• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی بھی عالم پر اعتراض کرنے سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھ لیں تاکہ بعد میں آپکو پشیمانی نہ ہو

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرم آپ سے کتنی دفعہ میں نے عرض کی ہے۔۔۔
کہ آپ عربی عبارت کے ساتھ اردو ترجمہ ضرور دیا کیجئے۔۔۔
تاکہ جو لوگ اردو نہیں جانتے اور اس طرح کے موضوعات میں۔۔۔
دلچسپی رکھتے ہیں وہ آپ کی وجہ سے کسی مایوسی کا شکار نہ سکیں۔۔۔
مجھے قوی اُمید ہے کہ آپ اس کا ترجمہ ضرور پیش کریں گے۔۔۔
یہ عربی عبارت اس لئے پیش کی گئی تھی کہ میں نے جب یہ عرض کیا کہ
جو احادیث انبیاء علیہم السلام کے خلاف ہوں وہ قبول نہیں کیونکہ راوی حدیث کو جھوٹا ماننا انبیاء علیہم السلام کو جھوٹا یا گنہگار ماننے سے آسان ہے
اس پر آپ نے بغیر سوچے سمجھے جو کہا او !! معاف کرنا فرمایا وہ بھی آپ کو یاد ہوگا
اس لئے بڑی تلاش کے بعد تفسیر کبیر کی یہ عبارت ملی جس کی بناء پر میں نے یہ عرض کیا تھا
جو احادیث انبیاء علیہم السلام کے خلاف ہوں وہ قبول نہیں کیونکہ راوی حدیث کو جھوٹا ماننا انبیاء علیہم السلام کو جھوٹا یا گنہگار ماننے سے آسان ہے
یہ ہے اس عربی عبارت کا خلاصہ جو میں پہلے ہی عرض کرچکا تھا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
وہ آج انبیاء کا دفاع کررہے ہیں!!!!

دال میں ضرور کچھ کالا ہے کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ
اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ تو تسلیم کرلیں کہ درجہ ذیل اقتباس میں جو اہل تشیع پر عصمت انبیاء کے منکر ہونے کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ جھوٹ ہے
امام رازی(رح)﴿یہ تفسیرکبیرکے مصنف کے علاوہ ہیں﴾ نے ''عصمت الانبیاء '' کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے،جو اس موضوع پر بڑی جامع اور علمی اسلوب سے مزین ہے، اس کتاب میں آپ نے پہلے نفس مسئلہ پر بحث کی ہے، پھر اس سے فراغت کے بعد بعض انبیائ کرام علیہم السلام کے بعض واقعات جو بظاہر ''عصمت'' کے منافی محسوس ہوتے ہیں ان کے شافی جوابات دیئے ہیں اور حقیقی صورت حال واضح کی ہے۔
﴿۱﴾اِعتقادات سے متعلق عصمت انبیائ:
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ انبیائ علیہم السلام کفر اور بدعت ﴿جو تمام فاسداِعتقادات کی جڑہیں﴾ سے معصوم ہوتے ہیں ۔اس مسئلہ میں صرف خوارج کے ایک فرقہ فضیلیہ اور اہل تشییع کا اختلاف ہے۔
اب سمجھ میں آیا کہ یہ دال تو پوری ہی کالی ہے !!!!!!
یعنی منکر خود ہیں اور الزام دوسروں پر
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ
محترم علی بہرام صاحب -

ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہ سلام معصوم ہوتے ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں - لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ معصوم سے مراد یہ ہے کہ وہ معصوم عن الگناہ ہوتے ہیں لیکن بشری تقاضوں کے تحت معصوم عن الخطاء نہیں ہوتے- مطلب یہ کہ جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل نہیں کرتے تھے جو الله کی بارگاہ میں ناپسندیدہ ہو- بلکہ ان سے جو خطائیں سرزد ہوئیں وہ حقیقت میں ان کی اجتہادی غلطی تھی جو ایک تو غیر ارادی طور پر واقع ہوئیں تھیں اور دوسرے وہ ان کے منصب کے شان کے منافی تھیں- جس وجہ سے الله نے ان پر مواخذہ بھی کیا- جن کا قرآن کریم میں اکثر جگہ ذکر ہے -

جیسے حضرت آدم علیہ سلام کا جنّت میں درخت کے پاس جانا (جس سے منع کیا گیا تھا) -حضرت موسیٰ علیہ سلام کا ایک قبطی کو مکا مار کر مار ڈالنا - حضرت یونس علیہ سلام کا الله کے حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے جانا- حضرت یوسف علیہ سلام کا چند لمحوں کے لئے عزیز مصر کی بیوی کی طرف میلان اور الله کی برہان کی وجہ سے پیچھے ہٹ جانا -نابینا صحابی رسول حضرت ام مکتوم رضی الله عنہ کا نبی کرم صل الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا اور آپ صل الله علیہ وسلم کا فوری طور پر ان کی طرف التفات نہ فرمانا (بوجہ سردارن قریش کو تبلیغ میں مصروف ہونے کے) -

