• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز چند اہم الفاظ لکھنے میں غلطی کی اصلاح

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
ہرزبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسری زبان میں تصرف کرے، لفظ کی لکھاوٹ میں بھی اورمعنی میں بھی۔ یہ کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ دوسری زبان کا تصرف ہے۔
یہ معلوم ہے کہ اردو زبان مختلف زبانوںسے مل کربنی ہے اس میں عربی کے بہت سے الفاظ ہیں،ان الفاظ کی تحریر یاپھر معنی کے بارے میں یہ اصرار کرنا کہ جو معنی عربی میں ہے وہی لیاجائے جیسے عربی میں لکھاجاتاہے ویسے ہی لکھاجائے ،غیردانشمندانہ طرزعمل ہے ۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
ہرزبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسری زبان میں تصرف کرے، لفظ کی لکھاوٹ میں بھی اورمعنی میں بھی۔ یہ کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ دوسری زبان کا تصرف ہے۔
یہ معلوم ہے کہ اردو زبان مختلف زبانوںسے مل کربنی ہے اس میں عربی کے بہت سے الفاظ ہیں،ان الفاظ کی تحریر یاپھر معنی کے بارے میں یہ اصرار کرنا کہ جو معنی عربی میں ہے وہی لیاجائے جیسے عربی میں لکھاجاتاہے ویسے ہی لکھاجائے ،غیردانشمندانہ طرزعمل ہے ۔
ہمارے عہد کے نامور ادیب و نقاد شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی تقریباَ اسی نقطہ نظر کا اپنے ایک مضمون میں اظہار کیا تھا۔ وہ اقتباس ڈھونڈنے پر مل جائے تو یہاں ضرور شئر کروں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْ‌آنًا عَرَ‌بِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٢﴾سورہ یوسف
یقیناً ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے کہ تم سمجھ سکو (١)
٢۔١ آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد، لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہے اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ سکیں، اس لئے ہر آسمانی کتاب اس قومی زبان میں نازل ہوئی، جس قوم کی ہدایت کے لئے اتاری گئی تھی۔ قرآن کریم کے مخاطب اول چونکہ عرب تھے، اس لئے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا علاوہ ازیں عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زبان ہے۔ اس لئے اللہ تعالٰی نے اس اشرف الکتاب (قرآن مجید) کو اشرف اللغات (عربی) میں اشرف الرسل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم) پر اشرف الملائکہ (جبرائیل) کے ذریعے سے نازل فرمایا اور مکہ، جہاں اس کا آغاز ہوا، دنیا کا اشرف ترین مقام ہے اور جس مہینے میں نزول کی ابتدا ہوئی وہ بھی اشرف ترین مہینہ۔ رمضان ہے۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ‌ ۗ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَـٰذَا لِسَانٌ عَرَ‌بِيٌّ مُّبِينٌ ﴿١٠٣﴾سورہ النحل
ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے (١) اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے (٢)۔
١٠٣۔١ یعنی بعض غلام تھے جو تورات و انجیل سے واقف تھے، پہلے وہ عیسائی یا یہودی تھے، پھر مسلمان ہوگئے ان کی زبان میں بھی روانی نہ تھی۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فلاں غلام، محمد کو قرآن سکھاتا ہے۔
١٠٣۔٢ اللہ تعالٰی نے جواب میں فرمایا کہ یہ جس آدمی، یا آدمیوں کا نام لیتے ہیں وہ تو عربی زبان بھی روانی کے ساتھ نہیں بول سکتے، جب کہ قرآن تو ایسی صاف عربی زبان میں ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجاز بیان میں بےنظیر ہے اور چلینج کے باوجود اس کی مثل ایک سورت بھی بنا کر پیش نہیں کی جا سکتی، دنیا بھر کے عالم فاضل اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ عربی اس شخص کو عجمی (گونگا) کہتے تھے جو فصیح و بلیغ زبان بولنے سے قاصر ہوتا تھا اور غیر عربی کو بھی عجمی کہا جاتا ہے کہ عجمی زبانیں بھی فصاحت وبلاغت میں عربی زبان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

