• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اس حدیث سے علم غیب ثابت ہوتا ہے؟

شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
سب جانتے تھے تو اس حدیس کا کیا متلب ھے
"" آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ "
صحیح بخاری
کتاب الفتن
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ الانفال میں یہ فرمانا کہ

{واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة} /الأنفال: 25/. وما كان النبي صلى الله عليه وسلم يحذر من الفتن.
”ڈرو اس فتنہ سے جو ظالموں پر خاص نہیں رہتا (بلکہ ظالم وغیر ظالم عام خاص سب اس میں پس جاتے ہیں) اس کا بیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی امت کو فتنوں سے ڈراتے اس کا ذکر۔

حدیث نمبر: 7048
حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا بشر بن السري،‏‏‏‏ حدثنا نافع بن عمر،‏‏‏‏ عن ابن أبي مليكة،‏‏‏‏ قال قالت أسماء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أنا على،‏‏‏‏ حوضي أنتظر من يرد على،‏‏‏‏ فيؤخذ بناس من دوني فأقول أمتي‏.‏ فيقول لا تدري،‏‏‏‏ مشوا على القهقرى ‏"‏‏.‏ قال ابن أبي مليكة اللهم إنا نعوذ بك أن نرجع على أعقابنا أو نفتن‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن سری نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) میں حوض کوثر پر ہوں گا اور اپنے پاس آنے والوں کا انتظار کرتا رہوں گا پھر (حوض کوثر) پر کچھ لوگوں کو مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔ ابن ابی ملیکہ اس حدیث کو روایت کرتے وقت دعا کرتے ”اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم الٹے پاؤں پھر جائیں یا فتنہ میں پڑ جائیں“۔
sabse behter janne wala Allah hai
ap nahi jante inhone apke baad.PNG
2
gaib nhi janta 2.PNG
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان : (173)
حشر کی کیفیت کا بیان ۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1473
حدیث قدسی مکررات 19 متفق علیہ 11
محمد بن بشار، غندر، شعبہ، مغیرہ بن نعمان، سعید بن جبیر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں، کہ ہمارے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، فرمایا کہ تمہاراحشر اس حال میں ہوگا کہ تم ننگے پاؤں اور ننگے جسم ہوگے (اللہ فرماتا ہے کہ) ہم نے پہلی مرتبہ جس طرح پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ پیدا کریں گے، آخر آیت تک اور قیامت کے دن سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام لباس پہنائے جائیں گے، میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے بائیں ہاتھ والے ہوں گے (یعنی اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ہوگا) اور ان کا مواخذہ کیا جائے گا میں عرض کروں گا، کہ اے میرے پروردگار یہ میری امت ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے جو انہوں نے تمہارے بعد کیا ہے، تو میں وہی عرض کروں گا، کہ اے میرے پروردگار یہ میری امت ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے جوانہوں نے تمہارے بعد کیا ہے، تو میں وہی عرض کروں گا، جو عبد صالح (یعنی عیسیٰ) کریں گے میں ان پر گواہ تھا جب تک کہ میں ان میں رہا اللہ کے قول الحکیم تک آپ نے فرمایا کہ پھر یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ لوگ ہمیشہ روگردانی کرتے رہے ہیں۔
Narrated Ibn 'Abbas:
The Prophet stood up among us and addressed (saying) "You will be gathered, barefooted, naked, and uncircumcised (as Allah says): 'As We began the first creation, We shall repeat it..' (21.104) And the first human being to be dressed on the Day of Resurrection will be (the Prophet) Abraham Al-Khalil. Then will be brought some men of my followers who will be taken towards the left (i.e., to the Fire), and I will say: 'O Lord! My companions whereupon Allah will say: You do not know what they did after you left them. I will then say as the pious slave, Jesus said, And I was witness over them while I dwelt amongst them..........(up to) ...the All-Wise.' (5.117-118). The narrator added: Then it will be said that those people (relegated from Islam, that is) kept on turning on their heels (deserted Islam).
حدثني محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة عن المغيرة بن النعمان عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال قام فينا النبي صلی الله عليه وسلم يخطب فقال إنکم محشورون حفاة عراة غرلا کما بدأنا أول خلق نعيده الآية وإن أول الخلائق يکسی يوم القيامة إبراهيم وإنه سيجائ برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال فأقول يا رب أصحابي فيقول إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک فأقول کما قال العبد الصالح وکنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم إلی قوله الحکيم قال فيقال إنهم لم يزالوا مرتدين علی أعقابهم
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
امام الانبیاءﷺ بھی عالم الغیب نہیں