ان تمام خطاؤں پر الله نے دنیا میں ان انبیاء کرام علیہ سلام کا مواخذہ کر کے اور یا انھیں توبہ کی توفیق دے کر ہمیشہ کے لئے پاک کر دیا - کیوں کہ جو خطا آئیں ان سے سرزد ہوئیں ان کے منصب کے شان کے منافی تھیں - اور الله کا منشاء اس میں یہ تھا کہ عام لوگ یہ جان لیں کہ انبیاء کرام علیہ سلام بہرحال بشر ہوتے ہیں -اور ان سے اجتہادی غلطی ممکن ہو سکتی ہے -یہ الگ بات ہے کہ الله رب العزت ان انبیاء کرام علیہ سلام کو ان کی خطاؤں پر قائم نہیں رہنے دیتا اور مزید خطاؤں سے ان کی حفاظت فرماتا ہے - (واللہ اعلم )
ساری خرابیاں کلام اللہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اس پر بھی بات کرتے ہیں ان شاء اللہ اگلی فرصت میں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ تو تسلیم کرلیں کہ درجہ ذیل اقتباس میں جو اہل تشیع پر عصمت انبیاء کے منکر ہونے کا جو الزام لگایا گیا ہے وہ جھوٹ ہے

اب سمجھ میں آیا کہ یہ دال تو پوری ہی کالی ہے !!!!!!
یعنی منکر خود ہیں اور الزام دوسروں پر
ہم سے کیا شکوہ ہے ؟ جا کر امام رازی سے پوچھ لو ہم نے تو ان کی بات نقل کی ہے ؟ صرف ایک ہی بات آپ کو بری لگی ہے باقی سب پر اتفاق ہے ؟ اور یاد رکھو میری پوسٹ کو غیر متفق کہتے ہو اس پوسٹ کا رخ تم ہی نے بدلا ہے اس تھریڈ کا موضوع کیا ہے اور تم نے اس کو کہا ں لا کر کھڑا کر دیا ہے ؟ تم اس کو عصمت انبیاء کی طرف لے کر آئے یہ تو عام سا تھریڈ تھا وہ جرم ہمیں دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ عربی عبارت اس لئے پیش کی گئی تھی کہ میں نے جب یہ عرض کیا کہ

اس پر آپ نے بغیر سوچے سمجھے جو کہا او !! معاف کرنا فرمایا وہ بھی آپ کو یاد ہوگا
اس لئے بڑی تلاش کے بعد تفسیر کبیر کی یہ عبارت ملی جس کی بناء پر میں نے یہ عرض کیا تھا

یہ ہے اس عربی عبارت کا خلاصہ جو میں پہلے ہی عرض کرچکا تھا
یہ منکرین حدیث کی چال ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حضرت جعفر صادق اور حضرت امام محمد باقر بن زین العابدین کے واضح احکامات اور فرمودات ہیں کہ " جس عورت نے ایک بار متعہ کیا وہ فضیلت میں اس متعہ کے عوض امام حسین تک پہنچ جائے گی اور دوبارہ متعہ کرنے سے اسکا مرتبہ امام حسن تک , تین دفعہ متعہ کرنے سے وہ امام علی تک اور چار مرتبہ متعہ سے رسول کے مرتبہ تک وہ متعہ یافتہ عورت پہنچ جائے گی ۔....... فرمایا صادق نے کہ" مستحب ہے مرد کے لیے کہ وہ تزویج متعہ کرے اور نہیں درست مرد کے لیے تم سے کہ وہ دنیا سے نکلے بغیر متعہ کئے ہرچند کہ یک بارگی ہی کیوں نہ ہو "(اصلاح الرسوم ص ۱۶۳) * تحفۃ العوام میں حدیث ہے کہ عذاب نہ کیا جائے گا اس مرد وعورت پر جو متعہ کرے اور افضل بات ہے کہ عفیفہ عورت متعہ کرے ۔* تاریخی حقائق کی رو سے حضرت عبد اللہ بن حسن اور اس کے بعد مصعب بن زبیر سے طلاق ملنے کے بعد سکینہ بنت الحسین نے کئی نکاح دائمی ومنقطع (متعہ) کیے (تاریخ تواریخ والآغانی جلد ۱۴) * (شواہد الصادقین , مصنف حکیم سید احمد الموسوی ص ۹۲ بحوالہ نور نعمانیہ ۔ نور طہارت وصلواۃ ص ۲۳) * اور فرمایا صادق نے کہ نہیں ہے کوئی مرد جو متعہ کرے پھر غسل کرے , مگر یہ خدا خلق کرے گا ہر قطرہء غسل سے ستر لاکھ ملائکہ کو جو متعہ کرنے والے کے لیے تاقیامت استغفار کریں گے اور لعنت بھیجا کریں گے تا قیامت ان لوگوں پر جو اس متعہ سے اجتناب کرتے ہیں اور اس سے دور رہتے ہیں (اصلاح الرسوم ص ۱۶۳)نعوذ باللہ من ذلک
