• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا آپ کے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم!
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

تبلیغی جماعت کی کتاب فضائل اعمال کے باب فضائلِ ذکر میں "ابو یزید قرطبی" کے حوالے سے ایک واقعہ منقول ہے۔
(تفصیل منسلک شدہ اسکین میں ملاحظہ فرمائیں)
اس واقعے کو پڑھ کر میرے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے، مجھے امید ہے کہ یہاں موجود ہمارے دیوبندی دوست ایک طالب علم کے ان سوالات کے جواب دینا پسند فرمائیں گے۔ واقعہ کے اقتباس میں "قرطبی صاحب" کے حوالے سے ہی نقل کروں گا تاکہ بات کا تسلسل برقرا رہے ورنہ "فضائل اعمال" لکھنے والے صاحب نے بھی اس واقعے کی تصدیق و تائید ہی کی ہے۔

قرطبی صاحب نے فرمایا کہ "میں نے یہ سنا کہ جو شخص 70 ہزار مرتبہ لا الٰہ الا اللہ پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔۔۔۔۔"
1- کیا یوں سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے سے دوزخ سے نجات مل سکتی ہے؟
2- اگر ہاں، تو شیعہ اور بریلوی حضرات دوزخ سے نجات کی گارنٹی "سُن سُن" کر جو جو عمل کرتے ہیں انہیں بھی وہ اعمال کرنے پر دوزخ سے نجات مل جائے گی؟
3- اگر سوال نمبر 2 کا جواب نہیں ہے تو برائے مہربانی شیعہ، بریلوی اور دیوبندیوں میں موجود اس فرق پر روشنی ضرور ڈالی جائے جس سے ایک ہی کام کرنے سے دو اشخاص کے لیے نتائج میں فرق پڑتا ہے؟

قرطبی صاحب نے فرمایا "ہمارے پاس ایک نوجون رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ صاحب کشف ہے، جنت، دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"
1- کیا اِس طرح کسی بھی شخص کو قبر، جنت ، دوزخ وغیرہ کی معلومات مل جاتی ہیں؟
2- اگر ہاں تو کیا آپ اس واقعے کی تصدیق کریں گے جس میں "طاہر القادری صاحب" اپنے ایک مرید کو دفنانے کے بعد اپنے مریدین کے مجمع میں اسے "منکر نکیر" کے سوالوں کے جواب قبر پر کھڑے ہو کر بتا رہے ہیں؟
3- اگر سوال نمبر 2 کا جواب نہیں ہے تو برائے مہربانی شیعہ، بریلوی اور دیوبندیوں میں موجود اس فرق پر روشنی ضرور ڈالی جائے جس سے ایک ہی کام کرنے سے دو اشخاص کے لیے نتائج میں فرق کیوں پڑتا ہے؟

نوٹ: میرا خیال ہے دونوں سوال نمبر 1 کا جواب "ہاں" ہی ہونا چاہیے کیونکہ فضائل اعمال کے تائید شدہ "قرطبی صاحب" نے قصے کے آخر میں دونوں باتوں کا سچا ہونا "بیان فرمایا" ہے۔

اشماریہ محمد عاصم انعام

30.jpg
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وعلیکم السلام،
بھائی یہ سوالات تو پھر گہرے معنی رکھتے ہیں۔جبکہ فضائل اعمال تو جھوٹ کا پلندہ ہے۔کیا کیا ذکر کریں اور کیا نہ کریں!
اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
وعلیکم السلام،
بھائی یہ سوالات تو پھر گہرے معنی رکھتے ہیں۔جبکہ فضائل اعمال تو جھوٹ کا پلندہ ہے۔کیا کیا ذکر کریں اور کیا نہ کریں!
اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے۔
جی باجی آپ نے صحیح سمجھا۔ شاید ہمارا کوئی دیوبندی بھائی ان سوالوں کو سمجھ لے اور تقلید سے جان چھڑالے اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم، جسے کہ اللہ نے ہمارے لیے standerd مقرر کیا اس کی طرف ہی رجوع کرنے والا بن جائے۔

واقعی اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

تبلیغی جماعت کی کتاب فضائل اعمال کے باب فضائلِ ذکر میں "ابو یزید قرطبی" کے حوالے سے ایک واقعہ منقول ہے۔
(تفصیل منسلک شدہ اسکین میں ملاحظہ فرمائیں)
اس واقعے کو پڑھ کر میرے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوئے، مجھے امید ہے کہ یہاں موجود ہمارے دیوبندی دوست ایک طالب علم کے ان سوالات کے جواب دینا پسند فرمائیں گے۔ واقعہ کے اقتباس میں "قرطبی صاحب" کے حوالے سے ہی نقل کروں گا تاکہ بات کا تسلسل برقرا رہے ورنہ "فضائل اعمال" لکھنے والے صاحب نے بھی اس واقعے کی تصدیق و تائید ہی کی ہے۔



