• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاک و ہند کے دو معمر شیوخ کی وفات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠عبد اللہ امجد چھتوی صاحب دنیا سے رخصت ہوئے رحمہ اللہ

انسان دنیا میں آتا ہے صرف اور صرف اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے اگر انسان اس مقصد میں کامیاب ہو جائے تو اللہ دنیا میں ہی اس کی کامیابی کی مثال سب کے سامنے واضح کر دیتے ہیں ۔
یہی کچھ منظر آج شیخ عبد اللہ احمد چھتوی صاحب رحمہ اللہ تغمد اللہ برحمتہ کے جنازہ کے تھے کے اللہ نے سب کی سامنے ان کی کامیابی کی مثال رکھ دی کیسی کامیابی اللہ ھو اکبر شیخ عتیق اللہ سلفی صاحب آج جنازہ سے قبل فرما رہے تھے کے جب سے عبد اللہ احمد چھتوی صاحب اس جامعہ میں آئے آج تک انہوں نے کبھی نماز جماعت کے بغیر نہیں پڑھی اور جب سے جامعہ میں تدریس کر رہے ہیں آج تک چھٹی بھی نہیں کی صرف ایک دن چھٹی کی جس دن ان کی بچی اس دنیا فانی سے رخصت ہوئی پھر بھی کلاس پڑھائی اور بعد میں ادارہ میں اعلان ہوا استاد جی کی پیاری بیٹی آج دنیا سے رخصت ہو گئی ہے ۔۔ کیا شخص تھے شیخ عتیق اللہ سلفی صاحب نے ان کے لئے ایک کمرہ تیار کروایا کے آپ یہاں جامعہ میں رہا کرے گھر نہ جائے کرے ہم یہاں آپ کی خدمت کیا کرے گے کہنے لگے میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا ۔۔۔ کیسے وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیخ کی شاگردی اختیار کی آج جنازہ کے جس قدر رقت امیز مناظر تھے دل سے التجا نکلی اللہ ہمارا جنازہ بھی اس طرح کا ہو آئے تھے دنیا میں جس کام کے لئے اس کام کی تکمیل کی اور دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے بے شمار لا تعدار شاگرد نشین چھوڑ گئے شیخ کی کمی زندگی بھر پوری نہیں ہو سکتی۔
انسان کی شہرت پیسے سے نہیں جنازہ پر ہی پتا چلتی ہے۔
حافظ ابوبکر جہان باجوہ​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
إنَّا لله وإنّا إليه راجعون ..
تُوفي قبلَ قليل شيخنا العلامة المُسنِد محمَّد ظهيرالدين المُباركفوري الرَّحماني الأثري في مدينة عمرآباد، بالهند!
إن تبقَ تُفجَع بالأحبةِ كلِّهم ** وفِناءُ نفسِك لا أبا لك أفجعُ!
رحلتُ إليه قبلَ 3 سنوات لمَّا علمتُ باستضافته في رياض نجد؛ فسمعت عليه، على إخوانه العُلماء المُحدِّثين «سنن النَّسائي»، فلا والله ما سمعتُ بخيرٍ ممّا رأيتُ؛ تواضعًا، ونُبلاً، وعِلمًا!
وقد أكرمني ـ في ذات الرِّحلة ـ أيَّما إكرام؛ فقد سمح لي ـ مُنفردًا ـ بقراءة قطعة صالحة من «صحيح مُسلم» ـ الذي تميزَ بعُلوه المُطلق فيه ـ ، وبعد مرور 3 سنوات، وتحديدًا قبلَ أربعين يومًا من الآن بُثّ مجلسُه لسماع «صحيح مُسلم» من مدرسة أزهر العلوم، ببنجلور ـ الهند، فهرعتُ للسَّماعِ أنا وزوجي وولدي عبد الله، وصغيرتي جنى! ورُغم أنَّه في أيامِه الأخيرة، وتقدّم سِنّه إلا أنّه كان مُتيقظًا، يُصححُ للقُرّاء، ودونّتُ من ذلك الشيء الكثير!
فرحم اللهُ شيخنا وأخلف للأُمّة خيرًا.