جناب یہ تھریڈ تو صرف علماء کے بارے تم اس کو کدھر لے آئے ہو اور اگر وہی کا م ہم کریں تو ہمیں غلط کیا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اس کام تو تم ولایت کا درجہ سمجھتے ہو اس کی کوئی دلیل ہوگی ؟ تم نے اس کی کام کی وجہ سے سارے مسلمانوں کو بدنام کیا ہے لوگ تمہارے ماتم اور اس متعہ کی وجہ اسلام کو گندہ مذہب سمجھتے ہیں لیکن تم نے اس کو عبادت کا درجہ ہو ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جناب یہ تھریڈ تو صرف علماء کے بارے تم اس کو کدھر لے آئے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہیکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے اور اس خطا سے نہ کوئی ولی مبرا ہوسکتا ہے نہ کوئی نبی'

یہ اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ سے اقتباس جس میں انبیاء علیہم السلام کی عصمت پر سوال اٹھایا گیا تھا پہلے ایسے میں نے ٹائپینگ کی غلطی سمجھ کر اس کی طرف توجہ دلائی اس پر بڑی ڈھٹائی سے اس طرح کہا گیا
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (87)
وقال اللہ سبحانہ وتعالي فی حق نبیہ صلي اللہ علیہ وسلم ٳنا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تٲخر ویتم نعمتہ علیک ویہدیک صراطا مستقیما
ہاں البتہ نبوت اور ولایت میں عصمت کا فرق ہے جیساکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے
عصمت کا مطلب یہ ہوتا ہیکہ نبی اپنی غلطی پر از طریق وحی متنبہ ہوجاتا ہے۔
اگر علمی طور پر یہ بات غلط ہے تو علمی بحث فرمالیں میں حق کو مان لونگا بشکریہ بہرام علی
اور جب دلائل دئے گئے تو بجائے اس کے کہ اپنی غلطی مان کر اس سے رجوع کرلیا جاتا ڈھٹائی سے اپنے ہی موقف پر جمے رہے اس لئے یہ دھاگہ عصمت انبیاء کے موضوع پر چلا گیا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ہم سے کیا شکوہ ہے ؟ جا کر امام رازی سے پوچھ لو ہم نے تو ان کی بات نقل کی ہے ؟
لگتا ہے آپ بھی کاپی پیسٹ میں ماہر ہیں اور کاپی پیسٹ کرنے سے پہلے آپ ایسے پڑھنا بھی گوارہ نہیں کرتا بلکہ آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمارے مولوی کا لکھا ہوا اس لئے غلط نہیں ہوسکتا
آپ نے جن امام رازی کا حوالہ دیا ہے وہ تفسیر کبیر والے امام رازی نہیں یہ آپ کی کاپی پیٹ والی پوسٹ میں ہی درج ہے کم از کم پڑھنے کی زحمت تو گوارہ کرلیں
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
مجھے اس مسئلے کے متعلق یہ بات درست معلوم ہوتی ہے:
چونکہ عبارت لمبی ہے اس لیے اردو مہیا کرنے سے قاصر ہوں


لا يجـوز في حـق الـرسـول
أن يكون مجتهداً
الـقـول بأن سـيدنا محـمـداً r اجتـهـد في بعـض الأحكام وأخطأ في اجتهاده وصحـح الله له هـذا الخـطـأ معناه أن سيدنا محمداً r بلّغ الناس شـريعـة من اجتهاده لا عن الوحي، وأنه غير معصوم في بعض ما يبلّغه الناس من شريعة الإسلام. وهذا كله باطل عقلاً وشرعاً فإن سيدنا محمداً r نبي ورسول فهو كباقي الأنبياء والرسل معصوم عن الخطأ فيما يبلّغه عن الله تعالى عصمة قطعية دلَّ عليها الدليل العقلي. وفوق ذلك فإنه ورد الدليل الشرعي القطعي الدلالة على أن تبليغه الرسالة في كلياتها وجـزئياتهـا إنما كان عن الوحي، وما كان الرسول r يبلغ الأحكام إلا عن الوحي. قال تعالى في سورة الأنبياء: ] قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ[ أي قل لهم يا محمد إنما أنذركم بالوحي الذي أُنزل علي، أي أن إنذاري لكم محصور بالوحي. وقال تعالى في سورة النجم: ]وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (4)[ وقوله تعالى: ]وَمَا يَنْطِقُ[ فعل منفي يفيد العموم فيشمل القرآن والسنة ولا يوجد ما يخصصه بالقرآن لا من الكتاب ولا من السنة، فيبقى على عمومه، أي إن جميع ما ينطقه من التشريع هو وحي يوحى. ولا يصح أن يخصَّص بما ينطقه فقط من القرآن، بل يجب أن يبقى عاماً شاملاً للقرآن والحديث. وهذا ما تؤكده الآية الثانية: ] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (4)[.
