• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر ذاکر نائک ، پابندی ، وجوہات ، رد عمل

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
الله رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی حفاظت فرمائے۔اور ان کے خلاف اٹھنے والے عالم کفار کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملائے۔آمین
تندئی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لیے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
مقبول سلفی صاحب کی پہلی تحریر ہفت روزہ نوید ضیاء کے حالیہ شمارے مین بھی چھپی ہے ۔
گذشتہ رات فیس بوک دیکھ رہاتھا تو مجھے بھی نظر آیا کہ ہفت روزہ نوید ضیا کی خصوصی پیشکش میں یہ تحریر چھپی ہے ۔
اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کی حفاظت فرمائے ۔ آمین

یہ امیج ہے ۔
۔۔۔
 

اٹیچمنٹس

Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ڈاکٹر ذاکر نائیک ، فخر یا فتنہ ؟

حافظ یوسف سراج
آگ جلاتی اور پانی ڈبوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی آگ جلانا اور پانی ڈبونا بھول جاتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ نمرود کی جلائی آسمان کو چھوتی آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ائرکنڈیشنڈ گلزار ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ٹھاٹھیں مارتے دریائے نیل کا نیلگوں پانی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ڈبونے کے بجائے مٹی کے بلند پہاڑو ں کی صورت اختیار کر جاتا ہے. ہماری دنیا میں بغیر باپ اور ماں کے کسی بچے کی پیدائش ممکن نہیں مگریہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام بغیر ماں باپ کے جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیداہوئے. قانون میں کبھی کبھی کے اس تعطل اور ’بائی پاس‘ کو عربی اور اردو میں ’ استثنا‘کہتے ہیں جبکہ انگریزی زبان میں کہا جاتاہے : ’’ There are exceptions to every rule‘‘۔
دراصل اس کائنات کی مجاز اتھارٹی اور حتمی قوت انسانوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ گو اس نے انسانوں کے لیے اس کائنات کی بنیاد اسباب اور ذرائع پر رکھی ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی قطعا نہیں کہ اب خود خدا بھی اپنے ہی وضع کردہ اسباب و وسائل کے سامنے بے بس ہو گیا ہے. چنانچہ انسانوں کی اسی غلط فہمی کا ازالہ وہ یوں کرتا رہتا ہے کہ جب چاہتا ہے، اپنے بنائے ہوئے قوانین پر اپنی برتری دکھا دیتاہے. تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے ان قوانین میں استثنا یا Excepeion جب جب بھی ظہور کرتا ہے، پوری انسانیت کے لیے ایک واضح دلیل، نمایاں برہان اور ہمیشہ باقی رہنے والا سبق بن جاتا ہے۔ اپنی قدرتِ کاملہ کاایسا اظہار اللہ تعالیٰ کبھی نابغۂ روزگار شخصیات کو تخلیق کرکے بھی فرماتا ہے. چنانچہ جب جب اللہ کو منظور ہوا، اس نے زمیں کو ایسے ایسے عبقری اور شہ دماغ انسان نصیب کیے کہ آسمان کو بھی ان پر رشک آتا رہا. تاریخ و سیر میں جھانکنے والے شخص کے لیے نہ یہ موضوع اجنبی ہے اور نہ وہ ایسی نادرِ روزگار شخصیات سے ہی لاعلم ہو سکتا ہے. علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے عالی دماغ پیدا فرمائے کہ تاریخِ انسانی آج بھی انھیں تعجب اور احترام سے یاد کرتی ہے. ایسے کچھ نابغوں نے شعر و ادب کے نئے آسمان تخلیق کیے، کچھ نے دین و معرفت کے در کھولے اور کچھ نے کائنات کے گنجلک اسرار و رموز انسانیت کے لیے پانی کر دکھائے. ماضی قریب میں دینی حلقوں میں ابن تیمیہ ، شاہ ولی اللہ، مجدد الفِ ثانی اور ابو الکلام آزاد جیسی انسانیت کی ایسی ہی نمائندہ طلسماتی اور کرشماتی شخصیات انسانیت کا اثاثہ ہیں.