اس بات میں رائی کے دانہ کے برابر شک نہیں کہ مخلوقات میں سے کسی ہستی کو اگر علم غیب کی صفت سے نوازا جاتا ۔۔۔۔ تو یقیناً وہ ہستی امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی تھی جو مجموعہ کمالات ہیں۔۔۔۔تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں الگ الگ پائے جانے والے اُوصاف ان کے وجود مقدس میں جمع کر دئیے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔آپﷺ ہی رحمت للعالمین کے لقب سے مزین اور خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہیں۔۔۔۔۔۔۔آپ ﷺ ہی سید ولد آدم کے شرف سے مشرف ہیں۔۔۔۔۔ آپ ﷺہی میدانِ محشر میں مقام محمود کے دُولہا اور حوض کوثر کے ساقی اور لواء الحمد کے حامل ہوں گے۔۔۔۔۔۔آپ ﷺ ہی بعد از خدا بزرگ توئی کا مصداق ہیں۔۔۔۔۔۔ اور صاحب معراج اور صاحب قرآن کے القاب آپﷺ ہی کے لئے مخصوص ہیں۔۔۔۔۔۔ اللہ رب العزت نے علم وحکمت میں اور فہم وفراست میں آپﷺ کو ممتاز مقام عطاء فرمایا۔۔۔۔۔۔
مگر علم غیب جو خاصۂ باری تعالیٰ ہے ، اس میں آپﷺ کو بھی شریک اور سانجھی نہیں بنایاگیا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن میں اللہ رب العزت کیا ارشاد فرماتے ہیں:

پہلی آیت:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ﴿ سورة الإنعام : ۵۰
کہہ دو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس الله کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے کہہ دو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں کیا تم غور نہیں کرتے؟
قارئین گرامی!! ضد وعناد کی عینک اُتار کر۔۔۔۔۔اور ہر قسم کی دھڑے بندی سے ماوراء ہو کر ۔۔۔۔۔ اس آیت کریمہ کے الفاظ پر غور فرمائیے
اللہ رب العزت نے اپنے پیارے اور محبوب ترین پیغمبر کو حکم دیا کہ تین باتوں کا اعلان اپنی زبانِ مقدس سے فرمائیں۔۔۔۔ تاکہ کوئی شخص آپﷺ کے مقام ومرتبہ ، رفعت وعظمت اور بلندئ درجات کو دیکھ کر آپﷺ کو صفاتِ الہٰی میں شریک نہ مان لے۔

۞ پہلا اعلان فرمائیں کہ : میں اللہ کے خزانوں کا مالک و مختار نہیں ہوں۔
۞ دوسرا اعلان فرمائیں کہ: میں عالم الغیب نہیں ہوں ۔ اور
۞ تیسرا اعلان فرمائیں کہ : میں نوری نہیں ہوں۔
دوسری آیت:
اگر اس آیت کریمہ کو پڑھ کر ہمارے کسی بھائی کی تسلی نہیں ہوئی تو اس آیت کو غور سے پڑھیے۔

