیں ہوتا یا جسے یہ آزمائش ہی محسوس نہ ہو تو اسے یہ بات سمجھانا مشکل ہے، اس کا مجھے احساس ہے۔ واللہ اعلم
باقی گناہ گار لوگوں سے مراد عام لوگ تھے نہ کہ فاسق وفاجر۔ یہ بھی تو غور کریں کہ ہمارے لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ ایک سوٹ پہنے والے میں تقوی نہیں ہو سکتا اور عمامہ باندھے والا پہلی نظر میں ہی متقی معلوم ہوتا ہے حالانکہ تقوی کا سراسر تعلق انسان کے دل سے ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تقوی کے بارے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دل میں ہوتا ہے۔ میں ظاہر کا انکار نہیں کر رہا۔ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ وہ ظاہر بھی تقوی میں داخل ہے جو حلال وحرام میں شامل ہے لیکن کچھ چیزیں ہمارے کلچر یا رواج کی ہے، ان میں تقوی تلاش کرنے کی بجائے، دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم۔
آپ کی اصلاح پر اپنی عبارت کو میں یوں تبدیل کر رہا ہوں:
پس میں اپنا حلیہ بظاہر دینداروں کی بجائے عام لوگوں جیسا اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