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا عہد بھی ایسے بڑے لوگوں سے خالی نہیں. جن بڑی شخصیات کو میں اس زمانے کا ضمیر اور پہاڑی کا نمک سمجھتا ہوں، ان میں ایک شخصیت ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائک صاحب کی بھی ہے. شہرت اور مقبولیت اس شخص پر یوں ٹوٹ کے برسی ہے کہ آدمی اللہ کی اس دین پر دنگ رہ جاتاہے. ویسے بطور سلیبریٹی شہرت کے لیے درکار لوازمات کو دیکھا جائے تو شہرت کو ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب پر ہرگز مہربان نہیں ہونا چاہیے تھا. وہ ایک دھان پان سے شخص ہیں. ٹی وی کے لیے درکار مروجہ فیس بیوٹی کے معیار پر وہ پورے نہیں اترتے. روایتی علماء و مشائخ کے بر عکس انھوں نے ممتاز ہونے کے لیے کبھی جبہ و دستار کا بھی سہارا نہیں لیا. نہ انگریزی ان کی مادری زبان ہے اور نہ اردو. اردو میں وہ بات کرنے سے پہلے معذرت کر لیتے ہیں کہ ممکن ہے وہ گرامر کی رو سے فصیح اردو بولنے سے قاصر رہیں. اس سب کے باوجود لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تھری پیس سوٹ پر ایک سادہ سفید ٹوپی پہن کر دنیا بھر کے ادیان کو اسی عام سے آدمی نے دلیل و دانش کی بنیاد پر مناظرے کا چلینج دے دیاہے. چیلنج دینا تو خیر ہمارے ہاں بڑا عام ہے لیکن تین عالمی مذاہب سے کیے گئے ناقابلِ فراموش کامیاب مناظرے بھی آنجناب کے کریڈٹ پر ہیں. ان کا مشہورِ زمانہ مناظرہ شکاگو (امریکہ) میں ایک عیسائی سکالر سے ہوا. دراصل عالمی سطح کے معروف عیسائی سکالر ولیم کیمبل کا دعویٰ تھا، بلکہ انھوں نے کتاب بھی لکھی تھی کہ ان کے نزدیک قرآن مجید میں کم و بیش سو سائنسی غلطیاں ہیں. یکم اپریل 2001 کو ہونے والے اس کئی گھنٹوں پر مشتمل مناظرے میں ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب نے ولیم صاحب کے ہر اعتراض کو دلائل سے غلط ثابت کیا جسے ولیم کیمبل صاحب نے تسلیم بھی کیا اور جوابا ڈاکٹر صاحب نے بائبل میں کئی ایسی سائنسی غلطیوں کی نشان دہی کی کہ جن کا عیسائی سکالر سے کوئی جواب نہ بن سکا اور یوں انھوں نے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا. ڈکٹر صاحب ایسے ہی دو ایک اور بڑے مناظروں میں بھی مقابل مذاہب کو شکست دے چکے ہیں.
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی مقبولیت دراصل دلیل کی مقبولیت ہے. ڈاکٹر صاحب معجزاتی حافظے کی حامل ایک انتہائی سلجھی ہوئی سادہ شخصیت ہیں. آپ کے منطقی لیکچرز اور اسلام کا ہر سطح پر دفاع پوری امت مسلمہ میں مقبولیت اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے. ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ ساتھ ایک امن پسند اور قانون پسند شہری بھی ثابت ہوئے ہیں. پوری دنیا گھوم لینے والے ڈاکٹر صاحب نے آج تک پاکستان کا صرف اس لیے دورہ نہیں کیا کہ کہیں پاک بھارت معاملات ان کی دعوت کے آڑے نہ آنے لگیں. حیرت ہے اس کے باوجود کیسے بچگانہ بہانوں سے ان کے کام اور نام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے. ویسے ایسا تو ہوتا ہی آیا ہے. بقول غالب
ہوتا آیا ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
میڈم نگہت ہاشمی صاحبہ نے ٹی وی پر کیا خوبصورت بات کی کہ جب سیدہ خدیجہ ؓ رسول رحمت کو انجیل کے عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں تو انھوں نے کہا کہ کاش میں اس وقت ان کی کچھ مدد کر سکوں کہ جب انھیں ان کی قوم یہاں سے نکال دے گی. سیدہ حیران ہوئیں کہ ایسے بھلے آدمی کو بھلا قوم کیوں نکالے گی؟ تب اس نے کہا کہ جو اس سچے پیغام کے ساتھ آیا، قوم نے اس کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک کیا ہے. بہرحال ان شااللہ یہ ہوائیں سیرت کے سچے پیروکار ڈاکٹر صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی. ان کا جلایا چراغِ مصطفوی شرارِ بو لہبی کے مقابل پوری توانائی سے تمتماتا رہے گا.