1- کیا یوں سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے سے دوزخ سے نجات مل سکتی ہے؟
2- اگر ہاں، تو شیعہ اور بریلوی حضرات دوزخ سے نجات کی گارنٹی "سُن سُن" کر جو جو عمل کرتے ہیں انہیں بھی وہ اعمال کرنے پر دوزخ سے نجات مل جائے گی؟
3- اگر سوال نمبر 2 کا جواب نہیں ہے تو برائے مہربانی شیعہ، بریلوی اور دیوبندیوں میں موجود اس فرق پر روشنی ضرور ڈالی جائے جس سے ایک ہی کام کرنے سے دو اشخاص کے لیے نتائج میں فرق پڑتا ہے؟
4495 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


1۔ قطبی رح نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے سنا۔ کس سے سنا یہ واضح نہیں ہے۔ ہم اسے راوی کی وجہ سے ساقط کہہ سکتے ہیں اصول کی رو سے۔ لیکن قرطبی رح پر خود یہ الزام نہیں آ سکتا کیوں کہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے کسی انتہائی ثقہ فرد سے سنا ہو اور اختصار یا کسی اور وجہ سے ذکر نہ کیا ہو۔ اس وجہ سے اگر وہ اس پر عمل کریں تو کیا حرج ہے؟
دوسری بات یہ کہ جس چیز کی اصل شریعت میں ثابت ہو اس کے بارے میں کسی روایت پر عمل کرنا ممنوع نہیں البتہ اس روایت کا نتیجہ ثابت ہونا ضروری نہیں لیکن عمل کرنے میں کیا حرج ہے؟ یہ مقدار کشف سے بھی معلوم ہو سکتی ہے اور الہام سے بھی۔ نتیجہ ہر شخص کے لیے ثابت ہونا ضروری نہیں۔
2۔ اگر روایت کے بارے میں درست ہونے کا ظن غالب ہو اور اس کی اصل شریعت میں موجود بھی ہو تو اس پر عمل کرنا منع نہیں۔ لیکن نتیجہ ثابت ہو ہی جائے یہ بھی ضروری نہیں۔
3۔ وضاحت کی جا چکی ہے۔

1- کیا اِس طرح کسی بھی شخص کو قبر، جنت ، دوزخ وغیرہ کی معلومات مل جاتی ہیں؟
نواب صدیق حسن خان صاحب سے مآثر صدیقی میں کچھ ایسا ہی منقول ہے۔ آپ کو کشف پر کوئی اشکال ہے؟

2- اگر ہاں تو کیا آپ اس واقعے کی تصدیق کریں گے جس میں "طاہر القادری صاحب" اپنے ایک مرید کو دفنانے کے بعد اپنے مریدین کے مجمع میں اسے "منکر نکیر" کے سوالوں کے جواب قبر پر کھڑے ہو کر بتا رہے ہیں؟
اس کے لیے صاحب کلام کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہے کہ اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکے۔ یا پھر قرائن اس کی سچائی کی گواہی دیں۔

3- اگر سوال نمبر 2 کا جواب نہیں ہے تو برائے مہربانی شیعہ، بریلوی اور دیوبندیوں میں موجود اس فرق پر روشنی ضرور ڈالی جائے جس سے ایک ہی کام کرنے سے دو اشخاص کے لیے نتائج میں فرق کیوں پڑتا ہے؟
عرض کیا کہ صاحب کلام کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہے۔

وعلیکم السلام،
بھائی یہ سوالات تو پھر گہرے معنی رکھتے ہیں۔جبکہ فضائل اعمال تو جھوٹ کا پلندہ ہے۔کیا کیا ذکر کریں اور کیا نہ کریں!
اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے۔


