• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب "عصر حاضر میں تکفیر، خروج اور نفاذ شریعت کامنہج" پر تبصرہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
باقی جناب باربروسا آپ کے مجہول ہونے کی بات رہی تو اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ آپ کے بقول آپ کو اس فورم پر لوگ جانتے ہیں۔ میں نے کب انکار کیا کہ آپ کو یہاں فورم لوگ نہیں جانتے۔ آپ کو ون ٹو تھری فور فائیو سیکس سیون ایٹ نائن جانتے ہوں گے اور آپ ان کو جانتے ہوں گے۔ آپ یہاں اور بھی ایسے لوگ جانتے ہوں گے جنہیں آپ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہو گا۔ اور یہ بھی قوی امکان ہے کہ جنہیں آپ جانتے ہیں اور جو آپ کو جانتے ہیں، وہ سب ایک ہی شخصیت ہوں۔

آپ کے مجہول ہونے کا عالم یہ ہے کہ جس مجلے میں آپ کا تبصرہ شائع ہوا، وہ تک آپ کو نہیں جانتے یعنی طاہر الاسلام عسکری صاحب۔ میں نے ان سے آپ کے بارے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ باقی یہاں فورم پر آپ کا جو تعارف موجود ہے، اس کا لنک دے دیں، کم از کم آپ کا نام اور شہر تو معلوم ہو۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اختلاف ایشو پر بات کرنے میں نہیں ہے، آپ ایشو پر بات کریں، اختلاف اس بات پر ہے کہ بات کیسے کی جائے۔ میں صرف اور صرف سامنے بیٹھ کر اس مسئلے پر مزید گفتگو کر سکتا ہو، یہی پیغام میں ایک عرصے سے سوشل میڈیا کے جہادیوں کو دیتا ہوں۔ لیکن اس دعوت کے بعد کوئی جواب نہیں دیتا۔

جہاں تک لکھنے کی بات ہے تو میری تحریر مکمل ہے، مجھے اس موضوع پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور دو سال سے میں نے اس موضوع پر کسی کا جواب نہ دیا اور نہ ہی آئندہ دینا ہے۔ اب بات صرف سمجھنے سمجھانے کی ہے اور وہ بیٹھ کر ہو سکتی ہے۔

ہم نے طالبان سے بھی بیٹھ کر بات کی ہے، دھمکیاں ہمیں ملی ہیں اور سامنے بیٹھ کر دی گئی ہیں، ؛لیکن ہم نے پھر بھی اپنا موقف واضح کیا ہے، جہاد یہ ہے یا وہ جو آپ مجہول آئی ڈی سے کر رہے ہیں؟

اپنی شناخت چھپانے کی وجوہات کیا ہیں؟ اللہ نہ کرے آپ کا آئی ایس آئی سے تو تعلق نہیں ہے؟ حامد کمال الدین صاحب کو تو اپنی شناخت میں کوئی سیکورٹی خدشات نہیں ہیں؟
 
Last edited:

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
باقی جناب باربروسا آپ کے مجہول ہونے کی بات رہی تو اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ آپ کے بقول آپ کو اس فورم پر لوگ جانتے ہیں۔ میں نے کب انکار کیا کہ آپ کو یہاں فورم لوگ نہیں جانتے۔ آپ کو ون ٹو تھری فور فائیو سیکس سیون ایٹ نائن جانتے ہوں گے اور آپ ان کو جانتے ہوں گے۔ آپ یہاں اور بھی ایسے لوگ جانتے ہوں گے جنہیں آپ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہو گا۔ اور یہ بھی قوی امکان ہے کہ جنہیں آپ جانتے ہیں اور جو آپ کو جانتے ہیں، وہ سب ایک ہی شخصیت ہوں۔

آپ کے مجہول ہونے کا عالم یہ ہے کہ جس مجلے میں آپ کا تبصرہ شائع ہوا، وہ تک آپ کو نہیں جانتے یعنی طاہر الاسلام عسکری صاحب۔ میں نے ان سے آپ کے بارے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ باقی یہاں فورم پر آپ کا جو تعارف موجود ہے، اس کا لنک دے دیں، کم از کم آپ کا نام اور شہر تو معلوم ہو۔
محترم آپ کا قیاس مردودہے۔ جو آپ نے میرے اور مکر می باربروسا سے متعلق فرمایا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے نا آشنا ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ باربروسا صاحب کے اشکالات کا علمی سطح پر جواب دیں اور متانت کا مظاہرہ فرمائیں۔ ایک شخص آپ سے علمی لیول پر مکالمہ کرنا چاہتا ہے اور آپ اپنی کتاب کی طرح علمی دوالیہ پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
حافظ صاحب حضور! اب طعن و تشنیع" سے نکلے ہیں تو میری "مجہولیت" پر نظر کرم ہو گئی ہے آپ کی ، حالانکہ اس سے پہلے بہت جگہ آپ سے بات ہوتی رہی ہے لیکن تب مجہول نہ تھا شاید ! مجہول صرف اپ کو تھریڈ کو "چالو" کرنےکا ایک اور ایک نام مل گیا ہے ورنہ کتنے اس فورم میں ہیں جنہیں آپ واقعی جانتے ہیں! "سید عاصم علی " ایسے نام رکھیں اور کوئی آپ کو مجہول گردان جائے تو بات ہے! ۔۔۔۔ یہ شوق بھی پورا فرما لیں کل بھی کہا تھا تعارف کا تھریڈ ویسے آپ خود بھی دیکھ سکتے تھے۔یہ لنک ہے اس کا، پہلے دن ہی نام کے ساتھ وارد ہوا تھا آپ کی اس اقلیم علمی پر:
http://forum.mohaddis.com/threads/عبداللہ-آدم-کا-سلام-محبت.2991/

مزید یہ میرا بلاگ ہے اس میں سے بھی کچھ کشید کر سکتے ہوں تو مجھے خوشی ہو گی:
abdullahadam.blogspot.com

فیس بک پر میری آئی ڈی دیکھ سکتے ہیں :https://www.facebook.com/abdullah.adam.50

راولپنڈی بندے کا وطن مالوف ہے ، اسلامی یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے اور اب آپ کے نقش قدم پر ایم فل کر رہا ہوں۔
باقی ایقاظ نہ تو پہاڑوں سے نکلتا ہے اور نہ اس میں مجہولین کو جگہ دی جاتی ہے، میں یہ بات کرنا نہین چاہ رہا تھا لیکن آپ نے شاید قسم کھائی ہوئی ہے اصل ٹاپک پر بات نہ کرنے کی تو کسی دن شیخ حامد سے میرا تزکیہ لے لیجئے گا ،کم از کم یہ جواب آپ کو نہیں ملے گا کہ "ایہہ کونڑ اے!" ۔

آپ تو کتاب کو طبع کرنے سے پہلے انٹرنیٹ پر لوگوں کے ذہن کو اپنی ڈگر پر لانے کے لیے خوب خوب پھیلائیں اور اس پر اگر ملاحظات آئیں تو :" میں صرف اور صرف سامنے بیٹھ کر اس مسئلے پر مزید گفتگو کر سکتا ہو، یہی پیغام میں ایک عرصے سے سوشل میڈیا کے جہادیوں کو دیتا ہوں۔ لیکن اس دعوت کے بعد کوئی جواب نہیں دیتا۔" کیا معیارات ہیں اور کیا اس کے بعد حتمیت ہے ماشاء اللہ کہ جو لکھ دیا بس قلم توڑ دیا ۔۔۔۔اب آمنے سامنے بات ہو گی !! کہیے تو بھلا کیا کہیے اب ایسی مقدس ذاتوں کو

میرا خیال اب آپ اپنی کتاب میں کھلائے گئے گُلوں پر بات کرتے ہوئے کافی سے زیادہ فرحت و شادمانی محسوس کر سکیں گے، اگر مزید ایسا ہی کوئی شتونگڑا آپ کو نہ مل گیا جیسا کہ "طنز و تشنیع" اور "مجہول" وغیرہ کی صورت میں آپ کی ڈھال بناہے !معاف کیجئے گا "مجہول" کے تعارف کے لیے آپ ہی نے شدت شوق کے ساتھ فرمائش کی تھی!