الحمدللہ ، دنیابھر سے بلا قیدِ مسلک و مشرب ڈاکٹر صاحب کے دفاع میں آوازیں اٹھی ہیں جو بڑے مبارک مستقبل کی نوید ہیں. پاکستانی چینل پیغام ٹی وی کے COO اور ہمارے دوست حافظ ندیم احمد صاحب ، جو دبئی میں ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقاتیں کر چکے ہیں، وہ آپ کی سادگی، خلوص اور تقابلِ ادیان کے ساتھ ساتھ جدید ترین آئی ٹی ٹیکنالوجی پر آپ کی دسترس کی حیران کن کہانیاں سناتے ہیں، بلکہ حافظ ندیم صاحب کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کو اپناقیمتی ترین وقت اور دماغ اسلام کے لیے ہی صرف کرنا چاہیے کہ آئی ٹی وغیرہ جیسے انتظامی معاملات تو کئی اور لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں مگر جو کام ڈاکٹر صاحب کر رہے ہیں، فی الوقت وہ امت میں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا. اس وقت میں نے بھی ان کے اس خیال کی تائید کی تھی لیکن اب جب دیکھتا ہوں کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ احمد آباد اور گجرات کو لہو میں نہا دینے والے انڈیا کو دلیل کی بنیاد پر عالمی عزت دینے والے شخص کو خود اس کا اپنا ہی وطن انڈیا دہشت گردی سے جوڑنے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے اور ایسے موقع پر خود مسلمانوں میں سے کئی ڈاکٹر صاحب سے منہ پھیرنے لگے ہیں تومجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب بد دل ہو کے آئی ٹی یا اپنی پروفیشنل لائن میڈیکل کی طرف ہی نہ رجوع کر لیں. مجھے یہ بھی یقین ہے کہ یہ محض ایک خیال ہے ورنہ ڈاکٹر صاحب ان معاملات سے گھبرانے والے نہیں. آج تو خیر وہ بہت آگے نکل آئے ہیں. وہ ہزاروں لیکچر دے چکے ہیں. اپنی خدمات کے صلے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا قومی اعزاز شاہ فیصل ایواڑد حاصل کر چکے ہیں. ان کے لیے تو بہت ابتدا میں، عیسائیت کے مقابل دلائل کی چٹان ثابت ہونے والے شیخ احمد دیدات نے فرمایا تھا کہ،’’جو کام میں نے ساری زندگی لگا کے کیا، ڈاکٹر صاحب نے وہ کام محض چار سالوں میں کر دکھایا ہے۔‘‘ یقینا آج ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل سے بالا تر ہو کر ڈاکٹر صاحب کی اسلام کے لیے خدمات کے صلے میں ان کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہیے ، تاکہ ہمارا شمار بھی دین اسلام کے حامیوں میں ہو سکے. کوئی فتنہ نہیں ، ان شااللہ ڈاکٹر صاحب ہمارا اور اسلام کا فخر ہیں ۔امید ہے ڈاکٹر صاحب بھی اپنی شخصیت کو فروعی معاملات سے امت کے مفاد کی خاطر بلند رکھیں گے۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ڈاکٹر ذاکر نائیک عالمی سطح پر سب سے مقبول داعی اور اسلامی مبلغ ہیں اُن کی تقاریر، خطابات اور اخلاص و خلوص کے باعث بے شمار لوگوں کی
زندگی منور ہوئی اور وہ اسلام کے دامنِ رحمت میں آ گئے۔ گزشتہ دِنوں اُن کو دہشت گردی کے الزام میں لانے کی کوشش کی گئی تو دُنیا بھر کے مسلمان(اور انصاف پسند غیر مسلم بھی) سراپا احتجاج ہو گئے۔ ہمارا چونکہ ان سے ایک خاص تعلقِ خاطر ہے( اور ہم ان کے چینل کے لئے بھی سینکڑوں پروگرام ریکارڈ کرا چکے ہیں) تو بے شمار لوگوں نے اس صورتِ حال پر رابطہ کر کے اپنی پریشانی کا اظہار کیا، مگر ہم مطمئن تھے کہ ’’ وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے‘‘۔ اللہ خود اُن کی حفاظت کرے گا۔
الحمد للہ! وہ اس ابتلا سے بھی فتح یاب نکلے ہیں اور ان پر الزام لگانے والوں نے اپنے الزام کو خود غلط قرار دے دیا ہے۔ ان کے بارے میں ہمارے دوست اور بھارت کے ایک نمایاں مسلم رہنما ڈاکٹر تسلیم رحمانی (صدر مسلم پولیٹیکل کونسل انڈیا) کا ایک مضمون(خلاصہ کر کے) پیش کیا جا رہا۔ ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے بھارتی میڈیا میں ذاکر نائیک کی باقاعدہ جنگ لڑی ہے، ان کے دلائل سے ہزیمت اٹھانے والوں نے ان کو دھمکیاں بھی دیں، مگر وہ بھی ڈٹے رہے کہ اسلام دینِ امن ہے اور ذاکر نائیک امن کا داعی ہے۔
