• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
شاید کچھ حضرات یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات آسمان پر تشریف فرما ہے اور فرشتے اس کو دنیا کی خبریں ایک طویل مسافت طے کرکے پہنچاتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
(۱) چلیے کچھ وقت کے لیے اگر یہ تسلم کر بھی لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر تشریف فرما ہیں اور ساری خبریں فرشتوں کے ذریعہ ملتی ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ (نعوذباللہ ) اگر فرشتے نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کو دنیا کی خبر نہیں ہوگی
(۲) دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چلیے دنیا کی خبر تو اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کے ذریعہ مل جاتی ہے ۔ تو زمین سے نیچے کی دنیا کی خبر اللہ تعالیٰ کو کیسے ملتی ہوگی ،کیوں کہ فرشتے تو زمین تک ہی آتے ہیں زمین کے نیچے کون جاتا ہوگا؟
(۳) اللہ معاف فرمائے یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ امریکہ کو تو دنیا کی خبر گھر بیٹھے بغیر فرشتوں کے مل جائے اور اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کے ذریعہ معلوم ہو وہ بغیر پائلٹ کے ڈارون جہاز اڑا کر دنیا کے ہوش اڑادے اور (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ کو دینا کے ہوش اڑانے کے لیے فرشتوں کی اطلاع کی ضرورت پڑے ؟ کتنے تعجب کی بات ہے؟؟؟؟
یہ ملاحظہ فرمائیں یہ دیکھئے کون کہہ رہے ہیں:
ان دونوں آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے اور روح پچاس ہزار برس کا سفر کر کے اللہ کے پاس پونچتے ہیں
اور
امر یعنی کام اللہ کی طرف ایک ہزار سال میں سفر کرتا ہے
اور ان دونوں آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ
اللہ کی ذات ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اس کی ذات تک پونچنے کے لیے طویل ترین سفر کرنا پڑتا ہے
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !

اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں وہی عقیدہ رکھنا چاہیے جو قرآن اور حدیث میں ہے ، اپنی عقل سے عقیدہ نہیں بنانا چاہیے

قرآن کریم اور حدیث کے مطابق ، اللہ تعالی عرش سے اوپر ہے( عرش میں ، یعنی عرش کا سہارہ لیے ہوے نہیں ہے (الگ ہے) ، فرق سمجھیں) ، اپنی تمام مخلوق کے ساتھ بھی ہے(مخلوق کی جگہوں میں

نہیں ہے ) ، اور انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے ، (مخلوق کے اندر نہیں ہے )

لیکن نہ تو اللہ تعالی کو عرش سے اوپر جگہ (space) کی ضرورت ہے ، اور نہ اللہ تعالی کو مخلوق کے ساتھ جگہ (space) کی ضرورت ہے، اور انسان کی شہ رگ سے بھی قریب جگہ (space) کی ضرورت ہے

کہ اللہ تعالی کو ساتھ ہونے کے لیے کسی جگہ (space) کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

اللہ تعالی عرش سے اوپر ہے جیسے اسکو لائق ہے ،اللہ تعالی مخلوق کے ساتھ بھی ہے ،جیسے اسکو لائق ہے ، اور اللہ تعالی انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے ، جیسے اسکو لائق ہے۔

اور وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے ۔

اور ھم اللہ تعالی کی ان تمام صفات پر ایمان رکھتے ہیں ، کہ یہ تمام صفات ، قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہیں ۔