اب مراسلہ 19 میں بطور مثال پیش کیے گئے "اجمال کی تفصیل" پر بات کرنا پسند کریں گے! یا حکم فرمائیں تو کل آپ کو فون کر کے مجہولیت کا داغ "مزید دور" کروا لوں پہلے!! عجیب واللہ عجیب!

آئندہ یہ "مجہول" صرف خط کے "اجمال کی تفصیلات" پر ہی بات کرے گا ان شاء اللہ۔

والسلام
 
Last edited:

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جناب باربروسا صاحب، آپ کاتعارف جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور اسلامک یونیورسٹی میں تفسیر کے تخصص کے ایم فل کے طالب علم ہیں۔ اب آپ سے کام کی گزارش یہ ہے کہ راقم نے اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں 11۔13 نومبر اسلامک یونیورسٹی میں ایک قرآن کانفرنس میں مقالہ پڑھنے کے لیے آنا ہے۔ وہاں کوئی نشست رکھ لیتے ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم یہ قرآن کانفرنس آپ ہی کے ڈیپارٹمنٹ کے تحت ہو رہی ہے یا نہیں لیکن آپ کی یونیورسٹی میں ضرور ہو رہی ہے۔

اب تو خادم آپ کے گھر تشریف لا رہا ہے۔ اب کچھ وقت نکالیں، اگر اپ کہیں گے تو پنڈی میں جو اپنا ایڈریس بتائیں گے، وہاں حاضر ہو جاوں گا۔ آپ کے بارے تزکیہ میں نے حامد صاحب سے کیا لینا ہے، آپ خود ہی اپنے بارے سب سے بڑا تزکیہ ہیں۔ آپ کے علم اور شخصیت کا جو تاثر آپ خود قائم کر سکتے ہیں، وہ کسی کے تزکیے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ اپنے اوپر اعتماد کریں اور ساتھ بیٹھ کر گفتگو کریں۔ گفتگو آپ اپنے تبصرے کے مندرجات پر ہی کر لیجیے گا۔ میں نے کب روکا ہے۔ بیٹھیں تو سہی!
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
جناب عالی و جنابان فورم!
اولا: یہاں کتاب پر تحریری گفتگو نہ کرنے کی کوئی علمی و منطقی دلیل موجود نہ ہے، یہ صرف آپ کا بار بار کی ایک "نہ"ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔اگر آپ نے کوئی تقریر کر رکھی ہوتی تو شاید آپ کے بیٹھ کر بات کرنے کے اصرار میں شاید کچھ جان بھی ہوتی !

دوم: محدث فورم کا اپنا مقصد وجود کیا ہے؟ یہی نا کہ یہاں مختلف موضوعات پر مختلف الخیال اصحاب علمی انداز میں تبادلہ خیال کریں۔ سو اس موضوع میں جانے ایسا کیا ہے کہ آپ دو سال سے بالمشافہ سے ہٹ کر تحریری بات کرنے کو یکسر خارج از امکان کیے بیٹھے ہیں۔ آپ کا مجہولیت والا اعتراض بھی صرف اسی غرض سے دور کیا گیا ہے ورنہ یہاں حدیث کی روایت نہیں ہو رہی

سوم : یہ کہ یہ ایک کتاب پر تبصرہ ہے ، اور تحریر کی بات ویسے بھی پائیدار ہوتی ہے۔ اور آپ سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ حسن موہل شہید ان شاء اللہ نے تو ایک تقریر کے جواب میں معرکۃالاراء کتاب لکھ دی تھی ، اور یہاں ایک چیز جب وجود میں ہی تحریری طور پر لائی گئی ہے تو اس پر تحریری مکالمہ کرنے میں سمجھ نہیں آتا کہ قباحت ہی کیا ہے؟آخر علمی مکالمہ ہی تو محدث فورم کا مقصد ہے۔

چہارم: جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے ، اس کتاب کے مضامین فردا فردا اسی فورم پر شیئر کیے گئے تھے اور یہان کے لوگوں کو ایک خاص نقطہ نظر پر قائل کرنے میں خاصے ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں ۔ اس لحاظ سے بھی احقاق حق اور ابطال باطل یہاں ہونا ہی قرین قیاس ہے کہ ایک موقف پیش کیا گیا تھا تو اب اس پر ملاحظات بھی یہیں پیش ہوں اور انہیں دور بھی یہیں کیا جائے، نہ کہ ہم دو اشخاص کی کوئی "ذاتی نشست" اس کا بدل ہو سکتی ہے۔

یہ سنجیدہ وجوہات اس غرض سے نہیں لکھی جا رہیں کہ اب ان کا جواب اور پھر جواب الجواب شروع ہو جائے کہ یہ کام تھریڈ کے دو درجن مراسلوں میں خوب ہو چکا، "اجمال کی تفصیل" کا آغاز میں کر چکا ہوں ،اب تیسری بار ملتمس ہوں کہ مراسلہ 19 میں امام طبری رحمہ اللہ کی عبارت کی قطع و برید کے عائد کردہ "الزام" کے حوالے سے کچھ ارشاد فرماویں۔ ورنہ میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ کار نہ ہو گا کہ ایک آدھ دن انتظار کے بعد وقفے وقفے سے ترتیب وار باقی تفصیلات بھی یہاں جمع کرتا جاؤں گا تاکہ یہ سلسلہ مکمل ہو سکے۔ان شاء اللہ۔ اور اس سلسلے میں آپ کی عدم شرکت کو محض ضد کے سوا اور کسی چیز پر محمول نہ کرنا مجبوری ہو گی۔

باقی مجہولیت سے معروفیت کی طرف آ کر خوشی ہوئی :) ویک اینڈپر سرگودھا جانا ففٹی ففٹی ہے، یہیں ہوا تو ان شاء اللہ ملاقات بھی لازما ہو گی،چشم ما روشن دل ماشاد۔ کتاب و تبصرہ پر گفتگو البتہ یہاں جاری رہے گی۔

اللھم حبب الینا الایمان وزینہ فی قلوبنا وکرہ الینا الکفر والفسوق والعصیان واجعلنا من الراشدین آمین
 
Last edited:

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
آپ کے تبصرے سے معلوم ہوا کہ آپ کا علمی مقام ومرتبہ میری معلومات سطحی ہیں، اصول تحقیق سے دور ہوں وغیرہ۔ حضرت آپ مکالمہ نہ کریں لیکن کم ازکم آپ جیسے قابل آدمی سے شرف تلمذ قائم کرنے کے لیے آپ کی تلاش ضرور جاری رہے گی۔ مولانا ویک اینڈ میں آپ ضرور سرگودھا جائیں۔ جو ویک اینڈ گھر پر ہوں، وہی بتلا دیں۔ خادم حاضر ہو جائے گا۔ باقی اب بھی یہ طالب علم اپنے تئیں کوشش ضرور کرے گا کہ جب بھی راولپنڈی، اسلام آباد آمد ہو تو یونیورسٹی یا گھر پر حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل ہو بشرطیکہ حضرت ہمیں دیکھ کر اپنے علم کے ساتھ دوڑ نہ لگا دیں۔ خادم، کتاب لیے آپ کے در پر حاضر ہو جائے گا، ان شاء اللہ، اگر آپ راولپنڈی سے کہیں اور شفٹ نہ ہو گئے، شاید اسی طرح راقم کے قابل اساتذہ میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے۔

باقی اسلامی یونیورسٹی میں آپ کے اساتذہ سے بھی گزارش کروں گا، بشرطیکہ ان پر آپ کا مقام ومرتبہ آشکار ہوا، کہ اپنے علاوہ ہمارے لیے بھی اپنے ہونہار شاگرد سے استفادہ کا کوئی موقع پیدا کریں۔

حضرت الاستاذ مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ تعالی مجھے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اسلامک یونیورسٹی اور جامعہ رحمانیہ کے طلباء کے مابین متنوع موضوعات ایک علمی مذاکرہ کروائیں کیونکہ اب لاہور انسٹی فار سوشل سائنسز، لاہور میں اسلامک یونیورسٹی ہی کے سب کیمپس کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ اور اسلامک یونیورسٹی کے صدر کی سعودی عرب واپسی پر ان کے سامنے علمی مذاکرے کی یہ تجویز رکھنے والے ہیں۔ حضرت الاستاذ کا کہنا یہ بھی تھا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جامعہ رحمانیہ کی طرف سے راقم کی بھی اس علمی مکالمہ میں شرکت ہو۔ میں حضرت الاستاذ کی خدمت میں آنجناب کا نام بھی پیش کر دیتا ہوں کہ اسلامک یونیورسٹی کے صدر کو اسلامک یونیورسٹی کی طرف سے آپ کا نام پیش کیا جائے۔ شاید اس طرح ہمیں یعنی جامعہ رحمانیہ کے طلباء کو اسلامک یونیورسٹی کے طلباء سے استفادہ کا کوئی موقع مل سکے۔ مولانا اپنے تئیں تو ہم یہی کوششیں کر سکتے ہیں، باقی اگر آپ اپنے علم کے ساتھ دوڑ لگا کر اگر اپنا علم چھپانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی! کسی کا علم اس سے زبردستی چھینا نہیں جا سکتا۔ ہاں! خواہش ضرور کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے محنت، اور اتنی کہ صاحب علم کے در پر جا کر بیٹھ جائیں۔ اس کے بعد بھی اگر دروازہ نہ کھلے تو پھر ہماری قسمت!

اور مولانا تفسیر طبری کو ریوائز کرنا بھی نہ بھولئے گا، راقم طبری بھی ساتھ لے کر ہی حاضر ہو گا۔ اس شرف تلمذ کے بعد جیسے استاذ محترم آپ حکم دیں گے، کتاب میں تہذیب وتنقیح کر لی جائے گی۔ اگر دل اب بھی استاذ بننے پر آمادہ نہ ہو تو جناب حامد کمال الدین صاحب سے میرے بارے تزکیہ لے لیجیے گا، وہ آپ کو ضرور مشورہ دیں گے کہ طالب علم اچھا ہے، موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔

اس کے بعد اگلی گفتگو میری طرف سے آپ سے ملاقات پر ہو گی۔ آپ اس تھریڈ میں اپنا علم بانٹیں اور ہم آپ کے در پر حاضر ہو کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ علم اور صاحب علم کی قدر دونوں اسی میں ہیں۔ جزاکم اللہ خیرا
 
Last edited:

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
ابوالحسن علوی بھائی! آپ کے متعلق ایک بات کہنا چاہتا ہوں جو میرے دل میں ہے برائے مہربانی ناراض نہ ہوئیے گا (کیونکہ فورم کے لوگوں کی عادت ہے کہ چھوٹی سی بات پر ناراض ہو کر لمبے عرصے کے لئے بولنا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کسی بھی موضوع میں رہنمائی نہیں کرتے تعصب کی بنا پر۔۔ واللہ اعلم)

آپ کی تحاریر میں بہت شوق سے پڑھتا ہوں، کیونکہ آپ کا انداز بیان @شاہد نذیر بھائی کے انداز بیان کی طرح بہت عمدہ ہے، آپ کسی بھی موضوع پر جب کوئی تحریر لکھتے ہیں کہ تو اس موضوع پر بھرپور انداز میں رہنمائی کرتے ہیں اور کوشش سے ہر پہلو پر کلام کرتے ہیں جیسے تکبر اور حرام امور کے موضوع پر آپ کی تحاریر ہیں۔

لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں نے حساس موضوع پر آپ کی جتنی بھی تحاریر کا مطالعہ کیا ہے تشنگی باقی رہی ہے، آپ صرف اس متعلقہ موضوع میں جس موقف کے حامی ہوتے ہیں صرف اسی پر کلام کرتے ہیں اور صرف اسی کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ مخالف موقف چھپ جائے، جیسے کہ طبری کی بات پر عبداللہ آدم بھائی نے توجہ دلائی، انتہائی افسوسناک بات ہے یہ، مجھ جیسے ایک عام سے لڑکا کبھی بھی اس بات کو نہ پہچان سکتا، یہ تو عبداللہ آدم بھائی جو عالم ہیں انہوں نے وضاحت کی، ورنہ میں تو جانتا بھی نہیں ہوں کہ طبری صاحب کون ہیں چہ جائیکہ میں اس قدر اہم بات کی نشاندہی کرتا، میں آپ کی نیت پر شک نہیں کرتا، اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے لیکن آپ مانیں یا نہ مانیں اسے اصطلاح میں "علمی بددیانتی" کہا جاتا ہے۔