’’یکم جولائی2016ء کو ڈھاکہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد گرفتار کیے گئے ایک مجرم نے مبینہ طور پر یہ بیان دیاکہ وہ معروف اسلامی اسکالر اور مبلغ ذاکرنائیک کی تقریروں سے متاثر ہے۔اس بیان کے فورا بعد بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ نے بھارتی وزارت داخلہ کو ذاکر نائیک کے بارے میں مطلع کیا،اس سے پہلے کہ بھارتی وزارت داخلہ اس سلسلے میں کوئی اقدام کرتی ،یا بیان جاری کرتی ،قومی میڈیاکے ایک متاثر کن حلقے نے خبر کو اچک لیاور اپنے مخصوص انداز میں اسے پیش کرنا شروع کردیا۔بنگلہ دیش کے انگریزی روزنامہ ’دی اسٹار‘ نے سب سے پہلے یہ خبر شائع کی تھی اور اسی کی بنیاد پر بھارتی میڈیانے اس خبر پر تبصرے بازی شروع کی تھی۔ پچھلے ایک ہفتے میں مختلف ٹیلی ویڑن چینلوں پر ذاکر نائیک کو اس انداز سے پیش کیا گیاگویادنیاکے ہر دہشت گردانہ واقعے کے پیچھے وہی ماسٹر مائنڈ ہوں اور دنیاکا ہر دہشت گرد انہی کی تقریروں سے متاثر ہوتا ہو۔ بڑے چینلوں نے اپنے اپنے انداز سے گویا یہ ثابت کردیاکہ وہ واقعی اسلام کے مبلغ نہیں، بلکہ دہشت گردی کے مبلغ ہیں۔ہر چند کہ ذاکر نائیک خود ہی مستقل یہ بیانات دیتے رہے ہیں کہ میں دہشت گردی کا مخالف ہوں اور داعش وغیرہ جیسی تنظیموں کو خلاف اسلام سمجھتاہوں،کسی نے ان کی ایک نہ سنی،حتی کہ مذکورہ بنگلہ دیشی اخبار نے بھی بعد میں یہ وضاحت شائع کردی کہ ان کی خبر غلط تھی ،لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود بھارتی میڈیانے ہرزہ سرائی کی اپنی مہم بند نہیں کی۔ذاکر نائیک سن1990ء سے ہی اسلام کی تبلیغ میں مشغول ہیں۔عام طور پر وہ سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھتے ہیں اور اپنی توجہ محض بین المذاہب تقابلی جائزے کی بنیاد پر اسلام پر مرکوز رکھتے ہیں،لیکن چونکہ ان کا تعلق وہابی یا عرف عام میں اہل حدیث مسلک سے ہے ،تو ان کی گفتگومیں وہ مسلکی رنگ بھی کہیں نہ کہیں چھلک جاتاہے۔گزشتہ 25سال میں مقامی تبلیغ سے لے کر چار معروف ٹیلی ویڑن چینل قائم کرنے تک ان کو مقامی چندوں کے علاوہ غیر ملکی سلفی حکومتوں اور افراد کا تعاون بھی حاصل رہا ہے، جس کی بنیاد پر ان کا رابطہ دُنیاکے تقریباً 200 ممالک سے استوار ہوااور اپنے ٹی وی چینلوں کے ذریعے ہی وہ کروڑوں لوگوں کے من پسند مبلغ بن سکے۔بین المذاہب تقابل کی وجہ سے ہی غیر مذاہب کے لوگوں کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد سامنے آئی۔ ان نو مسلموں میں صرف ہندوستان کے ہندو ہی نہیں، بلکہ دنیاکے ہر گوشے کے غیر مسلم شامل ہیں۔ابھی چند ماہ قبل جب انہوں نے جاپان کے کچھ عیسائیوں کو مسلمان کیاتو اس پروگرام کی خبریں بھارتی وزارت داخلہ کو دانستہ طور پر پہنچائی گئیں اور حکومت سے یہ فرمائش بھی کی گئی کہ چونکہ یہ سلسلہ ہندوستان سے نکل کر پوری دنیامیں پھیل رہاہے اس لئے اس کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔لیکن چونکہ بھارتی آئین میں ہر مذہب ومسلک کی تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے،اس لئے قانونی طور پر ان کے مشن کو روکے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے اور چونکہ پچھلے دوبرسوں سے بھارت میں عام قاعدہ دیکھا جا رہا ہے کہ جس بات کو قانونی طور پر روکنا ممکن نہ ہو ،اس کے لئے سرکاری حمایت یافتہ میڈیاکو غیر ذمہ دارانہ طریقے سے استعمال کرکے ماحول سازی کی جاتی ہے اور اس طرح ایک صحیح کو غلط بناکر ملک کے سوادِ اعظم کے سامنے پیش کر دیاجاتاہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے گاؤ کشی کا مسئلہ ہو ،یا بندے ماترم کا مسئلہ ہو،لوجہاد ہویا تبدیلی مذہب کا معاملہ۔ہر بار میڈیا کے سہارے ان دستوری چیزوں کو غیر دستوری بناکر پیش کیاگیاہے۔دہشت گردی کے معاملے میں بھی بہت پرانے معاملات جو تقریباً حل ہوچکے ہیں،ان کو پھر سے کھڑا کرکے ایک دوسری تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ذاکرنائیک صاحب کے معاملے میں بناکسی تحقیق ،بناکسی ثبوت ، بنا کسی دلیل۔محض گلے پھاڑ کر چلاچلاکے ٹی وی اینکر انہیں مجرم ثابت کرنے پر تلے ہیں،جبکہ بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی خاص سرگرمی بھی نہیں دکھائی۔وزیر داخلہ نے محض اتنا کہاکہ معاملہ سامنے آگیاہے اور اس کی قرار واقعی تحقیق کے احکامات دے دیئے گئے ہیں۔ مہاراشٹر کی سرکار بھی اس تحقیق کا حکم دے چکی ہے اور اس کی ابتدائی رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کرلیاگیاہے کہ ذاکر نائیک ملک کی کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے،نہ ہی ان کی تقریروں میں کسی قسم کی نفرت انگیزی جھلکتی ہے،لیکن اس کے باوجود بھی میڈیا خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہاہے۔ ادھر ملک کے معروف وکیل اور سابق سالسٹر جنرل سولی سوراب جی بھی کہہ چکے ہیں کہ ذاکر نائیک پر کوئی قانونی معاملہ نہیں بنتا۔چنانچہ یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ان غیر معمولی سرگرمیوں کا کیا مقصد ہے۔ ایک بات جو سمجھ میں آتی ہے ،وہ یہ ہے کہ ذاکر نائیک کا تعلق چونکہ وہابیت سے ہے اور ملک کے غیر وہابی مسالک اسے پسند نہیں کرتے تو اس پروپیگنڈہ کے ذریعے اسلام کے مختلف مسالک میں جھگڑا پیدا کیا جا سکتا ہے۔اُمت پہلے ہی سے مسلکی تفریق کا شکار ہے۔ ذاکر نائیک کا فرضی ہیولیٰ کھڑا کرکے اس تفریق کو مزید گہرا کیاجاسکتاہے اور یہی ہوا بھی۔ چونکہ ذاکر نائیک کی تبلیغ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ اپنا مذہب تبدیل کررہے ہیں،جسے ملک کا حکمراں طبقہ پسند نہیں کرتا اور اس کے خلاف بھی ملک میں ایک رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔دہشت گردی کی تبلیغ محض ایک بہانہ ہے،یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ بھارت میں دہشت گردی کے اصل مراکز اب کہاں واقع ہیں۔ بھارت کے بہت سے مشہور دہشت گردانہ واقعات میں ملوث افراد نے بار بار یہ اعلان کیاہے کہ وہ آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں۔اس کے لیڈروں سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے۔اعلانیہ طور پر یہ کہاگیاہے کہ مکہ مسجد اور مالی گاؤں بم بلاسٹ کے مجرمین آرایس ایس سے وابستہ تھے اور اس کے سرسن چالک موہن بھاگوت سے متاثر تھے ،اس کے باوجود میڈیا نے کبھی بھی نہ تو موہن بھاگوت کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا اور نہ ہی آرایس ایس پر پانبدی لگانے کا کوئی مطالبہ کیا گیا۔‘‘

ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر تسلیم رحمانی(رانا شفیق پسروری کا کالم روزنامہ پاکستان میں)
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ڈاکٹر ذاکر نائیک پر حالیہ پابندی اور اس کے رد عمل کے حوالے سے فورم پر تمام تحریریں ایک جگہ جمع کردی گئی ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بھونکتے رہو

شعبان بیدار ؔ
جو جانتا ہے وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا ہے وہ جان لے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک صرف اسلام کے مبلغ ہیں کسی مسلک کے نہیں ،ان کا کوئی مسلک نہیں اور منہج اگر مسلک کے مترادف نہیں ہے تو وہ کس منہج پر گامزن ہیں کم ازکم فقیر کے پاس اس کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ اب کمال کی بات یہ ہے کہ ایک لا مسلک شخصیت کی لوگ ہر طرح سے مخالفت کر رہے ہیں کھل کر بھی اور جم کر بھی کوئی بے لباس ہوا جا رہاہےتو کوئی اردھ نگن ہے اور یہ مخالفت کرنے والے خیمے دو ہیں ایک خیمہ دھرم کا ہے اور ایک خیمہ مذھب کا ۔
قُلتُ ،میں کہتا ہوں دھرم والے خیمے میں سر فہرست شیعہ دھرم ہے اور رہی بات مذہب کی تو وہ بریلوی مذہب ہے آپ چاہیں تو بریلوی مذہب کے بجائے بریلوی مسلک بھی بول سکتے ہیں، البتہ فقیر سے پوچھیں گے تو کہے گا بریلویت مسلک سے زیادہ مذہب ہے کیونکہ مسلک اگر ہے تو وہ حنفیت ہے اور ظاہر ہے مسلک سے کسی کو چڑ نہیں ہو سکتی ہے جب تک مسلک والوںکے دل پر نفرت کا غبار اور دماغ پر تعصب کی کائی نہ جم جائے ۔
لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ اگر آلو نام کی ترکاری سے کسی گھر میں پرہیز نہیں اور یہ ہر سبزی ترکاری حتیٰ کہ گوشت کے ساتھ بھی امن و شانتی سے رہتی ہے تو ڈاکٹر ذاکر نائک کے مسئلے میں پرہیز سے اوپر نفرت کیوں ؟ اور نفرت بھی اتنی کہ اپنی ہی داڑھی کا بال نوچے جا رہے ہیں آئیے نفرت کی شجرکاری کے اس قضیے میں شیعہ دھرم کے درشن کر لئے جائیں کیونکہ یہی وہ دھرم ہے جس کے ککر موں نے ملک و بیرون ملک اتھل پتھل مچا رکھی ہے تقسیم کے سانحے پر ہی ایک نظر ڈال لیجئے تو قدم بہ قدم اس دھرم کے انویائیوں کا آشیروادآپ کو نظر آئے گا بلکہ انگریزی تعزیئے کے جلوس میں وطن عزیز کاخون انہوں نے سبیلوں میں بھر ڈالا ہمارے فیضی صاحب کی مانیں تو قائد اعظم محمد علی جناح خوجہ شیعہ تھا اب اسے حسن اتفاق کہیں کہ سوء اتفاق یا ان کربلائیوں کا شاطر تقیہ کہ یہ انگریز سرکار کے بھی منظور نظر رہےاور دیسی سرکاروں کے بھی ۔