بِلِسَانٍ عَرَ‌بِيٍّ مُّبِينٍ ﴿١٩٥﴾سورہ الشعراء
صاف عربی زبان میں ہے۔

قُرْ‌آنًا عَرَ‌بِيًّا غَيْرَ‌ ذِي عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿٢٨﴾الزمر
قرآن ہے عربی میں جس میں کوئی کجی نہیں، ہو سکتا ہے کہ پرہیزگاری اختیار کرلیں۔

كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْ‌آنًا عَرَ‌بِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٣﴾فصیلت
ایسی کتاب جس کی آیتوں کی واضح تفصیل کی گئی ہے (١) (اس حال میں کہ) قرآن عربی زبان میں ہے (٢) اس قوم کے لئے جو جانتی ہے (٣)
٣۔١ یعنی کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ یا طاعت کیا ہیں اور معاصی کیا؟ یا ثواب والے کام کون سے ہیں اور عقاب والے کون سے؟
٣۔٢ یہ حال ہے۔ یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی مفصل اور واضح ہیں۔
٣۔٣ یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی و مفا ہیم اور اس کے اسرار و اسلوب کو جانتی ہے۔

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْ‌آنًا عَرَ‌بِيًّا لِّتُنذِرَ‌ أُمَّ الْقُرَ‌ىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ‌ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَ‌يْبَ فِيهِ ۚ فَرِ‌يقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِ‌يقٌ فِي السَّعِيرِ‌ ﴿٧﴾شوری
اس طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے (١) تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کر دیں اور جمع ہونے کے دن (٢) جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔
٧۔١ یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔

إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْ‌آنًا عَرَ‌بِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٣﴾الزخرف
ہم نے اسکو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو (١)
٣۔١ جو دنیا کی فصیح ترین زبان ہے، دوسرے، اس کے اولین مخاطب بھی عرب تھے، انہی کی زبان میں قرآن اتارا تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے سمجھ سکیں۔

وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَ‌حْمَةً ۚ وَهَـٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَ‌بِيًّا لِّيُنذِرَ‌ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَ‌ىٰ لِلْمُحْسِنِينَ ﴿١٢﴾الاحقاف
اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی اور یہ کتاب ہے تصدیق کرنے والی عربی زبان میں تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیک کاروں کو بشارت ہو۔
"تفسیر احسن البیان"