وإنْ رثيتُه فسيرثيه قلبي! واللهُ المُستعان.
وكتبَ فور سماع خبرِ الشيخ:
محمود حمدان - غزة
22 ذو القعدة 1438هـ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠مولانا چھتوی کا آخری دن

شیخ المشایخ کے جنازہ میں شرکت کے لئے تقریبا 3 بجے سہ پہر مرکزالدعوة السلفيه ستیانہ بنگلہ پہنچ گیا نماز ظہر ادا کرنے کے بعد اپنے بھائی حافظ عبیداللہ ارشد کے ساتھ باھر برآمدے کے پاس کھڑا تھا علمآء سے مسجد بھری ھوئی تھی ابھی آنے والوں کا سلسلہ رکا نہ تھا علم کےبادشاہ کے جنازہ تھا آخر
وھیں کھڑے تھے کہ بلند آواز سے کوئی دھائی دے رھا ھے
کہ اللہ کے بندو وضو کر لو کسی کی نماز ضائع نہ ھو۔ نماز بڑا اھم مسئلہ ھے۔
کسی کی تکبیراولی نہیں رھنی چاھیئے۔ جلدی کرو جلدی کرو۔
وضو کر لو
دیکھا تو دبلے پتلے اور نورسے منور چہرے والے بزرگ شیخ عتیق اللہ سلفی صاحب تھے جو اس شدت غم میں بھی لوگوں کو نماز کی تلقین کر رھے تھے
لوگ تھے کہ شیخ کو گھیر لیا اور گلے ملنے لگے اور تعزیت کرنے لگے
میں ارادہ کر ھی رھا تھا کہ شیخ آگے نکل گئے کچھ دیر بعد اذان شروع ھوگئی
اذان کے ختم ھوتے ھی دوبارہ وھی آوازیں آنا شروع ھوگئیں
کہ نماز کی تیاری کرو
وضو کر لو وقت ضائع نہ کرو
کوئی پیچھے نہ رھے تو اس وقت میں آگے بڑھا اور شیخ سے معانقہ کیا اور تعزیت کی اور بھی کافی علماء بھی جمع ھو گئے
شیخ عتیق اللہ صاحب فرمانے لگے کہ کل بخاری کے سبق سے فارغ ھوئے تو طلبہ کو واپس بلا لیا اور کہا میرا دل چاھتا ھے کہ بخاری دوبارہ پڑھاوں تو پھر بخاری کا درس شروع کردیا اور شیخ سلفی صاحب رونے لگ گئے
اور مزید فرمانے لگے کہ کل جامعہ میں میٹنگ میں شیخ چھتوی صاحب فرمانے لگے کہ فلاں جامعہ میں ترجمہ کلاس کاآغاز کرنا ھے تو کون یہ ذمہ داری لے گا ؟
تو علمآء کرام کہنے لگے کہ جواس طرف رھائش رکھتے ھیں ان میں سے کسی کو ذمہ داری لینی چاھئیے اسی بحث و تکرار میں کوئی بھی فائنل نہ ھوا تو شیخ چھتوی صاحب فرمانے لگے چلو فیر میں آج افتتاحی درس خود ھی دے آونگا
اللہ اکبر
تو مغرب کے بعد تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ افتتاحی درس بھی دیا اور عشاء کی نماز باجماعت ادا کی اور رات دس بجے کندھے پہ کچھ درد ھوا کچھ دیر بعد ٹھیک ھو گئے
رات تقریبا 2 بجے دوبارہ درد ھوا فورا گاڑی میں فیصل آباد کی طرف روانہ ھوئے وھاں ھسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ شیخ محترم تو اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ھیں۔
یہ بات سنا کر شیخ سلفی صاحب کی آنکھیں برسنے لگ گئیں۔
میں سوچ رھا تھا کہ کتنی خوش نصیبی اور سعدت کی بات ھے کہ سارا دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھائیں اور رات کو اللہ کے قرآن کی تفسیر بیان کی
اس کے بعد اللہ کے حضور پہنچ گئے
تصور ھے کہ رب نے پوچھا ھوگا
کہ عبداللہ کیا لے کر آئے ھو تو جواب دیا ھوگا
جی اللہ کریم بس تیرا قرآن اور تیرے نبی کا فرمان لے کے آیا ھوں
تو رب نے کہا ھوگا
کہ تیرے لئے میری جنت کے سارے دروازے کھلے ھیں جہاں سے مرضی داخل ھو جاو
تم نے میرے قرآن اور میرے نبی کی حدیث کی خدمت کی ھے تو
میں تجھ سے راضی ھوگیا ھوں
ان شآءاللہ
پھر جنازہ کے موقع پہ جب شیخ عتیق اللہ صاحب مائک پہ آئے تو روتے ھوئے فرمانے لگے کہ میری شیخ کے ساتھ 22 سالہ رفاقت رھی ھے جامعہ میں