وأما تخصيصها فيما يبلغه عن الله من تشريع وغيره من الأحكام والعقائد والأفكار والقصص، وعدم شمولها للأساليب والوسائل وأمور الدنيا، من أعمال الزراعة والصناعة والعلوم وما شاكلها، فإنه قد حصل هذا التخصيص بأمرين: الأول نصوص أخرى جاءت مخصصة لها في التشريع. فإن الرسول r قال في موضوع تأبير النخل: «أنتم أدرى بأمور دنياكم» أخرجه مسلم، وقال لهم في معركة بدر عن مكان النـزول حين سألوه هل هذا وحي من الله أم هو الرأي والحرب والمكيدة؟ فقال: «هو الرأي والحرب والمكيدة» أخرجه الحاكم. فهذه النصوص خصصت الوحي في غير أمور الدنيا وفي غير ما هو من قبيل الحرب والرأي والمكيدة. وأما الأمر الثاني الذي خصص الوحي بالتشريع والعقائد والأحكام وغير ذلك، فإنه واضح من موضوع البحث. ذلك أنه رسول والبحث فيما أُرسل به لا في غير ذلك، فكان موضوع الكلام هو المخصص، وصيغة العموم تبقى عامة، ولكن في الموضوع الذي جاءت به ولا تضم جميع المواضيع. نعم العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب، إلا أن المراد بالسبب هو الحادثة التي نزل بسببها القرآن، فالموضوع ليس خاصاً بها بل هو عام لجميع الحوادث ولكن في موضوع الكلام لا في جميع المواضيع. وموضوع بحث الوحي هو الإنذار أي التشريع والأحكام، قال تعالى: ] قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ[ وقال في سورة ص: ] إِنْ يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (70)[ فإنها تبين أن المراد هو ما أتى به من العقائد والأحكام وكل ما أمر بتبليغه والإنذار به. ولذلك لا تشمل استعمال الأساليب أو أفعاله الجبلّية التي تكون من جبلة الإنسان أي من طبيعة خِلقته، كالمشي والنطق والأكل...الخ. وتختص بما يتعلق بالعقائد والأحكام الشرعية لا بالأساليب والوسائل وما شابهها مما لا يدخل تحت العقائد والأحكام: وعلى ذلك فكل ما جاء به الرسول r مما أمر بتبليغه من كل ما يتعلق بأفعال العباد والأفكار هو وحي من الله.
ويشمل الوحي أقوال الرسول وأفعاله وسكوته، لأننا مأمورون بإتباعه. قـال تعـالى: ]وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا[ وقال: ]لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ[. فكلام الرسول وفعله وسكوته دليل شرعي. وهي كلها وحي من الله تعالى.
وقد كان رسول الله سيدنا محمد r يتلقى الوحي ويبلّغ ما يأتيه من الله تعالى، ويعالج الأمور بحسب الوحي ولا يخرج عن الوحي مطلقاً. قال تعالى في سورة الأحقاف: ]إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ[ وقال في سورة الأعراف: ]قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي[ أي لا أتبع إلا ما يوحى إلي من ربي. فحصر إتباعه بما يوحى إليه من ربه. وهذا كله صريح وواضح وظاهر في العموم. وإن كل ما يتعلق به r مما هو مأمور بتبليغه هو وحي فحسب. وكانت حياة الرسول التشريعية في بيان الأحكام للناس سائرة على ذلك، فإنه عليه الصلاة والسلام كان ينتظر الوحي في كثير من الأحكام، كالظهار واللعان وغيرهما، وما كان يقول حكماً في مسألة أو يفعل فعلاً تشريعياً، أو يسكت سكوتاً تشريعياً، إلا عن وحي من الله تعالى. وقد كان يختلط على الصحابة في بعض الأحيان الحكم في فعل من أفعال العباد بالرأي في شيء أو وسيلة أو أسلوب فيسألون الرسول أذَلك وحي يا رسول الله أم الرأي والمشورة؟ فإن قال لهم وحي سكتوا لأنهم عرفوا أنه ليس من عنده. وإن قال لهم: بل هو الرأي والمشورة تناقشوا معه وربما اتبع رأيهم كما في بدر، وأحد، والخندق. وكان يقول لهم في غير ما يبلّغه عن الله: «أنتم أدرى بأمور دنياكم» كما ورد في حديث تأبير النخل. ولو كان الرسول ينطق في التشريع عن غير وحي لما كان ينتظر الوحي حتى يقول الحكم، ولما سأله الصحابة عن الكلام هل هو وحي أم رأي، إذ لأجاب من عنده أو لناقشوه من غير سؤال. وعلى ذلك فإنه عليه الصلاة السلام كان لا يصدر في قوله أو فعله أو سكوته إلا عن وحي من الله تعالى. لا عن رأي من عنده. وأنه عليه الصلاة والسلام ما كان يجتهد قط، ولا يجوز الاجتهاد عليه شرعاً وعقلاً. أما شرعاً فللآيات الصريحة التي تدل على حصر جميع ما يتعلق به الوحي: ] قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ[، ]إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ[، ] وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3)[ وأما عقلاً فلأنه r كان ينتظر الوحي في كثير من الأحكام مع الحاجة الماسة لبيان حكم الله فلو جاز له الاجتهاد لمَا أخر الحكم بل يجتهد، وبما أنه كان يؤخر الحكم حتى ينـزل الوحي فدل على أنه لم يجتهد، ودل على أنه لا يجوز له الاجتهاد، إذ لو جاز لما أخر الحكم مع الحاجة إليه. وأيضاً فإنه r واجب الإتباع، فلو اجتهد لجاز عليه الخطأ، ولو أخطأ وجب علينا إتباعه فيلزم الأمر بإتباع الخطأ وهو باطل. لأن الله لا يأمر بإتباع الخطأ. وفوق ذلك فإن الرسول معصوم عن الخطأ في التبليغ ولا يجوز في حقه الخطأ في التبليغ مطلقاً. لأن جواز الخطأ على الرسول ينافي الرسالة والنبوّة. فالإقرار بالرسالة والنبوّة يحتم عدم جواز الخطأ على الرسول. وفي التبليغ يحتِّم عصمته عن الخطأ في التبليغ، ولذلك يستحيل في حق الرسول الخطأ فيما يبلغه عن الله تعالى. وعليه فلا يجوز في حقه r الاجتهاد مطلقاً. وكل ما بلغه من الأحكام بقوله أو فعله أو سكوته وحي من الله تعالى ليس غير.
ولا يقال أن الله لا يقره على الخطأ، وأنه يبينه له سريعاً. لأن الخطأ في الاجتهاد حين يحصل من الرسول يصبح فرضاً على المسلمين أن يتبعوه حتى يحصل البيان، فيكون هذا البيان جدد حكماً آخر غير الحكم الأول أمر المسلمون بإتباعه وبترك الأول وهو الخطأ. وهذا باطل ولا يجوز في حق الله أن يأمر الناس بإتباع خطأ ثم يأمرهم بتركه وإتباع الصواب. وكذلك لا يجوز في حق الرسول أن يبلغ حكماً، ثم يقول لهم هذا الحكم خطأ لأنه من عندي، والصواب ما جاءني من الله وهو هذا، ويبلغهم ترك الحكم الأول لأنه خطأ ويبلغهم الصواب.
ولا يقال أن هذا دليل عقلي على أمر شرعي وهو لا يجوز، لأن الأمر الشرعي يجب أن يكون دليله شرعياً، لأن الأمر الشرعي الذي يجب أن يكون دليله شرعياً فحسب هو الحكم الشرعي. أما العقائد فإن دليلها يكون عقلياً ويكون شرعياً، وموضوع أن الرسول يكون مجتهداً أو لا يكون مجتهداً هو من العقائد وليس من الأحكام الشرعية، فدليله يكون عقلياً ويكون شرعياً. وكونه لا يجوز في حق الرسول أن يكون مجتهداً ثابت بالدليل العقلي والدليل الشرعي، وهو عقيدة من العقائد.
ولا يقـال إن الرسـول اجتهد فعـلاً في أحكام متعـددة وإن الله لم يقره على هذا الاجتهاد، وصححه وأنزل الآيات تبين الحكم الصواب. لا يقـال ذلك لأنه لم يحـصـل من الرسـول اجتهاد في تبليغ أي حكم من أحكام الله مطلقاً، بل الثابت بنص القـرآن وبصحيح السنة أنه r كان يبلغ عن الوحي، ولا يبلغ شيئاً من التشريع والعقائد والأحكام ونحوها إلا إذا جـاءه عن طريق الوحي. وأنه كان حين لا ينـزل الوحي في حادثة ينتظره حتى ينـزل.