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿ سورة الأعراف : ۱۸۸
آپﷺ فرما دیجئے کہ میں تو اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے(وہی ہوتا ہے) اور اگر میں عالم الغیب ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی، میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں۔
اس آیت کے الفاظ پر گہری نظر سے غور فرمائیے۔۔۔۔ کتنے واضح ، شفاف اور صاف الفاظ میں خود امام الانبیاء ﷺ کی زبان مقدس سے اعلان جاری کروایا جا رہا ہے کہ میں مختار کُل بھی نہیں ہوں اور میں غیب دان بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔اگر میں عالم الغیب ہوتاتو مجھے تکالیف اور مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔۔۔۔۔ میرا بدن لہو لہان نہ ہوتا، میرے ستر صحابہ شہید نہ ہوتے،میرا دانت نہ ٹوٹتا اور میں ایک گڑھے میں گِر کر زخمی نہ ہوتا، زہرآلود کھانا کھانے سے میرے ساتھی شہیدنہ ہوتے۔ بھوک کی وجہ سے مجھے پیٹ پر پتھر نہ باندھنے پڑتے اور میری زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بہتان لگنے کی وجہ سے میں مہینہ بھر پریشان نہ رہتا۔
امام الانبیاء ﷺ کو اپنی مبارک زندگی میں کتنے دکھ ، مصائب اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔۔۔۔۔ اس کا احاطہ کرنا تو بہت مشکل ہے ۔۔۔۔۔ البتہ دو تین واقعات احادیث کی معتبر کُتب سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں۔۔۔۔۔ اللہ کے لئے انابت کے جذبے سے ان واقعات پر غور فرمائیے، اور پھر اپنے ضمیر کو فیصل مان کر فیصلہ کیجئے کہ کیا واقعی امام الانبیاءﷺ عالم الغیب ہیں؟
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
پہلا واقعہ :
قبائل عرب میں سے کچھ لوگوں نے مدینہ میں آکر ظاہراً اسلام قبول کیا۔۔۔۔۔پھر درخواست کرنے لگےکہ ہمارے قبیلے کے کئی لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ، ان کی تعلیم وتربیت کے لیے اور انہیں اسلام کے احکام سکھانے کے لیے کچھ قراء اور علماء صحابہ کو ہمارے ساتھ روانہ کیجئے ، تاکہ وہ انہیں دین کے بنیادی مسائل اور احکام کی تعلیم دیں۔۔۔۔۔۔امام الانبیاء ﷺ نے ان کی درخواست کو منظور فرماتے ہوئے ستر ایسے صحابہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا جو بلند مرتبہ علماء اور قراء تھے۔
ان سفاک صفت ظالموں نے بئر معونہ کے مقام پر جا کر ایک کے سوا سب کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا۔
ایک مہینے تک امام الانبیاء ﷺ کو اس المناک واقعہ اور حادثہ کا علم نہیں ہو سکا۔۔۔۔۔ایک مہینے کے بعد حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ ﷺ کے صحابہ کو شہید کر دیا گیا ہےاور جب ان میں سے کسی کو تلوار ااور نیزے کا زخم لگتا تھا تو اپنے اللہ سے التجا کرتے ہوئے کہتا تھا

اَللّٰھُمَّ اَخْبِرْ عَنَّا نَبِیَّكَ۔۔۔۔۔اے ہمارے پالنہار ہماری اس حالت کی اطلاع اور خبر اپنے محبوب پیغمبر تک پہنچادے۔ (بخاری ، جلد ۱، صفحہ ۴۳۱۔۳۹۳۔۱۷۳)
تاریخ اسلام کا یہ افسوسناک اور درد ناک واقعہ اس حقیقت ک کھلی اور واضح دلیل ہے کہ امام الانبیاء ﷺ کو جمیع ”ماکان ومایکون “ کا علم نہیں تھا۔۔۔۔آپﷺ آنے والے حالات وواقعات کو نہیں جانتے تھے۔۔۔۔ اگر آپ غیب دان ہوتے تو ان منافقین پر اعتماد کر کے ستر صحابہ کو ان کے ساتھ کبھی روانہ نہ فرماتے۔

نیز ان شہید ہونے والے صحابہ y کی التجا سے کہ مولا! ہماری حالت کی اطلاع اور خبر اپنے نبی کو پہنچا دے۔۔۔۔۔ ان کا عقیدہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کو عالم الغیب اور حاضروناظر نہیں سمجھتے تھے، ورنہ اللہ سے یہ درخواست کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