مگر شیخ نے ایک چھٹی نہیں کی
کبھی ایک منٹ لیٹ نہیں
طلباء کا وقت کبھی ضائع نہیں کیا
اور ساتھ ھی پھر وھی تلقین کرنا شروع کردی کہ لوگوں نماز کی حفاظت کیا کرو نماز کبھی نہ چھوڑنا
شیخ چھتوی صاحب نے کبھی نماز ضائع نہیں کی تھی
نبی کریم نے بھی اپنے آخری وقت فرمایا تھا
کہ لوگو نماز کا خیال رکھنا
نماز ضائع نہ کرنا
نماز کی حفاظت کرنا
اس کے ساتھ ھی تکبیر کہی اور جنازہ شروع کردیا
اللہ اکبر
اور جنازہ ایسے رقت امیز انداز میں پڑھا جیسے پنجابی میں کہتے ھیں کہ کھیڑے پئے گے
کہ اللہ اپنے بندے کو معاف کر دے
اپنے بندے سے راضی ھوجا
اپنے بندے کو جنت عطا کردے
یقینا اللہ نے ان دعاوں کو شرف قبولیت سے نوازا ھوگا
اور ھمارے مربی ومحسن شیخ چھتوی صاحب اللہ کی جنت میں تشریف لے گئے ھونگے
ان شآءاللہ
حافظ ارشد محمود ، مدیر مجموعہ علماء اہل حدیث​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ کے جنازے نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بات یاد کرادی کے ہمارے اور انکے درمیان فرق جنازوں کے دن ہوگا.لوگ سرمایہ داروں اور مادہ پرستوں کے پیچھے مفادات کے لئے بھاگتے رہتے ہیں لیکن علماء کے جنازوں میں خود بخود بغیر لالچ کے پہنچ جاتے ہیں۔
حافظ ابتسام الہی ظہیر​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اللہ اکبر کیا بتائیں ! شیخ محترم چھتوی صاحب کو اللہ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا مزید آپ تحریک ختم نبوت میں جیل بھی گئے تھے آپ پر ختم نبوت کی تحریک کی وجہ سے مقدمات بنے ، پولیس کی طرف سے اشتہاری بنایا گیا ، البتہ پھر اس وقت کے کور کمانڈر لاہور نے آپ کے تمام مقدمات ختم کروائے ، اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں فرمائے ۔
سید حبیب الرحمن کاظمی​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آپ نے ذکر کیا کہ شیخ رحمہ اللہ کا علاقہ اہلِ علم و فضل کے حوالے سے معروف ہے۔ اس ضمن میں ایک بات یاد آ گئی کہ چند سال قبل جب میں ستیانے میں دورے کیلیے موجود تھا تو مولوی عتیق اللہ سلفی کی خالہ محترمہ کا سانحہ ارتحال ہوا۔ اس موقع پر مقامی طلبہ نے نمازِ جنازہ میں موجود سترہ شیوخ الحدیث گنوائے جو سب چک 36 سے تعلق رکھتے تھے۔
فیضان فیصل​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آہ شیخ الحدیث والتفسیر عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ بھی اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے ۔

چھتوی صاحب رحمہ اللہ ایک طریق سے ہمارے دادا استاد اور ایک طریق سے پردادا استاد ہیں ہمیں استاد محترم حافظ اعجاز احمد صاحب سے درس ترمذی لینے کا شرف حاصل ہوا ور انہیں شیخ الحدیث عبد اللہ امجد چھتوی صاحب سے درس بخاری لینے کا
اور دوسرے طریق سے ہمیں شیخ الحدیث یونس عاصم صاحب رحمہ اللہ سے درس بخاری اور مکمل قرآن کی تفسیر پڑھنے کا جبکہ انہیں شیخ الحدیث عبد العزیز علوی صاحب سے درس بخاری اور مکمل تفسیر پڑھنے کا اعزاز ملا اور شیخ علوی صاحب حفظہ اللہ شیخ عبد اللہ امجد چھتوی صاحب کے شاگردوں میں سے ہیں
