حضرت العلام فضيلة الشيخ عبدالله أمجد چھتوی رحمہ اللہ تعالی !
شیخ محترم کا اسم گرامی پہلی دفعہ اپنے ماموں سسر حافظ عبدالقادر آزاد اٹھتوی رحمہ اللہ سے سنا دل میں بہت اشتیاق تھا کہ شیخ محترم سے ملاقات کی جائے غالبا یہ بات 2005 کی ہے ۔
میرے دینی علم کے حصول کے ابتدائی سال تھے ۔
ارادہ کیا کہ پاکستان کے کبار مشایخ سے ملاقات کی جائے اس سفر میں میرے ساتھی امام محدث بدیع شاہ الدین راشدی رحمہ اللہ کے پوتے شیخ نصرت اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ تعالی تھے ۔
ہم ستیانہ بنگلہ پہنچے وہاں مسجد میں سب سے پہلے ملاقات زھد و تقوی کی مثال شیخ عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ سے ہوئی ان سے شیخ محترم رحمہ اللہ کے گھر کا معلوم کیا پھر دروازہ پر دستک دی ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ خود تشریف لائے انکی محبت اور خلوص آج تک یاد ہے ۔ شیخ محترم رحمہ اللہ ہمیں گھر میں لے گئے اور خود ہمارے لئے چائے بسکٹ لائے میں نے انکے ہاتھ سے ٹرے پکڑنے کی کوشش کی مجھے کہنے لگے آپ مہمان ہیں آپکی تکریم لازم ہے ۔ اللہ اکبر
جب شیخ محترم رحمہ اللہ سے ہمارا تعارف ہوا تو دوبارہ اٹھ کر گلے سے لگا لیا والہانہ اپنی محبت کا اظہار فرمایا ۔ میرے نانا جی مولانا محمد رحمہ اللہ انکے بہت گہرے دوست تھے اور یہ دوستی اس وقت سے ہے جب شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے پاس شرف تلمذ حاصل کر رہے تھے ۔ انکا تعلق مزید گہرا اس وقت ہوا جب شیخ محترم رحمہ اللہ عارف والا کے نزدیک گاوں 49 ای بی میں شیخ الحدیث تھے یہ گاوں ہمارے ننھیالی گاوں کے قریب واقع ہے ۔ اس تعلق کی اہم وجہ ایک عظیم ہستی مولانا محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ بھی ہیں جو کہ میرے منجھلے ماموں کے سسر ہیں ۔ شیخ محترم نے اس ملاقات میں ہمارے بزرگ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ اور ہمارے دادا حافظ محمد حسین روپڑی رحمہ اللہ کا خاص ذکر فرمایا اور سلطان المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آب دیدہ ہوگئے کہنے لگے کہ میں ان کے مناظروں میں انکا معاون ہوتا اور وہ مناظرہ کرتے ۔
اس کے بعد والد محترم حافظ عبداللہ حسین روپڑی رحمہ اللہ کی خیریت دریافت کی تمام خاندان کے لوگوں کا پوچھا خاص کر اپنے عزیز دوست میرے نانا مولانا محمد رحمہ اللہ کی اولاد کے متعلق ۔ انکی محبت آج بھی دل میں ایک ہلچل مچا دیتی ہے ۔
ہمیں رخصت کرنے کے لیے باہر گاڑی تک تشریف لائے میں نے انہیں ایک کتاب کا ھدیہ دیا بہت خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا کھانے کے لئے بار بار اسرار فرما تے رہے طویل سفر کی وجہ سے ہم نے معذرت چاہی ۔
شیخ محترم سے اس کے بعد فون پر باقاعدہ رابطہ رہتا۔ جب بھی انہیں میں فون کرتا ہمیشہ محبت اور پیار کا اظہار فرماتے ۔ مسئلہ پوچھتا تو بہت تفصیل اور مکمل دلائل سے سمجھاتے ۔
کراچی آمد پر ان سے ملاقات ضرور ہوتی ۔ ایک دفعہ ایک تقریب کے لئے کراچی تشریف لائے میں انہیں لینے کے لئے ائرپورٹ گیا جب باہر تشریف لائے تو اپنے سفید رمال سے چہرہ انور ڈھانپا ہوا تھا میں نے شیخ محترم رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ ماجرا کیا ہے تو شیخ محترم رحمہ اللہ فرمانے لگے بے حیا خواتین ہر جگہ ہیں جہاز میں بھی تھیں انہوں نے پردہ نہیں کیا تو میں نے ان سے کر لیا ہے ۔ سبحان اللہ ۔
شیخ محترم سے جب بھی کوئی درخواست کرتا آپ کبھی نہ ٹالتے ۔
میرے برادر گرامی حافظ ضیاء اللہ برنی حفظہ اللہ مجھے فون کیا اور کہا کہ تم شیخ محترم رحمہ اللہ جامعہ ابن تیمیہ کی تقریب بخاری کے لئے وقت لے لو ۔
میں نے شیخ محترم رحمہ اللہ کو فون کیا اور تقریب کے لئے وقت مانگا شیخ محترم رحمہ اللہ پوچھنے لگے کون سا ادارہ مدرسہ ہے میں نے کہا استاد جی جامعہ ابن تیمیہ لاہور کے لئے وقت چاہئے ۔ آپ فرمائے لگے اچھا" او حبیب الرحمن دے لڑکے دا " مولانا حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ کے والد گرامی مولانا حبیب الرحمن لکھوی رحمہ اللہ ۔ میں نے جی وہی کہنے لگے آجاوں گا مجھے دوبارہ تقریب سے قبل یاد دہانی کروا دینا ۔ میں نے شیخ محترم رحمہ اللہ کو شیخ حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ کا نمبر بھی دیا اور تقریب سے چند دن پہلے دوبارہ رابطہ کیا تو فرمائے لگے مجھے یاد ہے ۔ شیخ محترم نے تقریب میں شرکت فرمائی اور درس بخاری ارشاد فرمایا ۔ شیخ حفیظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ بھی انکے شاگردوں میں سے ہیں ۔
اسی طرح شیخ محترم رحمہ اللہ کا ایک دفعہ مجھے فون آیا کہنے لگے آپ کراچی میں ہیں میں نے کہا جی استاد جی حکم فرمائیں مجھے کہنے لگے میرا بیٹا ڈاکٹر عتیق حفظہ اللہ کراچی آ رہے ہیں انھوں نے پی ایچ ڈی کا امتحان دینا ہے آپ انہیں اپنے پاس ٹہرائیں میں نے کہا استاد جی آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔
ڈاکٹر عتیق حفظہ اللہ کی واپسی پر شیخ محترم رحمہ اللہ نے خاص شکریہ ادا کرنے کے لئے فون کیا ۔
یہ میرے لئے بہت اعزاز تھا کہ شیخ محترم رحمہ اللہ نے مجھے اس قابل سمجھا ۔
آخری دفعہ شیخ محترم سے جب بات ہوئی مجھے اپنے گاوں کے ادارے کی تقریب کے لئے شیخ محترم سے وقت لینا تھا شیخ محترم نے بخوشی اجازت عنایت فرما دی لیکن اپنی علالت کی وجہ سے شیخ محترم رحمہ اللہ شرکت نہ کر سکے ۔
اللہ ہمارے شیخ محترم رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے اور ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین
ابو الحسن حافظ عبد الحفیظ روپڑی