قرآن وحدیث کے عربی الفاظ کو اردو زبان میں بھی جوں کا توں استعمال کیا جائے تو بہتر ہے نہ کہ اُن میں تصرف کر کے معنی ہی بدل دئیے جائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرے خیال میں اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاء اللہ ‘‘ لکھنا ہی بہتر ہے ۔
اور اس میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاء اللہ ‘‘ لکھنا اردو زبان میں حرام نہیں ہے ۔
اس کے باوجود ’’ انشاءاللہ ‘‘ پر اٹکے رہنا یہ ایک دوسری انتہا ہے اور وہی طرز عمل ہے جس کا الزام ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کہنے والوں کو دیا جا رہا ہے ۔
اور عربی زبان کی وہ تراکیب جو اردو میں ذرا تصرف کے ساتھ رائج ہوگئی ہیں ، زیادہ سے زیادہ ان کے قائلین کی تغلیط نہیں کی جا سکتی ، لیکن اردو کے مزاج اور طبیعت سے قریب رہتے ہوئے اگر انہیں عربی زبان کے مطابق بولا جائے تو ایک تو الفاظ اپنے اصل کے اعتبار سے درست ہوں گے دوسرا عربی زبان جو کہ قرآن کی زبان ہے اس سے تعلق کا بھی اظہار ہوگا ۔
میرا مقصد یہ نہیں کہ آپ ’’ انتہا ‘ کو ’’ انتہاء ‘‘ ، ’’ خطا ‘‘ کو ’’خطأ ‘‘ ’’ علیحدہ ‘‘ کو ’’ علی حدۃ ‘‘ لکھیں لیکن اگر ’’ جزاک اللہ ‘‘ کو ’’ جزاک اللہ خیرا ‘‘ اور ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاءاللہ ‘‘ لکھیں گے تو اس میں کون سے اردو کے قاعدے کی مخالفت ہو جائے گی ؟
جس طرح انگریزوں سے مرعوب ( لاشعوری طور پر سہی ) انگریزی تراکیب گفتگو میں استعمال کرتے ہیں اور انگریزی کی رعایت رکھتے ہیں ، اگر عربی سے محبت رکھنے والے اس طرح کرتے اور اس کی ترغیب دلاتے ہیں تو یہ بھی ’’ چِڑ ‘‘ بنانے کی بجائے ایک مستحسن فعل قرار دیا جانا چاہیے ۔
ایک اور بات :
عربی زبان کے وہ الفاظ یا تراکیب جو اردو محاورے میں غلط رائج ہو چکی ہیں ، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا عربی زبان سے تعلق کمزور یا نہ ہونے کے برابر ہے ، اس لیے کسی نے اس پر نکیر نہیں کی ، ورنہ اتنے بڑے بڑے اساتذہ اور ماہرینِ فن کے بارے میں میرا نہیں خیال کہ اگر انہیں یہ پتہ ہوتا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کا معنی درست نہیں بنتا تو وہ پھر بھی اس پر اڑے رہتے ۔
حیدرآبادی صاحب آپ شمس الرحمن صاحب کے جس مضمون کی بات کر رہے ہیں وہ غالبا دو ، تین سال پہلے یوسف ثانی صاحب نے یہاں فورم پر کسی جگہ لگایا تھا ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اردو زبان و ادب سے محبت بلکہ شدید محبت کرنے والوں کو بآسانی دو بڑے گروہ میں ”تقسیم“ کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو وہ ہیں، جو سرے سے مسلمان نہیں ہیں اور نہ ہی خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ مثلاً ہندوؤں میں ایسے لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے (جو بوجوہ) اردو کی عاشق ہے۔ اردو ادباء و شعراء میں اساتذہ کے مرتبہ پر ہندو برادری کے بہت سے افراد نمایاں نظر آتے ہیں۔ کچھ انگریز اور اکا دکا دیگر اقوام میں بھی اردو کے ادیب و شاعر پائے جاتے ہیں۔ تاہم اردو بولنے اور اسے لکھنے پڑھنے کی زبان بنانے والوں میں خود کو ”مسلمان“ سمجھنے والوں کی تعداد سب سے بڑی اور سر فہرست ہے۔