پوتے اور پڑپوتے شاگرد علم و فنون میں اپنے آباؤ اجداد کا ذکر اپنے اساتذہ کی زبان سے سنتے ہی رہتے ہیں یہی اھل علم کا وطیرہ ہے سو ہم بھی سنتے رہتے استاد محترم حافظ اعجاز احمد صاحب حفظہ اللہ اکثر اپنے مشفق استاد شیخ الحدیث عبد اللہ امجد چھتوی صاحب رحمہ اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے دل ہی دل میں ان سے ملاقات کی تمنا پیدا ہوتی جو ناجانے ہماری کوتاہی یا کسی فرصت کی تلاش کی نظر ہو جاتی
یہاں تک کہ ۲۳ جولائی ۲۰۱۵ کا شاندار دن آن پہنچتا ہے ہم بعد از فجر استاد محترم حافظ مقصود احمدصاحب ،حافظ یحیی مقصود،اور صفی الرحمن بھائی کی معیت میں راولپنڈی سے فیصل آباد کے لیے عازمِ سفر ہوتے ہیں
فیصل آباد پہنچنے پر ایک درویش صفت عالم جناب محترم صوفی عائش محمد صاحب حفظہ اللہ ہمارا استقبال کرتے ہیں اور ان کی معیت میں سب شیخ الحدیث عبد اللہ امجد چھتوی صاحب رحمہ اللہ کی رہائش گاہ پر پہنچ جاتے ہیں کیونکہ ان دنوں مدارس میں سالانہ چھٹیوں کے دن تھے تو شیخ صاحب گھر پر ہی تشریف فرما تھے
آپ بیٹھک میں تشریف لاتے ہیں شیخ صاحب رحمہ اللہ سادگی میں اپنی مثال آپ دکھائی دے رہے تھے مگر بارعب چہرے اور سنجیدہ و علمی گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اساتذہ کرام شیخ صاحب کا ذکر خیر صحیح ہی فرمایا کرتے تھے
آپ اور آپ کے صاحبزادے مشروبات سے ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں
تقریبا دو گھنٹے شیخ محترم کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا جس دوران آپ کو مسلسل سائلین کی کالز موصول ہوتی رہی اور آپ ہر ایک کا قابل تشفی جواب دیتے رہے پنجابی زبان میں جواب ارشاد فرما رہے تھے اور اگر قرآن و حدیث کی کوئی نص پڑھتے تو محل شاھد عربی میں پڑھ کر اس کا ترجمہ کرتے اور ساتھ حدیث کی تخریج بھی ذکر کرتے
اور جو خاص بات نوٹ کی وہ یہ کہ جواب سے اگر کوئی مطابقت والا مسئلہ ہوتا تو وہ بھی بیان کرتے جا رہے تھے ایک موقع پر کسی سائل سے کہنے لگے رکیے اس سوال سے یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے اس کی وضاحت بھی سن لو
علماء ربانیین بھی ایک دوسرے کے کیا قدر دان ہوتے ہیں اسی مجلس میں کسی مناسبت سے شیخ الحدیث حافظ امین صاحب کا ذکر ہوا تو فرمانے لگے وہ بہت عالم فاضل انسان ہے
آپ کی وفات کا غم پوری جماعت پر ایک پہاڑ کی مانند لگ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صرف شیخ الحدیث ہی نہیں بلکے استاد شیوخ الحدیث تھے ہم اکثر سوشل میڈیا کے ذریعے علماء کی بیماری کا سنتے ہیں ان کے شاگرد دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں مگر آپ کی وفات کی خبر سن کر جیسے بہت سوں پر سکتہ طاری ہو گیا ہو
مشہور مقولہ ہے کہ "ہر کوئی اپنا رزق پورا کر کے ہی دنیا سے جاتا ہے"
اب پتہ چلا کہ علماء بھی اپنے حصے کی دعوت و تبلیغ اور تدریس کر کے ہی جاتے ہیں مولانا عتیق اللہ سلفی صاحب کے الفاظ کے شیخ چھتوی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کے آخری دن بخاری کا سبق معمول سے کچھ زیادہ پڑھایا
ایسے ہی شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ اسلام آباد مولانا یونس عاصم صاحب رحمہ اللہ بھی آخری دن صحیح بخاری کا سبق کچھ زیادہ پڑھاتے ہیں اور بعد از عشاء داغ مفارقت دے جاتے ہیں
شیخ چھتوی صاحب رحمہ اللہ بھی ان خوش نصیب ہستیوں میں سے ہیں جن کو کندھا دینے والے اور قبر میں اتارنے والے ان کے وہ شاگرد ہیں جو قبر و آخرت کی زندگی میں ان کا بہترین سرمایہ ہیں