وأما الآيات التي أوردها من يقولون بأن الرسول اجتهد بالفعل والتي توهموا حصول الاجتهاد فيها، فإنه لا يوجد فيها آية واحدة حصل فيها اجتهاد. فمثل قوله تعالى: ] مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ[ ومثـل قوله تعالى: ]عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ[ ومثل قوله تعالى: ] وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ[ ومثل قوله تعالى: ] عَبَسَ وَتَوَلَّى (1) أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى (2)[ ومثل هذا من الآيات والأحاديث، فإن ذلك لم يكن من قبيل الاجتهاد في حكم وتبليغه للناس، وإنما هو من قبيل العتاب على القيام بأعمال تخالف ما هو الأولى بالرسول أن يقوم به. إذ لم يبلغ الرسول حكماً معيناً للناس ثم جاءت الآية تبين خطأ الحكم الذي بلغه وخطأ اجتهاده فيه، وتطلب تبليغ الصواب في هذا الحكم. وإنما واقع الأمر أن الرسول قام بعمل من الأعمال تطبيقاً لحكم شرعي من أحكام الله التي سبق أن نزل بها الوحي وبلَّغها الرسول للناس، فخالف الرسول ما هو الأولى به أن يقوم به حسب هذا الحكم، فعوتب على هذه المخالفة، وليس هذا العتاب تشريعاً لحكم جديد. فالحكم كان مشرعاً وكان مأموراً به، وكان الرسول قد بلغه. وفي هذه الحوادث التي جاءت بها هذه الآيات قام عليه الصلاة والسلام بالعمل حسب ما أمر الله، إلا أن قيامه كان خلاف الأولى فعوتب على ذلك عتاباً. فالآيات آيات عتاب على قيام الرسول بما هو خلاف الأولى، وليست آيات تشريع أحكام جديدة لم تكن قد شرعت، وليست تصحيحاً لاجتهاد، ولا تشريعاً لحكم أخر يخالف حكماً كان الرسول قد اجتهد فيه. والأنبياء والرسل يجوز عليهم شرعاً وعقلاً أن يفعلوا خلاف الأولى لأن معنى خلاف الأولى أن يكون هناك أمر مباح، ولكن بعض أعماله أولى من بعضها. أو أن يكون هنالك أمر مندوب ولكن بعض أعماله أولى من بعضها. فمباح للمرء أن يسكن المدن أو أن يسكن القرى، ولكن سكنى المدن أولى من سكنى القرى لمن يعاني أمور الحكم ومحاسبة الحكام، فإذا سكن القرى فعل خلاف الأولى. وإعطاء الصدقة سراً وجهراً أمر مندوب ولكن إعطاءها سراً أولى من إعطائها جهراً، فإذا أعطاها علناً فعل خلاف الأولى. فالرسول r يجوز عليه أن يقوم بما هو خلاف الأولى. وقد قام بما هو خلاف الأولى فعلاً فعاتبه الله على ذلك. والناظر في الآيات التي أوردوها يجد أن منطوق الآيات ومفهومها ودلالتها يدل على ذلك.
فإن قوله تعالى: ] مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ[ يدل على أن الأسر كان مشروعاً بشرط سبق الإثخان. ويؤيده آية: ]حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ [ فحكم الأسرى لم ينـزل في آية: ] مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى[ الآية. وإنما نزل قبل ذلك في سورة محمد التي تسمى سورة القتال، وقد نزلت قبل سورة الأنفال. فقد نزلَ في سورة القتال هذه حكم الأسرى قال تعالى: ]فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا[ فكان حكم الأسرى نازلاً ومعروفاً قبل نزول: ] مَا كَانَ لِنَبِيٍّ[ الآية. فلم يكن في هذه الآية أي تشريع للأسرى، ولفظها لا يوجد فيه أي تشريع للأسرى، وإنما هو خطاب للرسول بأنه ما كان ينبغي له أن يأخذ الأسرى حتى يثخن. والمراد بالإثخان هو القتل والتخويف والشديد. ولا شك أن الصحابة قتلوا يوم بدر خلقاً عظيماً وكسبوا المعركة، وليس من شرط الإثخان في الأرض قتل جميع الناس. ثم إنهم بعد القتل الكثير أسروا جماعة. وهذا جائز من آية سورة محمد التي هي سورة القتال ومن هذه الآية نفسها، فإنها تدل على أنه بعد الإثخان يجوز الأسر. فصارت هذه الآية دالة دلالة بيّنة على أن ذلك الأَسر كان جائزاً بحكم هذه الآية. فلا يكون الرسول قد اجتهد في حكم الأسرى حين أسر وجاءت الآية تصحح اجتهاده، ولا يكون الأسر الذي فعله الرسول في بدر تشريعاً فجاءت الآية تبين خطأه. وكذلك لا يكون هذا الأسر ذنباً مخالفاً للحكم الذي نزل، ولكن يدل على أن الرسول في تطبيق حكم الأسرى الوارد في آية محمد: ]حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ[ الآية. على هذه الحادثة، وهي معركة بدر كان الأولى أن يكون القتل أكثر حتى يكون الإثخان أبرز، فنـزلت الآية معاتبة النبي r على تطبيقه الحكم على وجه هو خلاف الأولى. فهي عتاب على فعل قام به تطبيقاً لحكم سابق وليست هي تشريعاً لحكم، ولا تصحيحاً لاجتهاد. وأما قوله تعالى في تمام الآية: ]تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآَخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (67)[ فإنه من تمام العتاب في الآية، أي إنكم أخذتم الأسرى قبل المبالغة في الإثخان طمعاً في فداء هؤلاء الأسرى أي ترغبون بأخذ حطام الدنيا من الفداء الذي يترتب على أخذهم أسرى، والله يريد إعزاز دينه بقتلهم في المعركة لا بأخذهم أسرى. والموضوع أخذ الأسرى، وعرض الحياة الدنيا يترتب على الأسر وليس هو عتاباً على أخذ الفداء، وإنما هو عتاب على الأسر قبل الإثخان. فهو متمم لمعنى الآية الذي بدأت به من أولها: ]مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآَخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (67)[ وأما قوله تعالى: ]لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (68)[ فإنه ليس وعيداً من الله بالعذاب على أخذ الفداء كما يتوهم البعض، بل هو بيان للنتائج التي كان يمكن أن تترتب على أخذ الأسرى قبل المبالغة بالإثخان وهي خسران المعركة وإصابة المسلمين بالقتل من الكفار، وهذا هو العذاب العظيم وليس عذاب الله. أي لولا علم الله بأنكم ستنتصرون لأصابكم في أخذكم الأسرى قبل المبالغة بإثخان الكفار قتل وانكسار من أعدائكم. وقد أطلق القرآن كلمة عذاب على القتل في الحرب قال تعالى: ]قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ[. ولا يتأتى أن يكون معناها عذاب الله، لأن الخطاب عام للرسول والمؤمنين ولأنه إن اعتُبرت الآية تصحيح اجتهاد على حد تعبيرهم فهو خطأ معفو عنه لا يستحقون عليه عذاباً من الله، وإنْ اعتُبرت عتاباً على خلاف الأولى كما هو الواقع فلا يستحق عليها عذاباً من الله، فلا يتأتى مطلقاً أن يكون مس العذاب من الله، بل المعنى، لأصابكم قتل وإذلال من أعدائكم. وأما الأحاديث الواردة في سبب نزول هذه الآية وفي قصصها فإنها أخبار آحاد لا تصلح دليلاً على العقيدة، وجواز الاجتهاد في حق الرسول وعدم جوازه من العقيدة. وأما قوله تعالى: ]عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ (43)[ فإنها لا تدل على اجتهاد، لأنّ حكم أنه يجوز للرسول أن يأذن لمن يشاء، قد جاء قبل نزول هذه الآية، فقد جاء في سورة النور قال تعالى: ]فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ[ وقد نزلت هذه السورة بعد سورة الحشر في معركة الخندق، وآية: ]عَفَا اللَّهُ عَنْكَ[ جاءت في سورة التوبة، ونزلت في شأن غزوة تبوك في السنة التاسعة للهجرة، فالحكم كان معروفاً وآية النور صريحة تدل على أنه يجوز للرسول r أن يأذن لهم.
ولكن في تلك الحادثة التي نزلت فيها آية التوبة وهي غزوة تبوك وتجهيز جيش العسرة كان الأولى أن لا يأذن الرسول للمنافقين في التخلف. فلما أذن لهم في تلك الحادثة بالذات عاتبه الله على ذلك الفعل، أي عاتبه على القيام بما هو خلاف الأولى. وليست الآية تصحيحاً لاجتهاد، ولا تشريعاً لحكم يخالف حكماً كان الرسول قد اجتهد فيه في نفس الحادثة، وإنما هو عتاب على ما هو خلاف الأولى.
وأما قوله تعالى: ]وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (84)[ فإنها جاءت بعد قوله تعالى: ]فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ (83) وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ[. الآية. وقد بيَّن الله في آية: ]فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ[ أن لا يصحبهم الرسول في غزواته وذلك لتخذيلهم وإهانتهم حتى لا ينالوا شرف الجهاد والخروج مع الرسول. ويبين في الآية التي بعدها مباشرة وهي: ]وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ[ الآية. شيئاً آخر في إذلالهم. وكان ذلك أثناء الحملة على المنافقين للقضاء عليهم. فالآية هذه والآية التي قبلها والآية التي بعدها تبيّن أحكام المنافقين والكيفية التي يجب أن يعاملوا بها من الاحتقار والإذلال وإنزالهم عن رتبة المؤمنين. وليس في الآية ما يدل على أن الرسول اجتهد في حكم، وجاءت الآية دالة على خلافه، بل هي تشريع ابتداء في حق المنافقين، وهي منسجمة مع آيات المنافقين المكررة في نفس السورة، فلا يظهر فيها لا صراحة ولا دلالة ولا منطوقاً ولا مفهوماً ولا ما يبعث أدنى شبهة أنها تصحيح لاجتهاد وتنبيه على خطأ. وأما ما ورد في شأن نزول هذه الآية من أخبار فهي أخبار آحاد ولا تصلح دليلاً على العقائد ولا تعارض القطعي الذي يحصر تبليغ الرسول للأحكام بما جاء به الوحي ليس غير، وأنه لا يتبع إلا الوحي. علاوة على أن هذه الأحاديث تجعل عمر بن الخطاب يحاول منع الرسول عن الصلاة على جنازة فهو إما يريد أن يمنعه عن فعل يشرع به حكماً أو يمنع الرسول عن القيام بعبادة حسب حكم شرعي مشرع والرسول يسكت عنه ثم يرجع لرأيه بعد نزول الآية. وهذا لا يجوز في حق الرسول، فالعمل بالحديث هذا يعارض كون الرسول نبياً فيُرد الحديث دراية. والحديث يدل على أن الرسول أعطى قيمصه لعبد الله بن أبيّ وكان يريد أن يصلي عليه وهو رأس المنافقين. وعبد الله بن أبيّ فضحه الله بعد غزوة بني المصطلق وجاء ابنه إلى الرسول ليعرف إذا كان الرسول قد قرر قتله أن يتولى هو قتل أبيه، والله تعالى أنزل سورة المنافقين بعد غزوة بني المصطلق وقال للرسول فيها: ]هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (4)[ وقال له فيها: ]فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ[ وقال له فيها: ]وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (1)[ ثم يأتي الرسول بعد ذلك فيعطي قميصه لرأس المنافقين ويحاول أن يصلي على رأس المنافقين فيمنعه عمر فهذا يناقض الآيات. فآية التوبة نزلت في السنة التاسعة بعد سورة المنافقين بعدة سنوات، فالأحاديث عن عمر، وعن القميص، وغير ذلك من الأحاديث تعارض واقع معاملة المنافقين بعد غزوة بني المصطلق، وتعارض الآيات التي نزلت قبلها في شأن المنافقين، ولذلك ترد أيضاً من هذه الناحية دراية.
