بھونکتے رہو
شعبان بیدار ؔ
جو جانتا ہے وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا ہے وہ جان لے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک صرف اسلام کے مبلغ ہیں کسی مسلک کے نہیں ،ان کا کوئی مسلک نہیں اور منہج اگر مسلک کے مترادف نہیں ہے تو وہ کس منہج پر گامزن ہیں کم ازکم فقیر کے پاس اس کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ اب کمال کی بات یہ ہے کہ ایک لا مسلک شخصیت کی لوگ ہر طرح سے مخالفت کر رہے ہیں کھل کر بھی اور جم کر بھی کوئی بے لباس ہوا جا رہاہےتو کوئی اردھ نگن ہے اور یہ مخالفت کرنے والے خیمے دو ہیں ایک خیمہ دھرم کا ہے اور ایک خیمہ مذھب کا ۔
قُلتُ ،میں کہتا ہوں دھرم والے خیمے میں سر فہرست شیعہ دھرم ہے اور رہی بات مذہب کی تو وہ بریلوی مذہب ہے آپ چاہیں تو بریلوی مذہب کے بجائے بریلوی مسلک بھی بول سکتے ہیں، البتہ فقیر سے پوچھیں گے تو کہے گا بریلویت مسلک سے زیادہ مذہب ہے کیونکہ مسلک اگر ہے تو وہ حنفیت ہے اور ظاہر ہے مسلک سے کسی کو چڑ نہیں ہو سکتی ہے جب تک مسلک والوںکے دل پر نفرت کا غبار اور دماغ پر تعصب کی کائی نہ جم جائے ۔
لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ اگر آلو نام کی ترکاری سے کسی گھر میں پرہیز نہیں اور یہ ہر سبزی ترکاری حتیٰ کہ گوشت کے ساتھ بھی امن و شانتی سے رہتی ہے تو ڈاکٹر ذاکر نائک کے مسئلے میں پرہیز سے اوپر نفرت کیوں ؟ اور نفرت بھی اتنی کہ اپنی ہی داڑھی کا بال نوچے جا رہے ہیں آئیے نفرت کی شجرکاری کے اس قضیے میں شیعہ دھرم کے درشن کر لئے جائیں کیونکہ یہی وہ دھرم ہے جس کے ککر موں نے ملک و بیرون ملک اتھل پتھل مچا رکھی ہے تقسیم کے سانحے پر ہی ایک نظر ڈال لیجئے تو قدم بہ قدم اس دھرم کے انویائیوں کا آشیروادآپ کو نظر آئے گا بلکہ انگریزی تعزیئے کے جلوس میں وطن عزیز کاخون انہوں نے سبیلوں میں بھر ڈالا ہمارے فیضی صاحب کی مانیں تو قائد اعظم محمد علی جناح خوجہ شیعہ تھا اب اسے حسن اتفاق کہیں کہ سوء اتفاق یا ان کربلائیوں کا شاطر تقیہ کہ یہ انگریز سرکار کے بھی منظور نظر رہےاور دیسی سرکاروں کے بھی ۔
خلفاء ثلاثۃ، صحابہ کرام ، سیدہ فاطمہ چھوڑ ساری بنات سیدات و طاہرات ،حضرت خدیجہ چھوڑ ساری ازواج مطہرات ،تابعین عظام ،ائمہ کرام اورمحدثین عظام کا گوشت کھاتے کھاتے ان کا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ ہر وہ آدمی انہیں اپنا دشمن نظر آتا ہے جو بغض صحابہ اور تحریف قرآن کا منکر ہو البتہ دشمنی کے اظہار کے لئے انہیں ایک عدد بہانہ درکار ہے اور وہ بہانہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب نے انہیں بہت پہلے تھمایا ہوا ہے بہانہ ہے’’یزید رحمۃ اللہ علیہ یا یزید رضی اللہ عنہ‘‘
