دشمن دین ہیں میرے مقابل تب بھی تھے اور آج بھی ہیں
خطروں سے بھر پور ہیں ساحل تب بھی تھے اور آج بھی ہیں
دورِ ابلیس کے پرتو، دنیا کے یہ سارے فتنے
سیدھی راہوں میں یہ حائل تب بھی تھے اور آج بھی ہیں
شامِ غم یا صبح کا عالم ہر اک لمحہ بو جھل ہے
رستہ رستہ خوفِ مراحل تب بھی تھے اور آج بھی ہیں
دنیا کی اس بستی میں ہیں اکثر حرص و ہوس کے لوگ
مردِ خدا پابند سلاسل تب بھی تھے اور آج بھی ہیں
پتھر ٹوٹے شیشہ دل سے جب جب وہ ٹکرائے ہیں
خون کے پیاسے شہر کے قاتل تب بھی تھے اور آج بھی ہیں
کیسے صداقت کی راہوں کو روکیں مسافر جھوٹے لوگ
دشمن سارے مدِ مقابل تب بھی تھے اور آج بھی ہیں