• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب تفہیم اسلام بجواب ’’دو اسلام‘‘-1

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
باب ۔18
'' متضاد احادیث ''
171 جہنم میں عورتوں کی کثرت پر اعتراض اور اس کاجواب
172 جنگ خبیر میں درخت کاٹنے پراعتراض اور اس کاجواب
173 ڈاکوؤں اور ظالموں کی عبرت ناک سزاؤں پراعتراض اور اس کاجواب
174 نحوست کے متعلق غلط فہمی اور اسکا ازالہ
175 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھول پراعتراض اور اس کاجواب
176 نبی کریم صلی اللہ کاسفر میں دیر سے اٹھنا ۔برق صاحب کی غلط فہمی
177 قبلہ کی طرف منہ کرکے قضائے حاجت کرنا ۔تعارض احادیث کاجواب
178 حالت احرام میں شکار ۔احادیث میں تعارض کاجواب
179 حالت احرام میں خوشبو لگانا ۔دوحدیثوں میں تعارض کی حقیقت
180 کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کودیکھتا تھا ۔دوحدیثوں میں تعارض کی حقیقت کی تحقیق
181 شہد نہ کھانے کاعہد ۔برق صاحب کی غلط فہمی کاازالہ
182 معراج کی حدیث پراعتراض اور اس کاجواب
183 '' خیرالنساء '' کے متعلق برق صاحب کی غلط فہمی کاازالہ​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
باب۔19
'' چند دلچسپ احادیث ''
184 سورج کے سجدہ کرنے پراعتراض اور اس کاجواب
185 سورج کاشیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہونا
186 مکھی کے پر میں شفا ہونا
187 اولاد کی ماں باپ سے مشابہت کے اسباب
188 مرغ کافرشتہ کودیکھنا ۔برق صاحب کی غلط فہمی کاازالہ
189 تین سلام کرنے اور کسی بات کو تین دفعہ دہرانے پراعتراض اور اسکا ازالہ
190 عرش الہٰی کاہلنا اور اس پراعتراض
191 قرآن مجید کاسات قرأتوں میں نزول ۔برق صاحب صاحب کی غلط فہمی کاازالہ
192 برق صاحب کاخلاف حقیقت بیان
193 کھجور کے تنے کارونا ۔برق صاحب کی غلط فہمی کاازالہ
194 معجزہ کاثبوت قرآن کریم
195 مسلمانوں کومعجزہ دکھانے پراعتراض اور اس کاجواب
196 فرقوں کی بنیاد تقلیدی اختلاف سے قائم ہوئی ہے
197 چھپکلی کوقتل کرنے میں حکمت
198 برق صاحب کی عجیب وغریب غلط فہمی
199 حضرت جبرائیل کے پروں پراعراض
200 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ختنہ پر اعتراض اور اس کاجواب
201 حضرت سلیمان علیہ السلام کابیویوں کے پاس دورہ کرنا
202 بعض احادیث کے متعلق برق صاحب کی غلط فہمی​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
باب۔20
'' صحیح احادیث کوتسلیم کرنا پڑے گا ''
203 تدوین احادیث کے متعلق غلط فہمی کاازالہ
204 برق صاحب کاسچے اور جھوٹے کی روایت کومساوی درجہ دینا
205 برق صاحب کاہر صحیح بات کوحدیث ماننے کانظریہ اور اس کی خرابی
206 استاد ضروری کیوں ہیں ؟
207 حدیث کاوحی ہونا
208 کیادینی مسائل مشورہ سے طے کئے گئے ؟
209 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کی شرعی حیثیت
210 علاوہ قرآن کے وحی کانزول
211 صحت احادیث کے لئے برق صاحب کے تجویز کردہ معیاروں کاجائزہ قرآن کریم کی روشنی میں
212 ضمیمہ ۔رسول کی اتباع واطاعت کے متعلق قرآنی آیات
تمہ الفھرس وللہ الحمد​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین و علی سائر الانبیاء والصالحین اما بعد

تمہید
چند روز ہوئے ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی کتاب '' دو اسلام '' دیکھنے میں آئی پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب جیسا آدمی اور اس قسم کی باتیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری وسیع مطالعہ ،اور گہرے علم وتحقیقات کے بعد ہی ملاکرتی ہے ،وسیع مطالعہ سے ذہن صاف ہوجاتا ہے ۔اور غوروفکر کی عادت پیداہوتی ہے ،ایسا آدمی جب کسی بات کوسنتاہے ،توبغیر تحقیق کے اس کوقبول نہیں کرتا اور بغیر غوروفکر کے اس کورد نہیں کرتا ،لیکن تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے صرف حدیث ہی کانہیں بلکہ قرآن مجید کامطالعہ بھی سرسری کیا،اس وجہ سے آپ کوبہت غلط فہمیاں ہوگئیں ،کتاب '' دواسلام '' ان ہی غلط فہمیوں کامجموعہ ہے ۔اور ہماری یہ کتاب الہی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے لکھی جارہی ہے ، اللہ تعالی ان کی غلط فہمیوں کودور فرمائے ۔آمین ۔برق صاحب تحریر فرماتے ہیں :۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ملا کی تعریف