اعمال کا اوپر چڑھنا ، فرشتوں کا اوپر جانا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج سب برحق ہے ، کہ قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہے ، اور اللہ تعالی کی ان تمام صفات کے منافی نہیں ہے ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ دو مختلف باتوں میں کس کی بات کو مانا جائے اور کس کی بات کا جواب دیا جائے
ایک صاحب تو فرمارہے ہیں:
ان دونوں آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے اور روح پچاس ہزار برس کا سفر کر کے اللہ کے پاس پونچتے ہیں
اور
امر یعنی کام اللہ کی طرف ایک ہزار سال میں سفر کرتا ہے
اور ان دونوں آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ
اللہ کی ذات ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اس کی ذات تک پونچنے کے لیے طویل ترین سفر کرنا پڑتا ہے
اور دوسرے صاحب فرما رہے ہیں:
قرآن کریم اور حدیث کے مطابق ، اللہ تعالی عرش سے اوپر ہے( عرش میں ، یعنی عرش کا سہارہ لیے ہوے نہیں ہے (الگ ہے) ، فرق سمجھیں)
عرش سے اوپر ہے تو برائے مہربانی عربی متن بھی پیش فرمادیتے تاکہ سمجھ میں آجاتا کہ عرش سے اوپر کس لفظ کا ترجمہ کیا ہے:
اب دیکھئے میں اس عبارت سے کیا سمجھ رہا ہوں اللہ تعالیٰ عرش سے اوپر ہے اس کے دو مطلب بنتے ہیں
(۱) عرش سے اوپر : یعنی اللہ تعالیٰ کا مقام یا مرتبہ عرش سے بھی بلند و بالا ہے ۔یہ بات تو کچھ دل کو چپکتی ہے اور دوسری بات۔
(۲) عرش سے اوپر: یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا اتصال عرش سے نہیں ہے یا بقول صاحب مراسلت کے اللہ تعالیٰ نے عرش کا سہارا نہیں لیا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہوا اللہ کی ذات معلق ہوئی (نعوذ باللہ)
اور انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے ، (مخلوق کے اندر نہیں ہے )
لیکن نہ تو اللہ تعالی کو عرش سے اوپر جگہ (space) کی ضرورت ہے ، اور نہ اللہ تعالی کو مخلوق کے ساتھ جگہ (space) کی ضرورت ہے، اور انسان کی شہ رگ سے بھی قریب جگہ (space) کی ضرورت ہے
قرب میں اور تداخل میں فرق ہے ہم تو نہیں کہہ رہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے اندر ہے ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جمیع مخلوق سے قریب ہے قرب سے مطلب حالات سے واقف ہے یا با خبر ہے۔ اور رہی شہ رگ سے بھی قریب ہونے کی تو اس میں بھی کوئی تعجب کی بات نہیں اس لیے کہ جب شیطان انسان کی رگوں میں خون کے دوران کے ساتھ دوڑ سکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندے کے خون سے اس شیطان کو نہیں بھگا سکتا
اللہ تعالی کو ساتھ ہونے کے لیے کسی جگہ (space) کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔
اللہ تعالی عرش سے اوپر ہے جیسے اسکو لائق ہے ،اللہ تعالی مخلوق کے ساتھ بھی ہے ،جیسے اسکو لائق ہے ، اور اللہ تعالی انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے ، جیسے اسکو لائق ہے۔
اور وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے ۔
اس بات کو ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی مکان زمان کی ضرورت نہیں وہ تمام چیزوں کے بغیر بھی ہر چیز پر قدرت کاملہ رکھتا ہےاور وہ صاحب’’ کن فیکون‘‘ ہے
اعمال کا اوپر چڑھنا ، فرشتوں کا اوپر جانا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج سب برحق ہے ، کہ قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہے ، اور اللہ تعالی کی ان تمام صفات کے منافی نہیں ہے ۔
ہم تو اس چیز کے منکر نہیں ہیں ایک دوسرے صاحب نے فرمایا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا یعنی
’’ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اس کی ذات تک پونچنے کے لیے طویل ترین سفر کرنا پڑتا ہے ‘‘
جب شیطان زمین پر ہر جگہ موجود ہو سکتا ہے اور انسان کے اندر تک مار کرسکتا ہے تو کیا وہ بھی جسم کے ساتھ انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے اور رگوںمیں دوڑتا ہے ۔
مزید یہ فرمانا:
بلکہ اس کی ذات تک پونچنے کے لیے طویل ترین سفر کرنا پڑتا ہے
آپ بھی فرماتے ہیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج سب برحق ہے ، کہ قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہے
تو اس اعتبار سے اتنی طویل مسافت کتنے وقت میں طے کی ہوگی جب کہ فرشتوں کو بھی کو ئی اطلاع پہنچانے میں طویل مسافت طے کرنی پڑتی ہے
محترم کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ فرمائیں کہ آپ دونوں میں کس کی بات کو تسلیم کروں؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام علیکم
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ دو مختلف باتوں میں کس کی بات کو مانا جائے اور کس کی بات کا جواب دیا جائے
ایک صاحب تو فرمارہے ہیں:

اور دوسرے صاحب فرما رہے ہیں:

عرش سے اوپر ہے تو برائے مہربانی عربی متن بھی پیش فرمادیتے تاکہ سمجھ میں آجاتا کہ عرش سے اوپر کس لفظ کا ترجمہ کیا ہے:
اب دیکھئے میں اس عبارت سے کیا سمجھ رہا ہوں اللہ تعالیٰ عرش سے اوپر ہے اس کے دو مطلب بنتے ہیں
(۱) عرش سے اوپر : یعنی اللہ تعالیٰ کا مقام یا مرتبہ عرش سے بھی بلند و بالا ہے ۔یہ بات تو کچھ دل کو چپکتی ہے اور دوسری بات۔
(۲) عرش سے اوپر: یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا اتصال عرش سے نہیں ہے یا بقول صاحب مراسلت کے اللہ تعالیٰ نے عرش کا سہارا نہیں لیا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہوا اللہ کی ذات معلق ہوئی (نعوذ باللہ)

قرب میں اور تداخل میں فرق ہے ہم تو نہیں کہہ رہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے اندر ہے ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جمیع مخلوق سے قریب ہے قرب سے مطلب حالات سے واقف ہے یا با خبر ہے۔ اور رہی شہ رگ سے بھی قریب ہونے کی تو اس میں بھی کوئی تعجب کی بات نہیں اس لیے کہ جب شیطان انسان کی رگوں میں خون کے دوران کے ساتھ دوڑ سکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندے کے خون سے اس شیطان کو نہیں بھگا سکتا

اس بات کو ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی مکان زمان کی ضرورت نہیں وہ تمام چیزوں کے بغیر بھی ہر چیز پر قدرت کاملہ رکھتا ہےاور وہ صاحب’’ کن فیکون‘‘ ہے

ہم تو اس چیز کے منکر نہیں ہیں ایک دوسرے صاحب نے فرمایا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا یعنی
جب شیطان زمین پر ہر جگہ موجود ہو سکتا ہے اور انسان کے اندر تک مار کرسکتا ہے تو کیا وہ بھی جسم کے ساتھ انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے اور رگوںمیں دوڑتا ہے ۔
مزید یہ فرمانا:

آپ بھی فرماتے ہیں کہ

تو اس اعتبار سے اتنی طویل مسافت کتنے وقت میں طے کی ہوگی جب کہ فرشتوں کو بھی کو ئی اطلاع پہنچانے میں طویل مسافت طے کرنی پڑتی ہے
محترم کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ فرمائیں کہ آپ دونوں میں کس کی بات کو تسلیم کروں؟

سلام

اسی لیا تو میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ اب قرآن کی آیات اور صحیح احادیث کا مطلب بتا دیں

تا کہ ااپ جیسے عالم فاضل سے ہم سب مستفید ھو سکیں


سوره الۡمَعَارِجِ

آیت نمبر ٣ اور ٤

.مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ
تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ

اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے‏


سوره السجدہ



آیت نمبر ٥




یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ


وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے. پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔


معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش آنے والے اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کیاکہ

میرے پاس ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ) کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں ) اسے ایک تھپڑ مار دِیا ، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
ائْتِنِی بہا
اُس باندی کو میرے پاس لاؤ
فَأَتَیْتُہُ بہا
تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا
أَیْنَ اللہ

اللہ کہاں ہے ؟

قالت فی السَّمَاء ِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آسمان پر ''

پھر دریافت فرمایا
مَن أنا
میں کون ہوں ؟
قالت أنت رسول اللَّہِ
اس باندی نے جواباً عرض کیا '' آپ اللہ کے رسول ہیں ''
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم فرمایا
أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ
اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہے
صحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7، بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔

لونڈی نے کیوں نہیں کہا کہ اللہ تو ہر جگہ موحود ہے

حضور صلی اللہ وسلم نے کیوں نہیں روکا کہ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے

آسمان کا ذکر کیوں ہوا






امید ہے کہ آپ قرانی آیات اور حدیث کا مطلب سمجھا دیں گے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اسلام علیکم !

اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں وہی عقیدہ رکھنا چاہیے جو قرآن اور حدیث میں ہے ، اپنی عقل سے عقیدہ نہیں بنانا چاہیے

قرآن کریم اور حدیث کے مطابق ، اللہ تعالی عرش سے اوپر ہے( عرش میں ، یعنی عرش کا سہارہ لیے ہوے نہیں ہے (الگ ہے) ، فرق سمجھیں) ، اپنی تمام مخلوق کے ساتھ بھی ہے(مخلوق کی جگہوں میں

نہیں ہے ) ، اور انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے ، (مخلوق کے اندر نہیں ہے )

لیکن نہ تو اللہ تعالی کو عرش سے اوپر جگہ (space) کی ضرورت ہے ، اور نہ اللہ تعالی کو مخلوق کے ساتھ جگہ (space) کی ضرورت ہے، اور انسان کی شہ رگ سے بھی قریب جگہ (space) کی ضرورت ہے

کہ اللہ تعالی کو ساتھ ہونے کے لیے کسی جگہ (space) کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ۔

اللہ تعالی عرش سے اوپر ہے جیسے اسکو لائق ہے ،اللہ تعالی مخلوق کے ساتھ بھی ہے ،جیسے اسکو لائق ہے ، اور اللہ تعالی انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے ، جیسے اسکو لائق ہے۔

اور وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے ۔

اور ھم اللہ تعالی کی ان تمام صفات پر ایمان رکھتے ہیں ، کہ یہ تمام صفات ، قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہیں ۔

اعمال کا اوپر چڑھنا ، فرشتوں کا اوپر جانا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج سب برحق ہے ، کہ قرآن کریم اور حدیث سے ثابت ہے ، اور اللہ تعالی کی ان تمام صفات کے منافی نہیں ہے ۔


سلام

امید ہے کہ آپ اس حدیث کی تفصیل باتیں گے

تا کہ آپ جیسے عالم سے ہم سب مستفید ھو سکیں


سنت کا بیان
جہیمیہ کا بیان




سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1298 حدیث مرفوع مکررات 36 بدون مکرر

عبدالاعلی بن حماد، محمد بن مثنی، محمد بن بشار، احمد بن سعید رباطی، وہب بن جریر، احمد، محمد بن اسحاق، یعقوب بن عتبہ، محمد بن جبیر بن محمد بن حضرت جبیر بن مطعم اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی بدو آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگ مشقت میں پڑگئے اور گھر بار اور اموال کم ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سے ہمارے واسطے بارش طلب فرمائیں ہم اللہ کے پاس آپ کی سفارش چاہتے ہیں اور اللہ کی سفارش آپ کے پاس چاہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا ستیاناس ہو جانتا ہے تو کیا کہہ رہا ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی تسبیح بیان کی اور مسلسل تسبیح اور پاکی بیان کرتے رہے یہاں تک کہ ( اثر کی غلط بات کا اثر) آپ کے صحابہ کے چہروں پر بھی ظاہر ہونے لگا پھر آپ نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے اللہ کی سفارش نہیں کی جاتی کسی پر اس کی مخلوقات میں سے ہے۔ اللہ کی شان اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ تجھ پر افسوس ہے کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا گنبد کی طرح اور بیشک وہ عرش الہی چرچراتا ہے جس طرح کہ کجاوہ سواری کے بیٹھنے سے چرچراتا ہے۔ محمد ابن بشار نے اپنی روایت میں فرمایا کہ بیشک اللہ اپنے عرش کے اوپر ہے اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے اور آگے اسی طرح حدیث بیان کی جبکہ عبدالاعلی اور محمد بن جبیر عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے حدیث بیان کی ہے امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث احمد بن سعید کی روایت والی صحیح ہے اور ایک جماعت نے اس کی موافقت کی ہے جن میں یحیی بن معین، علی بن المدینی ہیں اور اسے ایک جماعت نے ابن اسحاق سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے احمد نے کہا اور عبدالاعلی ابن المثنی اور ابن بشار کا سماع ایک ہی نسخہ سے ہے جو مجھے پہنچی ہے۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
اسلام و علیکم
کسی کی اگر کوئی اچھی بات کاپی پیسٹ کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں -
"
وعلیکم السلام
بھائی مجھے کاپی پیسٹ پر اعتراض نہیں لیکن ایک ہی چیز کو بار بار چھاپتے رہنا یہ سوچے سمجھے بغیر کے موضوع کس سمت جارہا ہے دلائل کیا ہیں۔
حضرت علی رضی الله عنہ کا قول ہے شاید :
"یہ مت دیکھو کہ کون که رہا ہے -بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا که رہا ہے "
میں یہی تو سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ پہلے بندہ دیکھے تو سہی کہ کن دلائل پر بات ہورہی ہے موضوع کی حساسیت کو سامنے رکھ کر زیر بحث دلائل پر ضرورت کی حد تک شمولیت اختیار کی جائے یا سوال پوچھا جائے۔
دو حضرات کے درمیان بات کیا چل رہی ہے اور کاپی پیسٹ کیا ہورہا ہے۔ اور ایک ہی چیز بار بار کاپی پیسٹ ہورہی ہے، یہ تو سراسر موضوع کو ڈسٹرب کرنے والی بات ہے۔
امید ہے صبر اور تحمل سے بات ہوگی۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
وعلیکم السلام
بھائی مجھے کاپی پیسٹ پر اعتراض نہیں لیکن ایک ہی چیز کو بار بار چھاپتے رہنا یہ سوچے سمجھے بغیر کے موضوع کس سمت جارہا ہے دلائل کیا ہیں۔