آپ کی حساس موضوع پر تحریروں میں تشنگی کس طرح باقی رہتی ہے اس کی مثال یوں لیں
پہلی تشنگی
آپ اپنے مضمون "توحید حاکمیت اور فاسق وظالم حکمرانوں کی تکفیر" میں ایک ہیڈنگ لکھتے ہیں "سعودی عرب میں تکفیر کی تحریک" اور پھر شروع میں ہی لکھتے ہیں:
سعودی حکمران خاندان آل سعود کی اسلام مخالف خارجہ پالیسیوں ' بعض اسلامی ممالک کے خلاف امریکی حکومت کو لاجسٹک سپورٹ اور اڈوں کی فراہمی اور امریکہ کے ساتھ حد سے بڑھے ہوئے تعلقات کے تناظر میں بعض اہل علم اور دینی طبقات کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار ہوا۔ سعودی حکمرانوں نے اس رد عمل کے نتیجے میں اپنی اصلاح کی بجائے ایسے دینی عناصر کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر دیایا ملک بدر کر دیایا جبر و اکراہ کے ساتھ یک طرفہ شرائط منواتے ہوئے اپنی سابقہ حیثیت پر برقرار رکھا۔ اس ظلم کے نتیجے میں خاندان آل سعود کی تکفیر کی تحریک شروع ہو گئی
اس پیراگراف کے بعد آپ نے تکفیر کے موضوع پر زبردست کلام کیا ہے، لیکن اس اہم پیراگراف کی تشریح کو آپ کا یکسر نظر انداز کرنا محل نظر ہے، قاری کے لئے یہ بات مطالعے کے درمیان اہم ہے کہ اگر تکفیر کی بنیاد یہ باتیں بنی مثلا:
  1. آل سعود نے اسلام کے خلاف پالیسیاں بنائیں (کیا اسلام کے خلاف پالیسیاں بنانا محض کوئی صغیرہ گناہ ہے)
  2. اسلامی ممالک کے خلاف کافروں کی لاجسٹک سپورٹ کی
  3. اسلامی ممالک کے خلاف کافروں کو اپنے اڈے فراہم کئے
  4. علماء نے بھی شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا
  5. علماء کو بھی قید و بند کر دیا گیا لیکن اپنی اصلاح نہیں کی
  6. جبرا اپنی اسلام مخالف پالیسیوں کو منوانے کی کوشش کی گئی
جب مجھ جیسا ایک عام قاری مطالعے کے شروع میں یہ باتیں پڑھتا ہے تو اس کا ذہن فورا اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ پھر حکمرانوں کے ان اعمال کی سزا شریعت کی روشنی میں کیا ہے، اسلام کے خلاف کاروائیاں کرنا، کافروں کی مسلمانوں کے خلاف مدد کرنا، اور دیگر باتیں ، اس بات کی متقاضی ہیں کہ شریعت کی روشنی میں ان پر بھی کلام کیا جائے، کہ ان کا کیا حکم ہے، ایسی صورتحال میں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے ہی نام نہاد مسلمان پالیسیاں بنائیں اور اپنے دفاع، اور اپنے مذھب کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہونے والوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جائے، آخر اس صورتحال میں شریعت نے کیا رہنمائی کی ہے، آواز دبانے والے کس کھاتے میں شمار ہوتے ہیں، لیکن آپ نے ان کو یکسر نظر انداز کر دیا، اور آج تک آپ کی کوئی بات اس موضوع پر پڑھنے کو نہیں ملی۔

دوسری تشنگی
آپ نے اپنے پورے مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ظالم، فاسق اور بے نمازی حکمرانوں کے خلاف کاروائی اب قیامت تک نہیں ہو سکتی، یہ حرام ہے، اور اس کی علت آپ نے یہ بیان کی کہ چونکہ ان سے لڑنے کی پوزیشن میں آج اور شاید آئندہ کبھی مسلمان نہ آ سکیں، ورنہ بھاری نقصان اٹھا بیٹھیں گے لہذا یہ حرام ہے( شاید اسی طرح کی کوئی بات لکھی آپ نے صحیح یاد نہیں)

اہم وجہ مختصر یہ ہے کہ مسلمانوں کو بڑے نقصان سے بچایا جائے، تو مسلمانوں کا نقصان تو ویسے بھی ہو رہا ہے، بلکہ کافروں سے زیادہ یہ کافروں کی مدد کرنے والے نقصان کر رہے ہیں، مسلمانوں کی عزتیں ویسے ہی لٹ رہی ہیں، بچے ویسے قتل ہو رہے ہیں، نوجوان ویسے ذبح کئے جا رہے ہیں، اور تو اور اب عیسائیوں کے خلاف حرم میں بد دعا تک نہیں ہو سکتی، اس قدر اذہان ہمارے کافروں کے خلاف کاروائیوں کی مخالفت میں ہیں، تو پھر اس صورت میں کیا کیا جائے، صبر کیا جائے تو کس حد تک، کیا یہ برداشت کر لیا جائے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری مسلمان بہنوں کی عزتیں لوٹیں، بچے قتل ہوں، نوجوان قتل ہوں، جب اسی نقصان سے بچنے کے لئے مسلمانوں نے صبر کیا اور اپنی زبان بند رکھی وہ تو ویسے ہی ہو گیا۔ اب کیا کیا جائے، آپ نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا۔

بھائی برا نہ منانا، یہ میرے دل کی بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے، اب یہ آپ کا ظرف ہے کہ برا مان جائیں، آئندہ کے لئے بولنا چھوڑ دیں، میری پوسٹوں پر ریٹنگ کرنا چھوڑ دیں، میرے خلاف کوئی لکھے تو اسے بڑھ چڑھ کر ریٹنگ کریں، یا مجھے نظر انداز کرنے والی لسٹ میں ڈال دیں، کیونکہ اکثر ممبران کی اب یہی کیفیت بنتی جا رہی ہے۔ واللہ اعلم، یا پھر چاہیں تو چھوٹا بھائی سمجھ کر یہ تشنگی دور کر دیں۔ جزاک اللہ خیرا

والسلام
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
السلام علیکم
ابوالحسن علوی بھائی! آپ کے متعلق ایک بات کہنا چاہتا ہوں جو میرے دل میں ہے برائے مہربانی ناراض نہ ہوئیے گا (کیونکہ فورم کے لوگوں کی عادت ہے کہ چھوٹی سی بات پر ناراض ہو کر لمبے عرصے کے لئے بولنا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کسی بھی موضوع میں رہنمائی نہیں کرتے تعصب کی بنا پر۔۔ واللہ اعلم)

آپ کی تحاریر میں بہت شوق سے پڑھتا ہوں، کیونکہ آپ کا انداز بیان @شاہد نذیر بھائی کے انداز بیان کی طرح بہت عمدہ ہے، آپ کسی بھی موضوع پر جب کوئی تحریر لکھتے ہیں کہ تو اس موضوع پر بھرپور انداز میں رہنمائی کرتے ہیں اور کوشش سے ہر پہلو پر کلام کرتے ہیں جیسے تکبر اور حرام امور کے موضوع پر آپ کی تحاریر ہیں۔

لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں نے حساس موضوع پر آپ کی جتنی بھی تحاریر کا مطالعہ کیا ہے تشنگی باقی رہی ہے، آپ صرف اس متعلقہ موضوع میں جس موقف کے حامی ہوتے ہیں صرف اسی پر کلام کرتے ہیں اور صرف اسی کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ مخالف موقف چھپ جائے، جیسے کہ طبری کی بات پر عبداللہ آدم بھائی نے توجہ دلائی، انتہائی افسوسناک بات ہے یہ، مجھ جیسے ایک عام سے لڑکا کبھی بھی اس بات کو نہ پہچان سکتا، یہ تو عبداللہ آدم بھائی جو عالم ہیں انہوں نے وضاحت کی، ورنہ میں تو جانتا بھی نہیں ہوں کہ طبری صاحب کون ہیں چہ جائیکہ میں اس قدر اہم بات کی نشاندہی کرتا، میں آپ کی نیت پر شک نہیں کرتا، اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے لیکن آپ مانیں یا نہ مانیں اسے اصطلاح میں "علمی بددیانتی" کہا جاتا ہے۔


آپ کی حساس موضوع پر تحریروں میں تشنگی کس طرح باقی رہتی ہے اس کی مثال یوں لیں
پہلی تشنگی
آپ اپنے مضمون "توحید حاکمیت اور فاسق وظالم حکمرانوں کی تکفیر" میں ایک ہیڈنگ لکھتے ہیں "سعودی عرب میں تکفیر کی تحریک" اور پھر شروع میں ہی لکھتے ہیں:


اس پیراگراف کے بعد آپ نے تکفیر کے موضوع پر زبردست کلام کیا ہے، لیکن اس اہم پیراگراف کی تشریح کو آپ کا یکسر نظر انداز کرنا محل نظر ہے، قاری کے لئے یہ بات مطالعے کے درمیان اہم ہے کہ اگر تکفیر کی بنیاد یہ باتیں بنی مثلا:
  1. آل سعود نے اسلام کے خلاف پالیسیاں بنائیں (کیا اسلام کے خلاف پالیسیاں بنانا محض کوئی صغیرہ گناہ ہے)
  2. اسلامی ممالک کے خلاف کافروں کی لاجسٹک سپورٹ کی
  3. اسلامی ممالک کے خلاف کافروں کو اپنے اڈے فراہم کئے
  4. علماء نے بھی شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا
  5. علماء کو بھی قید و بند کر دیا گیا لیکن اپنی اصلاح نہیں کی
  6. جبرا اپنی اسلام مخالف پالیسیوں کو منوانے کی کوشش کی گئی
جب مجھ جیسا ایک عام قاری مطالعے کے شروع میں یہ باتیں پڑھتا ہے تو اس کا ذہن فورا اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ پھر حکمرانوں کے ان اعمال کی سزا شریعت کی روشنی میں کیا ہے، اسلام کے خلاف کاروائیاں کرنا، کافروں کی مسلمانوں کے خلاف مدد کرنا، اور دیگر باتیں ، اس بات کی متقاضی ہیں کہ شریعت کی روشنی میں ان پر بھی کلام کیا جائے، کہ ان کا کیا حکم ہے، ایسی صورتحال میں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے ہی نام نہاد مسلمان پالیسیاں بنائیں اور اپنے دفاع، اور اپنے مذھب کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہونے والوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جائے، آخر اس صورتحال میں شریعت نے کیا رہنمائی کی ہے، آواز دبانے والے کس کھاتے میں شمار ہوتے ہیں، لیکن آپ نے ان کو یکسر نظر انداز کر دیا، اور آج تک آپ کی کوئی بات اس موضوع پر پڑھنے کو نہیں ملی۔

دوسری تشنگی
آپ نے اپنے پورے مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ظالم، فاسق اور بے نمازی حکمرانوں کے خلاف کاروائی اب قیامت تک نہیں ہو سکتی، یہ حرام ہے، اور اس کی علت آپ نے یہ بیان کی کہ چونکہ ان سے لڑنے کی پوزیشن میں آج اور شاید آئندہ کبھی مسلمان نہ آ سکیں، ورنہ بھاری نقصان اٹھا بیٹھیں گے لہذا یہ حرام ہے( شاید اسی طرح کی کوئی بات لکھی آپ نے صحیح یاد نہیں)

اہم وجہ مختصر یہ ہے کہ مسلمانوں کو بڑے نقصان سے بچایا جائے، تو مسلمانوں کا نقصان تو ویسے بھی ہو رہا ہے، بلکہ کافروں سے زیادہ یہ کافروں کی مدد کرنے والے نقصان کر رہے ہیں، مسلمانوں کی عزتیں ویسے ہی لٹ رہی ہیں، بچے ویسے قتل ہو رہے ہیں، نوجوان ویسے ذبح کئے جا رہے ہیں، اور تو اور اب عیسائیوں کے خلاف حرم میں بد دعا تک نہیں ہو سکتی، اس قدر اذہان ہمارے کافروں کے خلاف کاروائیوں کی مخالفت میں ہیں، تو پھر اس صورت میں کیا کیا جائے، صبر کیا جائے تو کس حد تک، کیا یہ برداشت کر لیا جائے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری مسلمان بہنوں کی عزتیں لوٹیں، بچے قتل ہوں، نوجوان قتل ہوں، جب اسی نقصان سے بچنے کے لئے مسلمانوں نے صبر کیا اور اپنی زبان بند رکھی وہ تو ویسے ہی ہو گیا۔ اب کیا کیا جائے، آپ نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا۔

بھائی برا نہ منانا، یہ میرے دل کی بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے، اب یہ آپ کا ظرف ہے کہ برا مان جائیں، آئندہ کے لئے بولنا چھوڑ دیں، میری پوسٹوں پر ریٹنگ کرنا چھوڑ دیں، میرے خلاف کوئی لکھے تو اسے بڑھ چڑھ کر ریٹنگ کریں، یا مجھے نظر انداز کرنے والی لسٹ میں ڈال دیں، کیونکہ اکثر ممبران کی اب یہی کیفیت بنتی جا رہی ہے۔ واللہ اعلم، یا پھر چاہیں تو چھوٹا بھائی سمجھ کر یہ تشنگی دور کر دیں۔ جزاک اللہ خیرا


والسلام

جزاکم اللہ خیرا۔ مجھے ان کاموں میں سے کچھ بھی نہیں کرنا جن کا ذکر آپ نے اپنے آخری پیرا گراف میں کیا ہے بلکہ مجھے تو آپ کی اس تحریر پر ہنسی آ رہی ہے۔ علم کی دنیا، جذبات کی دنیا نہیں ہے۔ یہ بہت وسیع ہے۔ اس کا کچھ شعور ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنہیں اچھے اساتذہ میسر ہوئے ہوں اور وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ وافر تعداد میں۔

میرے بھائی ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ذہنی سطح بہت گر گئی ہے۔ جسے یہ نہیں معلوم کہ تنقید کی تعریف کیا ہے؟ وہ بھی تنقید کر رہا ہے۔ آپ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ ہم خود ایسی حرکتیں کر آئے ہیں کہ اب ان پر ہنسی آتی ہے۔ لوگ تنقید کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں یا جس ذہنی سطح اور جذبے سے کرتے ہیں، ان سب کیفیات اور احوال سے میں بہت پہلے گزر چکا ہوں۔ لیکن میں نے پڑھا، ہر کسی کو پڑھا۔ جسے فیضی صاحب کہتے ہیں کہ الم غلم پڑھا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ الم غلم لیکن یہ کہ ادب، فلسفہ، سائیکالوجی، مذہب جس میں بھی اچھی تحریر ملی، اس کو پڑھا۔ آج کل مجموعہ حسن عسکری کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ پھر غور کیا۔ اپنے رویوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ اور زبانی اور تحریری اقرار کیا کہ میں غلط تھا، میرا رویہ درست نہ تھا۔ میری تنقید کے مقاصد ٹھیک نہ تھے۔ اس قدر اپنی ذات پر غور کیا کہ میں دوسرے انسانوں کے عمل، رویوں کو بہت قریب سے اور گہرائی میں سمجھنا شروع ہو گیا۔ یہ ایک مصیبت تھی لیکن یہ ہو گیا۔ نہ چاہنے کے باوجود ہو گیا۔ اب تنقید آپ نے بھی کی۔ آپ نے علمی بدیانتی کے الفاظ تک استعمال کیے لیکن یقین مانیں، ارسلان، یہ الفاظ پڑھ کر بھی مجھے غصہ نہیں آیا بلکہ ہنسی آئی ہے اور دل میں یہ خیال آیا۔ او! یار ابی تک بچہ ہی ہے جبکہ عبد اللہ آدم کے تبصرے مجھے شدید ذہنی اذیت سے دوچار کیا۔ فرق یہ ہے کہ دونوں کی تنقید کی وجوہات میں فرق ہے۔ ایک یعنی ارسلان کی تنقید کا مقصد دینی غیرت ہے جبکہ دوسرے کی تنقید کا مقصد اپنی ذات کا تعارف ہے۔ یہ فرق میں نہ بھی کرنا چاہوں تو میرا ذہن کر دیتا ہے کیونکہ وہ ان سارے مراحل سے گزرا ہے۔ میں ایسی ہی تنقید کیا کرتا تھا جیسا کہ عبد اللہ آدم کر رہے ہیں اور اسی جذبے کے ساتھ۔ لیکن مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلط تھا، میں نے اصلاح کی کوشش کی۔ مجھے عبد اللہ آدم کی تحریر پڑھ کر وہ ابو الحسن علوی یاد آتا ہے جو غلط تھا۔ جس کی تنقید شاید درست بھی ہو لیکن اس کی تنقید کی وجوہات اور مقاصد درست نہیں تھے، اور شاید وہ ابو الحسن علوی لاشعور ایسا کر رہا ہو لیکن میں نے اس ابو الحسن علوی کے لاشعور کو بھی کھنگالا۔ میرے بھائی میں شر کو اس لیے پہچانتا ہوں کہ میں اس کی ساری وادیاں گھوم چکا ہوں۔ لہذا جو بات لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، وہ مجھے سمجھ آ جاتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی، لاشعوری طور۔