دوسرا واقعہ:
غزوهٔ خیبر کے موقع پر زینب نامی ایک یہودی عورت نے نبی اکرمﷺ کی دعوت کی اور زہر آلود کھانا دسترخوان پر سجا دیا۔۔۔۔آپﷺنے اور آپﷺ کے صحابہ
y نے زہر آلود کھانا تناول کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ پہلا لقمہ کھانے کے بعد آپﷺ کو احساس ہوا کہ کھانا زہرآلود ہے۔۔۔۔ ایک روایت میں ہے کہ گوشت کے ٹکڑے نے بول کر کہا کہ مجھ میں زہر ہے۔۔۔۔۔آپﷺ پر زہر کا اثر اگرچہ فوری طور پر نہ ہوا۔۔۔۔۔ مگر بعض صحابہ اس زہر آلود کھانا کھانے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ (ابوداؤد، جلد ۲، صفحہ ۵۴۲)
بخاری کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے مرضِ وفات میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : میں نے خیبر میں جب سے زہر آلود کھانا کھایا ہے اس کھانے کی تکلیف برابر محسوس کرتا رہا ہوں اور اب تو یوں لگتا ہے کہ اس زہر کے اثر سےمیری رگِ جاں کٹ رہی ہے۔ (بخاری ، جلد۲، صفحہ ۶۳۷)
قارئین کرام ! یہ واقعہ بھی امام الانبیاء ﷺ سے علم غیب کی نفی پر واضح اور زبردست دلیل ہے ۔۔۔۔۔ اگر آپ ﷺ غیب دان ہوتے اور آپ ﷺ کو معلوم ہوتا کہ کھانا زہر آلود ہے، تو وہ زہر آلود کھانا نہ آپﷺ خود تناول فرماتے اور نہ اپنے صحابہ
y کوکھانے دیتے۔
تیسرا واقعہ :
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک غزوہ میں وہ امام الانبیاء ﷺ کے ہمراہ تھیں۔ راستے میں ایک جگہ پر لشکر نے پڑاؤ کیا، وہاں میرا ہار گم ہو گیا۔۔۔۔آپﷺ نے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہار کی تلاش کیلئے روانہ فرمایا۔۔۔۔ جس جگہ لشکر کا پڑاؤ تھاوہاں پانی نہیں تھا ، اورصبح کی نماز قضا ہونے کے قریب ہو گئی تھی اور ابھی تک تیمم کا حکم نازل نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔ کائنات کے آقا ﷺ پریشان ، صحاب رسول رضی اللہ عنہم الگ غمگین وحیران ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا الگ اداس وافسردہ ۔۔۔۔۔ آخرکا ر ہار نہ ملنے پر آپﷺ نے روانگی کا حکم صادفرمایا۔
اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب میرا اُونٹ اُٹھایا گیاتو ہار اُونٹ کے نیچے موجود تھا ۔ (بخاری، جلد۱،صفحہ ۶۸،مسلم، جلد ۱،صفحہ ۱۶۰)
امام الانبیاءﷺ اور اصحاب رسول کو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔۔۔۔۔۔اصحاب رسول ہار کی تلاش میں حیران پھر رہے ہیں اور ہار ان سب کے قریب اُونٹ کے نیچے موجوو ہے۔ اگر آپ غیب دان ہوتے تو اتنی پریشانی کیوں اُٹھاتے؟ کیا کوئی ذی ہوش اس بات کا تصور کر سکتاہے کہ نبی اکرم ﷺ کو ہار کے بارے میں علم تو تھا۔۔۔۔۔۔ مگر صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہار تلاش کرنے کے لیے عمداً روانہ فرمایا؟ (العیاذ باللہ)
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
ذاتی اور عطائی کی تفریق اور اس کا جواب