'' ملاسے مراد متعصب تنگ نظر،کم علم اور کوتہ اندیش واعظ اور امام مسجد ہے نہ کہ صحیح النظر عالم ''(دواسلام حاشیہ ص 278)میں بھی ان مضامین میں لفظ '' ملا'' کوانہی معنوں میں استعمال کروں گا جن معنوں میں ڈاکٹر صاحب نے استعمال کیاہے​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عالم کی تعریف
ڈاکٹر صاحب کی محولہ بالا عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ عالم در حقیقت وہ ہے جوصحیح النظر ہوقرآن کی اصطلاح میں اسکو راسخ فی العلم کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب ایک اور جگہ رقم طراز ہیں بحمد للہ کہ اسلام میں کچھ محققین بھی ہوگذرے تھے جنہوں نے ایسے تمام واقعات سخت تنقید کی ۔فجزاسم اللہ احسن الجزاء (دواسلام ص90)
میں بھی اس کتاب میں جہاں کہیں عالم کالفظ استعمال کروں گاانہی معنوں میں استعمال کروں گا جن معنوں میں ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جماعت حقہ
ڈاکٹر صاحب شاید ناواقف نہ ہوں کہ مسلمانوں میں ایک جمات ہمیشہ ایسی رہی اور اب بھی موجود ہے جو تمام خرافات، بدعات، موضوعات، مشرکانہ اور جاہلانہ رسوم سے اسی طرح بیزار تھی اور ہے جس طرح خود ڈاکٹر صاحب بیزار ہیں۔ اس جماعت کی ایک تبلیغی تحریک بھی ہمیشہ سے جاری ہے۔ مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں اس کے مختلف نام رہے۔ یہ تحریک کبھی شدت اختیار کر لیتی ہے اور کبھی حالات کے ناسازگار ہونے کے باعث سست بھی ہو جایا کرتی ہے۔ اس جماعت کا ذکر مسلم اور غیر مسلم حضرات نے مختلف کتابوں میں ایک ایسی جماعت کی حیثیت سے کیا ہے جو اسلام کو اپنے اصل خدوخال میں پیش کرنا چاہتی ہے اور اس اسلام کی دعوت دیتی ہے جو عہد رسالت میں تھا۔ ہندوستان میں حکومت برطانیہ اور خود ان خرافات کے پرستار نام نہاد مسلمانوں نے جس طرح اس تحریک کی مخالفت کی یہ ایک خونچکاں داستاں ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ یہ تحریک اگرچہ آج کل بہت سست ہو گئی ہے لیکن بحمد اللہ مردہ نہیں ہوئی ہے۔ ہندوستان میں اس تحریک کا ابتدائی دور جہاد فی سبیل اللہ سے معمور ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو ایک طرف اللہ کے ذکر میں سرشار تو دوسری طرف میدانِ جنگ میں کفار کے مقابلہ کے لئے سینہ سپر تھے۔ ذکر اللہ کے فضائل کی احادیث نے انہیں جہاد سے غافل نہ بنایا تھا کیونکہ وہ ان احادیث کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور کبھی غلط فہمیوں میں مبتلا نہیں ہوئے تھے آج بھی اگر برق صاحب کے ممدوح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا مصلح پیدا ہو جائے تو یہ بکھرے ہوئے سپاہی پھر جہاد کے لئے صف آرائ ہونے کو تیار ہیں۔​
ایک بات اور بھی ذہن نشین کر لیجیے یہ جماعت فرقہ کی حیثیت سے کبھی نمودار نہیں ہوئی نہ اس نے اپنا کوئی ایسا امام بنایا جس کی وہ تقلید کرتی ہو، نہ ایسی فرقہ ورانہ کتابیں تصنیف کیں جو دوسرے فرقوں کے لئے ناقابل حجت ہوں اس جماعت کا اصول وہی ہے جو صحابہ کرام کا تھا۔ یعنی قرآن و حدیث یا دوسرے لفظوں میں اتباع رسول۔ یہ جماعت انہی احادیث کو واجب العمل سمجھتی ہے جن کے متعلق برق صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ:
'' اس طرح کی ہزارہا احادیث ہمارے پاس موجود ہیں جونہ صرف تعلیمات قرآن کے عین مطابق ہیں بلکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مطہرہ کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں ''(دواسلام ص342)