خلفاء ثلاثۃ، صحابہ کرام ، سیدہ فاطمہ چھوڑ ساری بنات سیدات و طاہرات ،حضرت خدیجہ چھوڑ ساری ازواج مطہرات ،تابعین عظام ،ائمہ کرام اورمحدثین عظام کا گوشت کھاتے کھاتے ان کا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ ہر وہ آدمی انہیں اپنا دشمن نظر آتا ہے جو بغض صحابہ اور تحریف قرآن کا منکر ہو البتہ دشمنی کے اظہار کے لئے انہیں ایک عدد بہانہ درکار ہے اور وہ بہانہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب نے انہیں بہت پہلے تھمایا ہوا ہے بہانہ ہے’’یزید رحمۃ اللہ علیہ یا یزید رضی اللہ عنہ‘‘
ڈاکٹرذاکر صاحب نے دعوتی مصالح کے نام پر کبھی اپنا مسلک ڈکلیئر نہیں کیا اور کرتے بھی کیسے کہ واقعی ان کا کوئی مسلک نہیں ہے لیکن تعجب ہوتا ہیکہ آخر وہ کونسی دعوتی مصلحت تھی جس کے پیش نظر انہوں نے بر سر اسٹیج حضرت یزید کے لئے رحمت ورضا کی دعا کر ڈالی کوئی دوسرا اسکالر ہوتا تو میں کہتا ممکن ہے آدمی برتری کی نفسیات کے آگے اہل علم کو کم تر جاننے کی نفسیات میں مبتلا ہو گیا ہو یا علمی دنیا کی خطرناک بیماری شوق نوادرات کا شکار ہو گیا ہو ۔
اب وقت کے ذہین ترین مبلغ اسلام کے حق میں ہم ایسے خیالات رکھنے کے حامی تو نہیں ہیں لیکن یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے علامہ ابن تیمیہ کا قول تحقیق کی بے آمیز زبان سے بہترتھا قصۂ مختصر ڈاکٹر صاحب نے یزید کے لئے رحمت اور رضا کی دعا کیا کیا عزیز برنی صاحب نے سہارا کے سہارے اپنا دِھن ہی نہیں دھانہ بھی کھول دیا اور وہ کچھ نکالا جس کے نکلنے کا محل منہ توہرگز نہیں ہےبرنی صاحب کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو متلی میں مبتلا ہو جاتا لیکن صاحب موصوف سالم محفوظ رہے ۔
قارئین یہ واحد مسئلہ ہےجو زعفرانی شیعوں کو دینی سسٹم کے نفاذ کے با وجود دستیاب ہوسکا ہے اور بحیثیت مجموعی تو ڈاکٹر صاحب نے کسی بھی مسلک کو کبھی نہیں چھیڑا ڈاکٹر ذاکر کے ایک دو متنازع اقوال جو اتفاقی نوعیت کے ہیں ان کے مقابلے دوسرے ہمارے احترام مسالک اور احترام نقاط نظر کے، حاملین کی چند ہی تقریریں ملاحظہ کر لیں تو اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا یہ موازنہ تو ہم بعد کے لئے اٹھا رکھتے ہیں سر دست آئیے ہم اس رافضی تکنیک پر نظر ڈالتے ہیں جس کے سہارے یہ ڈاکٹر صاحب کے خلاف اپنے آقاؤں کے اشارے پرہلا مچا رہے ہیں اور ہمارے بعض مسالک اہل سنت کو اس تکنیک کے سبب رافضی دیگ کا تیز سالن بھی سوھن حلوہ محسوس ہوتا ہے وہ تکنیک ہے کہ
ڈاکٹر ذاکر نائک یا کوئی دوسرا یزید کو کبھی رحمۃ اللہ علیہ کہہ بھی دے تو ہزار بار وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتا ہے اب صاف ہے کہ شور امیر معاویہ کو رضی اللہ عنہ کہنے پر بھی ہونا چاہئے کیونکہ روافض کے یہاں یزید اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین کوئی فرق نہیں ہے اگر یزید قاتل حسین رضی اللہ عنہ ہیں تو امیر معاویہ ان کے نزدیک قاتل حسن ہیں رضی اللہ عنہ۔ انہیں شور عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کہنے پر بھی کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بقول وفات رسول کی ذمہ دارازواج رسول ﷺہی ہیں۔ انہیں شور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کہنے پر بھی کرنا چاہئے کیونکہ ان کے بقول ان دو حضرات نے فاطمہ رضی اللہ عنہاکو ستایا اور ان کی بے عزتی کی مزید برآں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی ذلیل کیا ۔لیکن ہم اور آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ بالعموم یہ لوگ ہر جگہ ایسا نہیں کرتے یا پھر کھلے طور پر ان چیزوں پر اپنا احتجاج درج نہیں کراتے ۔ یہی وہ تکنیک ہے جسے بطور خاص نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔
روافض نے کام تو قتل کا خود کیا لیکن داغ مٹانے کے لئے نوحہ و ماتم کو اپنے دین کا ناگزیر حصہ بنا دیا بلکہ ان کے دین و دھرم میں اگر کچھ ہے تو وہ یہی ماتم اور تبراء ہے ۔ ایک مکمل آئیڈیا لوجی اور بعض تاریخی عوامل کے نتیجے میں یزید ہماری حساسیات میں داخل ہوگیا ورنہ تاریخ میں کئی ایسے نام ہیں جو یزید کے مقابلے اپنی شنا عت میں متفق علیہ ہیں ۔یہ جو یزید کے نام پر کربلائی حساسیت کا انفراد انہوں نے پیدا کیا اور اسے ہر طرح سے فروغ دیا اس حساسیت کا استعمال یہ باربار کرتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے دیکھا کہ یزید کے لئے دعائیہ کلمہ کہنا انتہائی حسّاس نفسیات کا حصہ بن چکا ہے سو اس نام سے شور مچانا شروع کردیا اور اہل سنت کا وہ طبقہ جس کے عوام کجا علما ء بھی بالغ شعور نہیں رکھتے وہ کوّا کان لے گیا کے مصداق ان کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں ۔
قابل غور یہ بھی ہے کہ روافض نے ڈاکٹر نائک کی مخالفت کیامحض اس لئے کیا ہے کہ انہوں نے یزید کے لئے دعائیہ کلمات کا استعمال کر دیا تھا ۔ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ روافض کا اصل اختلاف توحید کی اشاعت سے ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ نئی نسل کے ذہنوں میں جب توحید راسخ ہوجائے گی تو پیٹ پوجا کے سارے سادھن بند ہو جائیں گے اور جھوٹے رسوم و رواج کے یہ قلعے باقی نہیں رہ جائیںگے ۔کہ توحید عبادت کےنام پر صرف مساجد کا وجود دیکھنا پسند کرتی ہے۔
اس قضیے میں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب اچانک ہوا تو غلط ہے اصل میں یہ ایک بڑے منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے ملک میں اس وقت ایک ترشولی نظام چل رہا ہے یعنی (۱)آرایس ایس+ بی جے پی (۲) اسرائیل +موساد(۳)ایران+ ہندوستانی روافض ۔ ایک طرف اگر بی جے پی سرکار مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل در آمد کررہی ہے تو دوسری طرف رافضی دلال’’ درگاماں‘‘ کے کثیر التعدادبازوبنے ہوئے ہیں ۔ اگر سبرامنیم سوامی صاف بولتا ہے کہ ہم ھندؤں کو متحد اور مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تولکھنؤ میں رافضی جماوڑا بھی یہی اعلان کرتا ہے کہ تو قیر رضا کا دیوبند جانا بہت خطر ناک معاملہ ہے ایسا بالکل نہیں ہوناچاہئے آگے ہم اس قسم کی تفصیل مزید پیش کریں گے ۔ یہاں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکرکے خلاف یہ واویلا طے کردہ اور طویل المیعاد ایجنڈے کا ایک حصہ ہے ڈھاکہ حملہ اتفاقی ہے مگر ذاکرنائک کو اس حملے سے جوڑنا اتفاقی بالکل نہیں ہے ۔
جب بات چھڑ ہی چکی ہے تو یزید کے لئے دعائیہ کلمہ کہنے کی بابت بھی کچھ بات ہوجائے ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ترک صلوٰۃ کا مرتکب ہو اس کے ہاتھوں کسی کا قتل ہوگیا ہو تو کیا اس کے لئے رحمت و مغفرت اور خوشنودیِ رب کی دعا کی جا سکتی ہے ؟ ظاہر ہے اس باب میں تمام علماء اور ائمہ متفق اللسان ہیں کہ یہ امر نہ صرف جائز ہے بلکہ مردوں کے لئے دعا زندوں کو کرنا ہی چاہئے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دعا کا ایسا کلمہ جو عملاً کچھ محترم اور معزز شخصیات کے لئے خاص ہوگیا ہو کیا وہ کلمہ بھی کسی فاسق و فاجر کے لئے بطور دعا استعمال کیا جا سکتا ہے؟ تو یہاں بھی علماء اصل جواز کے قائل ہیں اسی لئے ہمارے بریلوی بھائی اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کے لئے رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں ۔البتہ علماء کا عمل اس کے برعکس ہے یعنی مخصوص کلمات کے جواز کے قائل تو ہیں لیکن بالعموم خاص کو سب کے لئے عام نہیں کرتے اور ذاتی طور پر فقیر مخصوص دعائیہ کلمات کو فساق و فجار کے لئے اصل جواز کی حیثیت درست نہیں سمجھتا بلکہ کسی کے لئے درست نہیں جانتا ۔
مذکورہ بالا خیالات کے بعد غور فرمائیے اگر ڈاکٹر ذاکر نائک نے مزعومہ فاسق کے لئے رضا اور رحمت کی دعا کردی تو یہ اصل جواز کے خلاف نہیں ہے مگر تعجب ہے رافضی تکنیک کے شکار اہل سنت کے بعض علماء پر کہ انہیں ڈاکٹر ذاکر نائک کا یہ عمل برداشت نہیں البتہ امت کی تمام معزز شخصیات سے اظہار براءت اور انہیں گندی گالیاں دینا نہ صرف یہ کہ برداشت ہے بلکہ تصوف کے نام پر ان سے اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں ۔ کیا اگر کل وطن عزیز میں رافضی قوت اور مزید ہوجائے اور وہ امیر معاویہ ، اماں عائشہ ، صدیق اکبر ، فاروق اعظم، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام بخاری وغیرہ کے لئے رضی اللہ عنہم اور رحمۃ اللہ علیہم کی دعا پر شور مچانے لگیں تو آپ ان کاساتھ دیں گے ؟ہمارے خیال سے تصوف کا رشتہ آپ کے یہاں ہر رشتے سے قوی ہے آپ ضرور ساتھ دیں گے !