خود کو مسلمان کہلوانے والے گروپ میں دو بڑے اور نمایاں ”گروہ“ موجود ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے، جن کے نزدیک اسلام اور عربی زبان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، نہ ہی یہ ان کی عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔ مثلاً اگر اردو کے سو (یا ہزار) بڑے ادباء و شعراء کا انتخاب کیا جائے تو ان کی بھاری اکثریت کا تعلق شیعہ برادری سے ملے گا۔ یہ لوگ اردو کے بعد (بوجوہ) فارسی زبان و ادب سے محبت کرتے ہیں، عربی سے نہیں۔ لہٰذا ان کا یہ ”مسئلہ“ نہیں ہے کہ اردو کا کون سا لفظ عربی سے آیا ہے۔ اور عربی میں اس کا صحیح املا اور تلفظ کیا ہے۔ اور اسے ”مشرف بہ اردو“ کرنے سے کہیں اس لفظ کے (عربی) معنی سے کفر و شرک کی بو تو نہیں آنے لگتی۔ اردو زبان کے ”اصلی مجاور“ کے عہدہ پر فائز اسی گروہ نے دانستہ یا نادانستہ اردو زبان میں اس قسم کے الفاظ اور محاوروں کو فروغ دیا ہے، جو ”اسلامی غیرت“ کے سراسر خلاف ہے۔ جیسے ایک عربی اور اسلامی اصطلاح ”صلوٰۃ“ ہے۔ جسے ہم اردو، فارسی میں نماز کہتے ہیں۔"صلوٰۃ" دین اسلام کا اتنا اہم رکن (اصطلاح، لفظ) ہے کہ اسے کفر اور اسلام کے درمیان ”فرق“ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ اردو زبان میں ”صلواتیں سنانا“ (جہری قرات کے ساتھ نماز پڑھنا) کے کیا معنی ”بنا دیئے“ گئے ہیں۔ آپ خود لغت اٹھا کہ دیکھ لیجئے، مجھے تو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اسی طرح ”نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے“ ۔ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی، جیسے ضرب الامثال کیا اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے کے لئے نہیں ”اختراع“ کئے گئے۔ اردو میں ایسے الفاظ اور محاوروں کی ایک بڑی فہرست ہے، جنہیں اسلام اور عربی زبان سے اجنبیت رکھنے والے گروہ نے فروغ دیا۔
متذکرہ بالا گروپ کا دوسرا گروہ وہ ہے، جن کے نزدیک اسلام اور عربی زبان کی بڑی اور ترجیحی اہمیت ہے۔ یہ اسلام اور عربی زبان کی ”قیمت“ پر اردو کو ”اپنانے“ پر ہرگز تیار نہیں۔ اس ”دوسرے گروہ“ کے بھی دو ذیلی اقسام ہیں۔ (اردو دانوں کی) ایک قسم جو بھاری اکثریت میں ہے، عربی زبان و ادب سے یکسر نابلد ہے، قرآن و حدیث کو بھی ترجمہ کی مدد سے ہی پڑھتی ہے، تاہم یہ عربی زبان سے ”محبت کا دعویٰ“ ضرور رکھتی ہے۔ اسی لئے کچھ نہ سمجھنے کے باوجود قرآن کا ”ناظرہ“ ترک نہیں کرتی۔ اگر اس گروہ کے افراد کو یہ بتلا اور سمجھا دیا جائے کہ اردو کا فلاں لفظ یا محاورہ اسلامی اور عربی لغت کے اعتبار سے غلط ہے، تو یہ فوراً آمنا و صدقنا کہتی ہے۔ دوسری قسم عربی زبان اور دین اسلام (دونوں) کے ”ماہرین“ کی ہے، جنہیں عموماً علمائے کرام کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ ”اردو اسپیکنگ افراد“ میں یہ لوگ نہایت ”قلیل تعداد“ میں ہیں۔ اور ان میں سے بھی بہت کم لوگ ”اردو زبان و ادب سے تعلق“ رکھتے ہیں یا اردو اخبارات و جرائد میں لکھتے ہیں، جنہیں عوام الناس پڑھا کرتی ہے۔ لہٰذا ایسے افراد کا ہی یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے قلم سے ”اردو سے محبت کرنے والے مسلمانوں“ کو یہ بتلائیں کہ اردو سے محبت اس طرح نہ کریں کہ عربی زبان آپ کی ”رقیب“ بن جائے یا اردو سے محبت آپ کے دین و ایمان میں کمی کا سبب بن جائے۔ انہی لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ماس میڈیا کے ذریعہ مسلسل ایسے ”غیر اسلامی الفاظ و محاوروں“ کی نشاندہی کرتے رہیں۔ یہ دھاگہ بھی یقیناً اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
واللہ اعلم
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ہرزبان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسری زبان میں تصرف کرے، لفظ کی لکھاوٹ میں بھی اورمعنی میں بھی۔ یہ کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ دوسری زبان کا تصرف ہے۔
یہ معلوم ہے کہ اردو زبان مختلف زبانوںسے مل کربنی ہے اس میں عربی کے بہت سے الفاظ ہیں،ان الفاظ کی تحریر یاپھر معنی کے بارے میں یہ اصرار کرنا کہ جو معنی عربی میں ہے وہی لیاجائے جیسے عربی میں لکھاجاتاہے ویسے ہی لکھاجائے ،غیردانشمندانہ طرزعمل ہے ۔