ڈاکٹرذاکر صاحب نے دعوتی مصالح کے نام پر کبھی اپنا مسلک ڈکلیئر نہیں کیا اور کرتے بھی کیسے کہ واقعی ان کا کوئی مسلک نہیں ہے لیکن تعجب ہوتا ہیکہ آخر وہ کونسی دعوتی مصلحت تھی جس کے پیش نظر انہوں نے بر سر اسٹیج حضرت یزید کے لئے رحمت ورضا کی دعا کر ڈالی کوئی دوسرا اسکالر ہوتا تو میں کہتا ممکن ہے آدمی برتری کی نفسیات کے آگے اہل علم کو کم تر جاننے کی نفسیات میں مبتلا ہو گیا ہو یا علمی دنیا کی خطرناک بیماری شوق نوادرات کا شکار ہو گیا ہو ۔
اب وقت کے ذہین ترین مبلغ اسلام کے حق میں ہم ایسے خیالات رکھنے کے حامی تو نہیں ہیں لیکن یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے علامہ ابن تیمیہ کا قول تحقیق کی بے آمیز زبان سے بہترتھا قصۂ مختصر ڈاکٹر صاحب نے یزید کے لئے رحمت اور رضا کی دعا کیا کیا عزیز برنی صاحب نے سہارا کے سہارے اپنا دِھن ہی نہیں دھانہ بھی کھول دیا اور وہ کچھ نکالا جس کے نکلنے کا محل منہ توہرگز نہیں ہےبرنی صاحب کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو متلی میں مبتلا ہو جاتا لیکن صاحب موصوف سالم محفوظ رہے ۔
قارئین یہ واحد مسئلہ ہےجو زعفرانی شیعوں کو دینی سسٹم کے نفاذ کے با وجود دستیاب ہوسکا ہے اور بحیثیت مجموعی تو ڈاکٹر صاحب نے کسی بھی مسلک کو کبھی نہیں چھیڑا ڈاکٹر ذاکر کے ایک دو متنازع اقوال جو اتفاقی نوعیت کے ہیں ان کے مقابلے دوسرے ہمارے احترام مسالک اور احترام نقاط نظر کے، حاملین کی چند ہی تقریریں ملاحظہ کر لیں تو اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا یہ موازنہ تو ہم بعد کے لئے اٹھا رکھتے ہیں سر دست آئیے ہم اس رافضی تکنیک پر نظر ڈالتے ہیں جس کے سہارے یہ ڈاکٹر صاحب کے خلاف اپنے آقاؤں کے اشارے پرہلا مچا رہے ہیں اور ہمارے بعض مسالک اہل سنت کو اس تکنیک کے سبب رافضی دیگ کا تیز سالن بھی سوھن حلوہ محسوس ہوتا ہے وہ تکنیک ہے کہ
ڈاکٹر ذاکر نائک یا کوئی دوسرا یزید کو کبھی رحمۃ اللہ علیہ کہہ بھی دے تو ہزار بار وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتا ہے اب صاف ہے کہ شور امیر معاویہ کو رضی اللہ عنہ کہنے پر بھی ہونا چاہئے کیونکہ روافض کے یہاں یزید اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین کوئی فرق نہیں ہے اگر یزید قاتل حسین رضی اللہ عنہ ہیں تو امیر معاویہ ان کے نزدیک قاتل حسن ہیں رضی اللہ عنہ۔ انہیں شور عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کہنے پر بھی کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بقول وفات رسول کی ذمہ دارازواج رسول ﷺہی ہیں۔ انہیں شور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کہنے پر بھی کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بقول ان دو حضرات نے فاطمہ رضی اللہ عنہاکو ستایا اور ان کی بے عزتی کی مزید برآں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی ذلیل کیا ۔لیکن ہم اور آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ بالعموم یہ لوگ ہر جگہ ایسا نہیں کرتے یا پھر کھلے طور پر ان چیزوں پر اپنا احتجاج درج نہیں کراتے ۔ یہی وہ تکنیک ہے جسے بطور خاص نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔
روافض نے کام تو قتل کا خود کیا لیکن داغ مٹانے کے لئے نوحہ و ماتم کو اپنے دین کا ناگزیر حصہ بنا دیا بلکہ ان کے دین و دھرم میں اگر کچھ ہے تو وہ یہی ماتم اور تبراء ہے ۔ ایک مکمل آئیڈیا لوجی اور بعض تاریخی عوامل کے نتیجے میں یزید ہماری حساسیات میں داخل ہوگیا ورنہ تاریخ میں کئی ایسے نام ہیں جو یزید کے مقابلے اپنی شنا عت میں متفق علیہ ہیں ۔یہ جو یزید کے نام پر کربلائی حساسیت کا انفراد انہوں نے پیدا کیا اور اسے ہر طرح سے فروغ دیا اس حساسیت کا استعمال یہ باربار کرتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے دیکھا کہ یزید کے لئے دعائیہ کلمہ کہنا انتہائی حسّاس نفسیات کا حصہ بن چکا ہے سو اس نام سے شور مچانا شروع کردیا اور اہل سنت کا وہ طبقہ جس کے عوام کجا علما ء بھی بالغ شعور نہیں رکھتے وہ کوّا کان لے گیا کے مصداق ان کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں ۔
قابل غور یہ بھی ہے کہ روافض نے ڈاکٹر نائک کی مخالفت کیامحض اس لئے کیا ہے کہ انہوں نے یزید کے لئے دعائیہ کلمات کا استعمال کر دیا تھا ۔ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ روافض کا اصل اختلاف توحید کی اشاعت سے ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ نئی نسل کے ذہنوں میں جب توحید راسخ ہوجائے گی تو پیٹ پوجا کے سارے سادھن بند ہو جائیں گے اور جھوٹے رسوم و رواج کے یہ قلعے باقی نہیں رہ جائیںگے ۔کہ توحید عبادت کےنام پر صرف مساجد کا وجود دیکھنا پسند کرتی ہے۔
اس قضیے میں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب اچانک ہوا تو غلط ہے اصل میں یہ ایک بڑے منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے ملک میں اس وقت ایک ترشولی نظام چل رہا ہے یعنی (۱)آرایس ایس+ بی جے پی (۲) اسرائیل +موساد(۳)ایران+ ہندوستانی روافض ۔ ایک طرف اگر بی جے پی سرکار مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل در آمد کررہی ہے تو دوسری طرف رافضی دلال’’ درگاماں‘‘ کے کثیر التعدادبازوبنے ہوئے ہیں ۔ اگر سبرامنیم سوامی صاف بولتا ہے کہ ہم ھندؤں کو متحد اور مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تولکھنؤ میں رافضی جماوڑا بھی یہی اعلان کرتا ہے کہ تو قیر رضا کا دیوبند جانا بہت خطر ناک معاملہ ہے ایسا بالکل نہیں ہوناچاہئے آگے ہم اس قسم کی تفصیل مزید پیش کریں گے ۔ یہاں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکرکے خلاف یہ واویلا طے کردہ اور طویل المیعاد ایجنڈے کا ایک حصہ ہے ڈھاکہ حملہ اتفاقی ہے مگر ذاکرنائک کو اس حملے سے جوڑنا اتفاقی بالکل نہیں ہے ۔