اللہ کریم سے دعا ہے کہ شیخ الحدیث عبد اللہ امجد چھتوی صاحب رحمہ اللہ کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی ہمارے سلف صالحین کے راستے پر چلاتے ہوئے مساجد و مدارس سے جوڑے رکھے ۔
زین عرفان اعوان​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک عظیم عالم کا انتقال

علامہ ابتسام الہی ظہیر
روزنامہ دنیا
17 اگست ، 2017ء
جب کسی عالم با عمل کی موت کی خبر سننے کو ملتی ہے تو سمجھ دار انسان پر سکتے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہم کسی قریبی عزیز یا سرپرست کی شفقتوںسے محروم ہو گئے ہیں۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بادلوں کا سایہ ہم سے ہٹ گیا ہے، زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ہے،بہاریں ہم سے روٹھ گئی ہیں، اور دل میںخیال ابھرتا ہے کہ اب ہم روحانی توانائی کہاں سے حاصل کریں گے۔ سینہ غم سے تنگ ہو جاتا ہے، آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں، یوں سمجھیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد دنیا ویران نظر آتی ہے۔ مگرجب عالم باعمل کی وفات پر ان کے ہم عصروں اور شاگردوں کے خوبصورت الفاظ اور دعائیں سننے کو ملتی ہیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ بامقصد زندگی تو انہی کی تھی اور سعادت کی موت بھی انہی کی ہے کہ جو مرتے دم تک رب کا قرآن اور نبی ﷺکا فرمان سنا گئے اور اپنے رب کے فضل اور نیک اعمال کے ذریعے دنیا کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابیوںکو سمیٹ گئے۔
اس موقع پر نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی ذہن میں آتی ہے کہ'' اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں ( کے سینوں ) سے ہی چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ چنانچہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (بخاری شریف)
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے عظیم علماء کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا اور ہر عالم کی موت کے بعد محسوس کیاکہ مدتوں تک ان کا خلاء پورا نہیں ہو سکے گا۔
15 اگست کا دن بھی اپنے ساتھ ایک المناک خبر کو لے کر آیاکہ شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی ؒاللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ آپ کی عمر 78 برس تھی۔ آپ ریاست بیکانیر (انڈیا) کے علمی مرکز بڈھیمالوی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مرحوم سے حاصل کی اور درس نظامی کی تکمیل جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں 1958 میں کی۔ فراغت کے بعد اسی جامعہ میں 18 سال تدریس کے فرائض سر انجام دئیے اور بعد ازاں دارالقرآن ( فیصل آباد) ، جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) اور جامعہ اشاعۃ الاسلام عارفوالہ 149/eb میں بھی شیخ الحدیث کے طور پر تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور 1993 سے تاحال مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں شیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح تقریبا ً تیس سال سے آپ کو صحیح البخاری پڑھانے کا شرف حاصل رہا ہے۔آپ نے اپنے وقت کے نامور علماء سے علم کو حاصل کیا۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبداللہ بڈھیمالوی،شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ، شیخ الحدیث پیر محمد یعقوب صاحب، شیخ الحدیث والتفسیر محمد عبداللہ روپڑی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ۔