اصول لسانیات کی رو سے سو فیصد متفق ۔عربی یا دیگر زبانوں کے بہت سے الفاظ ہو بہو بھی اور تصرف کے ساتھ بھی اردو زبان میں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور ایسا کرنے میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔
-----
البتہ
-----
جہاں کہیں ایسا کرنے سے کوئی ”شرعی قباحت“ پیدا ہوتی ہو، وہاں ایک ایک ”باغیرت مسلمان“ ایسا کرنے گریز ہی کرے گا۔ اردو میں عربی کے ہو بہو یا تصرف شدہ الفاظ تو بہت زیادہ مستعمل ہیں، لیکن ان میں سے دینی اعتبار سے ”قابل اعتراض الفاظ“ بہت کم ہیں۔ اگر ہمیں دین عزیز ہے تو ہم ایسے الفاظ کے استعمال سے گریز ہی کریں گے۔ لیکن اگر دین کے مقابلہ میں اردو زبان عزیز ہے تو پھر ۔ ۔ ۔ (سوچنے والا آئی کون)
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
میرے خیال میں اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاء اللہ ‘‘ لکھنا ہی بہتر ہے ۔
اور اس میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہوگا کہ ’’ انشاء اللہ ‘‘ کو ’’ ان شاء اللہ ‘‘ لکھنا اردو زبان میں حرام نہیں ہے ۔
اس کے باوجود ’’ انشاءاللہ ‘‘ پر اٹکے رہنا یہ ایک دوسری انتہا ہے اور وہی طرز عمل ہے جس کا الزام ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کہنے والوں کو دیا جا رہا ہے ۔
درست ہے کہ عربی زبان کے اصول و قواعد کے لحاظ سے '' انشاء اللہ '' کو '' ان شاء اللہ '' لکھنا بہتر ہے ۔ لیکن اس میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ '' ان شاء اللہ '' کو '' انشاء اللہ '' لکھنا اردو زبان میں جائز ہے ۔
اگر کوئی گروہ ایک لفظ کو درست اور دوسرے کو غلط جتانے پر اصرار کرے تو یہی انتہا پسندی ہے جو دراصل بقول شخصے اصول لسانیات سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
اور خضر حیات بھائی! مجھ ناچیز کا تعلق متذکرہ بالا گروہ سے نہیں ہے :)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
نظریاتی باتوں سے ہٹ کر ذرا عملی بات کرتے ہیں:

اردو زبان میں بہت سارے لوگ لفظ ’مسمّیٰ‘ کو مسمِّی (معروف پھل کے وزن پر) پڑھتے بولتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت میں عربی لفظ مسمّیٰ ہے جو عربی قواعد کے مطابق اسم مفعول ہے جس کا معنیٰ (رکھا گیا نام) ہے۔ اگر اسے مسمِّی پڑھا جائے تو یہ عربی قواعد کے مطابق اسم فاعل بن جائے گا جس کا معنیٰ (نام رکھنے والا) ہوتا ہے۔

اب اسے مسمّیٰ پڑھا جائے یا مسمِّی؟؟!!

میری رائے میں غلط العام الفاظ اور ایک لفظ جسے اردو زبان میں باقاعدہ سوچ سمجھ کر اپنا لیا گیا ہو، اس میں فرق ہونا چاہئے۔ ہوتا یہ ہے کہ کچھ الفاظ غلط العام ہوتے ہیں جب ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے تو فریق مخالف یہ باور کراتا ہے کہ جیسے یہ غلطی نہیں بلکہ اردو میں یہ غلط لفظ ہی باقاعدہ اپنالیا گیا ہے لہٰذا اب اس پر عربی قواعد لاگو نہیں ہو سکتے۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
جہاں تک میرا اندازہ ہے غلط العام الفاظ کو مستند لغات میں جگہ نہیں دی جاتی ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
نظریاتی باتوں سے ہٹ کر ذرا عملی بات کرتے ہیں:

اردو زبان میں بہت سارے لوگ لفظ ’مسمّیٰ‘ کو مسمِّی (معروف پھل کے وزن پر) پڑھتے بولتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت میں عربی لفظ مسمّیٰ ہے جو عربی قواعد کے مطابق اسم مفعول ہے جس کا معنیٰ (رکھا گیا نام) ہے۔ اگر اسے مسمِّی پڑھا جائے تو یہ عربی قواعد کے مطابق اسم فاعل بن جائے گا جس کا معنیٰ (نام رکھنے والا) ہوتا ہے۔

اب اسے مسمّیٰ پڑھا جائے یا مسمِّی؟؟!!