میں یہی تو سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ پہلے بندہ دیکھے تو سہی کہ کن دلائل پر بات ہورہی ہے موضوع کی حساسیت کو سامنے رکھ کر زیر بحث دلائل پر ضرورت کی حد تک شمولیت اختیار کی جائے یا سوال پوچھا جائے۔
دو حضرات کے درمیان بات کیا چل رہی ہے اور کاپی پیسٹ کیا ہورہا ہے۔ اور ایک ہی چیز بار بار کاپی پیسٹ ہورہی ہے، یہ تو سراسر موضوع کو ڈسٹرب کرنے والی بات ہے۔
امید ہے صبر اور تحمل سے بات ہوگی۔

سلام

بھائی یہی تو میں بات کر رہا ہوں کہ مجھے احادیث کی تفصیل بتائی جا ے ۔ آپ عالم فاضل ہیں اور یہاں ماشاللہ اچھی گفتگو کر رھے ہیں

مجھے اس احادیث کی تفصیل بتا دیں

اگر ہم اللہ ذات کے لہذ سے ہر جگہ مان لیں تو ان احادیث کا کیا کریں


صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2271


احمد، محمد بن ابی بکر مقدمی، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ زید بن حارثہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرتے ہوئے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے کہ اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن میں کچھ چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپا تے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام بیویوں پر فخر کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر کیا اور ثابت سے منقول ہے

کہ آیت

وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ

33 الاحزاب:37

اور تم اپنے دل میں چھپاتے تھے جس کہ اللہ تعالی ظاہر کرنے والا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حضرت زینب اور زید بن حاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2272



خلاد بن یحیی، عیسیٰ بن طہمان، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک فرماتے ہیں کہ حجاب کی آیت زینب بنت جحش کے متعلق نازل ہوئی اور اس دن آپ نے روٹی اور گوشت ان کے ولیمہ میں کھلایا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام بیویوں پر وہ فخر کیا کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالی نے میرا نکاح آسمان پر ہی کر دیا ہے۔

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2274


ابراہیم بن منذر، محمد فلیح، فلیح، ہلال، عطاء بن یسار، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور نماز پڑھی اور روزہ رکھا تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کر دے، اس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی ہو یا جس زمین میں پیدا ہوا وہیں رہ جائے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں کو اس بات کی خبر نہ دیں، آپ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالی نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے تیار کر رکھے ہیں ہر درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان ہے پس جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو کہ جنت کا درمیانی درجہ ہے اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر عرش خداوندی ہے اور اس سے جنت کی نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں۔

جہیمیہ کا بیان

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1299



احمد بن حفص، ابراہیم بن طہمان، موسیٰ بن عقبہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے کسی فرشتے کے بارے میں بیان کروں کہ اس کے کانوں کی لو سے کندھے تک کا درمیانی فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہے۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1300



حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ الْمَعْنَی قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ يَعْنِي ابْنَ عِمْرَانَ حَدَّثَنِي أَبُو يُونُسَ سُلَيْمُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَی أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَهْلِهَا إِلَی قَوْلِهِ تَعَالَی سَمِيعًا بَصِيرًا قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ إِبْهَامَهُ عَلَی أُذُنِهِ وَالَّتِي تَلِيهَا عَلَی عَيْنِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا وَيَضَعُ إِصْبَعَيْهِ قَالَ ابْنُ يُونُسَ قَالَ الْمُقْرِئُ يَعْنِي إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ يَعْنِي أَنَّ لِلَّهِ سَمْعًا وَبَصَرًا
قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا رَدٌّ عَلَی الْجَهْمِيَّةِ



علی بن نصر، محمد بن یونس نسائی، عبداللہ بن یزید مقری، حرملہ ابن عمران، ابویونس سلیم بن مولی، ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا ان اللہ یا مرکم ان تؤدوالامانات الیٰ اھلھا سے اللہ تعالی کے قول ان الہ کان سمیعابصیرا تک پھر ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ اپنا انگوٹھا کان مبارک پر رکھے ہوئے ہیں اور شہادت کی انگلی کو اپنی آنکھ پر رکھے ہوئے ہیں (سمیعا بصیرا پڑھتے وقت اشارہ کرنے کیے لیے اللہ تعالی کی صفت سمع وبصر کی طرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ یہ بات پڑھتے ہیں اور اپنی دونوں انگلیاں (کان اور آنکھ پر) رکھتے ہیں۔ محمد بن یونس نے کہا کہ
عبداللہ بن یزید المقری نے فرمایا کہ یہ اشارہ کرنا جہمیہ پر رد ہے
(وہ صفات باری تعالی کے قائل نہیں)








 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
وعلیکم

lovelyalltime
محترم پہلے تو آپ یہ بتائیں یہ سلام کرنے کا کون سا طریقہ ہے اسلامی ہے یا غیر اسلامی
برے نہ مانیں دیار ہند میں خاص کر جہاں ہم رہتے ہیں یہ طریقہ ہریجن یعنی سیڈول کاسٹ کا طریقہ ہے ان کو جب کوئی مسلمان ملتا ہے یا تو صرف ’’سلام ‘‘ کہتے اور زیادہ کیا تو اتنا اضافہ کرتے ہیں’’ سلام جی سلام‘‘
اب رہی یہ بات اللہ تعالیٰ کی ذات یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ آسمان میں ہے اور عرش پر لیکن اس کو وہیں تک مقید نہیں کرتے وہ سلطان عظیم ہے وہ ہر جگہ ہوسکتا ہے اور یہی اس کے زبر دست ہونے کی علامت ہے
اچھا ایک بات بتائے ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ زمین پر نہیں آتا اس کو کیا کہیں گے ’’ کوہ طور پر کون آیا تھا ‘‘ دیکھو گھمانا پھرانا مت دیکھئے کیا فرماتے ہیں ذات گرامی: ملاحظہ فرمائیں
اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۲ۭ [٢٠:١٢]
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو
ّگے فرمایا ہے:
اِنَّنِيْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ۝۰ۙ وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِيْ۝۱۴ [٢٠:١٤]
بےشک میں ہی خدا ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو فرمانا
وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى۝۱۷ [٢٠:١٧]
اور موسی یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے
قَالَ ہِىَ عَصَايَ۝۰ۚ اَتَـوَكَّؤُا عَلَيْہَا وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰي غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى۝۱۸ [٢٠:١٨]
انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں سہارا لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لئے اور بھی کئی فائدے ہیں
قَالَ اَلْقِہَا يٰمُوْسٰى۝۱۹ [٢٠:١٩]
فرمایا کہ موسیٰ اسے ڈال دو
فَاَلْقٰىہَا فَاِذَا ہِىَ حَيَّۃٌ تَسْعٰي۝۲۰ [٢٠:٢٠]
تو انہوں نے اس کو ڈال دیا اور وہ ناگہاں سانپ بن کر دوڑنے لگا
قَالَ خُذْہَا وَلَا تَخَفْ۝۰۪ سَنُعِيْدُہَا سِيْرَتَہَا الْاُوْلٰى۝۲۱ [٢٠:٢١]
خدا نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو اور ڈرنا مت۔ ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے
lovelyalltime صاحب ایک بات تو بتائیں:
یہ کوہ طور کس جگہ ہے زمین میں ہے یا آسمان پر یا عرش کے آس پاس
اور اللہ تعالیٰ کی یہ گفتگو فرمانا شاید فرشتوں کے ذریعہ یا کسی ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ مکالمہ بازی ہوئی ہوگی یا پھر ویڈیو کانفرنس ہوئی ہوگی
ایک بات اور بتادیں کہ یہ شیطان (ابلیس)معلوم نہیں کتنا طاقتور ہے کہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادی تیزی میں پوری دنیا کی خبر رکھتا ہے اور کسی کی ناک میں گھستا ہے کسی کی خون کی رگ میں دوڑتا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ اکیلا یہ ابلیس پوری دنیا کا چکر لگاتا ہو اور پھر پوری دنیا کو ایک ساتھ چکر میں ڈالتا ہو
اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ابلیس کی وجہ سے دنیا میں نہ آتے ہوں بس ایک دفعہ آگئے تھے
دیکھو lovelyalltime صاحب میں سیدھا سادہ انسان ہوں مجھے زیادہ گھمانا مت
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام و علیکم

نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا فرمان ہے "ایک انسان کہتا ہے فلاں چیز کو الله نے پیدا کیا فلاں شے کو الله نے پیدا کیا -پھر شیطان اس کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور کہتا ہے -کہ الله کو کس نے پیدا کیا - جب تمھارے اندر یہ وسوسہ پیدا ہو جائے تو فورن الله کی پناہ مانگو " (صحیح بخاری ) -

ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں الله کی صفات میں غور کرنا چاہیے نہ کہ اس کی ذات میں غور کریں -کیوں کہ الله کی ذات ہماری عقل اور مشاہدے سے ما وارہ ہے -ہر چیز جو پیدا کی گئی ہے الله کی مخلوق ہے- چاہے وہ زمین ہو آسمان ہو یا انسان ہو -اور خالق اپنی مخلوق کے اندر نہیں سما سکتا -

ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ الله قرآن میں فرماتا ہے "کہ کافر اور مشرک اور منافقین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے اور نیک اور الله کے فرما بردار لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنّت میں رہیں گے" -ذرا سوچیے اس " ہمیشہ ہمیشہ" کا کیا مطلب ہے ؟؟ ١٠٠ سال ١٠٠٠ سال ١٠٠٠٠٠ سال ١٠٠٠٠٠٠٠٠ سال ؟؟ آخر کب تک - آپ دیکھیں گے کہ آپ کی سوچ تھک جائے گی لیکن اس لا متا نہی سلسلے کا احاطہ نہیں کر سکے گی - تو آپ خود سوچیے کہ پھر آپ الله کی ذات کا احاطہ کیسے کر سکتے ہیں ؟؟

قرآن میں الله کا ارشاد ہے -

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ سوره ال عمران ٧

وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معنیٰ معلوم یا معین نہیں) سو جن لوگو ں کے دل ٹیڑھے ہیں وہ گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی غرض سے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں حالانکہ ان کا مطلب سوائے الله کے اور کوئی نہیں جانتا اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہمارا ان چیزوں پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو عقلمند ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
وعلیکم