اسی طرح آپ سے سینکڑوں کی تعداد میں علماء نے علم کو حاصل کیا جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
فضیلۃ الشیخ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فیصل آباد،شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ فیصل آباد،شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ گوجرانوالہ، شیخ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ مریدکے، شیخ الحدیث مولانا عبدالعلیم صاحب گوجرانوالہ، شیخ الحدیث مولانا محمد اکرم شاہ سیالکوٹ، شیخ الحدیث مولانا محمد گلزار صاحب فیصل آباد، فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالغفار اعوان المدنی حفظہ اللہ اوکاڑہ،شیخ مقصود احمد صاحب حفظہ اللہ ۔
آپ آخری عمر میں کچھ عرصہ علیل رہے۔ لیکن دوران علالت بھی آپ تعلیم وتعلم اور تبلیغ کے عمل سے وابستہ رہے ، احادیث سے فقہی مسائل کے استنباط اور اور استدلال میں منفرد ذوق رکھتے تھے ۔ طلباء کو تقابلی انداز میں پڑھانا اور اس کے اصولوں سے آگاہ کرنا بھی ان کا خاص وصف تھا ۔
مرکز ستیانہ جو کہ کتاب وسنت کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز ہے۔ اس مرکز میں حافظ عبداللہ بڈھیمالوی کی رحلت کے بعد تقریباً 30 برس آپ نے دورہ تفسیر القرآن بھی کروایا ۔اپنے طویل تدریسی کیرئیر کے دوران آپ نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی۔ حتیٰ آپ کی صاحبزادی ام محمد ایک طویل علالت کے بعد رات کے کسی حصہ میں فوت ہو گئیں تھی۔ آپ نے فجر کے فورا ًبعد مدرسے میں اعلان نہیں کروایا۔صبح حسب معمول درس کے لئے طالب علم آپ کو لینے کے آپ کے گھر پہنچے ۔ تو گھر کے باہر غیر معمولی کیفیت تھی۔آپ آگے بڑھ کر طالب علم کی بائیک پر سوار ہو کر مدرسہ پہنچے ‘راستے میں طالب علم کے استفسار پر اپنی لخت جگر کی فوتگی کا بتلا کر سختی سے تاکید کی کہ مدرسہ میں ابھی کسی کو نہیں بتانا۔پھر معمول کے مطابق صحیح بخاری شریف کا درس دیا۔
اتنی دیر میں مدرسے کی مسجد سے بیٹی کی وفات کا اعلان ہوا تو طلبہ آپ کی تعلیم وتدریس کا ذوق ریکھ کر حیران رہ گئے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا :حدیث کے سبق سے دل کو کافی صبر وسکون ملا۔
آپ نے تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ بعض دینی اور سیاسی تحاریک میں بھر پور شرکت کی اور عوام کی خوبصورت انداز میں رہنمائی فرمائی ۔تحریک ختم نبوتﷺ اور تحریک نفاذ نظام مصطفی میں ان کی خدمات نمایاںہیں ۔ اس دوران آپ پر مقدمات بھی قائم کیے گئے اور آپ پابند سلاسل بھی رہے ۔
مولانا عبداللہ امجد چھتوی سے مجھے کئی مرتبہ ملاقات کا موقع ملا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒکی نسبت کی وجہ سے وہ مجھ سے ہمیشہ انتہائی شفقت والا معاملہ کرتے اور مجھے مسکرا کے دیکھتے۔ کھڈیاں ضلع قصور کے ایک اجتماع میںمجھے ان کی براہ ِراست ایک تقریر سننے کا بھی موقع ملا۔ آپ کی شخصیت بڑی پُر رعب اور آپ کا خطاب انتہائی پر اثر ہوتا تھا اور تشنگان علم آپ کی خطابت اور آپ کے علم سے بھر پور استفادہ کیا کرتے تھے۔
