حق و باطل کا غلط معیار
قبل اس کے کہ میں حدیث مذکور کے صحیح مطلب کی وضاحت کروں بہتر سمجھتا ہوں کہ امرتسر میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ مشاہدہ کیا، اس سلسلہ میں انہیں قرآن مجید کی چند آیات کی سیر کراؤں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
(۱) فَخَـــرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ فِيْ زِيْنَتِہٖ۰ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ قَارُوْنُ۰ۙ اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۷۹ (القصص)
ایک دن قارون اپنے ساز و سامان اور کروفر کے ساتھ نکلا تو ان لوگوں نے جو دنیا کے طالب تھے کہا: اے کاش جو مال و اسباب قارون کو دیا گیا ہے ہمیں بھی ملتا۔ واقعی یہ بڑا خوش قسمت ہے۔
(۲) وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللہِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۰ۚ وَلَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۸۰ (القصص)
اور جو اہل علم تھے، انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لئے جس نے ایمان قبول کیا اور نیک عمل کئے اور یہ چیز ان ہی کو ملتی ہے جو صابر ہیں۔
نتیجہ: اللہ تعالی نے ان لوگوں کا ذکر برائی کے ساتھ کیا جو دنیا کے طالب تھے اور ان لوگوں کو علماء کا خطاب دیا ج لوگوں نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ بلکہ وہ صرف ایمان اور عمل صالح کے ثواب کے خواہاں رہے۔ آیت نمبر ۲ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کا ثواب ان ہی لوگوں کے پیش نظر ہوتا ہے جو صابر و قانع ہوتے ہیں اور دنیا کے حریص نہیں ہوتے۔ بہرحال آیات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ دنیا اچھی نہیں اور اس کے طالب بھی اچھے نہیں۔
(۳) فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ۰ۣ (القصص:۸۱)
پھر ہم نے قارون کو مع اس کے محل کے زمین میں دھنسا دیا۔
(۴) وَاَصْبَحَ الَّذِيْنَ تَمَـــنَّوْا مَكَانَہٗ
بِالْاَمْسِ يَقُوْلُوْنَ وَيْكَاَنَّ اللہَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ۰ۚ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللہُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا۰ۭ وَيْكَاَنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۸۲ۧ
پھر شام کو جو لوگ قارون کے مثل بننے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے لگے افسوس یہ رزق و ساماں کی فراوانی تو اللہ جس بندے کو چاہے دے دیتا ہے اور جس سے چاہے روک لیتا ہے، اگر اللہ کا احسان نہ ہوتا تو ہم بھی دھنسا دیئے جاتے، افسوس کہ کافروں کے لئے فلاح نہیں ہے۔
نتیجہ: دنیاوی مال و دولت کے حریص کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ دنیاوی مال و دولت اگر کسی کے پاس زیادہ ہو اور مومنین کے پاس اس کی قلت ہو تو یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالی اس مالدار سے خوش ہے۔ اور فقرائ مومنین سے ناراض ہے۔ قارون بہت مالدار تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس کے مقابلہ میں تنگ حال تھے۔ اور اللہ ان تنگ حال مسلمانوں ہی سے خوش تھا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ضرور کوئی نہ کوئی خامی تھی جس نے انہیں اس درجہ پر پہنچایا تھا؟ برق صاحب امرتسر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف حالات میں دیکھ کر آپ متعجب نہ ہوں، موسیٰ علیہ السلام اور قارون بھی ایسے ہی مختلف حالات میں تھے، اس میں حیرت و استعجاب کا کون سا مقام ہے؟
برق صاحب اب ذڑا اوپر چلئے۔ نوح علیہ السلام اور ان کے صحابہ کرام کی حالت ملاحظہ فرمائیے:
(۵) فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِ
ہٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ۰ۚ وَمَا نَرٰي لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍؚبَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ۲۷
کافروں کے سرداروں نے نوح علیہ السلام سے کہا: ہم تو تجھ کو اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں اور ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تیرے متبعین صرف وہی لوگ ہیں جو ہم میں سب سے زیادہ رذیل اور کم عقل ہیں۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تم کو ہم پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں بس ہم تو یہی خیال کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔
نتیجہ: برق صاحب مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ کر جو نتیجہ آپ نے نکالا ہے بالکل وہی نتیجہ سرداران قومِ نوح نے نکالا تھا، یہ کافر سردار تھے، صاحب فضل تھے اور نوح علیہ السلام کے صحابہ کرام فاقہ کش اور کافروں کی نگاہ میں بے عقل سمجھے جاتے تھے۔ لہٰذا کافروں نے ان کو ناحق سمجھا اور اپنے کو حق پر۔