جب بات چھڑ ہی چکی ہے تو یزید کے لئے دعائیہ کلمہ کہنے کی بابت بھی کچھ بات ہوجائے ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ترک صلوٰۃ کا مرتکب ہو اس کے ہاتھوں کسی کا قتل ہوگیا ہو تو کیا اس کے لئے رحمت و مغفرت اور خوشنودیِ رب کی دعا کی جا سکتی ہے ؟ ظاہر ہے اس باب میں تمام علماء اور ائمہ متفق اللسان ہیں کہ یہ امر نہ صرف جائز ہے بلکہ مردوں کے لئے دعا زندوں کو کرنا ہی چاہئے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دعا کا ایسا کلمہ جو عملاً کچھ محترم اور معزز شخصیات کے لئے خاص ہوگیا ہو کیا وہ کلمہ بھی کسی فاسق و فاجر کے لئے بطور دعا استعمال کیا جا سکتا ہے؟ تو یہاں بھی علماء اصل جواز کے قائل ہیں اسی لئے ہمارے بریلوی بھائی اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کے لئے رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں ۔البتہ علماء کا عمل اس کے برعکس ہے یعنی مخصوص کلمات کے جواز کے قائل تو ہیں لیکن بالعموم خاص کو سب کے لئے عام نہیں کرتے اور ذاتی طور پر فقیر مخصوص دعائیہ کلمات کو فساق و فجار کے لئے اصل جواز کی حیثیت درست نہیں سمجھتا بلکہ کسی کے لئے درست نہیں جانتا ۔
مذکورہ بالا خیالات کے بعد غور فرمائیے اگر ڈاکٹر ذاکر نائک نے مزعومہ فاسق کے لئے رضا اور رحمت کی دعا کردی تو یہ اصل جواز کے خلاف نہیں ہے مگر تعجب ہے رافضی تکنیک کے شکار اہل سنت کے بعض علماء پر کہ انہیں ڈاکٹر ذاکر نائک کا یہ عمل برداشت نہیں البتہ امت کی تمام معزز شخصیات سے اظہار براءت اور انہیں گندی گالیاں دینا نہ صرف یہ کہ برداشت ہے بلکہ تصوف کے نام پر ان سے اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں ۔ کیا اگر کل وطن عزیز میں رافضی قوت اور مزید ہوجائے اور وہ امیر معاویہ ، اماں عائشہ ، صدیق اکبر ، فاروق اعظم، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام بخاری وغیرہ کے لئے رضی اللہ عنہم اور رحمۃ اللہ علیہم کی دعا پر شور مچانے لگیں تو آپ ان کاساتھ دیں گے ؟ہمارے خیال سے تصوف کا رشتہ آپ کے یہاں ہر رشتے سے قوی ہے آپ ضرور ساتھ دیں گے !
یہاں ایک سوال اور ممکن ہے وہ یہ کہ ہم مان لیتے ہیں کہ اصل جواز میں کسی فاسق اور قاتل کے لئے دعا ء رحمت درست ہے پھر بھی نفس یک گونہ کوتاہی کرتا ہے ۔بھلا ڈاکٹر ذاکر نائک نے یہ فیاضی کیوں دکھائی ؟ سو عرض ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب اپنی تحقیق میں یزید کو حسین کا قاتل سمجھتے ہیں نہ فاسق و فاجر! اس تحقیق کے جو دلائل ہیں وہ ایسے قوی ہیں کہ آسانی سے ان کا جواب نہیں دیا جاسکتا خود یزید کی ولی عہدی بہت سے صحابہ کے مشورے پر ہوئی اور چند کو چھوڑ کر سب نے بیعت کی اور قتل کا کام ان رافضیوں نے کیا جو کل سے اب تک حُبِّ اہل بیت کے نام پر شور مچا رہے ہیں ۔پھر جن چند لوگوں نے بیعت نہیں کی تھی اس کی وجہ وہ نہیں ہے جو ہمارے بھائی بیان کرتے ہیں ۔
بہر کیف جرم تب ہوتا جب ڈاکٹر ذاکر نائک یزید کو قاتل اور فاسق مانتے اس کے باوجود رحمت کی دعا کرتے سو ٹھنڈے دل سے ان کے موقف کو سمجھنا ضروری ہے جب یہ شگوفہ چھوڑا گیا ہے تب سے آج تک کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا ہے جس نے دلیل و برہان سے بات کیا ہو۔ہماری یہ سعید سینا بھی شیو سینا کی طرح طرح بھانت بھانت کی
(جاری )
(قارئین کو اگر کوئی چیز متنازعہ محسوس ہو تو قسطوں کی تکمیل کا انتظار کریں )