رائیونڈ کی مرکزی مسجد میں چھتوی صاحب نے اکتالیس سال مسلسل جمعہ پڑھایا ۔پانچ دن پہلے بھی جمعہ پڑھا کر گئے، پہلے بالعموم آدھا گھنٹہ خطبہ دیتے تھے لیکن زندگی کے آخری جمعہ کے خطبے کا دورانیہ پون گھنٹہ تھا۔
مولانا عبداللہ چھتوی ؒکے جنازے کے دن ستیانہ کی سرزمین نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ستیانہ کے چھوٹے سے قصبے میں سینکڑوں کی تعداد میں بسیں، ویگنیں، ٹرالیاں، گاڑیاں اور دیگر سواریاں موجود تھیں اور جس ہائی سکول گراؤنڈ میں مولانا کے جنازے کو ادا کیا گیا اس گراؤنڈ میں داخل ہونا مشکل ہو چکاتھا۔ جنازے میں ہزار ہا انسانوں کی شرکت دیکھ کر دل کو شرح صدر حاصل ہوا کہ دنیا داروں اور مادہ پرستوں کے جنازوں میں لوگ مادی اغراض اور مفادات کے لیے آتے ہیں لیکن اہل دین کے سفر آخرت میں شمولیت کے لیے لوگ بغیر کسی غرض سے صرف محبت اور عقیدت کی وجہ سے کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مریم کی آیت نمبر96 میں اس امر کا اعلان فرما دیا ''بے شک جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے عنقریب رحمن ان کے لیے محبت (کو پیدا )کر دے گا۔ ‘‘ جنازے میں ملک بھر سے صرف عوام ہی کی کثیر تعداد شریک نہ تھی بلکہ حدیث کو پڑھنے اور پڑھانے والے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ حضرت شیخ الحدیث حافظ شریف، شیخ الحدیث مولانا مسعود عالم، شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بھٹوی سمیت ملک کے طول وعرض سے اکابر علماء کی کثیرتعداد نے شرکت کی۔ جنازے کی امامت معروف عالم دین مولانا عتیق اللہ نے کروائی۔ جنازے کے دوران ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہرشریک جنازہ خلوص دل سے مولانا کی درجات کی بلندی کے لیے دعا گو تھا۔ گو مولانا عبداللہ چھتوی ہم میں نہیں رہے لیکن اس قسم کے اکابر علماء کا خلاء قیامت کی دیواروں تک پُر نہیں ہو سکتا۔ ان کی یادوں کی خوشبو سے دل کا گلستان ہمیشہ مہکتا رہے گا۔ ان شاء اللہ ۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ تعالی کا خوف الہی
حافظ الحدیث ہماری مرکزی مسجد کے تقریبا 30 سال سے مستقل خطیب رہے یہ ایک شرف والی بات ہے کہ ایسا علمی عبداللہ اس دھرتی کو نصیب ہوا، ایک دفعہ جبکہ شیخ ابھی بڑھاپے میں نہی پہنچے تھے کہ ایک جگہ سے ان کو اچھی آفر ہوئی تو شیخ رحمہ اللہ نے وہاں جانا پسند کیا، ہمارے ایک بزرگ (جنہوں نے پاکستان کا کوئ مزار نہی چھوڑا تھا لیکن اللہ نے ہدایت سے نوازا) نے ان سے کہا کہ مولانا صاحب چلے تو آپ جائین لیکن بروز قیامت اللہ کو ہم بتائیں گے کہ آپ کس بدولت چھور کر یہاں سے گئے تو شیخ چھتوی رحمہ اللہ نے اس کے بعد جانے کا ارادہ ترک کر کے مستقل بنیاد پر خطبہ جمعہ ہماری مرکزی مسجد میں جاری رکھا حتی کہ اگست 2017 کا خطبہ جمعہ بھی اسی مسجد میں تھا جو ان کی زندگی کا آخری خطبہ تھا، شیخ اس دفعہ کمزور دکھ رہے تھے لیکن خوف الہی اور اپنی بات پر استقامت کی وجہ سے آ گئے۔۔۔ اللہم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ۔​
محسن علی تابش​
 
Top