کیا واقعی؟
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
آپ کو 70 ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھنے پر دوزخ کی آگ سے نجات پر حیرت ہورہی ہے جبکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ " جو کلمہ طیبہ کی صرف ایک بار گواہی دے اس کو جنت کی بشارت ہے " لیکن معاف کرنا اس فرمان رسولﷺ کو اس وقت بھی کسی شخص نے نہیں مانا تھا اور آج 70 ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھنے پر بھی لوگ نہیں مان رہے آخر ایسا کیوں؟؟؟؟؟
جب رسول اللہ نے ایک مرتبہ پر جنت کی بشارت دی تھی تو70 ہزار کی تعداد کیوں؟ کیا 1 اور 70 ہزار میں فرق نہیں-
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
1۔ قطبی رح نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے سنا۔ کس سے سنا یہ واضح نہیں ہے۔ ہم اسے راوی کی وجہ سے ساقط کہہ سکتے ہیں اصول کی رو سے۔ لیکن قرطبی رح پر خود یہ الزام نہیں آ سکتا کیوں کہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے کسی انتہائی ثقہ فرد سے سنا ہو اور اختصار یا کسی اور وجہ سے ذکر نہ کیا ہو۔ اس وجہ سے اگر وہ اس پر عمل کریں تو کیا حرج ہے؟
دوسری بات یہ کہ جس چیز کی اصل شریعت میں ثابت ہو اس کے بارے میں کسی روایت پر عمل کرنا ممنوع نہیں البتہ اس روایت کا نتیجہ ثابت ہونا ضروری نہیں لیکن عمل کرنے میں کیا حرج ہے؟ یہ مقدار کشف سے بھی معلوم ہو سکتی ہے اور الہام سے بھی۔ نتیجہ ہر شخص کے لیے ثابت ہونا ضروری نہیں۔
2۔ اگر روایت کے بارے میں درست ہونے کا ظن غالب ہو اور اس کی اصل شریعت میں موجود بھی ہو تو اس پر عمل کرنا منع نہیں۔ لیکن نتیجہ ثابت ہو ہی جائے یہ بھی ضروری نہیں۔
3۔ وضاحت کی جا چکی ہے۔


نواب صدیق حسن خان صاحب سے مآثر صدیقی میں کچھ ایسا ہی منقول ہے۔ آپ کو کشف پر کوئی اشکال ہے؟


اس کے لیے صاحب کلام کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہے کہ اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکے۔ یا پھر قرائن اس کی سچائی کی گواہی دیں۔


عرض کیا کہ صاحب کلام کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہے۔



کیا واقعی؟
اپنی زبان سی کسی چیز کو یوں ہی حلال وحرام کہنے سے منع کیا گیا ہے کہ کہیں تم اللہ پر جھوٹ بولنے والے نہ بن جاو- تو کیا یہاں اس سے بڑھ کر یہ بات صادق نہیں آتی- قرطبی رحمہ اللہ کے بارے میں میں آپ کی بات صحیح ہے -لیکن اس بے سند بات کو ذکر کر کے لوگوں کو اس عمل پر ابھارنا کیا صحیح ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اپنی زبان سی کسی چیز کو یوں ہی حلال وحرام کہنے سے منع کیا گیا ہے کہ کہیں تم اللہ پر جھوٹ بولنے والے نہ بن جاو- تو کیا یہاں اس سے بڑھ کر یہ بات صادق نہیں آتی- قرطبی رحمہ اللہ کے بارے میں میں آپ کی بات صحیح ہے -لیکن اس بے سند بات کو ذکر کر کے لوگوں کو اس عمل پر ابھارنا کیا صحیح ہے؟
بھائی جان قرطبی رح نے صاحب کشف کے ذریعے اس بات کا یقین کر لیا تھا جیسا کہ واقعہ میں ذکر ہے۔
باقی واقعہ صرف کلمہ کی فضیلت کے لیے ذکر کیا گیا ہے شاید۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
1۔ قطبی رح نے یہ فرمایا ہے کہ میں نے سنا۔ کس سے سنا یہ واضح نہیں ہے۔ ہم اسے راوی کی وجہ سے ساقط کہہ سکتے ہیں اصول کی رو سے۔ لیکن قرطبی رح پر خود یہ الزام نہیں آ سکتا کیوں کہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے کسی انتہائی ثقہ فرد سے سنا ہو اور اختصار یا کسی اور وجہ سے ذکر نہ کیا ہو۔ اس وجہ سے اگر وہ اس پر عمل کریں تو کیا حرج ہے؟
دوسری بات یہ کہ جس چیز کی اصل شریعت میں ثابت ہو اس کے بارے میں کسی روایت پر عمل کرنا ممنوع نہیں البتہ اس روایت کا نتیجہ ثابت ہونا ضروری نہیں لیکن عمل کرنے میں کیا حرج ہے؟ یہ مقدار کشف سے بھی معلوم ہو سکتی ہے اور الہام سے بھی۔ نتیجہ ہر شخص کے لیے ثابت ہونا ضروری نہیں۔
2۔ اگر روایت کے بارے میں درست ہونے کا ظن غالب ہو اور اس کی اصل شریعت میں موجود بھی ہو تو اس پر عمل کرنا منع نہیں۔ لیکن نتیجہ ثابت ہو ہی جائے یہ بھی ضروری نہیں۔
3۔ وضاحت کی جا چکی ہے۔
نواب صدیق حسن خان صاحب سے مآثر صدیقی میں کچھ ایسا ہی منقول ہے۔ آپ کو کشف پر کوئی اشکال ہے؟
اس کے لیے صاحب کلام کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہے کہ اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکے۔ یا پھر قرائن اس کی سچائی کی گواہی دیں۔
عرض کیا کہ صاحب کلام کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہے۔
بھائی آپ نےجواب دینے کی زحمت گوارا کی اس کے لیے شکریہ۔۔۔۔ لیکن کچھ خلط مبحث سا کر گئے خیر
مختصرا کیا ہم جوابات کو یوں ترتیب دے سکتے ہیں؟