lovelyalltime
محترم پہلے تو آپ یہ بتائیں یہ سلام کرنے کا کون سا طریقہ ہے اسلامی ہے یا غیر اسلامی
برے نہ مانیں دیار ہند میں خاص کر جہاں ہم رہتے ہیں یہ طریقہ ہریجن یعنی سیڈول کاسٹ کا طریقہ ہے ان کو جب کوئی مسلمان ملتا ہے یا تو صرف ’’سلام ‘‘ کہتے اور زیادہ کیا تو اتنا اضافہ کرتے ہیں’’ سلام جی سلام‘‘
اب رہی یہ بات اللہ تعالیٰ کی ذات یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ آسمان میں ہے اور عرش پر لیکن اس کو وہیں تک مقید نہیں کرتے وہ سلطان عظیم ہے وہ ہر جگہ ہوسکتا ہے اور یہی اس کے زبر دست ہونے کی علامت ہے
اچھا ایک بات بتائے ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ زمین پر نہیں آتا اس کو کیا کہیں گے ’’ کوہ طور پر کون آیا تھا ‘‘ دیکھو گھمانا پھرانا مت دیکھئے کیا فرماتے ہیں ذات گرامی: ملاحظہ فرمائیں
اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۲ۭ [٢٠:١٢]
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو
ّگے فرمایا ہے:
اِنَّنِيْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ۝۰ۙ وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِيْ۝۱۴ [٢٠:١٤]
بےشک میں ہی خدا ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو فرمانا
وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى۝۱۷ [٢٠:١٧]
اور موسی یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے
قَالَ ہِىَ عَصَايَ۝۰ۚ اَتَـوَكَّؤُا عَلَيْہَا وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰي غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى۝۱۸ [٢٠:١٨]
انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں سہارا لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لئے اور بھی کئی فائدے ہیں
قَالَ اَلْقِہَا يٰمُوْسٰى۝۱۹ [٢٠:١٩]
فرمایا کہ موسیٰ اسے ڈال دو
فَاَلْقٰىہَا فَاِذَا ہِىَ حَيَّۃٌ تَسْعٰي۝۲۰ [٢٠:٢٠]
تو انہوں نے اس کو ڈال دیا اور وہ ناگہاں سانپ بن کر دوڑنے لگا
قَالَ خُذْہَا وَلَا تَخَفْ۝۰۪ سَنُعِيْدُہَا سِيْرَتَہَا الْاُوْلٰى۝۲۱ [٢٠:٢١]
خدا نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو اور ڈرنا مت۔ ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے
lovelyalltime صاحب ایک بات تو بتائیں:
یہ کوہ طور کس جگہ ہے زمین میں ہے یا آسمان پر یا عرش کے آس پاس
اور اللہ تعالیٰ کی یہ گفتگو فرمانا شاید فرشتوں کے ذریعہ یا کسی ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ مکالمہ بازی ہوئی ہوگی یا پھر ویڈیو کانفرنس ہوئی ہوگی
ایک بات اور بتادیں کہ یہ شیطان (ابلیس)معلوم نہیں کتنا طاقتور ہے کہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادی تیزی میں پوری دنیا کی خبر رکھتا ہے اور کسی کی ناک میں گھستا ہے کسی کی خون کی رگ میں دوڑتا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ اکیلا یہ ابلیس پوری دنیا کا چکر لگاتا ہو اور پھر پوری دنیا کو ایک ساتھ چکر میں ڈالتا ہو
اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ابلیس کی وجہ سے دنیا میں نہ آتے ہوں بس ایک دفعہ آگئے تھے

دیکھو lovelyalltime صاحب میں سیدھا سادہ انسان ہوں مجھے زیادہ گھمانا مت
میرے بھایئو کیا یہ بندہ اب بھی مسلمان ہے ۔ میرے خیال میں یہ کافر ھو چکا ہے ۔ اپنے آخر والے جملے لکھ کر

ظالم کیا بات کر رہا ہے

ایک شیطان کا اللہ کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ
ا
ور جب موسیٰ ہمارے مقرر کئے ہوئے وقت پر (کوہ طور پر) پہنچنے اور ان کے پروردگار نے ان کے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) دیکھوں۔ (پروردگار نے) فرمایا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھ کو دیکھ سکو گے۔ جب انکا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہوا تو (تجلی انور ربانی نے) اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر پڑے جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں اور جو ایمان لانیوالے ہیں ان میں سب سے اول ہوں۔

اگر اللہ ہر جگہ اپنی ذات سے موحود ہوتا تو ایک پہاڑ ریزہ ریزہ نہ ہوتا ۔ بلکہ سارے پہاڑ ریزہ ریزہ ھو جاتے ۔ اور ہریالی کا وجود بھی نہ ہوتا ۔ نہ صرف حضرت موسیٰ بیہوش ہوتے بلکہ سارے لوگ بیہوش ھو جاتے


سوره غافر


آیت نمبر ٣٦ اور ٣٧



.وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰہَامٰنُ ابۡنِ لِیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ
.اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ کَاذِبًا ؕ وَ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ وَ صُدَّ عَنِ السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا کَیۡدُ فِرۡعَوۡنَ اِلَّا فِیۡ تَبَابٍ


اور فرعون نے کہا کہ ہامان میرے لئے ایک محل بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر راستوں پر پہنچ جاؤں. ‏
آسمانوں کے راستوں پر پھر موسیٰ کے خدا کو دیکھ لوں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کو اسکے اعمالِ بد اچھے معلوم ہوتے تھے اور وہ راستے سے روک دیا گیا تھا، اور فرعون کی تدبیر تو بےکار تھی. ‏

 
Top