پچھلی پوسٹوں میں آپ نے سورۃ الأنعام اور سورة الأعراف کی آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں امام الانبیاء ﷺ کی زبان مقدس سے اعلان کروایا گیا کہ میں غیب نہیں جانتا۔۔۔۔ اتنی واضح اور کھلی آیات کا جواب جب ہمارے مہربانوں سے نہیں بن پاتا تو وہ اس کی تأویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر غیب نہیں جانتا بلکہ اللہ کی عطاء سے جانتا ہوں۔۔۔۔ یعنی قرآن میں جہاں جہاں نبی اکرم ﷺ سے کسی بات کے جاننے کی نفی کی گئی ہے، وہاں ذاتی علم کی نفی ہے۔۔۔۔ عطائی علم کی نفی نہیں ہے اور ہم نبی اکرم ﷺ کے لیے ذاتی علم غیب کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہم تو آپ ﷺ کے لیے عطائی علم غیب مانتے ہیں۔
الجواب :

اس تأویل کے جو جواب میں عرض کرنا چاہتا ہوں اُسے ٹھنڈے دل ودماغ سے پڑھیئے۔
علم غیب کی صفت کو ذاتی اور عطائی میں تقسیم کرنے والے احباب سے میرا ایک سوال ہے ۔۔۔۔
کہ کیا نبی اکرمﷺ کا اپنا وجودِ مقدس ذاتی تھا ؟ جواب بالکل واضح ہے کہ آپﷺ کا وجود ذاتی نہیں تھا، بلکہ عطاء الہٰی تھا۔ (یعنی عطائی تھا)
پھر اس عطائی وجود کو جو صفات ملیں گی، ظاہر ہے وہ صفات بھی ذاتی نہیں ہوں گی ، بلکہ عطائی ہوں گی۔
اور جب اس عطائی وجود سے کسی صفت کی نفی ہو گی ، تو عطائی صفت ہی کی نفی ہو گی۔

کیا اتنی آسان سی بات آپ کی سمجھ شریف میں نہیں آرہی کہ جب نبی اکرمﷺ کی کوئی صفت ذاتی ہے ہی نہیں ، بلکہ ہر صفت عطائی ہے تو پھر ذاتی صفت کی نفی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ جب بھی نفی ہو گی عطائی صفت ہی کی نفی ہو گی۔
اگر بات سمجھ نہیں آئی تو ایک دوسرے انداز سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔۔
جب کفار مکہ آپ ﷺ سے پوچھ رہے تھے کہ قیامت کب آئے گی ۔۔۔؟؟؟

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا
آپ ﷺ ان کے جواب میں فرما رہے تھے:

إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ﴿سورة الأعراف : ۱۸۷
قیامت کے وقوع کا علم میرے رب کے پاس ہے۔
آپ ہی امانت ودیانت سے بتائیں کہ امام الانبیاء ﷺ کے اس جواب کا مفہوم۔۔۔۔۔ کیا یہ بن سکتا ہے کہ قیامت کے وقوع کا ذاتی علم تو اللہ کے پاس ہے اور عطائی علم میرے پاس ہے؟ کیا کفار مکہ یہی پوچھنا چاہتے تھے کہ قیامت کے وقت کا ذاتی علم کس کو ہے اور عطائی کس کو ہے؟؟
اگر میری بات سمجھ نہیں آئی تو ایک اور طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔ اگر کوئی عیسائی کہے کہ میں اللہ کو ذاتی طور پر الٰہ مانتا ہوں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو عطائی الٰہ مانتا ہوں تو کیا ذاتی اور عطائی کی تقسیم کرنے والے احباب اس عیسائی کی اس لچر بات کو تسلیم کر لیں گے؟
اور اگر کوئی یہودی کہے کہ میں اللہ کو ذاتی طور پر خالق اور رازق مانتا ہوں اور حضرت عزیز علیہ السلام کو عطائی طور پر خالق و رازق مانتا ہوں ۔۔۔۔۔ تو کیا کوئی ذی ہوش اس کی یہ تأویل ماننے کے لیے تیار ہو گا؟
جس طرح اللہ کی صفت اُلوہیت، خالقیت اور رازقیت میں ذاتی اور عطائی کی تقسیم ناقابل تقسیم ہے۔ اسی طرح اللہ کی صفت علم غیب میں بھی ذاتی اور عطائی کی تقسیم ناقابل فہم ہے۔ ۔۔۔؟؟؟
قارئین کرام ! امیرے ان آسان دلائل سے اگر کسی مہربان کی تسلی اور تشفی نہیں ہوئی تو میں قرآن مقدس سے دو ایسی آیتیں آپ حضرات کے سامنے رکھ دیتا ہوں جن میں امام الانبیاء ﷺ سے بعض عطائی علم کی نفی ہو رہی ہے ۔
سورة یاسین میں ارشاد ہوا :


وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ
﴿سورة یٰس : ۶۹

اور ہم نے ان (نبی اکرمﷺ) کو شعر وشاعری کا علم نہیں دیا اور وہ علم ان کے شایان شان بھی نہیں۔
اس آیت سے اتنی بات تو معلوم ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو شعر کہنے کا اور شاعری کا علم عطاء نہیں فرمایا۔
ایک اور مقام ملاحظہ فرمائیں :


وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ۔۔۔
﴿سورة غافر : ۷۸
اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے بہت سے پیغمبر بھیجے، ان میں سے کچھ پیغمبر تو ایسے ہیں جن کے حالات آپﷺ سے بیان فرمائےاور کچھ پیغمبر ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے آپﷺ سے بیان نہیں کیے۔

اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ بعض انبیاء علیہم السلام کے حالات کا علم آپﷺ کو عطا ءہوا اور کچھ انبیاء علیہم السلام کے حالات کا علم
آپﷺ کو عطاءنہیں کیا گیا ۔ ]علم غیب کیا ہے؟ از محمد عطاء اللہ بندیالوی[
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

لیکن معاف کیجئے گا آپ جیسے کچھ کہہ رہے اس کے بارے میں حضرت عمر تو یہ فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے " ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گےکی خبر ہمیں دی یعنی جو ہوچکا اس کی خبر بھی دی اور جو ہوگا اس کی بھی ساری خبر ارشاد فرمادی اب یہ آپ کی چوائس ہے کہ آپ اپنے نفس کی مانتے ہیں یا صحیح حدیث کو

ویسے داؤد راز نے بھی کسی منچلے جیسا ہی استدلال کیا ہے اس حدیث میں بریکٹ لگا کے "(وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا)" اب کسی اور منچلے کی بات آپ نہ مانو یا نہ مانو لیکن داؤد راز کی ہی مان لو

یہ شعر عبید رضا کا ہے ایسی تعت شریف کا ایک شعر اورہے جو حسب حال ہے اس لئے عرض کئے دیتا ہوں
منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں

اس کی دلیل
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو
سورہ توبہ : 65
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

اس آیت کی شان نزول کے بارے میں امام طبری اپنی تفسیر طبری میں فرماتے ہیں کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی ، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا او نٹنی فلاںجنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا '' محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ ''
اس پراﷲ عزوجل نے یہ آیت کریمہ اتاری کہ کیا اﷲ ورسول سےٹھٹھاکرتے ہو ، بہانے نہ بناؤ، تم مسلمان کہلاکر اس لفظ کے کہنے سے کافرہوگئے ۔
اس کے علاوہ دیگر مفسیرین اکرام نے بھی اس آیت کے شان نزول کے بارے میں اس روایت کو پیش کیا ہے
یہ منافقین کا عقیدہ ہوا کہ " منافقوں کا عقیدہ، وہ غیب دان نہیں "
اب دیکھتے ہیں صحابہ کا عقیدہ کیا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے جب بھی کوئی بات معلوم کرتے تو ان جواب یہی ہوتا کہ الله ورسوله أعلم‏یعنی اللہ اور اس کے رسول جانتے ہیں مثلا حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یا معاذ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں، یا رسول اللہ! آپ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم ہے اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حق ہیں؟ میں نے عرض کیا
الله ورسوله أعلم‏ اللہ اور اس کے رسول جانتے ہیں
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 5967
صحابیوں کا عقیدہ حضور جانتے ہیں
اب آپ کی چوائس ہے کہ آپ صحابہ کا عقیدہ اپنائیں یا منافقین کا
خدا ہی جانے عبید اُن کو ہے پتا کیا کیا
ہمیں پتا ہے بس اتنا حضور جانتے ہیں