وأما قوله تعالى: ]عَبَسَ وَتَوَلَّى (1) أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى (2) وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى (3)[ الآيات، فهي لا تدل على اجتهاد.. فإن الرسول مأمور بتبليغ الدعوة للناس جميعاً، وبتعليم المسلمين الإسلام. وكلا الأمرين للرسول أن يقوم به في كل وقت. وعبد الله بن أم مكتوم أسلم وتعلم الإسلام. وقد أتى رسول الله r وعنده صناديد قريش، عتبة وشيبه ابنا ربيعة وأبو جهل بن هشام والعباس بن عبد المطلب وأمية بن خلف والوليد ابن المغيرة يدعوهم إلى الإسلام رجاء أن يسلم بإسلامهم غيرهم، فقال ابن أم مكتوم للنبي وهو في هذه الحالة يا رسول الله أقرئني وعلمني مّما علمك الله، وكرر ذلك وهو لا يعلم تشاغله بالقوم، فكره رسول الله r قطعه لكلامه وعبس وأعرض عنه فنـزلت هذه السورة فالرسول مأمور بالتبليغ ومأمور بتعليم الإسلام، فقام بالتبليغ وأعرض عن تعليم من طلب التعليم لانشغاله بالتبليغ. وكان الأولى أن يعلِّم ابن أم مكتوم ما سأله، ولكنه لم يفعل فعاتبه الله على ذلك، إذ كان إعراضه عليه السلام عن ابن أم مكتوم خلاف الأولى، فعاتبه الله على قيامه بما هو خلاف الأولى وليس في هذا أي اجتهاد في حكم ولا تصحيح لاجتهاد، وإنما هو تطبيق لحكم الله في حادثة معينة على خلاف الأولى عاتبه الله على هذا.
وعلى ذلك فإنه لا دلالة في الآيـات المـذكـورة على حصـول الاجتهاد من الرسول r. إذ لم يحصل منه اجتهاد فيما يبلغه عن الله ولا يجوز عليه الاجتهاد لا شـرعاً ولا عقلاً. فلا يكون الرسـول مجتهداً، ولا يجوز في حق الرسـول أن يكون مجتهداً، وإنما هو وحي يوحى له من الله تعالى وهذا الوحي إما باللفظ والمعنى وهو القرآن الكريم، وإما بالمعنى فقط ويعبر عنه الرسول إما بلفظ من عنده، أو بسكوته إشارة للحكم، أو بفعله الفعل وذلك كله هو السنة.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
لگتا ہے آپ بھی کاپی پیسٹ میں ماہر ہیں اور کاپی پیسٹ کرنے سے پہلے آپ ایسے پڑھنا بھی گوارہ نہیں کرتا بلکہ آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمارے مولوی کا لکھا ہوا اس لئے غلط نہیں ہوسکتا
آپ نے جن امام رازی کا حوالہ دیا ہے وہ تفسیر کبیر والے امام رازی نہیں یہ آپ کی کاپی پیٹ والی پوسٹ میں ہی درج ہے کم از کم پڑھنے کی زحمت تو گوارہ کرلیں
یہ کوئی بھی رازی ہو اس سے کیا لینا دینا ، آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ کاپی پیسٹ ایک مہارت کا کام ہے جو آ پ جیسے لوگ نہیں کر سکتے ، دور کی بات چھوڑو آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ کاپی کے لیے مواد کہاں سے اور کیسے تلاش کرنا ہے ؟
 
Top