'' یہ تمام تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں اور یہی وہ بیش بہا سرمایہ ہے جس پہ ہم نازاں ہیں اور جس سے اب تک کروڑوں غیرمسلم متاثر ہوچکے ہیں ''(دواسلام ص343)
' ' اس میں کلام نہیں کہ حضور کے ان اوصاف جمیلہ کاچرچا صرف احادیث کی بدولت ہوا اور ہم حدیث کے اس گراں بہاذخیرے پرہمیشہ ناز کرتے رہیں گے '' (دواسلام ص 199)
یہ جماعت خود ساختہ اسلام کو اتنا ہی برا سمجھتی ہے جتنا آپ گھڑی ہوئی احادیث سے اتنا ہی بیزار ہے جتنا آپ لہذا آپ یہ نہ سمجھئے کہ اس معاملہ میں آپ تنہا ہیں بلکہ یہ پوری جماعت بھی آپ کے ساتھ ہے۔ ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض صحیح احادیث کوآپ غلط سمجھ بیٹھے اور اس ہی میں غلط فہمی کے ازالہ کے لئے یہ کتاب لکھی جارہی ہے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
آغاز ازالہ
اس مختصر تمہید کے بعد ابن میں ڈاکٹر صاحب کی غلط فہمیوں کی طرف متوجہ ہوتاہوں ۔ڈاکٹر صاحب دواسلام کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں :۱​
'' یہ 1918؁ ء کاذکر ہے میں قبلہ والد صاحب کے ہمرا ہ امرتسر گیامیں ایک چھوٹے سے گاؤں کارہنے والا جہاں نہ بلند عمارات نہ مصفا سڑکیں نہ کاریں نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں دیکھ کر دنگ رہ گیا لاکھوں کے سامان سے سجی ہوئی دکانیں اور بورڈ پرکہیں رام بھیجا سنت رام لکھا ہے کہیں دنی چند اگروال ......ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی ہاں مسلمان ضرور نظر آئے کوئی بوجھ اٹھا رہاتھا کوئی گدھے لاد رہا تھا ۔۔غیرمسلم کاروں اور لفٹوں پہ جارہے تھے ،اور مسلمان اڑہائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھارہا تھا ......''(دواسلام ص 13(
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ہندوؤں کے پاس مال ودولت کی فراوانی اور مسلمانوں کومفلوک الحال دیکھ کرڈاکٹر صاحب کو حیرت ہوئی کہ آخر اس کی کیاوجہ ہے ،دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ اس کاسبب مندرجہ ذیل احادیث ہے ۔''الدنیا جیفۃ و طلابھا کلاب '' یہ دنیاایک مردار ہے اور ا س کے متلاشی کتے ہیں (دواسلام ص 15) برق صاحب نے اس حدیث کامطلب بھی بعض ملاؤں سے دریافت کیالیکن تسلی نہیں ہوئی ،اور اس طرح احادیث کے متعلق ان کی غلط فہمیوں کاآغاز ہوا غلط فہمی سے برق صاحب کاسب سے زیادہ اعتراض اسی روایت پر ہے لہذا اس غلط فہمی کاازالہ تفصیل کے ساتھ درج ذیل ہے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جملہ معترضہ
برق صاحب نے صرف امرتسرہی کودیکھا ار کہیں وہ دہلی بمبئی کلکتہ حیدرآباد وغیرہ مشہور شہر دیکھتے توانہیں ہندوؤں کے دوش بدوش اور ان کے ہم پلہ مسلمانوں کی بھی دکانیں نظر آتیں بلکہ اگر وہ اس وقت پاکستن کے کسی بھی چھوٹے یابڑے شہر کودیکھیں تومسلمانوں کی لاتعداد پررونق دکانیں جگمگاتی نظر آئیں گی حالانکہ ان مسلمانوں کااسلام وہی اسلام ہے جوامرتسر کے ان مسلمانوں کاتھاجن کاذکر برق صاحب نے کیا ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حق و باطل کا غلط معیار
قبل اس کے کہ میں حدیث مذکور کے صحیح مطلب کی وضاحت کروں بہتر سمجھتا ہوں کہ امرتسر میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ مشاہدہ کیا، اس سلسلہ میں انہیں قرآن مجید کی چند آیات کی سیر کراؤں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:​
(۱) فَخَـــرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ فِيْ زِيْنَتِہٖ۝۰ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ قَارُوْنُ۝۰ۙ اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۝۷۹ (القصص)
ایک دن قارون اپنے ساز و سامان اور کروفر کے ساتھ نکلا تو ان لوگوں نے جو دنیا کے طالب تھے کہا: اے کاش جو مال و اسباب قارون کو دیا گیا ہے ہمیں بھی ملتا۔ واقعی یہ بڑا خوش قسمت ہے۔