سیر سید احمد خان کو کسی نے کہا کہ میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ پر تنقید شروع کر دو، بڑے بن جاو گے۔ یعنی طنزا کہا۔ اور آج کل کی تنقید کا کل خلاصہ یہی ہے۔ اور یہ میں نے بھی کیا۔ اللہ مجھے معاف فرمائے۔ اور یہی چیز جب کسی ناقد میں دیکھتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے غامدی صاحب پر تنقید کی۔ غامدی صاحب کے شاگردوں کو اور خود ان کو بہت تکلیف ہوئی۔ ان کے ایک شاگرد نے آ کر مجھے قرآن اکیڈمی میں میری کتاب لا کر دکھائی کہ یہ دیکھو تم نے اپنی کتاب میں غامدی صاحب کی نیت پر حملہ کیا۔ میں نے وقتی طور تو اپبا دفاع کیا لیکن بعد میں سوچا۔ میں غلط تھا۔ میں نے انہیں کہا میں کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اس جملے کو نکال دوں گا۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ اگر آپ کو غامدی صاحب پر اس جملے کے علاوہ میری کتاب میں ایسا جملہ نظر آئے جو ان کی ذات پر تنقید ہو تو مجھے وہ بھی بتائیں، میں اگلے ایڈیشن میں نکال دوں گا۔ غامدی صاحب کے شاگرد نے اگرچہ اس جملے کے سبب سے مجھے میرے منہ پر بہت برا بھلا کہا، لعن طعن کیا لیکن میں نے مانا، میری غلطی تھی۔ یہ جملہ ذاتیات سے متعلق تھا۔ مجھے جھکنا پڑا، بلکہ مجھے جھکنا ہی تھا۔ مجھے ان کو برداشت کرنا تھا، چاہے میرے اور ان کے مابین زمین وآسمان کے اختلافات تھے۔

غامدی صاحب کے شاگردوں نے میری کتاب پر تبصرہ کیا کہ میں نے غامدی صاحب کا موقف صحیح پیش نہیں کیا۔ ارسلان بھائی، مجھے اس کی بہت تکلیف ہوئی، اس لیے بھی کہ مجھے اللہ کے ہاں اپنی تحریر کا حساب بھی دینا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں غامدی صاحب پر تنقید کر کے کہیں اپنا علمی قد تو اونچا کرنے کی کوشش نہیں کر رہا؟ ہاں میرے بھائی، کچھ نیک لوگوں کی صحبت نے مجھ میں یہ فکر پیدا کر دی کہ اب میں جب کسی پر تنقید کرتا ہوں تو تنہائی میں اپنے پر اس سے زیادہ تنقید کرتا ہوں کہ میرے مقاصد کیا تھے؟ میں اس تنقید سے چاہتا کیا تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرا نفس دین کے رستے ہی سے مجھے دھوکے میں ڈالے گا۔ ہمارے ہاں جب کسی نقاد کو کہا جاتا ہے کہ تم نے جس پر تنقید کی ہے، اسے سمجھا نہیں ہے تو وہ اس ک بالکل پرواہ نہیں کرتا کیونکہ اخلاق اور علم دونوں کا معیار بہت گر چکا ہے۔ میں غامدی صاحب کے ادارے میں گیا۔ ہم نے ان سے براہ راست مجالس کیں کہ براہ راست ان سے ان کا موقف سمجھیں۔ لیکن ان اجتماعی علمی مجالس میں بھی مناظراتی رنگ غالب آ جاتا تھا۔ پھر میں نے غامدی صاحب سے اکیلے میں ان کے گھر پر وقت لیا اور کہا کہ میں صرف آپ کا موقف سمجھنا چاہتا ہوں اور یہ وقت اس وقت لیا جبکہ فکر غامدی کے نام سے میری کتاب کے دو ایڈیشن نکل چکے تھے۔ میں غامدی صاحب کے گھر گیا، کیوں، صرف ایک بات پر کہ انہوں نے کہا کہ ابو الحسن علوی کو ہمارا موقف سمجھ نہیں آیا۔ میں ان سے تقریبا دو گھنٹے ملاقات کی۔ کوئی مناظرہ نہیں تھا۔ کوئی مکالمہ نہیں تھا۔ میں صرف ان کے سامنے یہ بات رکھتا تھا کہ غامدی صاحب آپ کی کتاب سے مجھے یہ بات سمجھ آئی ہے؟ کیا میں صحیح سمجھا ہوں۔ بعض اوقات وہ کہتے کہ تم نے صحیح سمجھا ہے، میری فکر یہی ہے۔ بعض اوقات وہ کہتے کہ تم نے غلط سمجھا ہے، میری کتاب میں دیے الفاظ کا یہ معنی یوں نہیں یوں ہے۔ ہم نے غامدی صاحب پر کام کیا تو کراچی تک گئے، ان کے شاگردوں سے علمی مجالس کی ہیں کہ ان کا موقف کیا ہے۔ صرف ان کی کتاب دیکھ کر تنقید شروع نہیں کر دی۔ اگرچہ شروع میں ایسا ہی کیا تھا لیکن بعد میں غلطی کا احساس ہوا لہذا میری فکری غامدی پر کتاب کا آخری ایڈیشن ان سے ملاقات کے بعد کا کہا۔ اور میں نے اپنی کتاب میں اس ملاقات کے بعد کافی اضافے اور تہذیب کی۔ اب یہ تنقید ایسی تھی کہ جسے کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ سمجھا ہی نہیں۔ اب یہ تنقید ایسی تھی کہ غامدی صاحب کے ادارے سے وابستہ بعض لوگوں نے اس کی تعریف کی، اگرچہ موقف سے اتفاق نہ بھی کیا ہو۔

