ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٭اہل مشرق نے اس کے برعکس یہ طریقہ اختیار کیا کہ جو حرف زائد نطق میں نہیں آتا، اسے ہر قسم کی علامت ضبط سے معری رکھا۔ اس طرح حرف الف کی چند معدود صورتیں ایسی رہ جاتی ہیں کہ ان میں التباس واقع ہوسکتا ہے، مثلاً الف ما قبل مفتوح جبکہ اس کے بعد کوئی حرف ساکن یا مشدد بھی نہ آرہا ہو۔ یہ کوئی بیس کے قریب مقامات بنتے ہیں لہٰذا صرف ان پر علامت زیادہ (دائرہ یاعلامت تنسیخ) لگا دیتے ہیں۔ اس طریقے پر نہ أولئک کی واو پر نشان لگانے کی ضرورت ہے، نہ تلقاء کی ’ی‘ پر اور صرف الف الاطلاق پر ہی یہ علامت نہ ڈالنے کے باعث مجموعی طور پر شاید کاتب کے کئی دن نہیں تو کئی گھنٹے یقیناً بچ جاتے ہیں۔
بعض لفظوں کے بارے میں یہ اختلاف بھی ہوتا ہے کہ اس میں زائدالف ہے یا ’ی‘ ،مثلاً ’أفائن‘ اور ’ملائہ‘ میں (المحکم ص۱۹۴۔ الطرازورق ۱۰۵؍الف)اس لیے ان کی علامت زیادۃ کے موقع ضبط کی تعیین میں بھی اختلاف موجود ہے۔ اس فرق کو اچھی طرح اور عملاً سمجھنے کے لیے کلمہ ’أفائن‘یا’أفائن‘ (آل عمران:۱۴۴ اور الانبیاء ۳۴) کاضبط کسی مصری یا سعودی مصحف میں اور پھر برصغیر کے کسی مصحف میں دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے تلفظ دونوں ضبط کے ساتھ ایک ہی بنتا ہے، یعنی’أفَئِن‘ جو لین کی طرح ہے اور اگرلئن پر قیاس کریں،جو متفق علیہ ضبط ہے، تو پھر ’ی‘ کی بجائے الف کو زائد ماننے والوں کاموقف زیادہ قرین صواب ہے۔ واللہ اعلم
بعض لفظوں کے بارے میں یہ اختلاف بھی ہوتا ہے کہ اس میں زائدالف ہے یا ’ی‘ ،مثلاً ’أفائن‘ اور ’ملائہ‘ میں (المحکم ص۱۹۴۔ الطرازورق ۱۰۵؍الف)اس لیے ان کی علامت زیادۃ کے موقع ضبط کی تعیین میں بھی اختلاف موجود ہے۔ اس فرق کو اچھی طرح اور عملاً سمجھنے کے لیے کلمہ ’أفائن‘یا’أفائن‘ (آل عمران:۱۴۴ اور الانبیاء ۳۴) کاضبط کسی مصری یا سعودی مصحف میں اور پھر برصغیر کے کسی مصحف میں دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے تلفظ دونوں ضبط کے ساتھ ایک ہی بنتا ہے، یعنی’أفَئِن‘ جو لین کی طرح ہے اور اگرلئن پر قیاس کریں،جو متفق علیہ ضبط ہے، تو پھر ’ی‘ کی بجائے الف کو زائد ماننے والوں کاموقف زیادہ قرین صواب ہے۔ واللہ اعلم