(۲) وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللہِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝۰ۚ وَلَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۝۸۰ (القصص)
اور جو اہل علم تھے، انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لئے جس نے ایمان قبول کیا اور نیک عمل کئے اور یہ چیز ان ہی کو ملتی ہے جو صابر ہیں۔
نتیجہ: اللہ تعالی نے ان لوگوں کا ذکر برائی کے ساتھ کیا جو دنیا کے طالب تھے اور ان لوگوں کو علماء کا خطاب دیا ج لوگوں نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ بلکہ وہ صرف ایمان اور عمل صالح کے ثواب کے خواہاں رہے۔ آیت نمبر ۲ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کا ثواب ان ہی لوگوں کے پیش نظر ہوتا ہے جو صابر و قانع ہوتے ہیں اور دنیا کے حریص نہیں ہوتے۔ بہرحال آیات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ دنیا اچھی نہیں اور اس کے طالب بھی اچھے نہیں۔
(۳) فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ۝۰ۣ (القصص:۸۱)
پھر ہم نے قارون کو مع اس کے محل کے زمین میں دھنسا دیا۔
(۴) وَاَصْبَحَ الَّذِيْنَ تَمَـــنَّوْا مَكَانَہٗ بِالْاَمْسِ يَقُوْلُوْنَ وَيْكَاَنَّ اللہَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ۝۰ۚ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللہُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا۝۰ۭ وَيْكَاَنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۲ۧ
پھر شام کو جو لوگ قارون کے مثل بننے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے لگے افسوس یہ رزق و ساماں کی فراوانی تو اللہ جس بندے کو چاہے دے دیتا ہے اور جس سے چاہے روک لیتا ہے، اگر اللہ کا احسان نہ ہوتا تو ہم بھی دھنسا دیئے جاتے، افسوس کہ کافروں کے لئے فلاح نہیں ہے۔
نتیجہ: دنیاوی مال و دولت کے حریص کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ دنیاوی مال و دولت اگر کسی کے پاس زیادہ ہو اور مومنین کے پاس اس کی قلت ہو تو یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالی اس مالدار سے خوش ہے۔ اور فقرائ مومنین سے ناراض ہے۔ قارون بہت مالدار تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس کے مقابلہ میں تنگ حال تھے۔ اور اللہ ان تنگ حال مسلمانوں ہی سے خوش تھا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ضرور کوئی نہ کوئی خامی تھی جس نے انہیں اس درجہ پر پہنچایا تھا؟ برق صاحب امرتسر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف حالات میں دیکھ کر آپ متعجب نہ ہوں، موسیٰ علیہ السلام اور قارون بھی ایسے ہی مختلف حالات میں تھے، اس میں حیرت و استعجاب کا کون سا مقام ہے؟
برق صاحب اب ذڑا اوپر چلئے۔ نوح علیہ السلام اور ان کے صحابہ کرام کی حالت ملاحظہ فرمائیے:
(۵) فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ۝۰ۚ وَمَا نَرٰي لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍؚبَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ۝۲۷
کافروں کے سرداروں نے نوح علیہ السلام سے کہا: ہم تو تجھ کو اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں اور ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تیرے متبعین صرف وہی لوگ ہیں جو ہم میں سب سے زیادہ رذیل اور کم عقل ہیں۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تم کو ہم پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں بس ہم تو یہی خیال کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔
نتیجہ: برق صاحب مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ کر جو نتیجہ آپ نے نکالا ہے بالکل وہی نتیجہ سرداران قومِ نوح نے نکالا تھا، یہ کافر سردار تھے، صاحب فضل تھے اور نوح علیہ السلام کے صحابہ کرام فاقہ کش اور کافروں کی نگاہ میں بے عقل سمجھے جاتے تھے۔ لہٰذا کافروں نے ان کو ناحق سمجھا اور اپنے کو حق پر۔
 
Top