یہی معاملہ تکفیر اور خروج کے موضوعات پر لکھنے کا ہی ہے۔ جب لوگوں کو اس موضوع کا علم نہیں تھا یعنی یہاں پاکستان میں تو میں اس وقت تکفیر کیا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ غالبا یہ 2005 یا 2006 کی بات ہے کہ میرے پاس طالبان کا ایک وفد آیا، قرآن اکیڈمی میں، اور میں نے انہں پرویز مشرف کی تکفیر کا فتوی باقاعدہ لکھ کر دیا۔ اگرچہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اسے میرے نام سے نشر نہیں کیا اور صرف اپنے تک ہی محدود رکھا لیکن اتنا ضرور کہا کہ تم پاکستان میں وہ پہلے واحد اور ربانی عالم دین ہو جس نے حق بات کہی ہے۔ ہم طالبان کے ساتھ بیٹھے۔ میرے بعض شاگرد وزیرستان میں جا کر شہید ہوئے ہیں یا انہوں نے پاکستانی طالبان میں شمولیت اختیار کر لی لیکن میں انہیں روکتا تھا۔ میں اس درمیانی فیز سے نکل آیا کہ جس میں لوگ ابھی مبتلا ہیں۔ میں ان لوگوں اور ان کی فکر سے لا علم نہیں تھا۔ میں ان میں اٹھتا بیٹھتا تھا، ان سے ان کا موقف معلوم کرتا تھا، ان سے سمجھتا تھا اور شروع میں ایک محدود وقت کے لیے ان کا موید تھا لیکن بعد میں میں نے رجوع کر لیا تھا۔ میں ایک تحریک سے وابستہ شخص ہوں جو دین کے غلبہ کی جدوجہد کر رہی ہے۔ مجھے اس تحریک سے بعض فکری اور نظری اختلافات ہیں لیکن اس کے باوجود میں صرف علمی بحثیں نہیں کرتا بلکہ دین کے غلبے کے لیے جس طریقے سے جدوجہد کو درست سمجھتا ہوں، اسکے مطابق اپنی بساط کی حد تک عمل کر رہا ہوں کیونکہ میں اسے کم ازکم اپنے لیے فرض سمجھتا ہوں۔

میں ہر جگہ گیا ہوں، ہر کسی کا موقف اس کی زبان میں سننے کی ممکن کوشش کی ہے۔ میں طاہر القادری کے پیچھے گیا ہوں۔ اس کے خطبات سنے ہیں۔ میں نے اس کے بارے جاننے کے لیے محض اس کی کتابوں یا لوگوں کی خبروں پر اعتماد نہیں کیا۔ میں صوفیوں کی ذکر کی مجلسوں میں بیٹھا ہوں۔ میں نے معسکرات جا کر دیکھے ہیں۔ اس سے مجھے لوگوں کو سمجھنے میں بہت آسانی ہو گئی اور لوگوں کی گہرائی کا علم ہوا۔

فلسطین کے مسئلہ پر جناب عمار خان ناصر صاحب سے ماہنامہ الشریعہ کے مضامین میں بحث ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ بہت المقدس یہود کا قبلہ ہے لہذا مسلمانوں کو اس پر ان کا حق تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ اسلام غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرتا تھا۔ لوگوں نے عمار خان ناصر پر تنقید کی، جذباتی تنقید کی، اسے ایجنٹ قرار دیا۔ میں نے بھی تنقید کی۔ شروع میں میرا انداز بھی جذباتی تھا اور مجھے آج تک اس پر افسوس ہے۔ لیکن میں نے ان کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کی بنیاد تلاش کی اور پھر اس پر نقد کی۔ اور وہ بنیاد یہ نکتہ تھا کہ بیت المقدس یہود کا قبلہ کبھی بھی نہیں رہا ہے یہود کا قبلہ بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ تھا۔ صرف ایک نکتہ، ان کی تحقیق کی بنیاد ہل گئی۔ عمار خان صاحب پہلے تو یہ چاہتے تھے کہ بیت المقدس کے بارے اپنی رائے کو کتابی صورت میں پبلش کریں لیکن میری تنقید کے بعد انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا اور بعد ازاں ایک ملاقات میں کہا کہ آپ نے خوب نکتہ پکڑا ہے۔

ارسلان بھائی، المیہ یہ ہے کہ جس پر واقعتا رونا آتا ہے، کہ ذہنی سطح بہت گر گئی ہے۔ ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ اگلے کا موقف سمجھ سکھیں۔ کچھ سال پہلے ایک پی ایچ ڈی فزکس جو مذہب کا منکر تھا، اس کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور خدا کے وجود پر بحث ہوئی۔ نشست ختم ہونے پر اس کا تبصرہ تھا کہ تم پہلے مولوی ہو کہ جسے میرا اعتراض سمجھ میں آیا ہے اور مجھے اس کی خوشی ہے کہ تمہاری ذہنی سطح اتنی بلند ہے کہ اعتراض سمجھ پائے ہو۔ جواب تو بعد کی بات ہے۔ یہی حال ہمارے اس وقت کے مذہبی طبقے کا ہے۔ ہم ذرا اپنے دڑبوں سے باہر نکل کر کسی کے ساتھ بیٹھیں تو ہمیں معلوم کہ آٹے دال کا بھاو کیا ہے۔ ہم کسی ایک شخص کی فکر سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ساری زندگی اسی کے گن گانے میں گزار دیتے ہیں۔ اور اس کے گن بھی اس مقصد سے نہیں گاتے کہ وہ بڑا آدمی تھا بلکہ اس لیے کہ اس کی بڑائی کا تذکرہ کر کے ہم اس سے اپنے تعلق کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی بڑائی ثابت کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ کرتے ہیں، مذہبی لوگ، لکھنے والے، بولنے والے، علم کی طرف اپنی نسبت کرنے والے۔ یہ میں نے بھی کیا، لہذا جب لوگ کرتے ہیں تو مجھے سمجھ آتی ہے۔

جہاں تک میری تکفیر اور خروج والی کتاب کا تعلق ہے تو مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک اس پر کی گئی تنقید ردی ہیں۔ اس لیے نہیں کہ میری تحقیق کامل ہے، یا میں تنقید سے بالاتر ہوں یا مجھ میں کسی ناقد کی تعریف کا جگرا نہیں ہے۔ بھائی اس لیے کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ناقد کا اتنا بھی ذہنی لیول نہیں ہے کہ وہ میری کتاب کو سمجھ سکے۔ چلیں اس سے تو در گزر کیا جا سکتا کہ ہر کسی کی ذہنی سطح اتنی نہیں ہوتی لیکن اگر اس ناقد کا جذبہ محرکہ بھی منفی ہو تو پھر یہ چیز مجھے ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے کہ ایک تو ذہنی سطح نہیں اور دوسرا جذبہ بھی منفی ہے۔ آپ کے کیس میں ذہنی سطح نہیں ہے لیکن جذبہ مثبت ہے لہذا مجھے ہنسی آئی۔ عبد اللہ آدم کے کیس میں ذہنی سطح بھی نہیں ہے اور جذبہ بھی منفی ہے لہذا مجھے غصہ آیا۔

واللہ میں اس تنقید کو چوم لیتا کہ جس میں یہ بتلایا جاتا کہ میری کتاب میں تکفیر، خروج، جہاد اور نفاذ شریعت کی مباحث کا عمود یا مرکزی نکتہ یہ ہے، چاہے اس تنقید میں مجھے گالیاں ہی کیوں نہ دی جاتیں۔ ارسلان صاحب، تنقید میں کسی چیز کو ایپری شیئیٹ کریں؟ نہ ناقد کے پاس اخلاص ہو اور نہ ذہنی سطح، نہ علمی لیول ہو؟ اور ہم سے شکوہ ہو کہ ہم تنقید کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے؟

یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ میرے ایک عزیز نے جو اچھے عالم دین بھی ہیں، انہوں نے مجھے کہا کہ میں آپ کی تکفیر والی کتاب پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں یعنی نقد کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن مجھے ان سے بھی دو سے تین مرتبہ یہ کہنا پڑا کہ بھائی آپ ضرور تنقید کریں، تنقید آپ کا حق ہے۔ میری کتاب کا مرکزی نقطہ یہ ہے، براہ مہربانی اس پر نقد کیجیے گا، مجھے اس پر خوشی ہو گی۔ اور اگر آپ اس مرکزی نکتے یا عمود پر نقد کریں گے تو دنیا کو کوئی علمی فائدہ بھی ہو گا۔