یہاں ایک سوال اور ممکن ہے وہ یہ کہ ہم مان لیتے ہیں کہ اصل جواز میں کسی فاسق اور قاتل کے لئے دعا ء رحمت درست ہے پھر بھی نفس یک گونہ کوتاہی کرتا ہے ۔بھلا ڈاکٹر ذاکر نائک نے یہ فیاضی کیوں دکھائی ؟ سو عرض ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب اپنی تحقیق میں یزید کو حسین کا قاتل سمجھتے ہیں نہ فاسق و فاجر! اس تحقیق کے جو دلائل ہیں وہ ایسے قوی ہیں کہ آسانی سے ان کا جواب نہیں دیا جاسکتا خود یزید کی ولی عہدی بہت سے صحابہ کے مشورے پر ہوئی اور چند کو چھوڑ کر سب نے بیعت کی اور قتل کا کام ان رافضیوں نے کیا جو کل سے اب تک حُبِّ اہل بیت کے نام پر شور مچا رہے ہیں ۔پھر جن چند لوگوں نے بیعت نہیں کی تھی اس کی وجہ وہ نہیں ہے جو ہمارے بھائی بیان کرتے ہیں ۔
بہر کیف جرم تب ہوتا جب ڈاکٹر ذاکر نائک یزید کو قاتل اور فاسق مانتے اس کے باوجود رحمت کی دعا کرتے سو ٹھنڈے دل سے ان کے موقف کو سمجھنا ضروری ہے جب یہ شگوفہ چھوڑا گیا ہے تب سے آج تک کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا ہے جس نے دلیل و برہان سے بات کیا ہو۔ہماری یہ سعید سینا بھی شیو سینا کی طرح طرح بھانت بھانت کی
(جاری )
(قارئین کو اگر کوئی چیز متنازعہ محسوس ہو تو قسطوں کی تکمیل کا انتظار کریں )
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
یہ ایک اور تحریر ملاحظہ فرمائیں ۔ عنوان سے موضوع پر پردہ سا ہے ۔ورنہ تحریر ڈاکٹر ذاکر کے بارے میں ہی ہے ۔
افسوس اپنے بھی اپنے دل کی بھڑاس آج ہی نکالیں گے ۔
http://forum.mohaddis.com/threads/غیر-مقلدیت-کا-طلسم-شیخ-عبدالمعید-مدنی-علی-گڑھ.33447/

عجیب تحریر ہے ۔ اور یہ تحریر محترم ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف ہے ۔
مجھے ہر گز امید نہیں تھی کہ ان حالات میں بھی کوئی اہل حدیث عالم کی طرف سے ان کے خلاف لکھا جا سکتا ہے ۔
عجیب بات ہے تحریر شروع سے یوں محسوس ہوتی ہے کہ شاید دیوبند کے فتوی پر تبصرہ اور تنقید ہے ۔ لیکن اس کے بعد کی ساری تحریر ان کی زبردست موافقت میں ہے ۔
صاحب تحریر کو اگر ڈاکٹر ذاکر کی اصلاح کرنی تھی تو آج کل ہی کرنی تھی ۔ جب ان کے خلاف اسلام دشمن لوگ پروپیگنڈا کر رہے ہیں ۔
اور یہ جو عصر حاضر کے میڈیا سے دور دیوبند کا فتوی نقل کیا ہے ۔ یہ ۲۰۱۲ کا ہے ۔ آج جو انڈین اخبار ڈھونڈ ڈھونڈ کے نکال رہے ہیں تو مقصد کے تحت ہی نکال رہے ہیں ۔
اور نہ تو یہ دیوبند والے ڈاکٹر ذاکر سے واقف ہیں اور نہ صاحب تحریر اہلحدیث عالم صاحب۔ اگر یہ کچھ واقف بھی ہیں تو ان کے خلاف لکھی جانے والی تحریریں یا کلپ وغیرہ پہلے ان تک پہنچے ہیں ۔۔ اور ظاہر ہے جس کے پاس کسی شخصیت کی پہلے منفی باتیں پہنچ جائیں تو اس کے ذہن میں ایک خاکہ بن جاتا ہے ۔ بعد میں اچھی باتیں پھر اس کے تناظر میں چلی جاتی ہیں۔
بس اتنی گزارش ہے کسی صاحب کو ان سے اختلاف ہو بھی تو اگر جامع تبصرہ کرنا چاہتا ہے تو پھر اچھی طرح ان کے انگلش خطابات زمانی ترتیب سے سنیں ۔ اور دیکھیں کہ ان کا زیادہ تر حصہ کس چیز پر مشتمل ہے ۔
اور کم از کم آج کل تنقید کو موخر کردیں ۔ کیوں دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔
 
Top