حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
اب تک میری ایک بھی پوسٹ کا جواب نہیں آیا اور تم اپنی ایک پوسٹ کی بات کررہے ہوپوسٹ نمبر 53 کا جواب نہیں آیا اب تک
اب تک میری ایک بھی پوسٹ کا جواب نہیں آیا اور تم اپنی ایک پوسٹ کی بات کررہے ہوپوسٹ نمبر 53 کا جواب نہیں آیا اب تک
کیا عصمت انبیاء کا عقیدہ صرف آج کے لوگوں کا ہے یا سلف صالحین سے چلا آ رہا ہے ؟ میں اس انسان سے کیا بات کروں جو یہ نہیں جانتا کہ سلف کون ہیں اور ان کا موقف کیا ہے ؟لگتا ہے آپ بھی کاپی پیسٹ میں ماہر ہیں اور کاپی پیسٹ کرنے سے پہلے آپ ایسے پڑھنا بھی گوارہ نہیں کرتا بلکہ آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمارے مولوی کا لکھا ہوا اس لئے غلط نہیں ہوسکتا
آپ نے جن امام رازی کا حوالہ دیا ہے وہ تفسیر کبیر والے امام رازی نہیں یہ آپ کی کاپی پیٹ والی پوسٹ میں ہی درج ہے کم از کم پڑھنے کی زحمت تو گوارہ کرلیں
اس کا حوالہ دینا آپ بھول گئے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جو مسئلہ آپ ثابت کرنا چاہتے وہ ہوتا نہیں کیوں کہ کیا اولی اور خلاف اولی کے انتخاب میں غلطی خطا نہیں ہوگی اور عتاب کیا بغیر کسی خطا کے ہی ہو جاتا ہے یا کہ اس کے پیچھے کوئی خطا ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے لکھا ہے :مجھے اس مسئلے کے متعلق یہ بات درست معلوم ہوتی ہے:
چونکہ عبارت لمبی ہے اس لیے اردو مہیا کرنے سے قاصر ہوں
اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نبی کو ڈانٹا ہے اور ان کی سرزنش کی ہے ، شہد کو حرام کرنے والی بات بہت مشہور ہے اور اس میں حکم جدید بھی موجود ہے پھر کیوں کہا جا سکتا ہے کہ آپ سے بھول چوک نہیں ہو سکتی ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ خلاف اولی کام کرنا بھی تو ایک خطا ہے جس کی اصلاح اللہ کر دیتا ہے اور نبی کو اولی کی طرف لے آتا ہےفخالف الرسول ما هو الأولى به أن يقوم به حسب هذا الحكم، فعوتب على هذه المخالفة، وليس هذا العتاب تشريعاً لحكم جديد. فالحكم كان مشرعاً وكان مأموراً به، وكان الرسول قد بلغه. وفي هذه الحوادث التي جاءت بها هذه الآيات قام عليه الصلاة والسلام بالعمل حسب ما أمر الله، إلا أن قيامه كان خلاف الأولى فعوتب على ذلك عتاباً. فالآيات آيات عتاب على قيام الرسول بما هو خلاف الأولى،
اگر آپ خلاف اولی کرنے کو خطا سمجھتے ہیں تویہ خطا ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ گناہ نہیں ہے۔ خلاف اولی بھی مباح ہی کے زمرے میں ہے اور یہ اللہ کا اختیار ہے کہ وہ اپنے نبی کو خلاف اولی کرنے پر بھی سرزنش کرے۔ جو چیز نہیں ہو سکتی وہ یہ ہے کہ نبی شریعت کو پہنچانے میں خطا کرے یا کوئی گناہ کا کام اس سے سرزد ہو۔ کیونکہ نبی کا عمل بذات خوددلیل ہے۔ اور ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے غلط حکم پر عمل کرنے کا حکم دیا اورپھر خود ہی اس کی تصحیح کر دی کہ اب لوگ صحیح حکم پر عمل کریں ۔ اور شہد کو حرام کرنے والی بات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ شہد حلال ہے، شریعت کا یہ حکم لوگوں تک پہنچ چکا تھا۔ رسول اللہ ؤ کا اسے اپنے اوپر حرام کرناامت کو کوئی نیا حکم بتانا نہ تھا کہ اب سے شہد حرام ہے بلکہ یہ ان کا اپنے لیے ارادہ کہ وہ اسے آئندہ استعمال نہیں کیا کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منع فرما دیا کہ وہ ایسا ارادہ نہ کریں۔ خلاصہ نبی ٖسے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔اس کا حوالہ دینا آپ بھول گئے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جو مسئلہ آپ ثابت کرنا چاہتے وہ ہوتا نہیں کیوں کہ کیا اولی اور خلاف اولی کے انتخاب میں غلطی خطا نہیں ہوگی اور عتاب کیا بغیر کسی خطا کے ہی ہو جاتا ہے یا کہ اس کے پیچھے کوئی خطا ہوتی ہے جیسا کہ آپ نے لکھا ہے :
اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نبی کو ڈانٹا ہے اور ان کی سرزنش کی ہے ، شہد کو حرام کرنے والی بات بہت مشہور ہے اور اس میں حکم جدید بھی موجود ہے پھر کیوں کہا جا سکتا ہے کہ آپ سے بھول چوک نہیں ہو سکتی ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ خلاف اولی کام کرنا بھی تو ایک خطا ہے جس کی اصلاح اللہ کر دیتا ہے اور نبی کو اولی کی طرف لے آتا ہے