اس حوالے سے بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن ابھی اجازت چاہوں گا۔ کبھی آپ کا لاہور آنا ہو تو ضرور بتلایے گا۔ اس وقت آپ کو اپنی کتاب کا مرکزی نکتہ بتلاوں گا۔ اس کے بعد بصد شوق لکھیں۔ آپ لکھیں گے میں آپ کے لیے دعا کروں گا، چاہے علمی بدیانتی کہیں یا علمی سطحیت کا طعنہ دیں۔ لیکن کم ازکم مجھے آپ اپنی تنقید سے اتنا احساس تو دلائیں کہ آپ نے میری بات سمجھ بھی لی ہے۔ یہ تو میرا حق ہے ناں؟ جزاکم اللہ خیرا
 
Last edited:

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
حافظ صاحب ذات کا تعارف کروانا میرا مقصد ہوتا تو میں فورم کو روز ایسے ہی موضوعات سے گرمائے رکھتا،اور اس خط کی اشاعت کے فورا ہی بعد اسے یہاں "نمائش" کے لئیے پیش کر دیتا! ارسلان سے پوچھ لیں کہ کیا وجہ ہوئی اور کس طرح ان کے کچھ استفسارات اس خط کی طرف دوبارہ توجہ مبذول کروانے اور اسے یہاں لگانے کی ایک وجہ بنے ہیں ، بہرحال اور اب تک آپ میرے بلاگ، فیس بک وغیرہ سے میرے بارے میں کافی تحقیق کر چکے ہوں گے پھر بھی منفیت، سطحیت اور ذات کی نمائش ایسے اوصاف سے متصف کرتے ہوئے نیت پر شک کرنا آپ کا ہی دل گردہ ہے، شاید یہ "بیان حقیقت" ہے البتہ خط میں "طعن و تشنیع" تھی!!

یقینا میرے پاس نہ اتنا علم ہے جتنا کہ آپ نے مدارس و جدید جامعات سے اخذ کیا ہے اور نہ اتنے تجربات ہیں کہ خود کو ہر وادی کا شہسوار اور ہر مقام سے گزرا ہوا کہنے کاروادار ہو سکوں ۔۔۔۔ چونکہ بات اب پھر ارسلان کے جواب میں جذبات پر ہی آگئی ہے اور جذبات کی وادی میں علم بھی اسی کے گھوڑے پر چڑھ کر کلام کرتا ہے، اس لیے آپ کی ساری فکری واردت پر صرف اتنا کہوں گا کہ عین آپ ہی کے دور میں کتنے ہی ا صحاب علم ان ساری کٹھنائیوں سے گزر کر بالکل الٹ نتائج پر پہنچے ہیں ، جہاں پرکہ اس وقت آ پ ہیں۔

شیٰخ مبشر ربانی صاحب کی رشحآت فکر ہوں یا مولانا عبدالمالک دامت برکاتھم کی آراء ہوں ، ان کو ہمیشہ میں نے ایک مکتب فکر کی ترجمانی کے تناظر میں تسلی سے پڑھا اور کچھ سیکھنے کیکوشش کی ہے ، یہ علماء اگر کسی نظریہ کی پیروی کرتے ہوئے ایک پہلو کو لینے اور دوسرے کو ترک کرنے کیے کی پالیسی اپناتے ۔ہیں تو وہ یہ سب کچھ کھلے بندوں کرتے ہیں اور اسے اون کرتے ہیں۔ لیکن

حافظ صاحب !آپ تحقیق کے اعلیٰ مدارج طے کر چکے عالم ہیں ، اور جانتے ہیں کہ مسلک کی حقانیت ثابت کرنے والے عالم اور تحقیق کو سامنے لانے والے محقق میں کیا فرق ہوتا ہے ، پھر آپ کی تحریریں ایک غیر جانبدارانہ تاثررکھتی بھی ہیں ، لیکن جب اس کتاب کو جب اصول پر پرکھا تو اصول کے خلاف اور اپنے موقف کے دفاع کے لیے اس سے یکسر ترک کر دینے نے وہ اذیت پیدا کی ہے جو آپ کو اور مجھے دونوں کو تڑپا رہی ہے ! آپکا خیال ہے کہ یہ سب لکھنا میری تسکین نفس کا باعث ہے تو اس کی تصحیح کرلیں یہ شدت درد کی غمازی کرتا ہے ، وہ درد جو ایک بھائی کو دوسرے کا ہوتا ہے اور ہمیشہ یہی کیفیت کسی اچھے مقرر یا مصنف کے اصول سے ہٹنے پر دل پہ طاری ہوجاتی ہے! اس کو منفیت کہیں یا سطحیت !

بالکل یہی وجہ ہے (اور آپ بات شروع کرتے تو اس کا بیان بھی لازمی ہوتا) کہ یہ تنقید نوے فیصد خارجی اور واقعاتی جبکہ دس فیصد علمی و شرعی کا تناسب رکھتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کتاب میں بیان کردہ نظریے یا بقول آپ کے عمود پر خالص شرعی کلام تو بہت دور کی بات ہے اس سے کہیں پہلے خود کتاب کا منہج اور واقعات پر تطبیق ہی افسوسناک حد تک جانبدار ہے! دونوں اطراف کے موقف کے دیانتدارانہ بیان، ان کے دلائل اور زیر تحقیق موضوع کا ہر ممکن پہلو سے تجزیہ کچھ ایسے معیارات ہیں جن کی توقع ہمیں کسی بھی تجزیاتی مقالے یا کتاب میں ہوتی ہے، عمود وغیرہ کی بات تو بعدکی ہے !۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ میں نے تنقید میں نہ تو کفر دون کفر پر بات کی ہے ، نہ طاغوت ، تکفیر معین ، نواقض اسلام اور نہ ہی ایسا کوئی خالصتا شرعی موضوع بطور موضوع چھیڑا ہے کوئی بات آئی ہے تو اطلاقی اور خارجی طور پر آئی ہے ۔


منفیت و "اثباتیت" سے قطع نظر اہل علم کا طریقہ کار تو یہی ہوتا ہے کہ کم ظرفوں سے صرف نظر کرتے ہوئے انہیں بھی سیراب ہی کرتے ہیں، خود غامدی مکتب کی مثال آپ نے دی ہے جن کا"کم ظرفوں" اور "طعن و تشنیع" کرنے والوں کے ساتحمل کم ازکم قابل تعریف ہے !

آپ نے پورے موضوع سے بڑا مراسلہ حالِ دل بیان کرنے پر لکھا اور مبصر کی نباضی میں کافی وقت صرف کیا، اس سے کہیں کم وقت کتاب پر بات کرنے کے لیے شاید کافی ہوتا۔۔۔۔'حسن نیت' والوں سے آپ کے مکالمے فورم پر بکھرے پڑے ہیں ، کبھی 'سوئے نیت' والوں سے ابھی اخلاق کریمانہ کے ساتھ بات ہو جائے ! اور جو "رکاوٹیں" آپ کے نفس کی طرف سے اس سلسلے میں حائل ہو رہی ہیں اکیلے میں ان پر غور ضرور کیجئے گا۔۔۔ میں نم آنکھوں کے ساتھ آپ کے لیے دعا گو ہوں !

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
 
Last edited:
Top