1- کیا یوں سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے سے دوزخ سے نجات مل سکتی ہے؟

جی ہاں
2- اگر ہاں، تو شیعہ اور بریلوی حضرات دوزخ سے نجات کی گارنٹی "سُن سُن" کر جو جو عمل کرتے ہیں انہیں بھی وہ اعمال کرنے پر دوزخ سے نجات مل جائے گی؟

جی ہاں
3- اگر سوال نمبر 2 کا جواب نہیں ہے تو برائے مہربانی شیعہ، بریلوی اور دیوبندیوں میں موجود اس فرق پر روشنی ضرور ڈالی جائے جس سے ایک ہی کام کرنے سے دو اشخاص کے لیے نتائج میں فرق پڑتا ہے؟

چونکہ سوال نمبر 2 کا جواب "ہاں" ہے لہٰذا ان تینوں میں کوئی فرق نہیں
1- کیا اِس طرح کسی بھی شخص کو قبر، جنت ، دوزخ وغیرہ کی معلومات مل جاتی ہیں؟

جی ہاں مل جاتی ہیں۔
2- اگر ہاں تو کیا آپ اس واقعے کی تصدیق کریں گے جس میں "طاہر القادری صاحب" اپنے ایک مرید کو دفنانے کے بعد اپنے مریدین کے مجمع میں اسے "منکر نکیر" کے سوالوں کے جواب قبر پر کھڑے ہو کر بتا رہے ہیں؟

جی ہاں
3- اگر سوال نمبر 2 کا جواب نہیں ہے تو برائے مہربانی شیعہ، بریلوی اور دیوبندیوں میں موجود اس فرق پر روشنی ضرور ڈالی جائے جس سے ایک ہی کام کرنے سے دو اشخاص کے لیے نتائج میں فرق کیوں پڑتا ہے؟

چونکہ سوال نمبر 2 کا جواب "ہاں" ہے لہٰذا ان تینوں میں کوئی فرق نہیں
اگر آپ کو لگے کہ مَیں نے کسی سوال کا جواب غلط سمجھا ہے تو اسے اسی طرح QUOTE کر کے صحیح کر کے لکھ دیجیے گا۔

اس کے لیے صاحب کلام کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہے کہ اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکے۔ یا پھر قرائن اس کی سچائی کی گواہی دیں۔
آپ کی اس بات پر عرض یہ ہے کہ صاحبِ کلام کا آپ کی نظر میں معتبر ہونا ضروری ہے یا اپنے معتقدین اور مریدین کی نظر میں؟

کیونکہ قادری صاحب اپنے معتقدین اور مریدین کی نظر میں اُس سے زیادہ معتبر ہوں گے جتنے آپ کی نظر میں قرطبی صاحب یا زکریا صاحب بھی شاید ہی ہوں۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بھائی آپ نےجواب دینے کی زحمت گوارا کی اس کے لیے شکریہ۔۔۔۔ لیکن کچھ خلط مبحث سا کر گئے خیر
مختصرا کیا ہم جوابات کو یوں ترتیب دے سکتے ہیں؟

میرے خیال میں آپ سب کچھ ہی غلط کر گئے۔ پوسٹ دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔

البتہ آخری بات پر ہم اس بات کے حل ہونے کے بعد بات کرتے ہیں۔
 
Top