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
السلام علیکم !
محترمی ! یہ تمام چیزیں جو آپ ”متواتر“ بیان کیے جا رہے ہیں ان کہ با وجود ،کیا اللہ تعالٰی نے رسول اللہ ﷺکو قرآن مجید میں ” عالم الغیب“ کہا ہے ؟ اگر کہا ہے تو براہِ کرم وہ ”قرآنی آیات “ پیش فرمائیں۔
عین نوازش ہو گی !
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ذاتی اور عطائی کی تفریق اور اس کا جواب

پچھلی پوسٹوں میں آپ نے سورۃ الأنعام اور سورة الأعراف کی آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں امام الانبیاء ﷺ کی زبان مقدس سے اعلان کروایا گیا کہ میں غیب نہیں جانتا۔۔۔۔ اتنی واضح اور کھلی آیات کا جواب جب ہمارے مہربانوں سے نہیں بن پاتا تو وہ اس کی تأویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میں ذاتی طور پر غیب نہیں جانتا بلکہ اللہ کی عطاء سے جانتا ہوں۔۔۔۔ یعنی قرآن میں جہاں جہاں نبی اکرم ﷺ سے کسی بات کے جاننے کی نفی کی گئی ہے، وہاں ذاتی علم کی نفی ہے۔۔۔۔ عطائی علم کی نفی نہیں ہے اور ہم نبی اکرم ﷺ کے لیے ذاتی علم غیب کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہم تو آپ ﷺ کے لیے عطائی علم غیب مانتے ہیں۔
الجواب :

اس تأویل کے جو جواب میں عرض کرنا چاہتا ہوں اُسے ٹھنڈے دل ودماغ سے پڑھیئے۔
علم غیب کی صفت کو ذاتی اور عطائی میں تقسیم کرنے والے احباب سے میرا ایک سوال ہے ۔۔۔۔
کہ کیا نبی اکرمﷺ کا اپنا وجودِ مقدس ذاتی تھا ؟ جواب بالکل واضح ہے کہ آپﷺ کا وجود ذاتی نہیں تھا، بلکہ عطاء الہٰی تھا۔ (یعنی عطائی تھا)
پھر اس عطائی وجود کو جو صفات ملیں گی، ظاہر ہے وہ صفات بھی ذاتی نہیں ہوں گی ، بلکہ عطائی ہوں گی۔
اور جب اس عطائی وجود سے کسی صفت کی نفی ہو گی ، تو عطائی صفت ہی کی نفی ہو گی۔

کیا اتنی آسان سی بات آپ کی سمجھ شریف میں نہیں آرہی کہ جب نبی اکرمﷺ کی کوئی صفت ذاتی ہے ہی نہیں ، بلکہ ہر صفت عطائی ہے تو پھر ذاتی صفت کی نفی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ جب بھی نفی ہو گی عطائی صفت ہی کی نفی ہو گی۔
اگر بات سمجھ نہیں آئی تو ایک دوسرے انداز سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔۔
جب کفار مکہ آپ ﷺ سے پوچھ رہے تھے کہ قیامت کب آئے گی ۔۔۔؟؟؟

يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا
آپ ﷺ ان کے جواب میں فرما رہے تھے:

إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ﴿سورة الأعراف : ۱۸۷
قیامت کے وقوع کا علم میرے رب کے پاس ہے۔
آپ ہی امانت ودیانت سے بتائیں کہ امام الانبیاء ﷺ کے اس جواب کا مفہوم۔۔۔۔۔ کیا یہ بن سکتا ہے کہ قیامت کے وقوع کا ذاتی علم تو اللہ کے پاس ہے اور عطائی علم میرے پاس ہے؟ کیا کفار مکہ یہی پوچھنا چاہتے تھے کہ قیامت کے وقت کا ذاتی علم کس کو ہے اور عطائی کس کو ہے؟؟
اگر میری بات سمجھ نہیں آئی تو ایک اور طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔ اگر کوئی عیسائی کہے کہ میں اللہ کو ذاتی طور پر الٰہ مانتا ہوں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو عطائی الٰہ مانتا ہوں تو کیا ذاتی اور عطائی کی تقسیم کرنے والے احباب اس عیسائی کی اس لچر بات کو تسلیم کر لیں گے؟
اور اگر کوئی یہودی کہے کہ میں اللہ کو ذاتی طور پر خالق اور رازق مانتا ہوں اور حضرت عزیز علیہ السلام کو عطائی طور پر خالق و رازق مانتا ہوں ۔۔۔۔۔ تو کیا کوئی ذی ہوش اس کی یہ تأویل ماننے کے لیے تیار ہو گا؟
جس طرح اللہ کی صفت اُلوہیت، خالقیت اور رازقیت میں ذاتی اور عطائی کی تقسیم ناقابل تقسیم ہے۔ اسی طرح اللہ کی صفت علم غیب میں بھی ذاتی اور عطائی کی تقسیم ناقابل فہم ہے۔ ۔۔۔؟؟؟
قارئین کرام ! امیرے ان آسان دلائل سے اگر کسی مہربان کی تسلی اور تشفی نہیں ہوئی تو میں قرآن مقدس سے دو ایسی آیتیں آپ حضرات کے سامنے رکھ دیتا ہوں جن میں امام الانبیاء ﷺ سے بعض عطائی علم کی نفی ہو رہی ہے ۔
سورة یاسین میں ارشاد ہوا :


وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ
﴿سورة یٰس : ۶۹

اور ہم نے ان (نبی اکرمﷺ) کو شعر وشاعری کا علم نہیں دیا اور وہ علم ان کے شایان شان بھی نہیں۔
اس آیت سے اتنی بات تو معلوم ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو شعر کہنے کا اور شاعری کا علم عطاء نہیں فرمایا۔
ایک اور مقام ملاحظہ فرمائیں :


وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ۔۔۔
﴿سورة غافر : ۷۸

اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے بہت سے پیغمبر بھیجے، ان میں سے کچھ پیغمبر تو ایسے ہیں جن کے حالات آپﷺ سے بیان فرمائےاور کچھ پیغمبر ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے آپﷺ سے بیان نہیں کیے۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ بعض انبیاء علیہم السلام کے حالات کا علم آپﷺ کو عطا ءہوا اور کچھ انبیاء علیہم السلام کے حالات کا علم
آپﷺ کو عطاءنہیں کیا گیا ۔ ]علم غیب کیا ہے؟ از محمد عطاء اللہ بندیالوی[
”عطائی یا محدود“ کا نظریہ تو محض ایک”فریب“ کے سوا کچھ نہیں ۔یہ ”عطائی“ طریقہ ہی ہے جس کے بل بوتے ”طبقۂ خاص“ نبی ﷺ کو ”خدائی اختیارات “ عطاء کرتا ہے ۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
ٹی کے ایچ صاحب نے لکھا
کیا اللہ تعالٰی نے رسول اللہ ﷺکو قرآن مجید میں ” عالم الغیب“ کہا ہے ؟ اگر کہا ہے تو براہِ کرم وہ ”قرآنی آیات “ پیش فرمائیں۔
استغفراللہ ، جن پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنے کا الزام لگایا جاتا ہے ، اُن کے کسی مستند عالم دین کی کسی کتاب کا سکین یہاں لگائیں ،مہربانی ہو گی، ورنہ اس بے بنیاد الزام تراشی سے توبہ کریں۔مخالفت کی بنیاد جھوٹ پر نہ بنائیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرلفظ عالم الغیب کے اطلاق کو تو کوئی مسلک بھی جائز نہیں سمجھتا۔
 
Last edited:
Top