اس کا مطلب ہے کہ شہد کو حرام کر لینا خلاف اولی ہے ؟اگر آپ خلاف اولی کرنے کو خطا سمجھتے ہیں تویہ خطا ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ گناہ نہیں ہے۔ خلاف اولی بھی مباح ہی کے زمرے میں ہے اور یہ اللہ کا اختیار ہے کہ وہ اپنے نبی کو خلاف اولی کرنے پر بھی سرزنش کرے۔ جو چیز نہیں ہو سکتی وہ یہ ہے کہ نبی شریعت کو پہنچانے میں خطا کرے یا کوئی گناہ کا کام اس سے سرزد ہو۔ کیونکہ نبی کا عمل بذات خوددلیل ہے۔ اور ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے غلط حکم پر عمل کرنے کا حکم دیا اورپھر خود ہی اس کی تصحیح کر دی کہ اب لوگ صحیح حکم پر عمل کریں ۔ اور شہد کو حرام کرنے والی بات کا بھی یہی معاملہ ہے۔ شہد حلال ہے، شریعت کا یہ حکم لوگوں تک پہنچ چکا تھا۔ رسول اللہ ؤ کا اسے اپنے اوپر حرام کرناامت کو کوئی نیا حکم بتانا نہ تھا کہ اب سے شہد حرام ہے بلکہ یہ ان کا اپنے لیے ارادہ کہ وہ اسے آئندہ استعمال نہیں کیا کریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منع فرما دیا کہ وہ ایسا ارادہ نہ کریں۔ خلاصہ نبی ٖسے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔
بھائیوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ نبی کے آگے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لکھنے کے لیے کونسا بٹن دبانا ہو گا
اس سے کافی تکلیف ہو رہی ہے تو اس کا جواب د ےدوجناب یہ تھریڈ تو صرف علماء کے بارے تم اس کو کدھر لے آئے ہو اور اگر وہی کا م ہم کریں تو ہمیں غلط کیا جاتا ہے آخر کیوں ؟ اس کام تو تم ولایت کا درجہ سمجھتے ہو اس کی کوئی دلیل ہوگی ؟ تم نے اس کی کام کی وجہ سے سارے مسلمانوں کو بدنام کیا ہے لوگ تمہارے ماتم اور اس متعہ کی وجہ اسلام کو گندہ مذہب سمجھتے ہیں لیکن تم نے اس کو عبادت کا درجہ ہو ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بہرام صاحب کوئی حوالہ تو دے دیں؟حضرت آدم علیہ سلام کا بھی یہی معاملہ ہے، آپ سے گناہ سرزد ہوا مگر اس وقت وہ کسی کو شریعت پہنچانے پر مقرر نہ تھے
حضرت یونس علیہ سلام کو نبی مچھلی کے واقعے کے بعد مقرر کیا گیا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
فاصبر لحکم ربک و لا تکن کصاحب الحوت اذ نادی و ھو مکظوم 0 لو لا ان تدارکہ من ربہ لنبذ بالعراء و ھو مزموم 0 فاجتباہ ربہ فجعلہ من الصالحین
اور جہاں تک ابراہیم علیہ سلام کا تعلق ہے تو ایک تو ان کے جھوٹ توریہ تھے اور دوسرے یہ کہ یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ اس وقت کی شریعت میں کن صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز تھا۔ جیسا کہ شریعت محمدی کے مطابق تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔
و اللہ اعلم
حضرت آدم علیہ سلام کا بھی یہی معاملہ ہے، آپ سے گناہ سرزد ہوا مگر اس وقت وہ کسی کو شریعت پہنچانے پر مقرر نہ تھے
حضرت یونس علیہ سلام کو نبی مچھلی کے واقعے کے بعد مقرر کیا گیا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
فاصبر لحکم ربک و لا تکن کصاحب الحوت اذ نادی و ھو مکظوم 0 لو لا ان تدارکہ من ربہ لنبذ بالعراء و ھو مزموم 0 فاجتباہ ربہ فجعلہ من الصالحین
و اللہ اعلم
حضرت یونس ؑ کو اللہ تعالیٰ نے نینویٰ (موجودہ عراق کا شہر موصل )کی بستی کی ہدایت کے لیے بھیجا۔نینویٰ میں آپؑ کئی سال تک ان کو تبلیغ کی دعوت دیتے رہے ۔مگر قوم ایمان نہ لائی تو آپ ؑ نے ان کو عذاب کے آنے کی خبر دی اور ترشیش (موجودہ تیونس )کی طرف جانے کے لئے نکلے۔حضرت یونس ؑ جب قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے تو قوم نے آپ ؑ کے پیچھے توبہ کرلی ۔دوسری طرف آپ ؑ اپنے سفر کے دوران دریا کو عبورکرنے کے لیے اسرائیل کے علاقہ یافا میں کشتی میں سوار ہوئے ۔کچھ دور جاکر کشتی بھنور میں پھنس گئی ۔ اس وقت کے دستور اور رواج کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جارہا ہو اور کشتی میں سوار ہوتو وہ کشتی اس وقت تک کنارے پر نہیں پہنچتی جب تک اس غلام کو کشتی سے اتار نہ لیں ۔
اب کشتی کے بھنور میں پھنسنے پر ان لوگوں نے قرعہ ڈالا جو حضرت یونس ؑ کے نام نکلا۔تین دفعہ قرعہ آپ ؑ کے نام ہی نکلا تو آ پ ؑ نے فرمایا کہ میں ہی غلام ہوں جو اپنے آقا کو چھوڑ کا جار ہا ہوں۔ آپ ؑ نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگادی تاکہ دوسرے لوگ کنارے پر پہنچ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کے دل میں القا ء کیا اور حکم دیا کہ حضرت یونس ؑ کو بغیر نقصان پہنچائے ،نگل لے ۔ اس طرح آپؑ مچھلی کے پیٹ میں آگئے ۔یہ آپ ؑ پر ایک امتحان تھا۔
(بحوالہ تفسیر روح المعانی ،ابن کثیر)