میری رائے میں غلط العام الفاظ اور ایک لفظ جسے اردو زبان میں باقاعدہ سوچ سمجھ کر اپنا لیا گیا ہو، اس میں فرق ہونا چاہئے۔ ہوتا یہ ہے کہ کچھ الفاظ غلط العام ہوتے ہیں جب ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے تو فریق مخالف یہ باور کراتا ہے کہ جیسے یہ غلطی نہیں بلکہ اردو میں یہ غلط لفظ ہی باقاعدہ اپنالیا گیا ہے لہٰذا اب اس پر عربی قواعد لاگو نہیں ہو سکتے۔
متفق۔
  1. تلفظ یا املا کی وہ غلطیاں جو عوام کثرت سے کرتے ہیں، انہیں غلط العوام کہا جاتا ہے۔
  2. اگر غلط العوام غلطیوں میں کوئی سنگین قباحت نہ ہو (املا یا تلفظ کی غلطی یا تبدیلی کے باوجود)، عوام ایسا کثرت سے بولنے اور لکھنے لگیں اور مستند ادیب، شاعر اور اساتذہ بھی اس غلطی، تبدیلی، تصرف کو نظر انداز کرنے لگیں یا قبول کرنے لگیں تو یہی غلط العوام اب ”غلط العام“ بن جاتا ہے۔
  3. اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ”غلط العام“ الفاظ کو زبان و ادب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ”غلط العوام“ کو کبھی بھی قبولیت کا درجہ نہیں ملتا۔
  4. اردو زبان کا عربی زبان سے دُہرا رشتہ ہے۔ ایک لسانی رشتہ کہ عربی کے بہت سارے الفاظ اردو میں مستعمل ہیں۔ دوسرا دینی رشتہ کہ عربی کی طرح اردو میں بھی ”اسلامی لٹریچر“ بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اتنا بڑا ذخیرہ کہ جسے دونوں زبانیں کبھی بھی ”نظر انداز“ نہیں کرسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ”اسلامی کلچر“ کے مظاہر عربی اور اردو زبانوں کی لسانیات کی جڑوں میں پیوست ہوچکی ہیں۔ ایسا شاید کسی تیسری زبان میں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان زبانوں کے ادب کو کسی اور زبان میں ”منتقل“ کیا جاتا ہے تو ”اسلام کا حوالہ“ دیئے بغیر کامیابی سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
  5. یہی وجہ ہے کہ عربی اور اردو بولنے والے حقیقی مسلمان (رسمی نہیں) استاد اور ادیب کبھی بھی عربی یا اردو کے کسی بھی لفظ میں کوئی ایسا تغیر و تصرف قبول نہیں کرتے جو ”اسلامی کلچر“ سے متصادم ہو۔ یہ لوگ ایسی ہر کوشش کی ہمیشہ ”مزاحمت“ کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اب اردو اور عربی کے خیر مقدمی کلمات ”السلام علیکم“ اور ”وعلیکم السلام“ کو ہی لے لیجئے، جسے ان زبانوں کے بولنے والے مسلمان اور غیر مسلم یکساں طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایک مسلمان ان الفاظ کے صحیح املا اور تلفظ پر جتنا حساس ہوتا ہے، کوئی غیر مسلم (یا نام کا مسلم) نہیں ہوسکتا۔ اردو میں اس کے متبادل الفاظ کو بھی رواج دینے کی بار ہا کوشش کی گئی، جیسے ”آداب عرض ہے“، اور ”جیتے رہو“ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن باعمل مسلمانوں نے ایسی ہر کوشش کی مخالفت کی۔
  6. یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آج اطلاعات کو چھپانا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ آج ہم اردو زبان و ادب میں دانستہ داخل کئے گئے ایسے الفاظ کا بآسانی سراغ لگا لیتے ہیں، جو اسلام دشمنی میں داخل کئے گئے۔ جب یہ بات زبان کے ماہرین دلیلوں سے ثابت کردیں کہ کوئی مروجہ لفظ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے تو کسی مسلم کو ایسے ”مروجہ الفاظ“ پر اصرار نہیں کرنا چاہئے، خواہ وہ داخل لغت ہی کیوں نہ ہوگئے ہوں۔ لغت کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، دین اور دینی اقدار کو نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top